خبریں/تبصرے

زندگی سستی، بجلی مہنگی: آل پاکستان عوامی ایکشن کمیٹی قائم

لاہور (جدوجہد رپورٹ) بجلی کی قیمتوں میں اضافے سمیت آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے نفاذ کے نتیجے پیداہونے والی مہنگائی اور دیگر مسائل کے خلاف جدوجہد کیلئے ’آل پاکستان عوامی ایکشن کمیٹی‘قائم کر دی گئی ہے۔

پیر کی شب ملک کے مختلف شہروں سے متحرک شہریوں اور بائیں بازو کے کارکنوں کے ایک آن لائن اجلاس میں عوامی ایکشن کمیٹی قائم کرتے ہوئے سستی بجلی، تیل اور اشیا خوردونوش کی فراہمی کیلئے پاکستان بھر میں عوامی تحریک کو منظم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اس سلسلہ میں شہروں اور قصبوں میں عوامی ایکشن کمیٹیوں کے قیام، مطالبات کی منظوری تک بجلی کے بلوں کے بائیکاٹ اور پر امن سیاسی جدوجہد کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ متفقہ طور پر عوامی ایکشن کمیٹی کے سرپرست کے طور پر معروف انقلابی رہنما قمر الزمان خان کو نامزد کیا گیا ہے۔ بلوچستان، سندھ، پنجاب اور کے پی کے مختلف شہروں میں عوامی ایکشن کمیٹیوں کے قیام کیلئے آرگنائزرز بھی نامزد کئے گئے ہیں۔ مختلف شہروں میں احتجاجی کیمپ اور مظاہرے منعقد کرتے ہوئے عوامی ایکشن کمیٹیوں کو منظم کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

اجلاس کے بعد متفقہ طور پر جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت پاکستان بھر میں بجلی کے ناجائز بلوں نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ حکمران آئی ایم ایف جیسے سامراجی اداروں کی غلامی میں عوام کا معاشی قتل عام کرنے پہ اتر آئے ہیں۔ پٹرول، بجلی اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔ لوگ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ کشمیر میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے ہو رہے ہیں اور کروڑوں روپے مالیت کے بجلی کے بل نذر آتش کر دئیے گئے ہیں۔

پاکستان کے تقریباً ہر شہر میں بھی عوام احتجاجی تحریک میں داخل ہو رہے ہیں۔ بجلی کے بلوں میں جہاں سرمایہ دارانہ معیشت کے خسارے پورے کرنے اور حکمرانوں کی جانب سے لیے گئے قرضے اتارنے کے لئے رنگ برنگے ناجائز ٹیکس لگائے جاتے ہیں وہیں بجلی کی پیداوار کا نجی انڈیپنڈنٹ پاور پلانٹس (IPPs) کے شکنجے میں ہونا بہت سنگین عنصر ہے۔ ان پلانٹس کے مالکان کو حکومتوں کی جانب سے وہ پیسے بھی ڈالرز کی شکل میں ادا کیے جاتے جن کے عیوض بجلی کی پیداوار بھی نہیں ہوتی۔ علاوہ ازیں یہ پلانٹ انتہائی مہنگے داموں بجلی حکومت کو فروخت کر کے ہوشربا منافعے کماتے ہیں۔ یہ کھلی لوٹ مار کے مترادف ہے۔

ڈاکہ زنی کے ان معاہدوں کی ہر جمہوری اور آمرانہ حکومت میں توثیق ہوتی رہی ہے۔ ہزاروں ارب روپے یہ نجی پاور پلانٹ اب تک عوام کی جیبوں سے نکال چکے ہیں۔ اس بدمعاشی اور بدقماشی میں ساری مروجہ سیاسی پارٹیاں ملوث ہیں۔ اس صورتحال میں عوام احتجاج کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ یہ بہت خوش آئند پیش رفت ہے۔ ان احتجاجوں کو منظم شکل دینے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں ان کے مطالبات کو وسیع کرنے، حقیقت پسندانہ بنانے اور عوامی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ حکمرانوں کے جھوٹ، حیلے بہانوں اور مگر مچھ کے آنسووں کو یکسر رد کیا جانا چاہئے۔ وہ اس طاقت پکڑتی تحریک کو دبانے کے لئے کسی بھی قسم کی عیاری اور شرپسندی کا سہارا لے سکتے ہیں۔ جس کے لئے ضروری ہے کہ فوری طور پر احتجاجی عوام محلوں، علاقوں اور شہروں کی سطح پر ’عوامی ایکشن کمیٹیوں‘ میں منظم اور متحرک ہوں اور مطالبات مانے جانے تک پرامن احتجاج کو جاری رکھا جائے۔ مزدوروں، کسانوں، طلبا و طالبات، گھریلو خواتین، چھوٹے دکانداروں، ترقی پسند اور بائیں بازو کے سیاسی و سماجی کارکنان اور تنظیموں وٹریڈیونینوں، وکلا اور صحافیوں کو ان عوامی ایکشن کمیٹیوں کی تشکیل میں متحرک کردار ادا کرنا ہو گا۔

ان ایکشن کمیٹیوں کو بجلی کی مہنگائی کے علاوہ عوام کو درپیش دوسرے طبقاتی مسائل پر بھی پرامن لیکن ٹھوس اور منظم احتجاج کرنا ہوں گے۔ واپڈا سمیت ملک بھر کے محنت کش طبقے کی اس احتجاجی تحریک میں شمولیت ہراول کردار کی حامل ہو گی۔

اجلاس کے اختتام پر درج ذیل قراردادیں منظور کی گئی ہیں:

* فوری طور پر موجودہ بجلی کے بلوں کومنسوخ کیا جائے۔
* بجلی کے بلوں پر ہر طرح کے ٹیکس ختم جائیں۔
* 300 یونٹ تک بجلی بالکل مفت فراہم کی جائے۔
*بلوں کے سلیب سسٹم یعنی ہر کچھ سو یونٹ کے بعد بجلی کی فی یونٹ قیمت میں اضافے کے نظام کو ختم کر کے فکسڈ ٹیرف کے حامل یکساں ریٹ کا طریقہ کار لاگو کیا جائے۔
* انڈیپنڈنٹ پاور پلانٹس (IPPs) کو قومی تحویل میں لیا جائے اور منافع خوری کی بجائے عوام کی ضرورت کے مطابق چلایا جائے۔
* تمام مقامی بینکوں کو قومی ملکیت میں لیتے ہوئے مقامی قرضوں سے چھٹکارہ حاصل کیا جائے۔
* پاکستان پر جتنا بیرونی قرضہ ہے اس سے کئی سو گنا دولت سامراجی قوتیں یہاں سے لوٹ کے لے جا چکی ہیں لہٰذا آئی ایم ایف سمیت تمام بیرونی قرضوں کی ادائیگی سے انکار کیا جائے۔
* آٹا، پیٹرول اور چینی کی آسمان چھوتی قیمتوں کے تناسب سے موجودہ کم از کم اجرت (Minimum Wage) سمیت تنخواہوں میں 100 فیصد فوری اضافہ کیا جائے اور انہیں مہنگائی کی شرح کے ساتھ منسلک کیا جائے۔
* ہر قسم کی نجکاری کی روش ترک کی جائے۔
* صنعت اور سروسز کے تمام بڑے اداروں کو قومی تحویل میں لے کے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں چلایا جائے۔
* عوامی ایکشن کمیٹیاں بنا کر مطالبات کی منظوری تک پر امن احتجاج کا دائرہ کار وسیع کیا جائے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts