فن و ثقافت

منٹو: ہماری ننگی سوسائٹی کا آئینہ

ٹونی عثمان

اچھے لکھاری کے متعلق عام طور پر کہا اور سمجھا جاتا ہے کہ اس کا سب سے بڑا ہتھیار قلم ہے مگر اُردو کے عظیم لکھاری سعادت حسن منٹو،جنہیں فحش اور رُجعت پسند کہا گیا، کا سب سے بڑا اور مظبوط ہتھیار اُن کی ایمانداری تھا۔ یہی ہتھیار مرتے دم تک اُن کے لئے مسائل کی وجہ بنا رہا۔ اس لئے کہ معاشرے میں سچائی اور ایمانداری کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔۔۔ مگر منٹو نے بھی ایمانداری سے لکھنے کی ضد لگائی ہوئی تھی۔ جس بے باکی سے اُنہوں نے حقیقت نگاری کرکے مُعاشرے کی بُرائیوں سے نقاب ہٹایا اس کے لئے نہ تو برطانوی راج کے متحدہ ہندوستان میں جگہ تھی اور نہ ہی آزاد پاکستان میں۔ آزاد پاکستان نے تو اُن کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ”آزاد“کی اصطلاح ہی خراب ہوگئی۔

جب اُردو کے معروف ادیب، شاعر اور افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی کی ادارت میں شائع ہونے والے ادبی رسالے”نقوش“میں منٹو کا افسانہ”کھول دو“شائع ہوا، تب اُس وقت کی حکومت کو یہ افسانہ امن عامہ کے مفاد کے منافی نظر آیا لہٰذا”نقوش“کی اشاعت پر 6مہینے تک پابندی لگادی گئی۔

پھر اُن کا افسانہ”ٹھنڈا گوشت“عارف عبدالمتین، جو کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم رُکن تھے، کی ادارت میں شائع ہونے والے”جاوید“کے خاص نمبر میں شائع ہوا۔ اس پر عریاں اور فحش ہونے کا الزام لگا اور حکومت کی مشنری پھر حرکت میں آگئی اور افسانہ لکھنے اور شائع کرنے والوں پر ایک سال مقدمہ چلا۔ منٹو کچہری کی صورت حال یُوں بیان کرتے ہیں:’یہاں کی فضا الگ، یہاں کا ماحول الگ، یہاں کی زبان الگ، یہاں کی اصطلاحات الگ۔ عجیب وغریب جگہ ہے۔ خدا کرے، کسی کو جس کا نام ”عدالت“ہے، سے واسطہ نہ پڑے۔‘

انگریزوں کے دور میں منٹو پر تین مرتبہ مقدمے چلے اور سزائیں ہوئیں مگر اپیل کرنے پر ہر بار سیشن کورٹ نے اُنہیں اور اُن کے افسانوں کو فحاشی کے الزام سے بری کر دیا۔ آزاد پاکستان کے سول عدالتی نظام کی عکاسی منٹو کے تبصرے سے یُوں ہوتی ہے:”انگریزوں کی حکومت بھی مُجھے فحش نگار سمجھتی تھی، میری اپنی حکومت کابھی میرے متعلق یہی خیال ہے۔ انگریزوں کی حکومت نے مجھے چھوڑ دیاتھا لیکن میری اپنی حکومت مُجھے چھوڑتی نظر نہیں آتی۔ عدالت ماتحت نے مُجھے تین ماہ قید بامشقت اور تین سو روپے جرمانے کی سزا دی تھی۔ سیشن میں اپیل کرنے پر میں بری ہوگیا مگر میری حکومت سمجھتی ہے کہ اس کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ چناچہ اب اس نے ہائی کورٹ میں اپیل کی ہے کہ سیشن کے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور مُجھے قرار واقعی سزا دے۔ دیکھئے عدالت عالیہ کیافیصلہ کرتی ہے۔“

لاہور ہائی کورٹ میں منٹو کے خلاف مقدمہ کی صدارت کرنے والے جسٹس محمد منیر نے نچلی عدالت کے”ٹھنڈاگوشت“کو فحش قرار دینے کے فیصلے کو برقرار رکھا اور اس وارننگ کے ساتھ مقدمہ ختم کیا کہ منٹو کو محض جرمانے کی سزا کے ساتھ چھوڑ اجا رہا ہے لیکن اگر اس نے اپنی اشتعال انگیز کہانیاں لکھنا بند نہ کیں تو اسے کئی سالوں کے لیے جیل بھیج دیا جائے گا۔ یہ وہی بدنام زمانہ جج تھے جو بعد میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے اور جنہوں نے پاکستان میں مارشل لاء کو قانونی تحفظ دینے کے لئے ”نظریہ ضرورت“ کی اصطلاح ایجاد کی۔

