نقطہ نظر

ہیرا منڈی بطور سافٹ ہندتوا: پاکستان دہشت گرد سے بازار حسن تک

فاروق سلہریا

آٹھ قسطوں پر مبنی،سنجے لیلا بھنسالی کی نیٹ فلکس سیریز’ہیرا منڈی‘ کا ذکر سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا پر تو سنائی دیا ہی، راقم کے تجربے میں حالیہ دنوں میں شائد ہی کوئی ایسی محفل تھی جہاں اس سیریز کا ذکر نہ ہوا ہو۔بی بی سی اردو کے کالم نگار وسعت اللہ خان عام طور پر فلموں بارے نہیں لکھتے۔انہوں نے بھی ’ہیرا منڈی‘ پر کالم لکھ ڈالا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس حد تک تو یہ سیریز پاکستان میں کامیاب رہی کہ اسے دیکھا گیا،اس پر بات ہوئی۔

دوسری جانب،پاکستان کی حد تک کسی نجی محفل اندر یا سوشل میڈیا پر موجود کسی پاکستانی دوست کو اس فلم کے حق میں بات کرتے بھی نہیں سنا۔

پاکستان میں زیادہ تر تنقید اس بات پر ہوئی کہ حقائق کو مسخ کیا گیا ہے۔ بعض ناقدین تفصیلات پر توجہ نہ دینے پر ہدایت کار کا مذاق اڑا رہے ہیں۔مثال کے طور پر قبل از تقسیم کے لاہور میں،کتاب گھر میں عمیرہ احمد کا وہ ناول پڑا ہے جو اکیسویں صدی میں شائع ہوا۔ کوئی اس بات پر تنقید کر رہا ہے کہ’ہیرا منڈی‘ کا لاہور کی اصل ہیرا منڈی سے دور دور کا واسطہ نہیں: جس شان و شوکت کے ساتھ طوائفیں ’ہیرا منڈی‘ میں رہ رہی ہیں، ویسا معیارِ زندگی تو ملکہ برطانیہ کو بھی میسر نہ ہو گا۔ یہ تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ یہ سیریز بنانے والوں نے کسی قسم کی کوئی تحقیق نہیں کی۔

ناقدین کے یہ سب تبصرے بالکل درست ہیں۔ ان سے پوری طرح اتفاق ہے البتہٰ اس سیریز کا جو سب سے خطر ناک پہلو ہے،اس پر تا حال کوئی تبصرہ دیکھنے کو نہیں ملا۔

پراپیگنڈے کے لحاظ سے یہ فلم سافٹ طریقے سے ہندتوا کا پرچار کرتی نظر آتی ہے۔ان تنقیدی تفصیلات سے پہلے،مختصر طور پر اس کھیل کا پلاٹ پیش کر نا زیادہ مناسب رہے گا۔

فلم کا مرکزی کردار ملکہ جان (منیشا کوئرالہ) ہے جس کی دو بیٹیاں ہیں: بیبو جان(ادتی راو ہیداری) اور عالمزیب(شرمین سہگل)۔دو بہنیں تھیں۔ بڑی بہن ریحانہ (سوناکشی سنہا،جن کا ڈبل رول ہے)اور وحیدہ(سنجیدہ شیخ)۔ بڑی بہن کو مار کر ملکہ جان ’شاہی محل‘نامی حویلی کی مالکن بن جاتی ہے اس کے علاوہ وہ بڑی بہن کی حویلی ’خواب گاہ‘ پر بھی قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ عدالت ملکہ جان کے حق میں فیصلہ کرنے ہی والی تھی کہ مقتول بہن کی بیٹی فریدن (سوناکشی سنہا) بھی واپس آ جاتی ہے۔ دونوں کے مابین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی اور تباہ کرنے کی لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔

ادہر بیبو جان ’باغیوں‘ کے ساتھ مل چکی ہے جبکہ عالمزیب اور تاجدار بلوچ (طہ شاہ)میں عشق شروع ہو جاتا ہے۔تاجدار آکسفورڈ سے پڑھ کر آیا ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ عالمزیب ایک طوائف کی بیٹی ہے۔وہ بھی باغیوں کے ساتھ مل جاتا ہے حتیٰ کہ گرفتار ہو کر پولیس تشدد سے مر جاتا ہے۔ بیبو جان بھی باغیوں کا ساتھ دینے پر پھانسی گھاٹ بھیج دی جاتی ہے۔انگریز کے اس ظلم سے تنگ آکرہیرا منڈی کی ساری طوائفیں باغیوں کے ساتھ مل جاتی ہیں اور آخر کار ہندوستان کو آزادی مل جاتی ہے۔

بظاہر اس کہانی میں ہندتوا ایجنڈا دکھائی نہیں دیتا مگر وہ جو انگریزی کا محاورہ ہے نا کہ شیطان تفصیلات میں جاو تو دکھائی دیتا ہے،تو ہندتوا کا شیطان ’ہیرا منڈی‘ کی تفصیلات و جزئیات میں ملے گا۔ پہلے بات کرتے ہیں ’باغیوں‘ کی۔

