تاریخ

مینڈل کے سو سال

ایرک تو ساں

(ایرک توساں عالمی شہرت یافتہ مارکسی معیشت دان ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے وہ یونیورسٹی پروفیسر ہیں۔ ان کی وجہ شہرت عالمی قرضوں کے خلاف ان کی مہم اور تحقیق ہے۔ قرضوں کے موضوع پر وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی کتابیں مثلاً ’یو ر منی اور یور لائف‘ کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ ان کا شمار فورتھ انٹرنیشنل کے اہم رہنماوں میں بھی ہوتا ہے۔ فورتھ انٹرنیشنل کے اہم رہنما، عالمی شہرت یافتہ معیشیت دان اور ٹراٹسکی اسٹ تحریک کے ایک اہم نظریہ دان ارنسٹ مینڈل کے سو سالہ یوم پیدائش کے سلسلے میں ایرک توساں نے مندرجہ ذیل مضمون تحریر کیا ہے جسے پہلے دو قسطوں کی شکل میں پیش کیا گیا۔ ذیل میں یہ مضمون مکمل متن کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے)

ارنسٹ مینڈل ایک بین الاقوامیت پسند اور انقلابی کارکن تھے، جنہوں نے زندگی بھر سوچ اور عمل کو یکجا کیا۔ فکری لحاظ سے ان کے وسیع نظریاتی کام، معاشی اور سیاسی صورت حال پر ان کے بہت سے تجزیوں اور بے شمار مضامین نے کارکنوں، طلبہ، محققین، ٹریڈ یونین رہنماؤں اور سماجی و سیاسی تنظیموں کے رہنماؤں کی ایک بڑی نسل کو متاثر کیا۔ انہوں نے فورتھ انٹرنیشنل کی قیادت میں اہم کردار ادا کیا، وہ تنظیمیں تعمیر کرنے میں ماہر تھے۔ انہوں نے فورتھ انٹرنیشنل اور مختلف ملکوں میں اس کے سیکشنزکی تعمیر کے لیے اتنی ہی توانائی صرف کی جتنی نظریاتی اور سیاسی کام کی تیاری کے لیے کی۔ مینڈل 20 ویں صدی کے دوسرے نصف کے بین الاقوامی قد کے تقریباً 20 مارکسی دانشوروں میں سے ایک ہیں۔ ان کا شمار ان چند افراد میں ہوتا ہے جو تخلیقی اور اختراعی فکری تصریح کے ساتھ عمل کو یکجا کرنے میں کامیاب رہے۔

1971ءمیں،جب مجھے فورتھ انٹرنیشنل کے بلجیم سیکشن کی قیادت کیلئے منتخب کیا گیا، تب سے لیکر 1995ءمیں ان کی موت کے وقت تک میرا ارنسٹ مینڈل سے رابطہ رہا۔ ہمارے درمیان1980ءسے رابطے اس وقت تیز ہو گئے، جب مجھے فورتھ انٹرنیشنل کی قیادت کا حصہ بننے کیلئے مدعو کیا گیا۔ اس قیادت کا مطلب ہے یونائیٹڈ سیکرٹریٹ، جس کی سال میں کئی مرتبہ 3سے4روز کی میٹنگ ہوتی، اورانٹرنیشنل ایگزیکٹو کمیٹی(آئی ای سی)،جسکی سالانہ 5سے6روز کی میٹنگ ہوتی ہے۔

تعلق اور تعاون کا یہ سلسلہ1988ءمیں اس وقت مزید تیز ہو گیا، جب میں بیوروکا رکن بنا، جو یونائیٹڈ سیکرٹریٹ کے اجلاسوں کی تیاریاں کرتا تھا اور پیرس میں ہر مہینے دو اجلاس کم از کم ہوتے تھے۔ میں نے وسطی امریکہ میں خاص طور پر نکارا گوا اور ایل سلوا ڈور سمیت زیادہ وسیع پیمانے پر میکسیکو سے کولمبیا تک پھیلے ہوئے خطے میں سماجی تحریکوں اور انقلابیوں کے ساتھ رابطوں کا ذمہ دار تھا۔

ارنسٹ مینڈل کی زندگی کے آخری سالوں میں ہماری ملاقاتیں زیادہ ہوتی گئیں اور ہم زیادہ قریب ہوتے گئے۔ 1989ءمیں دیوار ِبرلن گرنے وقت، 1991ءمیں سوویت یونین کے خاتمے کے وقت، 1991کے اوائل میں فورتھ انٹرنیشنل کی 13ویں عالمی کانگریس اور1995ءمیں 14ویں عالمی کانگریس کی تیاری کے دوران ہم بہت قریب رہے اورملاقاتوں کا یہ سلسلہ ان کی موت سے ایک ماہ قبل ہوئی آخری ملاقات تک جاری رہا۔ اس دوران ہم نے 1992ءمیں مل کر نکارا گوا کا ایک دورہ بھی کیا۔

ارنسٹ مینڈل سے میری پہلی ملاقات1970ءمیں ہوئی تھی،جب میں 16سال کا تھا۔ اس سے کچھ عرصہ قبل ہی میں نے اس وقت فورتھ انٹرنیشنل(ایف آئی) میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا، جب میں نے بلجیم کے ٹراٹسکی اسٹ گروپ ’ینگ سوشلسٹ گارڈ‘اور’دی والون ورکرز پارٹی‘(The Walloon Workers Party) کی جانب سے بلجیم کی کوئلے کی کانوں میں ہڑتال کروانے میں کردار کا مشاہدہ کیا۔ یہ ہڑتالیں پہلے ملک کے فلیمش بولنے والے حصہ صوبہ لمبرگ(Limburg) اور پھر فرانسیسی بولنے والے حصے لیژ(Liege) کے علاقے میں ہوئی تھیں۔ ایف آئی میں شامل ہونے سے قبل میں ہائی سکول کی جدوجہدوں، مزدوروں کی ہڑتالوں کے ساتھ یکجہتی کی تحریکوں، ویتنام جنگ کے خلاف احتجاج، امریکہ میں شہری حقوق کیلئے افریقی نسلوں کی جدوجہد کے ساتھ یکجہتی اور کیوبا کے انقلاب کی حمایت میں سرگرم تھا۔

ارنسٹ مینڈل فورتھ انٹرنیشنل کے بلجیم سیکشن اور عالمی سطح پر ایف آئی کے رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ تاہم جب میں نے شمولیت کا فیصلہ کیا تو مجھے یہ معلوم نہیں تھا۔ 1968ء کی تحریک میں ایف آئی کے کارکنوں کی شمولیت کو دیکھتے ہوئے لیڈنگ باڈی کا اجلاس پیرس میں منعقد کرنا پڑا۔ میں نے ایف آئی سے ملنے کیلئے جون 1970ءمیں اپنے ہم عمر ایک دوست کے ہمراہ پیرس جانے کا فیصلہ کیا۔ہم نے پہلی رات پو نف(Pont Neuf) کے نیچے گزاری۔ پھر ہم نے کمیونسٹ لیگ سے ملنے کی کوشش کی۔

ہم نے 95 rue Faubourg Saint Martin کے پتے پرپہنچ کر دروازے پر لگی گھنٹی بجائی۔ دروازہ کھولنے کیلئے آنے والا شخص پیئر فرانک (Pierre Frank) تھا، جو ٹراٹسکی کا اس وقت سیکرٹری رہ چکا تھا، جب وہ 1929میں ترکی کے جزیرے پرنکیپو پر جلاوطنی کاٹ رہاتھا۔ اُس نے بڑے پرجوش انداز میں ہمارا استقبال کیا اور اس کیساتھ کافی دلچسپ گفتگو ہوئی۔ دو نوجوانوں کی ایف آئی میں شمولیت کیلئے آمد سے اسے کافی مسرت ہوئی۔ ہم دونوں نوجوان یہ نہیں جانتے تھے کہ ارنسٹ مینڈل ایف آئی کے اہم رہنماؤں میں سے ایک ہیں اور اگر ہم ایف آئی میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ہم برسلز جا کر ان سے مل سکتے ہیں۔

اس کے بعد مجھے پہلے بار یہ سمجھ آئی کہ ایف آئی کی قیادت اجتماعی تھی۔ ارنسٹ مینڈل نے دوسری تنظیموں کے برعکس کبھی بھی خود کسی قسم کا لیڈر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ میں نے انہیں کبھی کسی قسم کی ذاتی قیادت پر زور دیتے ہوئے نہیں دیکھا۔ انہوں نے کبھی بھی کسی ترجیح یا مراعات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ انکا اثر و رسوخ ان کے اعمال،تجزیے اور اپنے عملی کردار کی وجہ سے تھا۔ 1970سے1995کے درمیان 100سے زائد اجلاسوں میں ان کے ساتھ موجود رہنے کے بعد میں یہ بات بغیر کسی شک و شبہ کے کہہ سکتا ہوں۔

میں نے نومبر 1970 میں پہلی بار ارنسٹ مینڈل کو دیکھا۔ وہ ’ریڈ یورپ‘ کی ایک بڑی کانفرنس کے مقررین میں شامل تھے، جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ایف آئی کے یونائیٹڈ سیکرٹریٹ سے منسلک ہیں۔

