نقطہ نظر

بنگلہ دیش-پاکستان تعلقات میں انڈیا بڑی رکاوٹ ہے: شاہد العالم

قیصرعباس

”کسی سے کینہ نہیں، سب سے دوستی،بنگلہ دیش کے دستور کا ایک اہم اصول ہے۔پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بہتر تعلقات ممکن ہیں اگر اس کے ساتھ نسل کشی کی تاریخ کو بھی تسلیم کیاجائے، لیکن صرف یہ حقیقت ہی بہتر تعلقات کی واحدبنیاد نہیں ہونی چاہیے۔“

بنگلہ دیش کے معروف سماجی کارکن اور صحافی شاہدالعالم کے یہ الفاظ اس بات کے مظہر ہیں کہ دونوں ملکوں میں کچھ لوگ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان اچھے تعلقات دیکھنا چاہتے ہیں۔

بنگلہ دیش کو آزادہوئے آدھی صدی گزرچکی ہے لیکن وہ کیارکاوٹیں ہیں جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی راہ میں حائل ہیں؟ شاہدالعالم یہ بھی کہتے ہیں کہ انڈیا کی جارحانہ پالیسی علاقے کے تمام پڑوسی ملکوں پر اثرڈال رہی ہے اور”اس کی مداخلت بنگلہ دیش کی سیاست پربھی اثر انداز ہوتی ہے۔بنگلہ دیش کی پالیسیوں کے تمام اہم فیصلوں پر انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’ریسرچ اینڈ انیلسز ونگ(RAW)‘ کے گہرے سائے ہیں۔“

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان بنگلہ دیشی شہریوں کوویزے جاری کرتا ہے لیکن بنگلہ دیش نے کوئی جوابی قدم نہیں اٹھایا اور جب تک ہم انڈیا کے سائے سے باہر نہیں نکلتے ایسا نہیں ہوسکتا۔ ان کے خیال میں بنگلہ دیش نے سارک(ساؤتھ ایشین ایسوسی ایشن فار ریجنل کوآپریشن) کابہترین تصور پیش کیا تھا لیکن خطے کے حالات ایسے تھے کہ یہ نومولود بچہ جھولے ہی میں اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھا۔

شاہدالعالم کیمیا کے شعبے میں پی ایچ ڈی کر چکے ہیں اور گزشتہ پچاس برسوں سے فوٹو جرنلسٹ اور سماجی کارکن کے طور پر بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں۔ان کی تصاویر کی نمائش اور اشاعت دنیا کے معروف ادراروں کے زیراہتمام ہوچکی ہے۔ اس دوران انہوں نے کئی معیاری اداروں کی بنیاد ررکھی جن میں ساؤتھ ایشین میڈیا انسٹی ٹیوٹ، ڈرِک پکچر لائبریری اور چوبی میلہ انٹر نیشنل فوٹوگرافی فیسٹول سمیت کئی اور ادارے بھی شامل ہیں۔ انسانی حقوق اور صحافت میں ان کی خدمات کو کئی عالمی اعزازات کے ذریعے سراہا گیا ہے جن میں صحافیوں کی معتبر تنظیم سی پی جے کا انٹر نیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

اگست 2023 ء میں کیے گئے اس خصوصی انٹرویو میں شاہدالعالم اپنے ملک میں سیاسی رسہ کشی، میڈیا سنسر شپ، انڈو پاک تعلقات اور جنوبی ایشیامیں قیام امن کے امکانات کادیانتدارانہ تجزیہ کررہے ہیں۔

آپ بنگلہ دیش کے سیاسی نظام کو کیا نام دینا چاہیں گے،ہائبرڈ نظام، جمہوریت یا سول آمریت؟

یہ شہنشاہ کا نیا لباس ِفاخرانہ ہے جوانتہائی باریک کپڑے سے بنایا گیا ہے۔دیکھنے والے سب کچھ دیکھ سکتے ہیں مگر کوئی زبان کھولنا نہیں چاہتا۔ صرف ایک بچے کی آواز کی ضرورت ہے جو اس تما م کھیل کا راز فاش کردے!

