فاروق سلہریا
سوشلزم کی طرح،فیمن ازم کا مطلب بھی ہے مزاحمت، قربانی، جدوجہد۔ پاکستان اور ہندوستان جیسے ممالک میں تو لبرل ہونا بھی جان جوکھوں کا کام ہے۔ فیمن ازم تنظیم کا تقاضا کر تی ہے۔ تنظیم سازی کے لئے پیسے اور وقت کی قربانی درکار ہوتی ہے۔ ہم یہ توقع تو نہیں رکھتے کہ تنظیم کا ہر رکن ریڈ روزا (Red Rosa)یا ایما گولڈ مین (Emma Goldman)کی طرح جان کی بازی لگانے پر تیار ہو لیکن ایک بنیادی کمٹ منٹ اور مزاحمت تو اس تحریک کے ہر رکن پر فرض ہے۔ وائے افسوس فیمن ازم کی ایسی نسلیں بھی پائی جاتی ہیں جنہیں میں انگریزی میں feminism of conveniece قرار دیتاہوں۔ تن آسان فیمن ازم۔ چاکلیٹی فیمن ازم۔ سوشل میڈیا کی بگڑی زبان میں: ہومیو پیتھک فیمن ازم۔
اس نوع کی فیمن ازم کا ایک مظاہرہ بعض مغربی ممالک میں پنک شاپنگ (pink shopping) یا آن لائن شاپنگ کی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ آپ سات ڈالر کی چیز دس ڈالر میں خریدتے ہیں، تین اضافی ڈالر کمپنی عورتوں کی بہبود کے لئے، مثلاََ افریقہ میں کہیں خواتین کے ٹائلٹ بنوانے پر خرچ کرے گی۔ اربوں ڈالر کمانے والی کمپنی خود کو فیمن اسٹ بھی ثابت کر لے گی (جو ایک اچھی مارکیٹنگ سٹریٹجی ہے)اور جیب سے ایک ڈالر تک خرچ نہیں کرے گی۔ ادہر، کمپنی کے گاہک کا ضمیر بھی مطمئن رہے گا۔ ایک فیل گڈ فیکٹر کی مدد سے کنزیومر ازم کا گھناونا عمل حلا ل بن جائے گا۔
کنزیومر ازم سے مراد ہوتی ہے ایسی اشیا ء کی خرید و فروخت جن کا مقصد ضروریات کی تکمیل نہ ہو۔ مثال کے طور پر جوتوں کے دو چار جوڑے تو میری بنیادی ضرورت ہو سکتے ہیں مگر میری الماری میں جوتوں کے سو پچاس جوڑے پڑے ہوں تو اسے کنزیومر ازم کہا جائے گا۔
اسی نوع کی فیمن ازم اتوار کی صبح سے سوشل میڈیا پر کرکٹر شعیب ملک کی شادی کے حوالے سے نمایاں ہے۔ بعض شعلہ بیان فیمن اسٹ شعیب ملک کو تیسری شادی پر لعن طعن کر رہے ہیں اور ثانیہ مرزا سے اظہار ہمدردی کر رہے ہیں (امید ہے ایسے سچے فیمن اسٹ اسی بنیاد پر عمران خان کی سیاسی حمایت نہیں کرتے)۔
شعلہ بیاں فیمن اسٹ ہمیں بتا رہے ہیں کہ ثانیہ مرزا اپنی بکھری زندگی سمیٹنے میں مصروف ہیں،ان کے ابھی آنسو نہیں تھمے اور شعیب ملک نے سر پر سہرا سجا لیا ہے۔ ’مرد ہوتے ہی ایسے ہیں‘ کا بیانیہ زور شور سے پروان چڑھایا جا رہا ہے۔
میری رائے میں اگر کوئی قابلِ اعتراض بات تھی تو وہ شعیب ملک کی یہ افسوسناک حرکت تھی کہ انہوں نے اداکارہ ثنا جاوید سے شادی بارے اپنے ٹویٹ میں مذہب کا کارڈ استعمال کیا۔ اپنے ٹویٹ میں انہوں نے ایک قرآنی آیت کا حوالہ دیا جس کا آسان ترجمہ یہ بنتا ہے کہ اللہ نے ہمیں جوڑے بنا کر دنیا میں بھیجا۔
غالباََ شعیب ملک کو پہلے سے اندازہ تھا کہ ان کی شادی پر چاکلیٹی فیمن اسٹ اِن کی ٹرولنگ کریں گے۔ سو حفظ ما تقدم، انہوں نے مذہب کی آڑ لی۔ پاکستان میں بد ترین جرم کا جواز بھی مذہب سے نکال کر پیش کر دیا جاتا ہے۔ ملک کے بد ترین اور ظالم ترین آمر،جنرل ضیا نے بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ نماز استخارہ کے ذریعے کیا تھا۔ ا’س دن سے ملک میں جمہوریت پھانسی کے پھندے سے لٹکی ہے۔ شعیب ملک نے تو ہلکا سا اسلامی ٹچ دیا ہے۔