یہ کانفرنس ایف آئی کی تنظیموں کی طرف سے بلائی گئی تھی، کیونکہ ایف آئی کی کئی شاخیں ہیں یا کئی بین الاقوامی تنظیمیں 1938ء میں لیون ٹراٹسکی کی موجودگی میں قائم ہونے والی فورتھ انٹرنیشنل کے تسلسل کا دعویٰ کرتی ہیں۔ جس فورتھ انٹرنیشنل میں میں نے شمولیت اختیار کی اور ارنسٹ مینڈل اس کی قیادت میں تھے، اسے فورتھ انٹرنیشنل کا یونائیٹڈ سیکرٹریٹ سمجھا جاتا تھا۔ یعنی ایف آئی کے دو بڑے حصوں کا از سرنو اتحاد، جو یورپ میں ایف آئی کے ارکان کی اکثریت(ارنسٹ مینڈل، پیئر فرینک اور لیویو میتان کی قیادت میں)پر مبنی تھا۔ اس میں امریکہ میں سیکشن، سوشلسٹ ورکرز پارٹی(ایس ڈبلیو پی) بھی شامل تھا۔ ایف آئی کا یہ اتحاد 1963ءمیں ان یورپی و امریکی ساشلسٹ ورکرز پارٹی کے انضمام کے بعد وجود میں آیا تھا۔ 1970ء میں یونائیٹڈ سیکرٹریٹ کے زیر اہتمام ’ریڈ یورپ‘ کیلئے برسلز میں دو روزہ کانفرنس منعقد کی گئی تھی۔ اس کانفرنس میں فرانس سمیت یورپ بھر سے 3000سے زائد نوجوانوں نے شرکت کی۔ ارنسٹ مینڈل نے دیگر مقررین ایلین کریوین(Alain Krivine)، برطانیہ میں مقیم پاکستانی سیاسی کارکن طارق علی اور اٹلی سے تعلق رکھنے والی لیوِیومیتان(Livio Maitan) کے ہمراہ پرجوش تقاریر کیں۔ ان تقاریر سے میرے جیسے 16سال کے لوگوں کو یقین، حوصلہ اور بہت کچھ حاصل ہوا۔

میں نے ارنسٹ مینڈل کو ان کی تحریروں کے ذریعے بھی جانا۔ جیسے ہی میں نے 1970ءکے موسم گرما میں ایف آئی میں شمولیت اختیار کی، میں نے مینڈل کا کتابیں پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ میں نے اس سے پہلے بائیں بازو کے ہفت روزہ La Gauche (دی لیفٹ)میں بھی ان کے متعدد مضامین پڑھے تھے۔ لے گوش (دی لیفٹ)ارنسٹ مینڈل کی مدد سے 1956میں شروع ہوا تھا۔ جس چیز نے مجھے ایف آئی میں شامل ہونے پر آمادہ کیا، وہ تجزیہ کے ساتھ ساتھ پریکٹس کی اعلیٰ سطح تھی۔

مثال کے طور پر بلجیم کے ٹراٹسکی اسٹوں کی کان کنوں کی ہڑتال میں شمولیت اور ویتنام میں امریکی مداخلت کے خلاف جدوجہد سے میں بہت متاثر ہوا۔ مجھے ارنسٹ مینڈل کے ایک مضمون نے بہت متاثر کیا، جس کا عنوان ’عالمی انقلاب کا نیا عروج‘ تھا۔ اپریل1969میں اٹلی میں منعقد ہونے والی فورتھ انٹرنیشنل کی 9ویں عالمی کانفرنس نے اس دستاویز کو بطور پروگرام منظور کیا۔ اس متن میں عالمی انقلاب کے تین اجزء کی جدلیات پر زور دیا گیا تھا۔ اس میں 1968ء میں جو کچھ ہوا، خاص طور پر فرانس میں کیا ہوا، جس کے پورے یورپ میں اثرات مرتب ہوئے۔۔۔کا جائزہ لیا گیا۔اس کے علاوہ چیکو سلواکیہ میں بھی 1968کی پراگ سپرنگ کا ذکر تھا۔ 30اور31جنوری1968کی رات کے حملے میں جب ویتنامی انقلابی کامیاب ہوئے اور عارضی طور پر جنوب کے دارالحکومت سائیگون پر قبضہ کر لیا، اس بابت تجزیہ کیا گیا(1975میں امریکہ کی مکمل شکست کی پیشین گوئی بھی کی)۔

مینڈل کی تحریر نے عالمی انقلاب کے تین شعبوں (صنعتی سرمایہ دارانہ ملکوں، مشرقی بلاک کے ملکوں اور تیسری دنیا کے ملکوں) میں جدوجہد کی سطح اور طاقت کے توازن کا تجزیہ کیا اور یہ ظاہر کیا کہ یہ تینوں شعبے آپس میں کیسے جڑے ہوئے ہیں۔ مئی 1968، 1969اور 1970کے واقعات اس بات کا واضح اظہار کر رہے تھے کہ ایف آئی کی اس بنیادی تحریر میں کیا تھا اور ایف آئی نے کس قسم کی مداخلت کی خواہش کی تھی۔

میرے لئے اگلا اہم مرحلہ ارنسٹ مینڈل کی کتاب ’مارکسسٹ اکنامک تھیوری‘پڑھنا تھا۔ میں نے پیپر بیک ایڈیشن کو 1970کے آخر میں کرسمس کے سلسلے میں ہونے والی سکول کی چھٹیوں کے دوران از بر کر لیا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد میں نے ارنسٹ مینڈل کی ایک اور کتاب ’کارل مارکس کی معاشی سوچ کی تشکیل‘ شوق سے پڑھی، جو1971میں منتھلی ریویو پریس نے شائع کی تھی۔

آپ کو شائد لگے کہ میں نے بہت جلدی کی لیکن میں نے مارکس اور اینگلز کا ’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘اس وقت پڑھا تھا، جب میں 13سال تھا۔ یہ 1967کا سال تھا اور اسی سال سے میں نے دنیا بھر کے انقلابات پر مختلف کتابیں پڑھنا شروع کی تھیں۔ خاص طور پر چینی انقلاب سے متعلق ’ریڈ سٹار اوور چائنہ‘کے مطالعہ سے آغاز کیا۔ یہ کتاب1937میں ’لیفٹ بک کلب‘ نے شائع کی اور 1967کے عرصہ میں گاؤں کی لائبریری سے یہ کتاب میں نے حاصل کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ایڈگار سنو کی کتاب ’ریڈ چائنا ٹوڈے: دی آدر سائیڈ آف دی ریور‘ اور کے ایس کیرول کی کتاب ’چائنا: دی آدر کمیونزم‘بھی پڑھنا شروع کی۔ جون، جولائی1971میں فورتھ انٹرنیشنل میں شمولیت کے بعد میں نے لیون ٹراٹسکی کی ’انقلاب روس کی تاریخ‘ کا مطالعہ کیا۔ اس کتاب نے مجھ پر ان مٹ نقوش چھوڑے اور مجھے ٹراٹسکی کی انقلابی عمل کا تجزیہ کرنے کی غیر معمولی صلاحیت نے بہت زیادہ متاثر کیا۔

1971میں، میں فورتھ انٹرنیشنل کے نئے بلجیم سیکشن میں بہت زیادہ سرگرم ہو گیا۔ جون1970میں، میں نے جے جی ایس(ینگ سوشلسٹ گارڈ) میں شمولیت اختیار کرلی تھی، جو کہ ایف آئی ممبران کے ذریعے چلائی جانے والی نوجوانوں کی تنظیم ہے۔ یہ 1964کے اواخر یا 1965کے اوائل میں اس وقت بلجیم سوشلسٹ پارٹی سے الگ ہو گئی تھی، جب پارٹی قیادت نے بلجیم کی ریاست کے جابرانہ اقدامات کی حمایت کی تھی۔ جے جی ایس نے 1968سے1969تک اپنے آپ کو ایک انقلابی نوجوانوں کی تنظیم سمجھا۔ اسے فوتھ انٹرنیشنل کے ہمدرد گروپ کی حیثیت حاصل تھی۔ 1968میں شروع ہونے والی نوجوانوں کی بغاوتوں کے دوران تنظیم نے نمایاں طو ر پر ترقی کی اور بلجیم کے کئی شہروں میں 150سے200تک نوجوانوں کو بھرتی کیا۔ یہ وہ کارکن تھے جو عام طور پر کالج، ہائی سکول اور محنت کشوں کے محلوں میں سرگرم تھے۔ یہ تحریک 1970ءمیں سوشلسٹ کنفیڈریشن آف ورکز کے تحت منظم ہونے والی گذشتہ نسل کے ساتھ جڑت قائم کر رہی تھی۔ ارنسٹ مینڈل بلاشبہ 47سال کی عمر کے ساتھ بڑوں کی نسل سے تعلق رکھتے تھے، وہ1923ءمیں پیدا ہوئے تھے۔ مینڈل بوڑھے نہیں تھے، لیکن مجھ جیسے 17سالہ نوجوان اور بزرگوں کیلئے وہ پرانی نسل کے نمائندے بن جاتے تھے۔

یہ وہ نسل تھی، جس نے 1940ءسے1945ء تک بلجیم پر نازیوں کے قبضے کے دوران سخت جدوجہد کی اور بالآخر بلجیم کی سوشلسٹ پارٹی اور اس کی نوجوانوں کی تنظیم کے اندر بائیں بازو کی تحریک میں شامل ہو گئی۔ نتیجے کے طور پر جے جی ایس نے پرانے اراکین کی تنظیم کے ساتھ انضمام کا عمل شروع کیا، جس میں کام کی جگہوں پر، خاص طور پر میرے شہر لیژمیں سٹیل کی صنعت میں کام کرنے والوں کی شمولیت تھی۔