فوٹو جرنلسٹ اور سماجی کارکن کی حیثیت سے آپ ایک عرصے سے اپنے ملک میں بنیادی حقوق کے لیے کام کررہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں آج وہ کون سے انسانی حقوق ہیں جنہیں نظرانداز کیا جارہاہے؟ ان کی خلاف ورزی کون کررہا ہے اور کن لوگوں کے حقوق پامال ہورہے ہیں؟

بنگلہ دیش کے اصل ہیرو ہمارے تارکین وطن محنت کش، کسان اور کپڑوں کی صنعت کے مزدور ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہماری اقتصادی ترقی میں سب سے زیا دہ ہاتھ بٹایا ہے، اس میں سیاستدانوں کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔

ہماری اشرافیہ نے انہی لوگوں کا استحصال کیا ہے،میں نے توصرف ان لوگوں کی کاوشوں کو اوّلیت دینے کی کوشش کی ہے۔محنت کشوں کا استحصال، ماورائے قانون ہلاکتیں، لوگوں کی گمشدگیاں، اظہار رائے پر پابندیاں اور بلا خوف وخطر انتخابات میں دھاندلی،یہ سب بر سر اقتدار طبقے کی دولت میں اضافے کے لیے کیا جارہاہے۔مولانا عبدالحمید بھاشانی کے علاوہ کسی اور سیاستدان نے استحصال زدہ طبقوں کے حالات بہتر کرنے کی سنجدیدگی سے کوشش نہیں کی، اور اسے بھی خاصا عرصہ ہوچکا ہے۔ جنگ آزادی کے سپاہیوں نے جس مساوی سماج کا خواب دیکھا تھا ہم ابھی تک اس سے بہت دور ہیں۔

جنوبی ایشیا کے دوسرے ملکوں کی طرح بنگلہ دیش میں بھی اظہار رائے پر سخت پابندیاں ہیں۔ آپ کے خیال میں ملک کے صحافی کن حالات میں کام کررہے ہیں؟

جنوبی ایشیاآزادیئ رائے کی انڈکس میں بہت نیچے ہے اور بنگلہ دیش سب سے آخرمیں آتاہے۔بدنام زمانہ ڈیجیٹل سیکورٹی ایکٹ جیسے قوانین کے تحت صحافیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔سائبر سیکورٹی ایکٹ اب اس کی جگہ لے رہاہے یعنی نئی بوتل میں پرانی شراب! خفیہ ایجنسیاں اخباری عملے کو سرخیاں لکھوانے کے لیے مشہور ہیں اور سیلف سنسرشپ عروج پرہے۔

سرکاری اشتہارات حکومتی پروپیگنڈے میں شامل میڈیا میں ہی تقسیم کیے جاتے ہیں اور سرکاری موقف کے حامیوں پرا نعامات کی بارش ہوتی ہے۔صحافیوں کی گرفتاریاں جاری ہیں، انہیں اغواکیا جاتاہے اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔کچھ ہی صحافی اور میڈیا ان اقدامات کی مزاحمت کررہے ہیں لیکن ان کے دن بھی گنے جاچکے ہیں۔ یوں کہیے کہ میڈیا ہسپتال کے آئی سی یو، Intensive Care Unit میں داخل ہے۔

جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی طاقتیں انڈیا اورپاکستان ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں۔ کیا بنگلہ دیش دونوں ریاستوں کے مابین امن کی کوششوں میں کوئی کردار ادا کرسکتا ہے؟

انڈیا اور پاکستان کے درمیان مستقل کشیدگی کے علاوہ جنوبی ایشیا کے بیشتر حصوں میں امن کی فضا ہے اگرچہ چین اور انڈیا کی سرحدوں پرکبھی کبھی فوجی کشیدگی کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ خطے کی کئی ریاستوں میں زیادہ تر کشیدگی ملکوں کے اندرونی تنا زعات کا نتیجہ ہے۔