میں اس بحث کو ذاتی رنگ نہیں دینا چاہتا لیکن اشرافیہ اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے شعلہ بیان چاکلیٹی فیمن اسٹوں کی اکثریت ایسی ہو گی جن کے گھر میں کم سن بچیاں چائلڈ لیبر کرتی پائی جائیں گی۔ یہ بریکنگ نیوز سے کم نہ ہو گا اگر ان کے گھر وں میں کام کرنے والی آیا، ماسی،خالہ، صفائی کرنے والی یا جو بھی نام اسے دیا گیا ہو، ا’س بے چاری کو پاکستانی قانون کے مطابق کم از کم بنیادی تنخواہ، بغیر تنخواہ کٹے سالانہ چھٹی، اورسوشل سیکیورٹی کی سہولت میسر ہو۔ ایسی منافقتیں ضرور اجاگر کی جانی چاہئیں لیکن فی الحال ذرا اس بیانئے کے فیمن اسٹ پن کا جائزہ لیتے ہیں کہ ’مرد ہوتے ہی ایسے ہیں‘۔
اول: یہ کہنا کہ مرد ہوتے ہی ایسے ہیں، اسی طرح کا بیانیہ ہے جسے اورینٹل ازم کہا جاتا ہے۔ مغرب کے نسل پرست سامراج پر بات کرنے کی بجائے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسلم دنیا میں خون خرابے کی وجہ یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں یا یہ کہ ان کی ثقافت ہی ایسی ہے۔ بائیڈن نے جب امریکی فوجیں افغانستان سے نکالیں تو بہانہ یہ بنایا کہ افغان تو دو سو سال سے خانہ جنگی میں مصروف ہیں، ہم وہاں امن کے لئے کچھ نہیں کر سکتے(حالانکہ وہاں جنگ کی چنگاری پہلے برطانوی سامراج، پھر امریکی سامراج نے بھڑکائی۔خیر)۔ یہ کہنا کہ مرد ہوتے ہی ایسے ہیں،ایک حیاتیاتی یا بائیولوجیکل تصریح ہے۔ اگر یہ درست تجزیہ ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہی کہ اگر مرد ہوتے ہی ایسے ہیں تو پھر فیمن اسٹ جدوجہد کیوں کی جائے؟ اس جدوجہد کا تو کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا۔ یوں یہ بیانیہ اور اس بیانئے کو پروان چڑھانے والا فیمن ازم در اصل فیمن ازم کی نفی ہے۔ یہ پوسٹ ماڈرن طرز کی مزاحمت ہے: بظاہر بہت انقلابی مگر حقیقت میں سٹیٹس کو اور جمود کی سب سے بڑی تھیوری۔
دوم، فیل گڈ (feel good)،تن آسان فیمن ازم میں کسی قسم کا کوئی نقصان ہے نہ خطرہ۔ نہ کوئی قربانی دینی پڑتی ہے نہ مزاحمت کرنی پڑتی ہے۔فیمن ازم کا تو مطلب ہے کہ پدر سری، سرمایہ داری اور ملائیت کو چتاونی دی جائے۔ اشرافیہ اور متمول طبقے سے تعلق رکھنے والی یہ فیمن اسٹ پدر سری، سرمایہ داری اور ملائیت۔۔۔تینوں سے وقتا فوقتا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سو پدر سری، سرمایہ داری اور ملائیت کے حق میں طرح طرح کی تاویلیں ڈھونڈھ کر لائیں گے۔ان کی فیمن ازم ویسی ہی ہے جیسی تحریک انصاف کی بحالی جمہوریت کی جدوجہد۔ تحریک انصاف اور فوج کے ایجنڈے میں صرف اتنا فرق ہے کہ ہائبرڈ رجیم میں مسلم لیگ کی جگہ عمران خان کو ہونا چاہئے۔