1970ءکے آخر میں، میں نے گینٹ میں آخری جے جی ایس کانفرنس میں شرکت کی، جس نے انضمام کی منظوری دی۔ انضمام کیلئے کانگریس مئی1971ءمیں لیژمیں منعقد ہوئی، جو ایف آئی کا نیا بلجیم سیکشن بننے کیلئے ایک اہم بنیاد تھی۔ جے جی ایس اور سوشلسٹ کنفیڈریشن آف ورکرز کے انضمام سے ایل آر ٹی(انقلابی ورکرز لیگ)کا قیام عمل میں لایا گیا، جس نے تین تنظیموں کو اکٹھا کیا:والونیا میں والون ورکرز پارٹی، برسلز میں یونین آف دی لے گوش سوشلسٹ لیفٹ اور فلینڈرز میں انقلابی سوشلسٹس(اپنے اخبار ڈی سوشلسٹس اسٹیم سمیت)۔

انضمام کی یہ کانگریس مئی1971ءمیں منعقد ہوئی تھی۔ ارنسٹ مینڈل اس کانگریس میں نمایاں طور پرسرگرم تھے۔ بین الاقوامی مندوبین میں فورتھ انٹرنیشنل کی فرانسیسی شاخ ’کمیونسٹ لیگ‘ کے ایلین کریوین اور فورتھ انٹرنیشنل کے یونائیٹڈ سیکرٹریٹ اور اس کے اطالوی حصے ’انقلابی گروپس‘ کے رکن لیوِیو میتان شامل تھے۔

ہم تقریباً350رکنی تنظیم تھے، جس کی صنعتی کارکنوں، فلیمش، برسلز اور فرانسیسی بولنے والی یونیورسٹیوں کے علاوہ سیکنڈری سکولوں میں مضبوط موجودگی تھی۔ مجھے مرکزی کمیٹی کیلئے منتخب کیا گیا، مرکزی کمیٹی میں سب سے کم عمر ممبر تھا۔ میں اس وقت 17سال کا بھی نہیں تھا۔ میرے خیال میں اس کمیٹی میں تقریباً30ممبران تھے۔ وہاں صنعتی کارکن تھے، جو پہلی بار1960-61کی سرمائی ہڑتال کے بعد شامل ہوئے تھے۔ ایسے کامریڈ بھی تھے، جنہوں نے دوسری جنگ عظیم سے پہلے ارنسٹ مینڈل کی طرح ایف آئی میں شمولیت اختیار کی تھی اور جنہوں نے مزاحمت میں حصہ لیا تھا۔

ان میں ایک ایمائل وان سیولن(Emile Van Ceulen) تھے (پیدائش 1916 میں ہوئی اور 1987 میں وفات پائی)۔وہ چمڑے کی صنعت میں کام کرنے والے مزدور تھے، جو 1933میں ٹراٹسکی اسٹ تنظیم میں شامل ہوئے(وہ 1951میں فورتھ انٹرنیشنل کی تیسری عالمی کانگریس میں مندوب تھے، 1954کی کانگریس میں جے جی ایس کے نیشنل وائس پریذیڈنٹ بنے اور چینی کمیونسٹ پارٹی کی دعوت پر چین میں سرکاری مہمان بھی بنے)۔

رینے گروسلمبرٹ(Rene Groslambert)بھی تھے۔ رینے جو پال ہنری سپاک کے ہمراہ 1935میں سوشلسٹ ایکشن کے شریک بانی تھے(اس کے علاوہ 1936میں والٹر ڈاؤج اور لیون لیسوئل کے ساتھ انقلابی سوشلسٹ ایکشن کے شریک بانی تھے، انہیں 1940میں گرفتار کر کے ورنیٹ کیمپ فرانس میں جلاوطن کیا گیا تھا۔ وہ فورتھ انٹرنیشنل کی دوسری عالمی کانگرنس منعقدہ1948میں بطور مندوب شریک ہوئے تھے)۔

ایک اور رکن پیئر لیگریوPierre Legreve(1916-2004)تھے، جو 1933سے ٹراٹسکی اسٹ تنظیم کے رکن تھے (وہ ایک استاد تھے جو 1965سے1968تک یونین آف سوشلسٹ لیفٹ کے نائب منتخب ہوئے۔ الجزائر کے انقلاب کی حمایت اور مراکش میں سیاسی قیدیوں کے ساتھ یکجہتی کیلئے بہت سرگرم رہے)۔

ایسے صنعتی کارکن بھی تھے، جنہوں نے لیژمیں سٹیل کی صنعت جبکہ شارلوا (Charleroi)اور مونس (Mons)میں شیشے کی صنعت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ارنسٹ مینڈل کے ساتھ معروف دانشور بھی تھے، مثال کے طور پر وکیل ناتھن وائن اسٹاک(Nathan Weinstock) جنہوں نے 1969میں ’Zionism: False Messiah‘کے عنوان سے ایک قابل ذکر اور دلیرانہ کتاب شائع کی۔

مرکزی کمیٹی نے مجھے پولیٹیکل بیورو کیلئے منتخب کیا، اس کمیٹی کا کانگریس سے دو یا تین ہفتے بعد اجلاس ہواتھا۔میں اس کا تذکرہ اس لئے کر رہا ہوں کہ پولیٹیکل بیورو میں میرا پہلا رابطہ ارنسٹ مینڈل اور ان کی ساتھی گیزیلا شولز]Gisela Scholz[(1935-1982) سے ہوا، جو ایک جرمن کامریڈ تھیں اور انہوں نے فورتھ انٹرنیشنل میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مینڈل کی عمر 1971میں 48سال تھی۔ ان کی ساتھی ان سے 12ال چھوٹی اور جرمن ریوولوشنری لیفٹ کی رکن تھیں، وہ رُڈی ڈوٹیشک(1940-1979) کی دوست تھیں، جنہیں ’ریڈ رُڈی‘ (Red Rudi)کے نام سے جانا جاتا تھا۔

اس پولیٹیکل بیورو میں مینڈل کی نسل کے ہمراہ کئی نوجوان کارکن تھے۔ اس نوجوان نسل کی سرکردہ شخصیات میں فرانسوا ورکمین (Francois Vercammen)، ڈینس ہومین (Denis Horman)اور جان وینکرہوون(Jan)Vankerkhovenشامل تھے۔

40کی دہائی کی کئی خواتین تھیں، جن میں لیژسے تعلق رکھنے والی وکیل ماتھے لامبرٹ(Mathe Lambert)، برسلز سے صحافی دُودو نیینس (Doudou Neyens)اور دیگر شامل تھیں۔ یورالوجسٹ یاک لیمانش(Jacques Leemans)بھی موجود تھے۔

فرانسوا ورکمین (1914-2015ء) اور ایرک کورژن Eric Corijn (1947ء ) مجھے سے تقریباً 10سال بڑے تھے۔جب آپ 17سال کے ہوں اور 27سال کے کسی انسان کے مقابل ہوں تو وہ آپ کو بوڑھے لگتے ہیں۔ 36سالہ گیزیلابھی میرے لئے بوڑھی عورت تھیں۔ اس طرح بلجئین سیکشن میں ہمارے پاس ایک پولیٹیکل بیورو اور ایک مرکزی کمیٹی تھی،جس میں تین یا چار الگ الگ سیاسی نسلیں تھیں، اور یہیں ارنسٹ مینڈل سے میری ملاقات ہوئی۔

ہر ہفتے پولیٹیکل بیورو کا اجلاس برسلز میں ہوتا تھا۔ میں نے نہ صرف ان کے تاریخی اور سیاسی علم اور کتاب ’مارکسسٹ اکنامک تھیوری‘ میں ان کی تھیوریٹکل کنٹری بیوشن کا تو معترف تھا ہی، میرے لئے یہ بھی اہم تھا کہ وہ کسی طرح تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ایک تنظیم کے سرکردہ رکن کے طور پر دوسروں سے پیش آتے۔ تنظیم کو ایسے لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنا تھا جو صنعتی محنت کش، پبلک سیکٹر اور نوجوا ن تھے اور ترقی پسند خیالات اپنا رہے تھے۔ ان کو ساتھ ملانے کے لئے ترقی پسند طریقہ کار والے اقدامات درکار تھے۔

مئی68کے بعد فورتھ انٹرنیشنل کی تنظیمیں جانتی تھیں کہ پولیس کے جبر کے خلاف کس طرح اپنا دفاع کرنا ہے اور وہ اس کیلئے تیاری کر سکتی تھیں۔ ہم نے اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مزید مضبوط کیا۔ ہم وقتاً فوقتاً سامراج کی نمایاں علامتوں کے خلاف سرگرمیوں میں حصہ لینے کیلئے بھی تیار تھے، مثال کے طور پر امریکہ کے ویتنام میں کردار کے خلاف سرگرمیوں کا انعقاد کرتے تھے۔1970میں ویتنام امریکی بموں کی زد میں تھا، نیپام بم کا بڑے پیمانے پر استعمال ہوا۔ ہم نے فرانکو کی آمریت، یونان میں فوجی آمریت کے خلاف بھی مظاہرے کئے۔

یہ 1970اور1971کی بات ہے، جب فرانکو کا سپین پوری آب و تاب سے موجود تھا اور بلجئیم میں ایک ہسپانوی کمیونٹی بھی موجود تھی، جن میں ریپبلکنز (سپین کو جمہوریہ بنانے کے حامی) یا ریپبلکنز کی اولادیں بڑی تعداد میں موجود تھیں، جنہوں نے 1936سے1939کے دوران فرانکو رجیم کے متاثرین کے طور پر سپین چھوڑ ا تھا۔ بلجئیم میں ایک یونانی برادری بھی تھی،یہ خاص طور پر کوئلے کی کانوں میں کنکن کے طور پر کام کرتے تھے۔یہ یونان میں فوجی آمریت کے مخالف تھے۔