بنگلہ دیش کی انڈیا اور پاکستان دونوں ملکوں کے ساتھ ثقافتی اور سیاسی تاریخ موجود ہے۔ ان روابط کی بنیاد پر بنگلہ دیش دونوں ملکوں کے مابین قیام امن میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک غیر جانبدار فریق سمجھتے ہوئے اس پراعتماد کیا جائے۔

جب تک بنگلہ دیش خود کو بھارتی حلقہئ اثر سے نکال کر ایک غیر جانبدار فریق ثابت نہیں کرتا، پڑوسی ملکوں کے لیے اس پر اعتماد کرنا مشکل ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ بھارتی سائے سے باہر آکر بنگلہ دیش اپنی ساکھ ایک خود مختار ملک کی حیثیت بحال کرے۔

آزادی کے 75سال بعد بھی پاکستان جمہوری روایات سے کوسوں دور ہے اور بدعنوانی، عدم برداشت، ریاستی اداروں کی شفافیت اور دہشت گردی جیسے سنگین مسائل سے نجات حاصل نہیں کرسکا۔دورسری جانب ان مسائل سے نبٹنے ہوئے بنگلہ دیش نے کچھ اقتصادی شعبوں میں کامیابیا ں حاصل کی ہیں۔آپ اس صورت حا ل کا کس طرح تجزیہ کریں گے؟

بنگلہ دیش ترقی کے بے انتہا امکانات کی سرزمین ہے۔ اگراس کی سیاسی افراتفری پر قابو پالیا جائے تو جدت پسندنوجوان، محنتی آبادی، زرخیز زمین اور اس کی جغرافیائی لو کیشن کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ یہاں اقتصادی ترقی کے لامحدودمواقع موجود ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے یہاں پاکستان کی طرح سیاست میں سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت بھی نظر نہیں آئی۔اکا دکا واقعات کے علاوہ ملک میں دہشت گردی کے مسائل بھی نہیں ہیں۔

ملک میں سیاسی بدانتظامی، کھلے عام بد عنوانی اورکمزور حکومت کے بادجود ہمارے تارکین وطن محنت کشوں، گارمنٹس انڈسٹری کے کارکنوں اور کسانوں کی کاوشوں سے ترقی کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ملک کی جغرافیائی لوکیشن کی وجہ سے علاقائی سطح پر تجارتی سرگرمیاں ممکن ہوسکی ہیں اور ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔کچھ اور صنعتوں نے بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

ابھی تک انسانی حقو ق کی پامالی کے باوجود بڑے پیمانے پر مزاحمت کے آثار نظر نہیں آتے۔لیکن بد قسمتی سے پاکستان کی طرح سیاسی عدم برداشت اور اداروں کی گرتی ہوئی ساکھ کے مسائل ہمارے یہا ں بھی سر اٹھانے لگے ہیں۔

ملک سے باہر منتقل کی گئی دولت، بڑھتے ہوئے قرضوں کا بوجھ اور جی ڈی پی کا تناسب، بینکوں کا روایتی طریقہئ کاراوربیرونی رزو (Reserve) کی گرتی ہوئی شرح پرآنے والے دنوں میں قابو پانا انتہائی ضروری ہے۔ادھر گزشتہ دو انتخابات میں دھاندلیوں کے بعدآنے والے انتخابات پر بھی انگلیا ں اٹھ رہی ہیں۔ اگر ان مسائل کو حل نہیں کیا گیا تو اب تک حاصل ہونے والی اقتصادی کامیابیاں بر قرار نہیں رہ سکیں گی۔

جنوبی ایشیا میں تعلیم کی اہمیت اور ایک فعال ورک فورس کی موجودگی میں ترقی کے بے شمار امکانات موجود ہیں۔ اس کے باوجود یہ خطہ ابھی تک اقتصادی، سماجی اور سیاسی مسائل پر قابو نہیں پاسکا۔ کیاہم مستقبل میں روشنی کی کوئی کرن دیکھ سکیں گے؟