سوم: شعیب ملک والا معاملہ کوئی عالمگیر حقیقت نہیں ہے۔ بہت سے مغربی معاشروں میں یہ عام سی بات ہو گی کہ علیحدگی کے بعد عورت نے زندگی کا ساتھی مرد سے پہلے چن لیا۔ ایسا نہیں کہ مغرب میں پدر سری کا مکمل خاتمہ ہو چکا۔ یا عورت کو مسائل در پیش نہیں۔پھر یہ کہ امریکہ جیسے رجعتی معاشرے کو سکینڈے نیویا میں دستیاب آزادی نسواں کی وجہ سے ایک پلڑے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ بہرحال،’مرد ہوتے ہی ایسے ہیں‘ کا بیانیہ کوئی عالمگیر حقیقت نہیں۔
چہارم:’مرد ہوتے ہی ایسے ہیں‘ کا بیانیہ در اصل ’عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے‘ والے سکے کا دوسرا رخ ہے۔ دونوں بیانئے اسٹیٹس کو، جمود کو برقرا ر رکھنے کے لئے گھڑے گئے نظریاتی بیانات ہیں جو کامن سینس کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ان کو دہرانے کا مقصد عورت دشمنی کے نظام کو جاری رکھنا ہے۔
فیمن ازم سوشلزم کے بغیر اور سوشلزم فیمن ازم کے بغیر محض فریب ہیں۔
قصہ یوں ہے کہ اگر ثانیہ مرزا نے شعیب ملک پر گھریلو تشدد کا الزام لگایا ہوتا، الزام سچ ثابت ہونے کی شکل میں تو شعیب ملک پر پولیس کیس کا مطالبہ جائز ہوتا۔ شعیب ملک پر سر عام تنقید جائز ہوتی۔ اندریں حالات، شعیب ملک کی شادی ان کا ذاتی مسئلہ ہے۔ وہ تیسری،چوتھی یا پانچویں بارشادی کریں (خدا را!یہاں مراد بیک وقت پانچ شادیاں نہیں ہے)۔ یہ ہر انسان کا ذاتی حق ہے۔ بطور فیمن اسٹ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ کسی کی ذاتی زندگی میں نہ جھانکا جائے۔ یہ انسان کا بنیادی حق ہے۔یہ حق شعیب ملک کو بھی حاصل ہے۔مزید یہ کہ سیلیبریٹی کی شادی یا طلاق، ان کا ڈیٹ کرنا یا کہیں چھٹیاں منانا مین اسٹریم میڈیا کا درد سر تو ہو سکتا ہے (تا کہ عوام کو سوشلسٹ سیاست سے دور رکھا جائے)مگر سنجیدہ فیمن اسٹ کارکنوں کی اس میں دلچسپی چہ معنی دارد؟
خوش قسمتی سے پاکستان میں ایسے فیمن اسٹ موجود ہیں جو مجسم قربانی اور مزاحمت ہیں۔ ایساہی ایک گروہ بلوچ خواتین کا ہے جو ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ کی قیادت میں اسلام آباد پریس کلب کے باہر دھرنا دئیے بیٹھا ہے۔ اس دھرنے کے مقابلے پر بلوچستان سے لا کر کچھ شعیب ملک بٹھا دئے گئے ہیں،جن میں سے بعض کا تعلق ڈیتھ اسکواڈز سے ہے۔کیا ہی اچھا ہوکہ چاکلیٹی فیمن اسٹ اپنی شعلہ بیانی کا رخ ڈیٹھ اسکواڈز کی طرف کر کے بلوچ خواتین کا ساتھ دیں۔
پڑوسی ملک افغانستان میں اکیسویں صدی کی بد ترین عورت دشمن آمریت قائم ہے۔ امید ہے چاکلیٹی فیمن اسٹ نہ صرف اپنے بڑے بڑے گھروں اور دلوں کے دروازے ا’ن اٖفغان خواتین (اور ان کے بچوں)کے لئے کھول دیں گے جو طالبان کی وحشت سے فرار ہو کر پاکستان آ رہی ہیں۔
اور کچھ نہیں تو یہ چاکلیٹی فیمن اسٹ اپنے گھر، دفتر اور فیکٹری یا کھیتوں میں کام کرنے والی محنت کش خواتین کے لئے پاکستانی قانون کے مطابق کم از کم تنخواہ کو یقینی بنائیں گے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