1960ء کی دہائی کے آخر میں ارجنٹائن کی ایک بڑی گوریلا تنظیم رویولوشنری ورکرز پارٹی -پیپلز ریولوشنری آرمی (PRT-ERP) نے فورتھ انٹرنیشنل میں شمولیت اختیار کی، جسے ابتدائی طور پر ’فائٹنگ پی آر ٹی‘ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ ایک بہت مضبوط تنظیم تھی، جس نے فورتھ انٹرنیشنل کا رکن ہونے اور چی گویرا اور فیدل کاسترو، ویتنامی انقلابیوں اور چینی انقلاب کی حمایت کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ PRT-ERPکے مرکزی رہنما ماریو رابرتو سانتوچو ] Mario Roberto Santucho[ (1936-1976ء) تھے۔ وہ مئی1968ءمیں پیرس میں موجود تھے، جہاں وہ ریوولوشنری کمیونسٹ یوتھ(جے سی آر) سے منسلک ہو گئے، جو بعد میں کمیونسٹ لیگ بن گئی تھی۔ 1972ءکی آخری سہ ماہی میں ماریونے ارنسٹ مینڈل، دانیال بن سعید اور ہر برٹ کریوین کے ساتھ برسلز میں مینڈل کے گھر ایک طویل ملاقات کی۔ ماریوچار ماہ قبل پاتا گونیاکی راسن جیل سے فرار ہو گیا تھا اور مسلح جدوجہد کی کمان دوبارہ سنبھالنے کیلئے ارجنٹینا واپس جانے والا تھا۔ اس اجلاس کے دوران شرکاء نے نوٹ کیا کہ مسلح جدوجہد کے طریقہ کار پر بڑے اختلافات تھے اور اکتوبر1973ءمیں PRT-ERPنے فورتھ انٹرنیشنل سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔

اپریل1970ءمیں برسلز میں ویتنام کی جنگ، نیٹو اور ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ مجھے یقین ہے کہ اس میں 6سے 7ہزار کے درمیان مظاہرین تھے اور ٹراٹسکی اسٹ یوتھ آرگنائزیشن جے جی ایس نے کچھ مظاہرین کو سرکاری راستے سے آگے بڑھ کر برسلز کے نارتھ ریلوے اسٹیشن پہنچنے اور نیٹو کی عمارت کے قر یب پہنچنے کیلئے قائل کرنے کا فیصلہ کیا۔ ریلوے اسٹیشن سے نیٹو کی عمارت تک پٹریوں سے گزر کر پہنچنا آسان تھا۔اس وقت میں ابھی 16سال کا بھی نہیں تھا، لیکن میں پہلے سے ہی جے جی ایس کی سرگرمیوں میں شامل تھا، خاص طور پر کان کنوں کی ہڑتال میں تنظیم کی شمولیت کے بعد میں سرگرمیوں میں شامل رہتا تھا۔ میں لیژکے علاقے میں کوئلے کی کان کنی کرنے والی کمیونٹی میں رہتا تھا۔ اس گروپ میں کئی سو لوگ شامل تھے، ممکنہ طو رپر 1000بھی ہو سکتے ہیں۔ ہم نیٹو کی عمارت تک نہیں پہنچے لیکن ہم قریب پہنچ گئے۔ جیسے ہی ہم ریل کی پٹریوں سے باہر نکلے تو ہم پر سیکیورٹی فورس نے سخت حملہ کیا۔ میں ایک زخمی نوجوان کی مدد کر رہا تھا، اس دوران مظاہرین کے ساتھ نبٹنے والی ملٹری فورس نے مجھے گھیرے میں لے لیا، مجھے حراست میں لے کر پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔

آخر کار ایک غیرقانونی مظاہرے میں حصہ لینے کیلئے گرفتار کئے جانے اور گھنٹوں پوچھ گچھ کے بعد مجھ پر کوئی الزام نہیں لگایا گیا، کیونکہ اس وقت میری عمر16سال سے کم تھی۔ اس وقت اس قسم کے جرم کیلئے16سال سے کم عمر کے نوجوان پر مقدمہ چلانا ممکن نہیں تھا۔ میں اس حقیقت کے باوجود سزا سے بچ گیا کہ فورسز نے مجھ پر اپنے ایک ساتھی کو مارنے اور زخمی کرنے کا جھوٹا الزام بھی لگایا تھا۔ اس عمل نے مجھے سکھایا کہ جب پوچھ گچھ کی جائے تو پولیس سے کیسے نمٹا جانا چاہیے، یہ بھی سیکھنے کو ملا کہ سیدھا سادا طریقہ اختیار کرنا چاہیے، صرف ایک بیان پر دستخط کریں، جس سے یہ ظاہر ہو کہ میرے پاس بتانے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔ مقدمے سے بچنے کی کوشش کرتے وقت یہ اہم ہے۔ میں نے اس تجربہ کا تذکرہ اس لئے کیا کیونکہ ارنسٹ مینڈل کی سوانح عمری پڑھتے ہوئے مجھے پتہ چلا کہ ان کی اہلیہ گزیلا اس احتجاج کے منتظمین میں سے ایک تھیں۔ وہ اتنی مشکل کارروائی کو منظم کرنے کی ہماری صلاحیت سے بہت خوش تھیں، حالانکہ ہم اس مظاہرے کو نیٹو کے دفتر تک نہیں پہنچا سکے تھے۔

برسلز میں ایک سال پہلے ایسی ہی ایک کاروائی ہوئی تھی جس کے بارے میں گزیلا،جن کی عمر اس وقت 35 سال تھی، اپنے ایک ساتھی کو لکھا:

”گھوڑے، ٹینک وغیرہ سب کچھ اس وقت حرکت میں آگیا۔ ہم جتنی سختی سے لڑ سکتے تھے، ہم نے مقابلہ کیا اور ہمیں فخر ہے کہ ہم میں سے صرف چند ہی لوگ زخمی ہوئے۔ زیادہ سے زیادہ 40لوگوں کو معمولی زخم آئے۔صرف ایک بری طرح سے زخمی ہوا۔ دو اہلکاران نے مجھے ایک کار پر اوندھے منہ دھکیل دیا لیکن میں منہ کے بل نہیں گری اور خود کو سنبھال لیا۔“

یہ ارنسٹ مینڈل کے ساتھ میری دوستی اور جبر و سکیورٹی کے مسائل سے متعلق ایک اہم داستان ہے۔ ستمبر یا اکتوبر1973ءمیں بلجیم کے سیکشن کی سکیورٹی کے بارے میں خدشات دور کرنے کیلئے مجھے برسلز میں ایک پرانے فورتھ انٹرنیشنل کے کارکن کے گھر بلایا گیا۔ اجلاس میں ارنسٹ مینڈل اور ہوبرٹ کریوین نے شرکت کی۔ مینڈل اور کریوائن نے استفسار کیا کہ کیا میں منشیات کے استعمال اور فروخت سے تنظیم کو خطرے میں ڈال رہا ہوں۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ میں منشیات فروشی میں ملوث نہیں تو معاملہ بغیر کسی جھنجھلاہٹ یا تناؤ کے ختم ہو گیا۔

اس ملاقات کے لئے مینڈل اور کریوین نے مجھے ایک خفیہ مقام پر ملاقات کیلئے بلایااس وقت وہ ارجنٹینا میں PRT-ERPکی قیادت سے بات چیت کر رہے تھے۔ ادہر،جون1973ءمیں فرانس میں کمیونسٹ لیگ پر پابندی لگ گئی تھی۔اس کے علاوہ وہ فورتھ انٹرنیشنل کی بڑھوتری اور دیگر اہم مسائل میں الجھے ہوئے تھے۔ ایسے میں وہ وقت نکال کر مجھ سے پوچھ گچھ کے لئے کیسے پہنچے؟

میں اس کی وضاحت یوں کروں گا کہ میں 1972ءسے بلجیم حکام کے ریڈار پر تھا۔ اس کا براہ راست تعلق ’ایل آر ٹی‘کی قیادت میں میرے کردارسے تھا۔فروری1972ءمیں یونیورسٹی آف لیژکے اکیڈمک ہال میں منعقدہ ایک ایل آر ٹی کانفرنس کی میں نے صدارت کی، جس میں ہم نے آئرش ریپبلکن آرمی(آئی آر اے) کے نمائندے کو بھی بولنے کا موقع دیا، حالانکہ سوشلسٹ وزیر انصاف اور الفافونس فرانک نے ہمیں ایسا کرنے سے منع کیا تھا۔ ایل آر ٹی نے پانچ بڑے یونیورسٹی ٹاونز میں پا نچ اجلاس منعقد کئے اور ہر بار پولیس آئرش کامریڈ کو پکڑنے میں ناکام رہی، وہ اگلے دن دوسرے قصبے میں چلا جاتا۔ لیژمیں 500سے زیادہ افراد جلسے میں شامل تھے۔ پولیس نوجوانوں کے ہمارے گروپ سے خاص طور پر ناراض تھی، پولیس کی زبردست کوشش کے باوجود ہم نے آئرش کامریڈ کو گرفتار ہونے سے بچا لیا۔

مجھے ستمبر1972میں لیژمیں جوڈیشل پولیس میں طلب کیا گیا،اس وقت چند ہفتے قبل ہی میں 18سال کا ہوا تھا۔ مجھ سے ملاقات کرنے والے پراسیکیوٹر نے مجھے ایک نابالغ کے ساتھ زیادتی کا الزام لگانے کی دھمکی دی۔ یہ ایک آسان دعویٰ تھاکیونکہ میں اپنی عمر سے چند ماہ چھوٹی لڑکی سے ڈیٹنگ کر رہا تھا اور ہمارے جنسی تعلقات بھی تھے۔ جیسے ہی میں 18سال کا ہوا تھا۔ اٹھارہ سال کا ہوتے ہی مجھے ’آٹو میٹک انداز میں‘ ایک نابالغ کے ساتھ زیادتی کا مجرم سمجھا جا سکتا تھا، کیونکہ ایک نابالغ رضامندی نہیں دے سکتا۔