ایسا لگتا ہے کہ انڈیااپنی قد امت پسند ہندوتوا پالیسیوں کے ساتھ کمرے میں بیٹھا وہ ہاتھی بن گیا ہے جسے نکالنا مشکل ہوتا جارہاہے۔وزیراعظم نریندر مودی پاپولسٹ لیڈربن کر سیاسی کامیابیاں حاصل کررہے ہیں مگر انڈیا ایک شکستہ ریاست بن چکا ہے۔ کشمیر اور منی پور میں مزاحمت ابھی صرف ابتدا ہے، ایک نئے طوفان کی۔

پڑوسی ملکوں سے بھارت کے کشیدہ تعلقات خطے کی مشکلات میں اضافہ کررہے ہیں اور خاص طورپر پاکستان سے اس کا رویہ قابل افسوس ہے۔ دوسری جانب یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کی بڑی ریاست ہے،اقتصادی طاقت ہے اور اس کا متوسط طبقہ فعال ہے۔اس کی انفارمیشن ٹیکنالوجی ترقی یافتہ ہے اورملازم پیشہ افراد قابلیت کے پیمانے پر کسی سے کم نہیں۔بھارتی تارکین وطن نے اپنی ایک ساکھ بنالی ہے۔اگر یہی لوگ اپنے ملک میں تمام کمیونیٹوں اور خطے کے دوسرے ملکوں کے ساتھ پر امن طور پر جینا سیکھ لیں توجنوبی ایشیا میں ترقی کا راستہ اپنانامشکل نہیں ہے۔جنوبی ایشیا کے گنجان آبادخطے میں دنیا کی تقریباًایک چوتھائی آبادی رہتی ہے جہاں باہمی تجارت و ترقی کے لامحدود امکانات ہیں۔

لیکن بھارت واحد ملک نہیں جہاں مسائل کا حل ضروری ہے۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنت کی سیاسی مداخلت اور دہشت گردی کا قلع قمع کرنا ہوگا۔ سری لنکا کو اپنی نسلی اور مذہبی کشیدگی کم کرنا ہوگی اور خانہ جنگی کے بعد اقلیتوں کے حقوق تسلیم کرنے ہوں گے۔بنگلہ دیش میں خاندانی سیاست کو خیر باد کہہ کرجمہوی روایات اور میڈیا کی آزادی کی ضمانت دینا بھی ضروری ہے۔نیپال میں سیاسی استحکام، دستور کا عملی نفاذ اور علاقائی کشیدگیاں ختم کرنا ہوں گی۔ بھوٹان میں نوجوانوں کی بے روزگاری، اقتصادی سرگرمیوں اور محدود نجی شعبوں کا دائرہ وسیع کرناتوجہ طلب ہے۔ افغانستان میں خواتین کے حقوق، اندرونی کشمکش اور سیکورٹی کے مسائل خطے کے دوسرے تمام ملکوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ منشیات کی تجارت کی روک تھام نہیں کی جارہی۔

مجموعی طور پرپورے جنوبی ایشیا میں بدعنوانی، عورتوں کے حقوق کی پامالی اور آزادی اظہار کی پابندیاں سنگین مسائل ہیں۔ جب تک باخبرشہریوں کی اقتدار میں حصہ داری نہ ہو، استحصال زدہ طبقے پس ماندہ رہیں اور قبائلی ذہنیت باقی رہے، یہ خطہ ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ مثالی لیڈر اور ایک ذمہ دارانتظامی ڈھانچہ ہی ہمارے مشترکہ خوابوں کو حقیقت میں بدل سکتا ہے۔

آپ نے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی لیکن ایک کامیاب صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن کی حیثیت سے بین الاقوامی مقبولیت حاصل کی۔ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور تجربے کے پس منظر میں ان دو مختلف شعبوں کے درمیان اپنے سفر پر کچھ روشنی ڈالیں۔

دراصل آرگینک کیمسٹری میں پی ایچ ڈی میر ی زندگی کی صحیح عکاسی نہیں کرتی۔میں گزشتہ پچاس برسوں سے فوٹو گرافی کے پیشے سے منسلک ہوں۔میں نے ’ورلڈ پریس فوٹو‘، بین الاقوامی جیوری کی صدارت کی جسے فوٹو جرنلزم کی اقوام متحدہ بھی کہا جاتا ہے۔میرے کام کی نمائش اور اشاعت دنیا کے نامور اداروں کے تحت ہوچکی ہے۔

