نقطہ نظر

مارکس، ماریہ چرچ اور مزدور


Warning: Undefined array key 3 in /home2/jeddojeh/public_html/wp-content/plugins/tiled-gallery-carousel-without-jetpack/tiled-gallery.php on line 563

Warning: Attempt to read property "ratio" on null in /home2/jeddojeh/public_html/wp-content/plugins/tiled-gallery-carousel-without-jetpack/tiled-gallery.php on line 563

فاروق سلہریا

مندجہ بالا البم ماریہ چرچ کی تصاویر پر مبنی ہے۔ سٹاک ہولم کے علاقے سگتونا میں واقع یہ چرچ لگ بھگ آٹھ سو سال پرانا ہے۔گذشتہ دنوں اس چرچ کے پاس سے گزرا تو دیکھا مزدور اس کی چھت مرمت کر رہے تھے۔ جس طرح کی چھتیں یورپی عمارات کی ہوتی ہیں، ان پر پاوں ٹکا کر مزدوری کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ اگر برف پڑی ہو تو گرنا یقینی سمجھیں۔

ماریہ چرچ کی مرمت کرنے والے مزدوروں نے اپنی حفاظت کے لئے ایک انوکھا طریقہ دریافت کیا ہوا تھا۔ خود کو موٹے رسوں سے باندھ کر انہوں نے رسوں کے دوسرے سرے چرچ کی دوسری جانب کھڑی اپنی گاڑی سے باندھ دئیے تھے۔ البم دیکھنے سے میری بات کی صحیح وضاحت ہو سکے گی(کہا جاتا ہے کہ جنگ میں فوجی افسروں نے ملٹری اکیڈمی میں جو پڑھا ہوتا ہے،بے کار جاتا ہے البتہٰ سپاہی بہترین دفاعی حکمت عملی خود سے ترتیب دیتے ہیں کیونکہ انہیں جان دینا یا بچانا ہوتی ہے)۔

سٹاک ہولم قیام کے دوران میرا اس چرچ کے سامنے سے روز گزر ہوتا ہے۔ ہر بار اِس کے سامنے سے گزرتے ہوئے بلا مبالغہ میں ’اَے تھنگ آف بیوٹی اِز اَے جائے فار ایور۔۔۔‘ زیر لب دہراتا ہوں۔

دو ہفتے قبل البتہٰ مزدوروں کو اس کی چھت مرمت کرتے دیکھتا تو مجھے کارل مارکس کی پسندیدہ کہانی یاد آتی۔

کہتے ہیں کہ ایک فلسفی کشتی میں بیٹھا دریا پار جا رہا تھا۔ فلسفی نے ملاح سے پوچھا: کیا تم نے زندگی میں کبھی فلسفہ سیکھا؟ ملاح نے نفی میں سر ہلایا۔ فلسفی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ملاح سے کہا: تو سمجھو پھر تم نے اپنی آدھی زندگی ضائع کر دی۔

تھوڑی دیر بعد دریا میں طغیانی آ گئی۔ کشتی ہچکولے کھانے لگی۔ ملاح نے فلسفی سے پوچھا: کیا تم نے زندگی میں کبھی تیرنا سیکھا؟ فلسفی نے نفی میں سر ہلایا۔ ملاح نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: تو سمجھوپھرآج تم نے اپنی پوری زندگی ضائع کر دی۔

مزدوروں کو دیکھ کر مجھے مارکس کی پسندیدہ کہانی اس لئے یاد آتی رہی کہ ا یک زمانے تک ا س چرچ میں غریبوں کا داخلہ منع ہوتا تھا۔ غریب چرچ کے سامنے جمع ہو جاتے۔ چرچ کا ایک ملازم،تصویر میں نظر آنے والی،کھڑکی میں کھڑا ہو کر مقدس پادری کا خطبہ دہرا تا جاتا کہ ان دنوں اسپیکر تو تھے نہیں۔

جتنے دن مزدور اس چرچ کی چھت مرمت کرتے رہے، میں چرچ کے سامنے سے گزرتے ہوئے سوچتا کہ اگر مزدور مقدس عبادت گاہوں کی چھتیں مرمت نہ کریں تو کتنے ہی مقدس پادری اپنی پوری پوری زندگیاں ضائع کر بیٹھیں۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