جب میں نے استفسار کیا تو افسر نے مجھے بتایا کہ پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر نے مجھے طلب کرنے اور میرے خلاف عصمت دری کا مقدمہ قائم کرنے کو کہا تھا، کیونکہ میں ایل آر ٹی کے پولیٹیکل بیورو اور بلجیم میں ’انٹرنیشنل ریڈ ایڈ‘ مینجمنٹ کا ممبر تھا،یہ دونوں تنظیمیں ریاست کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والی تنظیمیں قرار دی جا رہی تھی۔ افسر نے کہا کہ اگر میں ان دونوں تنظیموں کے بارے میں خفیہ معلومات فراہم کرنے میں تعاون کرتا ہوں تو ریپ الزام واپس لے لیا جائے گا۔ جب میں نے مخبر بننے سے انکار کیا تو وہ مشتعل ہو گیا، اس نے مجھے دھمکیاں دیں اور اگلے دن پولیس ہمارے بھائی کے گھر، پھر والدین کے گھر اور آخر میں ایک صحافی دوست کے گھر ہمیں ڈرانے کیلئے آئی۔ میں نے اس بارے میں 22ستمبر 1972کو اخبار ’لے گوش‘میں لکھا۔ میرا مضمون صفحہ تین پرشائع ہوا۔ میں نے اپنی پرائیویسی کی خلاف ورزی کی شکایت درج کروائی اور جوڈیشل پولیس نے دوبارہ کبھی طلب نہیں کیا۔ میرے وکلاء نے غلطی کی کہ مالی ہرجانے کا دعویٰ نہیں کیا۔ اس طرح سرکاری وکیل کے دفتر کو میری شکایت کو نظر انداز کرنے کی گنجائش مل گئی۔ میں 1972کے آخر سے1973کے آغاز میں، ایک بہت ہی طاقتور،ہائی سکول کے طلبہ کی، تحریک کا رہنما اور نمائندہ بن گیا تھا۔ پولیس کے مطابق1لاکھ60ہزار سیکنڈری سکول کے طلبہ نے ہڑتال کی اور ملک بھر میں مظاہرے کئے۔ یہ مظاہرے حکومت کی جانب سے 18سال کی عمر سے لازمی فوجی بھرتی کے خلاف تھے۔ بلجیم کے مظاہروں کے چند ماہ بعد اسی قسم کی کارروائی نے فرانس میں بھی ایک زبردست احتجاجی تحریک کو جنم دیا(جسے Anti-Debre Lawکی تحریک کہا جاتا ہے)۔

حکومت اور اس کے قومی دفاع کے وزیرنے ایل آر ٹی پر ہائی سکول کے طلبہ کو خراب کرنے کا الزام لگایا۔ ایل آر ٹی کے دیگر اراکین کے ساتھ تحریک میں میری شمولیت کے پیش نظر پولیس کی جانب سے مجھے تنگ کرنے کا سلسلہ مزید بڑھ گیا۔ 1973کے موسم بہار میں مجھے ایک دوست نے اطلاع دی کہ حکام مجھے منشیات فروخت کرنے پر گرفتار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس دوست نے مجھے بتایا کہ وہ پولیس کے مخبر کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ پولیس اسے میرے خلاف گواہی دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس نے مزید کہا کہ گرفتاریوں کے دوران پولیس نے منشیات کا استعمال کرتے ہوئے پکڑے گئے نوجوانوں کو میری تصویر پیش کی اور انہیں عارضی طور پر حراست میں لیا تاکہ وہ مجھ پر منشیات فروش ہونے کا الزام لگا سکیں۔ ایل آر ٹی کا ایک رکن ایک سماجی کارکن بھی تھا، جس نے جیل میں پوچھ گچھ کے عمل میں حصہ لیا۔ جب اس نے منشیات فروشوں کے درمیان میری تصویر دیکھی تو اسے یقین ہو گیا کہ میں تنظیم کو نقصان پہنچا رہا ہوں اور ممکنہ طور پر میں خود ایک ڈیلر ہوں۔ اس نے مجھے بتائے بغیر تنظیم کو معلومات بھیج دیں۔

یہی وجہ تھی کہ مجھے ارنسٹ مینڈل اور ہیوبرٹ کریوین کو رپورٹ کرنا پڑی۔ یہ اہم ہے کہ ارنسٹ اور ہیوبرٹ نے مجھ پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات کو دیکھتے ہوئے میرے ساتھ بہت ہی مہذب سلوک کیا۔ بعد میں، پولیس، خاص طور پر سیکیورٹی اینڈ ریسرچ بریگیڈ نے مجھے ایک مخبر بنانے کی ایک اور کوشش کی، جس میں مجھے ایل آر ٹی اور فورتھ انٹرنیشنل کی معلومات کے بدلے میں اپنے علاقے میں نیو نازی گروپوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی آفر کی گئی۔آخرکار انہوں نے ہار مان لی، لیکن میں ان کی نظروں میں رہا۔ اس کے بعد کے واقعات کا خلاصہ کرنے میں کافی وقت لگے گا۔

یاد رہے کہ سوشلسٹ وزیر انصاف الفانس کو ان ٹراٹسکیوں سے نفرت تھی، جنہیں 1965میں بلجیم کی سوشلسٹ پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ وہ سکیورٹی تعاون کو مضبوط بنانے کیلئے امریکہ کے دورے پر گئے تو نکسن انتظامیہ نے انہیں قائل کیا کہ فار لیفٹ کی تنظیمیں منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہیں۔

مینڈل کی شہرہ آفاق کتاب ’مارکسسٹ اکنامک تھیوری‘:

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ’مارکسسٹ اکنامک تھیوری‘مارکسی معیشت کے ان مقالوں کا متبادل فراہم کرتی ہے، جو اس زمانے کے مارکسسٹ یا کمیونسٹ مفکرین کے درمیان غالب تھے۔ یہ مقالے سیاسی معاشیات پر مضامین اور درسی کتابیں تھیں، جو سوویت یونین سے آئی تھیں، یا بیجنگ میں تیار کی گئی تھیں۔ وہ نظریہ اور طریقہ کار کے لحاظ سے کٹر اور ناقص فکر پر مبنی تھیں۔’مارکسسٹ اکنامک تھیوری‘1962-1963میں فرانسیسی زبان میں شائع ہوئی تھی۔

یہ کتاب ایک جینیاتی نقطہ نظر کی پیروی کرتے ہوئے انسانی تاریخ میں انسان تہذیب کے ابتدائی معلوم مراحل کے پس منظر میں یہ کھوج لگانے کی کوشش تھی کہ انسانی تعلقات کیسے ارتقاء پذیر ہوئے اور کس طرح مختلف معاشروں نے اپنی معیشتوں کو مختلف حصوں میں تعمیر کیا۔ تنقیدی مارکسسٹوں کیلئے یہ واضح ہے کہ ایسے 5یا 6مراحل نہیں ہیں، جن سے معاشرے گزرے ہیں۔قدیم کمیونزم سے لے کر غلامی پرعمل کرنے والے معاشروں تک، جاگیرداری سے چھوٹے پیمانے پر تجارتی پیداوار تک، سرمایہ داری اور آخر میں سوشلزم، حتیٰ کہ کمیونزم تک، ان مراحل کا یہ نظریہ جس سے تمام معاشرے گزرے ہیں، مارکس کیلئے اجنبی تھا۔ مینڈل نے بھی مارکسی نظرئیے کو آگے بڑھایا۔

یہ بات مارکس کے 1850-1860تک کے کاموں (گرنڈریز اور دیگر تحریروں)اور خاص طور پر 1881میں وِیرا زاسولچ(Vera Zasulich)کے ساتھ مارکس کی خط و کتاب سے واضح ہے۔

ارنسٹ مینڈل کے عہد تک جو مارکسزم رائج تھا، مینڈل کی اس کتاب نے اس سے خوب کشید کیا۔ ظاہر ہے کہ وہ اکیلا نہیں تھا، لیکن ایسے لوگ بہت زیادہ نہیں تھے، جنہوں نے یہی انداز اپنایا۔اس طریقہ کار کی وجہ سے پوری نسل پر اسکا زبردست اثرہوا۔ یہ نسل1963-1964سے 1968کے دورمیں سامنے آئی۔ یہ مجھ سے پہلے کی نسل تھی۔ میں خود بھی68کی نسل سے تعلق رکھتا ہوں اور ہم اس قدر خوش قسمت تھے کہ ہم نے انقلاب کو ایجنڈے پر واپس لانے والی زبردست تحریک کا تجربہ کیا۔

ہماری نسل، اپنے پیشرولوگوں کی طرح، مارکسزم میں غوطہ زن ہو گئی تاکہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، اسے سمجھنے کی کوشش کریں، سرمایہ داری کو ختم کریں اور ہر قسم کے جبر سے پاک معاشرے کی تعمیر کریں۔ سرمایہ داری کو تباہ کرنے کیلئے آپ کو یہ جاننے کی کی ضرورت ہے کہ یہ کام کیسے کرتی ہے۔ اس مقصد کیلئے ارنسٹ مینڈل بہت سے کارکنوں کیلئے ایک طاقتور معاون تھے۔ ان کی کتاب’مارکسسٹ اکنامک تھیوری‘اپنی چوتھی جلد میں ایسے معاشروں کا تجزیہ کرتی ہے جو سرمایہ داری سے سوشلزم کی جانب سفر کر رہے تھے۔ انہوں نے حقیقی سوشلزم اور سوویت یونین اور مشرقی یورپ جیسے معاشروں کی حقیقت کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی کہ کس طرح سوشلزم کی طرف منتقل ہونے والے معاشروں میں،افسرشاہی آمریت میں انحطاط پذیر ہونے کے باوجود، سرمایہ داری بحال نہیں ہوئی۔