کیمسٹ کی حیثیت سے میر ی کوئی پہچان نہیں ہے، سوائے اس کے کہ میرے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے اور لوگ اسے اہمیت دیتے ہیں۔شاید میں ایک اوسط درجے کا کیمسٹ بن سکتا مگر ایک بہتر فوٹوگرافر ہوں۔میں نے فوٹوگرافی کی باقائدہ ٹریننگ نہیں لی پھربھی میں نے اسی شعبے میں نام کمایا ہے۔

ہمارے سماج میں لوگوں کی پہچان ڈگریوں سے ہوتی ہے،کام سے نہیں اور لوگ جدت پسندی اور نئی سوچ کو اہمیت نہیں دیتے۔میں نے فوٹوگرافی کی اہمیت کا اندازہ لگا کر اس شعبے پر توجہ دی۔ میں خوش ہوں کہ میں نے اس میں تھوڑی بہت مہارت حاصل کرلی ہے۔

2018میں حکومت نے آپ کو ایک احتجاجی جلوس کی تصاویر بناتے ہوئے گرفتا ر کیا اور اس وقت تک رہائی نہیں ملی جب تک عالمی اداروں کا مطالبہ زور نہیں پکڑ گیا۔ اس واقعہ کا پس منظر کیا تھا؟

ہمارے سیاستدان ذاتی مفادات کو عہدوں سے الگ رکھنا نہیں جانتے۔29جولائی2018 کوشہید رمیز الدین کنٹونمٹ کالج کے دو طالب علم دیا خانم میم اور عبدالکریم رجیب فٹ پاتھ پر کھڑے تھے کہ ایک بس ان پر چڑھ دوڑی۔ تیز رفتار بسوں کے حادثات روزمرہ کا معمول تھے۔

شاہجہاں خان، جو اس وقت وزیر تھے،بنگلہ دیش روڈ ٹرانسپورٹ ورکرز فیڈریشن کے ایگزیکٹو پریزیڈنٹ بھی تھے۔فیڈریشن کے سربراہ کا بیک وقت ایک طاقتور وزیرہونا ملازمین کے لیے حادثات کی سزاؤں میں کھلی چھوٹ کی ضمانت تھا۔ نتیجے کے طور پر حادثات کی روک تھام ناممکن تھی۔ اس صورت حا ل کے پیش نظرطلبأنے ٹریفک کانظام اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیاتو انہیں معلوم ہوا کہ وزیروں کی گاڑیوں اور پبلک بسوں کے محفوظ ہونے کے تصدیقی سرٹیفکٹ نہیں ہیں اور اکثر ڈرائیور بلا لائسنس کام کررہے ہیں۔

یہ سب کچھ حکومت کے لئے باعث شرمندگی ہوتا جارہا تھا۔ اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر برسر اقتدار سیاسی جماعت نے پولیس کے ساتھ مل کر نہتے طلبأ پر حملے شروع کردیے۔4 اگست کوجلوس کی کوریج کرتے ہوئے مجھ پر بھی حملہ کیا گیااور دوسر ے دن میں نے الجزیرہ کے ایک انٹر ویومیں صورت حال کی تفصیل بیان کی۔ اسی رات مجھے سیکورٹی کے کارکنوں نے گھرسے گرفتار کرکے تشدد کانشانہ بنایااور100دن بعد ضمانت پر رہا کیا۔

جس قانون کے تحت مجھے گرفتار کیا گیاتھا وہ اکتوبر میں ختم ہوگیالیکن آج پانچ سال بعدبھی مقدمہ شروع نہیں ہوسکا۔ ابھی تک میرے خلاف کوئی چارج شیٹ پیش نہیں کی گئی مگر ہر مہینے مجھے عدالت میں حاضری دینی ہوتی ہے۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