۱۔باغی نہ تو کانگرس سے تعلق رکھتے ہیں نہ کسی کیمونسٹ گروہ سے۔ بظاہر وہ انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگارہے ہیں جس سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ شائد وہ بھگت سنگھ کے ساتھی ہیں مگر بھگت سنگھ یا بھگت سنگھ شہید کی پارٹی کا کہیں ذکر نہیں آتا۔ مزید یہ کہ بھگت سنگھ کا پروگرام سوشلزم کا تھا،کہیں بھولے سے بھی سوشلزم یا سوشلسٹ مطالبات کا ذکر نہیں آتا۔کسی قسم کی طبقاتی بات نہیں کی گئی۔ ایک موقع پر باغی جھنڈا اٹھائے نظر آتے ہیں۔یہ جھنڈا ہتھوڑے درانتی والا نہیں، بلکہ ہندوستان کا جھنڈا نظر آتا ہے (کانگرس کا بھی کہا جا سکتا ہے)۔ ان باغیوں کو ہیرو بنا کر در اصل نہرو اور گاندھی یا کانگرس کو غلط ثابت کرنا ہے۔ گاندھی سے بھی زیادہ بی جے پی اور سنگھ پریوار کو نہرو سے مسئلہ ہے۔ سو ایک منظر میں،جب تاجدار بلوچ باغیوں کے رہنما حامد سے ابتدائی طور پر مل کر باغیوں کا پروگرام جاننا چاہتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ گاندھی اور نہرو مرنے کے لئے تیار ہیں مگر باغی مرنا نہیں مارنا چاہتے ہیں۔

۲۔اسی طرح، جب سیریز اختتام کو پہنچتی ہے تو وائس اوور(voice over) میں تبصرہ کیا جاتا ہے کہ طوائفوں نے کلونیل ازم سے تو نجات حاصل کر لی مگر آزادی کے بعد ان کی حالت نہیں بدلی کہ جس سماج میں عورت کر جائداد میں آدھا حصہ نہ ملتا ہو،وہاں اسے برابر کا انسان کیسے سمجھا جائے گا؟ آدھی جائداد کا مسئلہ مسلمان (پاکستان) کا ہے۔گویا ہندوستان میں طوائف کو پوری آزادی مل گئی۔مسئلہ پاکستان کا ہے۔

۳۔لاہور کو مسلمانوں کا شہر بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ باغیوں میں ایک ہندو ضرور موجود ہے۔اسی طرح،ہیرا منڈی میں ملکہ جان کی بگھی چلانے والا ایک سکھ ہے۔ باقی سب کردار مسلمان ہیں۔ یہ تاریخی طور پر ہی غلط نہیں بلکہ یہ غالباََ جان بوجھ کر گیا ہے۔پچھلے لگ بھگ تیس سال سے ہندوستان کی فلموں میں پاکستان ایک دہشت گرد ملک بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے بعد، سنجے لیلا بھنسالی نے پاکستان کو (بذریعہ لاہور)بازار حسن تک محدود کر دیا ہے۔یہ بات درست ہے کہ قبل از تقسیم کا لاہور کا پاکستان نہیں کہلا سکتا مگر اسی لئے تو شائد اسے مسلمانوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ ساری طوائفیں مسلمان ہیں،سارے نواب مسلمان ہیں، سارے باغی البتہ مسلمان نہیں (کچھ ہندو بھی ہیں)۔

انٹرٹینمنٹ ؟ اس حوالے سے بھی یہ پیشکشبالکل ناکام ہے۔’مغل اعظم‘ یا’پاکیزہ‘جیسا ماحول بنانے کی کوشش کی گئی ہے مگر اکثریت،خ کو’کھ‘ اور غ کو’گین‘بنا کر بولتے ہیں تو سارا تاثر زائل ہو جاتا ہے۔ پھر شاہی محلے کا مصنوعی پن،ماحول کے اعتبار سے اس سیریز کو نہ’پاکیزہ‘ بننے دیتا ہے نہ’مغل اعظم‘۔

ہر قسط میں گانا اور رقص پیش کر کے قارئین کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر نہ موسیقی کسی قابل ہے نہ کوئی رقص۔ سیکس اسٹ مذاق کے ذریعے کامیڈی کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو تخلیقی بانجھ پن کا اظہار ہوتا ہے۔

کسی قسم کا کوئی تجسس قائم ہو پاتا ہے نہ کسی کردار میں کوئی complexity پائی جاتی ہے۔ اکثر واقعات بہت ہی متوقع انداز میں ہوتے ہیں۔ روایتی بالی وڈ فلموں کی طرح،ہر قسط میں کہانی ہر موڑ پر بہت ہی predictable طریقے سے آگے بڑھتی ہے۔ پہلی قسط میں ہی بوریت کا احساس ہونے لگتا ہے۔

دو ارب روپے سے بننے والی اس سیریز سے صرف ایک ہی بات ثابت ہوتی ہے کہ سرمایہ کاروباری لحاظ سے تو کامیاب فلمیں بنا سکتا ہے مگر محض سرمائے کے زور سے بڑا آرٹ تخلیق نہیں کیا جا سکتا۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