تیسری جلد میں مینڈل یہ بتانے میں کامیاب ہوئے کہ 1950-1960میں سرمایہ دارانہ معاشرہ کیسا تھا۔ یہ وہ معاشرہ تھا، جو دوسری جنگ عظیم کے بعد آنے والے معاشی عروج کا نتیجہ تھا۔ اسے فرانسیسی زبان میں ’30شاندار سال‘کہا جاتا ہے۔ مینڈل جنگ کے بعد کے سرمایہ دارانہ معاشرے کی خصوصیات اور تضادات کو یہ ظاہر کرنے کیلئے بیان کرتے ہیں کہ بحران ہمیشہ سرمایہ دارانہ سماج کا مستقل پہلو رہا ہے، جس کیلئے سرمایہ داری کو پس پشت ڈال کر ایک انقلابی حل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ مینڈل کی کتاب ’مارکسسٹ اکنامک تھیوری‘ کے بارے میں مزید معلومات کیلئے جان ولیم سٹٹجی(Jan Willem Stutje)کی تحریر کردہ مینڈل کی سوانح عمری Ernest Mandel: A Rebel’s Dream Deferredکے باب5کو پڑھا جا سکتا ہے۔

جب میں 1971میں ارنسٹ مینڈل سے پہلی بار ملا تھا تو وہ بلجیم کی ریوولوشنری ورکرز لیگ (ایل آر ٹی) کے ایک سرکردہ رکن تھے۔ وہ فری یونیورسٹی آف برلن میں پڑھاتے تھے، جہاں وہ ہفتے میں ایک بار1000طلبہ کو لیکچر دینے جاتے تھے۔ انہوں نے حال یہی میں،اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ ختم کیا تھا، جو انہوں نے جرمن زبان میں لکھا اور اس کا دفاع کیا۔ مجھے ان کا جوش و خروش اچھی طرح یاد ہے، جب انہوں نے 1971کے موسم گرما میں ایل آر ٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں اسکا اعلان کیا تھا۔ یہ مقالے 1975میں ’لیٹ کیپیٹلزم‘(Late Capitalism)کے عنوان سے انگریزی میں کتاب کی شکل میں شائع ہوا۔ اس کتاب کا جرمن ایڈیشن 1972میں شائع ہوا۔ ان دنوں ارنسٹ مینڈل اپنی فکری طاقت کے عروج پر تھے۔ بے سمار لوگ ان سے رابطے میں تھے۔ بالکل واضح سی بات ہے کہ وہ انتھک محنت کرتے۔ وہ فری یونیورسٹی آف برسلز کے فلیمش بولنے والے سیکشن میں سیاست کے پروفیسر بھی تھے۔ وہ روزانہ کئی گھنٹے پڑھنے، لکھنے اور اپنی ملیٹنٹ سرگرمیوں کو انجام دینے میں لگے رہتے تھے۔

ارنسٹ مینڈل کا ٹریڈ یونینوں پر اثر و رسوخ:

ارنسٹ مینڈل کا اثر و رسوخ ٹریڈ یونینز، محنت کش طبقے، طلبہ اور نوجوانوں میں موجود تھا۔ بلجیم میں خاص طور پر وہ 1950کی دہائی سے مزدوروں میں مشہور تھے جہاں انہیں آندت خینا (Andre Renard)کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ خینا بلجئین ٹریڈ یونین تحریک کے ریڈیکل ونگ میں مرکزی ٹریڈ یونین لیڈر تھے۔ یہاں سوشلسٹ، کمیونسٹ اور ٹراٹسکی اسٹ۔۔۔سب نظریاتی دھڑے پائے جاتے تھے۔ یہ جنرل لیبر فیڈریشن آف بلجیم (FGTB) تھی، جس کے ایک ملین سے زیادہ اراکین تھے۔ 1954اور1956میں ’ہولڈنگز اور اکنامک ڈیموکریسی‘ کے موضوع پر دو کانفرنسیں منعقد ہوئیں، جن میں سرمایہ داری مخالف سٹرکچرل اصلاحات کا خیال متعارف کروایا گیا۔ مینڈل ان کے محرکین میں سے ایک تھے۔ انہوں نے آندرے خیناکیلئے بہت ساری دستاویزات لکھیں۔مینڈل کوفیکٹریوں، ٹریڈ یونین سیکشنز اور ٹریڈ یونین کانفرنسوں میں حصہ لینے کیلئے اکثر مدعو کیا جاتا۔ ان کے پاس بظاہر پیچیدہ مسائل کو عام فہم انداز میں بیان کرنے کی غیر معمولی صلاحیت تھی۔ وہ اپنے سامعین کو یہ سمجھانے میں بھی ماہر تھے کہ انہیں جمود کوختم کرنے کیلئے کیسے کام کرنا ہوگا۔

اس لئے وہ اکثر مثالیں دیتے کہ ٹریڈ یونین ملٹی نیشنل کارپوریشن کے اندر کیسے لڑ سکتی ہے، دوسری فیکٹری کے مزدوروں کے ساتھ کیا رابطے کئے جا سکتے ہیں، مذاکرات کیسے کئے جائیں، کارروائیوں کو انجام دینے میں متحد ہونے کی کوشش کیسے کی جائے۔ سیلف گورننس اور کارکنوں کا کنٹرول اس لڑائی میں مرکزی عناصر تھے۔ گویاارنسٹ مینڈل کیلئے یہ محض بتانا ہی اہم نہیں تھا کہ سرمایہ داری کس طرح کام کرتی ہے بلکہ ٹھوس مثالوں اور جدوجہد کے ذریعے یہ دکھانا بھی اہم تھا کہ مزدور کس طرح اس قابل ہو سکتے ہیں کہ وہ ایسے سب کام کر سکیں، جو عمومی طور پر مالکان کرتے ہیں۔خاص طور پر اکاؤنٹس سنبھالنا، کام کے اوقات کا جائزہ لینا، کام کے اوقات میں کمی کرنا اور جب ہڑتال کی کارروائی کا سہارا لیا جائے تو ہڑتال کو اس طرح سے منظم کرنا کہ اسے مالکان سے جلد از جلد مراعات حاصل کرنے کیلئے سب سے زیادہ موثر بنایا جا سکے۔

ہڑتال پھیل سکتی ہے اور کارکنوں کو اہم حقوق حاصل کرنے کے قابل بنا سکتی ہے، لیکن یہ عام ہڑتال یا بغاوت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ اس لئے مینڈل نے مزدوروں کی اسمبلیوں میں ایسے موضوعات پر بات کی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے قدرتی طور پر ایل آر ٹی اور فورتھ انٹرنیشنل کے سیکشنز کے اندر سرمایہ دار مخالف جفا کش اور انقلابی کارکنوں کیلئے تربیتی کورسز بھی چلائے۔ وہ ایک پرجوش رابطہ کار اور اعلیٰ درجے کے انسٹرکٹر تھے۔ میں نے مینڈل کے تحت متعدد تربیتی کورسز میں شرکت کی اور انہوں نے مجھے بھی ایک انسٹرکٹر بننے کے قابل بنایا۔ آج بھی بہت سے کارکنوں کو ان کی تعلیمات یاد ہوں گی، انہوں نے جرمن انقلاب اور روسی انقلاب کے بارے میں جو کورسز دیئے تھے، خاص طور پر اس پر کہ ایک عام ہڑتال کیا ہے ا ور کس طرح ایک عام ہڑتال سے قبضے کے ساتھ ایک فعال ہڑتال کی طرف جانا ہے۔

ایک عام ہڑتال تھی جس کے نتیجے میں فرانس اور اٹلی میں، مئی 1968 میں،مزدور طاقت کا اظہار کرنے والی کی تنظیمیں سامنے آئیں اور ان کی بناید یہ تھی کہ ان دو ملکوں میں سب سے زیادہ ریڈیکل اقدامات ہوئے۔ اسی طرح، 1920-21میں اطالوی ورکرز کونسلوں کا قیام ہوا۔1918-19میں ہنگری کی کونسلیں سامنے آئیں۔یقیناانقلاب روس کی سوویتوں کے تجربات بھی اس سلسلے کی کڑی ہیں۔ 1936سے1938-39کے ہسپتانوی انقلاب میں مزدوروں اور کسانوں کی عوامی طاقت کی تنظیمیں قائم ہوئیں۔ مینڈل نہ صرف19ویں صدی کی آزادی کی جدوجہد کی تاریخ سے بلکہ پوری دنیا میں انسانیت کی طویل تاریخ سے بخوبی واقف تھے۔ ان کے پاس گہرا علم اور فہم تھا اور نوجوان نسل تک اس تمام تر تجربہ کو بہترین طریقے سے منتقل کرنے کی خواہش بھی تھی۔

ٹریڈ یونین ازم پر مینڈل کی تحریریں:

ارنسٹ مینڈل مسلسل جاری جدوجہد پر توجہ دے رہے تھے، خواہ ان کے اپنے ملک بلجیم میں مزدوروں کی تحریک ہو، باقی یورپ میں عام طور پر یا پوری دنیا میں کوئی تحریک ہو، انہوں نے ان سب میں شرکت کی۔انہوں نے سوشلسٹ پارٹی کے بائیں جانب موجود، دوسرے سرمایہ دار ی مخالف ملیٹنٹوں کے ساتھ مل کر قائم کئے گئے ہفت روزہ اخبار میں بہت زیادہ مضامین شائع کئے۔ یہ ’دی لیفٹ‘تھا، جس کی بنیاد انہوں نے 1956میں مذکورہ ٹریڈ یونینسٹ آندرے خیناکے تعاون سے رکھی تھی۔ بعد ازاں،خیناکے ساتھ تعلقات تیزی سے کشیدہ ہوتے گئے، کیونکہ خینانے معتدل موقف اپنانا شروع کر دیا۔ ’دی لیفٹ‘ کا ایک فلیمش ورژن (لنک)بھی تھا، مینڈل نے اس میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے سینکڑوں مضامین لکھے اور دیگر زبانوں کے متعدد جرائد، اخبارات، رسائل میں شائع کئے۔ یہ مضامین ٹریڈ رہنماوں اور اکیڈیمکس نے بھی پڑھے۔بلجیم میں انہوں نے ٹریڈ یونین ایف جی بی ٹی (FGTB)کے لئے بلجیم میں سرمایہ داری کے ڈھانچے اور بڑی سرمایہ دار کمپنیوں سے متعلق ایک سیریز اور خاص طور پر ہولڈنگ کمپنیوں کے بلجیم کی معیشت پر کنٹرول کے بارے میں اہم رپورٹیں تیار کیں۔

انہوں نے تقریباً60صفحات پر مشتمل ایک پمفلٹ تیار کیا، جو میرے خیال میں بہت اہم ہے۔ یہ ’سوشلزم تھرو ایکشن‘ تھا، جس پر آندرے خینا کا نام بھی موجود تھا۔ اس کی دسیوں ہزار بلکہ شاید لاکھوں کاپیاں تقسیم کی گئیں۔ اسے بلجیم میں یونین کے دسیوں ہزار مندوبین نے پڑھا اور 1950کی دہائی کے دوسرے نصف میں اس پمفلٹ کا ان پر زبردست اثر ہوا۔

یاد رہے کہ اس وقت بلجیم میں کئی بڑی ہڑتالیں ہوئیں۔ سب سے پہلے دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی قبضے کے خلاف متعدد فیکٹریوں میں ہڑتالیں اور مزاحمتیں ہوئیں، جن میں ایک کم عمر ارنسٹ مینڈل نے حصہ لیا تھا(درحقیقت انہیں نازی حکام نے تین بار گرفتار کیا اور دو بار وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوئے)۔ اس کے بعد 1950میں بلجئیم میں بادشایت کے خاتمے اور جمہوریہ کے قیام کیلئے عام ہڑتال ہوئی۔ 1950کی دہائی میں کان کنوں کی ایک بڑی ہڑتال بھی ہوئی، جس میں کانوں کو قومیانے کا مطالبہ کیا گیا۔ سال بعد، ایک اضافی تنخواہ کے لئے اسٹیل اور دھات کے شعبے میں کام کرنے والے محنت کشوں کی ایک بہت بڑی ہڑتال بھی ہوئی۔ 10ملین کی آبادی والے ملک میں 1960-61کے موسم سرما میں ایک عام ہڑتال ہوئی، جس میں 10لاکھ سے زائد مزدور ہڑتال پر تھے۔ مینڈل کا بہترین جوہران ہڑتالوں میں سامنے آیا۔ مزدوروں کی تحریک سے ان کے تعلقات مزید گہرے ہوتے گئے۔ ان کی ترجیحات میں سے ایک سیلف آرگنائزیشن کی طرف مزدوروں کو مائل کرناتھا۔

مینڈل نے ایکٹوازم کے 30سال مشکل حالات میں گزارے۔ تاہم 60کی دہائی کے دوسرے نصف میں پورے یورپ میں نوجوانوں اور محنت کش طبقات میں گہری ریڈیکلائزیشن آئی، اور 1971میں فورتھ انٹرنیشنل کے نئے بلجیم سیکشن ’ایل آر ٹی‘کی بنیادڈالی گئی، جو فیکٹریوں میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتی تھی۔ اس اقدامات کے بعدارنسٹ مینڈل کو لگا کہ کہ ان کے نظریات بلجیم کے کئی بڑے کارخانوں، خاص طور پرلیژ میں کاکرل سٹیل ورکرزاور گِلی(Gilly)میں Glaverbelفیکٹری، یا شارلیروئے(Charleroi)کے علاقے میں شیشے کے پلانٹ کے مزدوروں میں اثر دکھا رہے ہیں۔

مینڈل اور نوجوانوں کی تحریک:

میں نے 1950-1960کے درمیان بلجیم میں محنت کش طبقے پر مینڈل کے اثرات کا ذکر کیا ہے۔ یہ اثر دوسرے ملکوں میں پھیل گیا تھا، کیونکہ جفاکش کارکنوں، ٹریڈ یونین کے مندوبین اور رہنماؤں نے اس وقت فرانس، اٹلی، جرمنی، برطانیہ اور پھر بعد میں اسپین اور پرتگال میں ان کی تجاویز پر توجہ دینا شروع کر دیا تھا۔ جرمنی میں سرمایہ داری مخالف اور انٹرنیشنل اسٹ رجحان رکھنے والی طلبہ تنظیم ’جرمن سوشلسٹ سٹوڈنٹس یونین (SDS)‘ بھی ان سے متاثر ہوئی۔اس تحریک کے قائدین میں سے ایک رُڈی ڈوٹشک تھے، جن کے ساتھ وہ 1966-67سے، یعنی مئی 68ء سے پہلے تک قریبی رابطے میں تھے۔ 1966میں مینڈل نے طلبہ تحریک کی رہنما گزیلا شلز سے شادی کی۔ یقینا اُن کا اثر نوجوان فرانسیسی ٹراٹسکی اسٹوں پر بھی تھا۔ ان میں جڑواں بھا ئی ایلین کریوین اور ہوبرٹ کریوین کے علاوہ دانیال بن سعید، ہنری ویبر، پئیر روزے، جنیت ہابل، کیتھرین سماری، جوزے ترات اور ان کی جڑواں بہن جنین شامل ہیں۔ ان سب نے فرانس میں یونین آف کمیونسٹ سٹوڈنٹس (UEC) سے نکالے جانے کے بعد مل کر’ریوولوشنری کمیونسٹ یوتھ موومنٹ(JCR)‘کی بنیاد رکھی تھی۔ ان کا بلجیم میں ریڈیکل طلبہ اور نوجوانوں پر بھی اثر و رسوخ تھا، ان میں سے کچھ نے ینگ سوشلسٹ گارڈ(JGS) میں شمولیت اختیار کی تھی،یا اس کی قیادت کی تھی، جو سوشلسٹ کنفیڈریشن آف ورکرز (CST)کے ساتھ ضم ہو کر مئی 1971میں ایل آر ٹی تشکیل دے چکے تھے۔

جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا گیا ہے کہ1971میں فری یونیورسٹی آف برلن میں ڈاکٹریٹ مکمل کرنے کے بعد مینڈل فری یونیورسٹی آف برسلز میں فلیمش بولنے والے شعبے میں پروفیسر بن گئے تھے، جسے فری یونیورسٹی آف برسلز(Vrige Universiteit Brussel)کہا جاتا ہے۔ جس وقت میں لیژ میں مقیم تھا، تب طلبہ تحریک اور ترقی پسند مارکسی لیکچررز کے دباؤ میں مینڈل کو1972-73-74میں یونیورسٹی آف لیژمیں مارکسی معاشیات پر لیکچر ز کیلئے مدعو کیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب میں نے اپنی نسل کے دیگر طلبہ کے ہمراہ،ایک طالب علم کے طور پر داخلہ لیا تھا۔ ان طلبہ میں،بین الاقوامی سطح پر شہرت یافتہ فلم ساز بننے والے دردین (Dardenne Brothers) میں سے ایک لوک(Luc)بھی شامل تھے۔ انہوں نے کان فلم سیدٹیول میں دو مرتبہ Palme d’Orایوارڈ جیتا۔ایک بار فلم انہوں نے Rosettaکیلئے ایوارڈ جیتا۔ لوک دردین اور میں نے یونیورسٹی آف لیژمیں ارنسٹ مینڈل کی کلاسوں میں ایک ساتھ شرکت کی۔

ارنسٹ مینڈل کی لیکچر ہالز میں ہم عصرمارکسی دانشوروں کے ساتھ مزاکرے:

اگر یہ بات اہم ہے کہ 1967سے لے کر 1970کی دہائی کے آخر تک ارنسٹ مینڈل کی ترریروں کا بہت بڑا اثر ہوا، تو اسی عرصہ میں ان کی تحریروں کے اثرات بھی کم اہم نہیں۔ انہوں نے پیری اینڈرسن، ارنسٹ بلوخ، ہربرٹ مارکوزے، رومن راسڈولسکی، لوسین گولڈمار اور دیگر بڑے مارکسی سکالروں کے ساتھ عوامی فورمز پر مباحث کئے۔ ان عوامی مباحثوں میں فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی کے عظیم مورخین، ماہرین اقتصادیات اور فلسفیوں۔۔۔مثلاََ لوئی التھوسر، ژاں ایلنستین اور شارلز بیتلہیم۔۔۔کے ساتھ بھی بحث کی۔

بعض ایسے اجلاس، جن میں مینڈل کی شرکت کا پہلے سے اعلان کیا گیا ہوتا تھا، ان میں 1ہزار سے 3ہزار کے درمیان لوگ موجود ہوتے تھے۔ 1967سے1970کی دہائی کے آخر تک یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔ 1967-68میں جرمنی میں بھی ایسا ہی ہوا۔جرمنی میں ایک بار پھر بڑے پیمانے پر، 1988-89میں، گریگور گیسی (Gregor Gysi)جیسے تنقیدی کمیونسٹ رہنماؤں کے ساتھ مباحثوں میں 3سے 4ہزار لوگوں نے برلن میں شرکت کی۔ مئی 1968میں انہوں نے 9مئی کو پیرس میں، ’نائٹ آف بیری کیڈز‘ کے دوران جے سی آر کے زیر اہتمام ہونے والے ایک اجلاس سے خطاب کیا، جس میں 2500سامعین موجود تھے۔ 1971میں انہوں نے پیرس کمیون کی صد سالہ یادگاری تقریب میں پر لاشیز (Pere Lachaise)قبرستان کے قریب خطاب کیا، جہاں 15سے20ہزار کے درمیان لوگ موجود تھے۔ 1974-75میں ’کارنیشن انقلاب‘کے فوری بعد پرتگال میں 2ہزار سے2500سامعین کے سامنے خطان کیا۔فرانکو ازم کے زوال پر سپین میں میٹنگزمیں 2سے3ہزار لوگ شریک ہوئے۔فورتھ انٹرنیشنل کا ایک بڑا یورپی اجلاس، نومبر 1970میں فری یونیورسٹی آف برسلز میں ہوا جس کا پہلے بھی ذکر آیا، اس میں 3500شرکاء کے ساتھ خطاب کیا۔

اس طرح مینڈل کو ریڈیکل تحریک کے ہراول میں بڑا عوامی خطیب سمجھا جاتا تھا، جو طلبہ اور محنت کشوں کو ایک ساتھ مخاطب کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ وہ جرمن، فرانسیسی، انگریزی، فلیمش/ڈچ زبانوں میں بڑی آسانی سے اظہار خیال کرتے۔ سپین اور لاطینی امریکہ میں ہسپانوی زبان میں تقریر کرتے، برتگال میں پرتونول(پرتگالی اور ہسپانوی کا مرکب) میں اور اٹلی میں اطالوی زبان میں گفتگو کرنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ انہوں نے تجزیہ کی غیر معمولی صلاحیتوں کو اپنی عوامی گفتگو، پیغامات، توانائی کے ذریعے اپنی بات آگے پہنچائی۔ سرمایہ داری مخالفت، بین الاقوامیت اور آزادی وانقلاب ان کے پیغام کا مستقل مدعا تھے۔


فورتھ انٹرنیشنل:

ارنسٹ مینڈل نے دوسری عالمی جنگ سے ٹھیک پہلے 1939میں 16سال کی عمر میں فورتھ انٹرنیشنل میں شمولیت اختیار کی۔ وہ بلجئیم پر جرمن قبضے کے آغاز سے ہی بلجئین مزاحمت میں شامل ہوئے اور نازیوں کے ہاتھوں تین بار گرفتار ہوئے۔

دوسری گرفتاری اس وقت ہوئی، جب وہ 29مارچ1944کو لیژمیں اسٹیل ورکرز میں پمفلٹ بانٹ رہے تھے۔ انہیں جرمن فوج نے گرفتار کیا، لیژمیں سینٹ لیونارڈ کی جیل میں مقدمہ چلایا گیا اور سالوں پر مبنی جبری مشقت کی سزا سنائی گئی۔ وہ خوش قسمت تھے کہ گسٹاپو کی بجائے جرمن فوج نے سیاست کے الزام میں ان پر مقدمہ چلایا۔ اگر گسٹاپو پکڑتی تو اکسٹرمینیشن کیمپ بھیج دیا جاتا، یا فوراً پھانسی دے دی جاتی۔ جون1944کے اوائل میں انہیں جرمنی جلاوطن کر دیا گیا۔ وہ پہلے ایک کیمپ سے فرار ہوگئے۔ وہ جیل کے دو محافظوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی صلاحیت کی بدولت فرار ہو سکے۔ان دو محافظوں میں سے ایک سوشلسٹ پارٹی کا سابق رکن تھا اور دوسرا کمیونسٹ پارٹی کا رکن تھا۔ مینڈل کو جلد ہی دوبارہ پکڑ لیا گیا اور مختلف کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا۔ مجموعی طو رپر انہیں نازی جرمنی کے 6کیمپوں میں یکے بعد دیگرے قید کیا گیا۔

انہیں مارچ 1945میں امریکی فوج نے اس کیمپ سے آزاد کروایا، جہاں وہ اس وقت تھے۔ جن کیمپوں میں انہیں رکھا گیا تھا، وہ جرمن آرکائیوز میں درج ہیں اور جان ولیم سٹٹجی کی لکھی سوانح عمری میں بھی اس کا حوالہ دیا گیا ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد ارنسٹ مینڈل فورتھ انٹرنیشنل کے رہنما بن گئے۔ انہوں نے قبضے کے دوران اور اپنی دوسری گرفتاری سے پہلے فورتھ انٹرنیشنل کو دوبارہ منظم کرنے کیلئے پہلی خفیہ یورپی کانفرنس میں حصہ لیا تھا۔ فروری1944میں، بلجئین آرڈین (Belgian Ardennes)کے سینٹ ہیوبرٹ میں، ایک فارم میں بلجیم اور فرانس کے فورتھ انٹرنیشنل کے مندوبین کا اجلاس ہوا تھا۔ رہائی کے بعد، مینڈل نے فورتھ انٹرنیشنل کے احیاء میں حصہ لیا۔ وہ مائیکل باپلوکے علاوہ،فورتھ انٹرنیشنل کے اہم ترین رہنماؤں میں سے ایک بن گئے۔ رہائی کے وقت ان کی عمر 23سال تھی۔ 1940-50کے دوران 1960کی دہائی کے اوائل تک فورتھ انٹرنیشنل کے رہنما کے طور پر ان کا کردار بہت اہم اور دانشمندانہ تھا۔ وہ اپنی کتاب ’مارکسسٹ اکنامک تھیوری‘کی اشاعت سے ایک مارکسی ماہر معاشیات کے طور پر جانے جاتے تھے۔وہ بلجیم کے فرانسیسی زبان کے ہفت روزہ ’دی لیفٹ‘کے بانی تھے۔وہ سوشلسٹ روزنامہ ’دی پیپل‘ (Le Peuple)کے ساتھ بطور صحافی منسلک ہوئے اور Lلیژ میں ’ایف جی بی ٹی‘ ٹریڈ یونین کے روزنامہ لی والونی(La Walloni)کے ساتھ بھی منسلک ایک صحافی بن گئے۔

1960کی دہائی کے وسط میں اور مئی68کے فوراًبعد بلجیم کی سوشلسٹ پورٹی سے نکالے جانے کے بعد وہ فورتھ انٹرنیشنل کے رہنما کے طور پر عوام میں نمودار ہوئے۔ بین الاقوامی طلبہ اور محنت کشوں کی انقلابی تحریک میں ان کے کردار کے نتیجے میں فوری طور پر مختلف حکومتوں کی جانب سے انہیں کئی ملکوں میں داخلے پر پابندی لگ گئی۔ پابندی لگانے والوں میں فرانسیسی حکومت بھی شامل تھی۔امریکی حکومت، سوئس، جرمن اور آسٹریلوی حکومتوں نے بھی داخلے پر پابندی لگا دی۔

جرمنی میں بھی داخلے پر پابندی لگی جو کسی سکینڈل سے کم نہ تھی کیونکہ انہوں نے نازی ازم کے خلاف مزاحمت کی تھی اور انہیں جنگ کے بعد قائم ہونے والی جرمن حکومت نے نازی مخالف مزاحمت میں حصہ لینے پر میڈل سے نوازا تھا۔ مینڈل نے جرمنی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔

جرمن نازی مخالف دانشوروں کے احتجاج اور طلبہ تحریک کی جانب سے پابندی ہٹانے کا مطالبہ کرنے کے باوجود مینڈل کو جرمن سرزمین تک رسائی دینے سے انکار کر دیا گیا۔ درحقیقت مجھے یاد ہے کہ جب سوشلسٹ چانسلر ہلمٹ شمڈنے یونیورسٹی کا دورہ کیا تو ارنسٹ مینڈل نے مجھے لیژ یونیورسٹی میں اس پابندی پر آواز اٹھانے کے لئے کہا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں جرمن سرزمین پر پابندی کے خلاف عوامی احتجاج کروں۔ پابندیوں نے انہیں سرحد پار کرنے سے نہیں روکا۔ انہوں نے بہت زیادہ سفر کیا اور خاص طور پر فرانس میں داخلے پر پابندی کے باوجود انہوں نے مسلسل سرحد عبور کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

مجھے واضح طور پر یاد ہے کہ مئی 1971میں پیرس کمیون کی یاد میں کمیونسٹ لیگ اور ورکرز سٹریگل کی دعوت پر ارنسٹ مینڈل کی پیرس آمد پر ہزاروں فرانسیسی مظاہرین موجود تھے۔ 10سے15ہزار مظاہرین تو تھے جب ہوبرٹ کریوین کی موٹر بائیک کی پچھلی نشست پر بیٹھ کر ارنسٹ مینڈل خطاب کرنے کیلئے پہنچے تھے۔

کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا رہا کہ فرانسیسی حکام نے انہیں گرفتار کیا اور وہ واپس بلجیم آگئے۔ ایک مرتبہ پر چارلز ڈیگال ایئرپورٹ پر پہنچنے کے بعد انہیں واپس بلجیم بھیج دیا گیا، لیکن اسی روز برسلز کے ایک ساتھی نے انہیں ایک محتاط راستے سے واپس پیرس پہنچا دیا۔

نوٹ: مضمون کے اگلے حصے میں ارنسٹ مینڈل، کیوبا کے انقلاب اور چی گویرا پر بات کی جائے گی۔

(مدیر جدوجہد: ایرک توساں نے ہنوز اگلا حصہ شائع نہیں کیا۔ جوں ہی اگلا حصہ شائع ہو گا، اردو ترجمہ پیش کر دیا جائے گا)

Roznama Jeddojehad
+ posts