تکنیکی طور پر منٹو کے افسانہ”ٹھنڈا گوشت“پر جسٹس منیر کا فیصلہ اب بھی قائم ہے، لیکن عملی طور پر اس کہانی پر آج پاکستان میں کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ منٹو کی دیگر تحریروں کی طرح آزادانہ طور پر چھپتی اور فروخت ہوتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جسٹس منیر کے”ٹھنڈا گوشت“کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی درخواست سپریم کورٹ میں دی جائے تاکہ منٹو کے کسی بھی فن پارے کو فحش ہونے کے الزام سے ہمیشہ کے لیے بری کروایا جاسکے۔

’عدالت میں ہر توہین برداشت کرنا پڑتی ہے‘

ویسے تو منٹو پر انگریز دور میں تین مقدمے چل چُکے تھے مگر آزاد پاکستان میں ”ٹھنڈا گوشت“پر مقدمے نے اُنہیں بُری طرح جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ خود لکھتے ہیں:”پہلے تین افسانوں میں تو میری خلاصی ہو گئی۔’کالی شلوار‘کے سلسلے میں مُجھے دِلّی سے دو، تین بار لاہور آنا پڑا۔’دھواں‘اور’بُو‘نے مُجھے بہت تنگ کیا اس لئے کہ مُجھے بمبئی سے لاہور آنا پڑتا تھا۔۔۔ لیکن’ٹھنڈا گوشت‘کا مقدمہ سب سے بازی لے گیا۔ اس نے میرا بھُرکس نکال دیا۔ یہ مقدمہ گو یہاں پاکستان ہی میں ہوا، مگر عدالتوں کے چکر کچھ ایسے تھے جو مجھ ایسا حساس آدمی برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ عدالت ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہر توہین برداشت کرنا ہی پڑتی ہے۔“

بٹوارے سے پہلے منٹو بمبئی کی فلمی دُنیا سے وابسطہ تھے اور ایک اچھی زندگی گزار رہے تھے۔ بقول خود اُن کے بمبئی اُن کا پسندیدہ شہر تھا۔ اداکار اشوک کمار اور اداکار شیام سے اُن کی گہری دوستی تھی۔ تقسیم کے وقت بمبئی میں بھی فرقہ وارانہ ماحول دن بہ دن مزید گھمبیر ہو گیا۔ فلم اسٹوڈیو بمبئی ٹاکیز، جہاں منٹو ملازم تھے، میں مبینہ طور پہ ہندو عملے نے انتظامیہ کو گمنام خطوط بھیجنا شروع کیے، جن میں مسلمانوں کو اعلیٰ عہدوں سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا اور قتل سے لے کر اسٹوڈیو کی تباہی تک کی دھمکیاں دی گئیں۔ مُلک کی تقسیم کا منٹو کے ذہن پر گہرا اثر ہوا جسے وہ خود یُوں بیان کرتے ہیں:”بمبئی چھوڑ کر کراچی سے ہوتا ہوا غالباً سات یا آٹھ جنوری 1948 کو یہاں لاہور پہنچا۔ تین مہینے میرے دماغ کی عجیب وغریب حالت رہی۔ سمجھ نہیں آتاتھا کہ میں کہاں ہوں۔ بمبئی میں ہوں، کراچی میں اپنے دوست حسن عباس کے گھر بیٹھا ہوں یا لاہور میں ہوں جہاں کئی ریستورانوں میں قائداعظم فنڈ جمع کرنے کے سلسلے میں رقص وسرود کی محفلیں اکثر جمتی ہیں۔ تین مہینے تک میرا دماغ کوئی فیصلہ نہ کرسکا۔“

منٹو ایک انتہائی حساس،طبیعت میں بے چین اور اعلیٰ درجے کے تخلیق کار تھے۔ بٹوارے کے سلسلے میں ہونے والے ظلم وبربریت نے اُنہیں شدید صدمہ پہنچایا مگر اس سے منفی اثر لینے کی بجائے اُنہوں نے اسے مثبت رُخ کی طرف موڑ کر مُلک کی تقسیم کے متعلق بہترین ادب تخلیق کیا۔ ان کی بہت سی کہانیاں تقسیم ہند اور اس کے بعد ہونے والے قتل عام سے متعلق ہیں اور اُن کی متعددشاہکار کہانیاں پاکستان میں لکھی گئیں۔

یہ بھی عجیب بات ہے کہ منٹو نے جتنی شراب بمبئی سے پاکستان منتقل ہونے کے بعد پی اتنی وہ پہلے نہیں پیتے تھے۔ انہوں نے اس معاملے میں بھی منافقت نہ کی اور اپنی شراب کی عادت پر کُھل کر لکھا۔ اُنہوں نے حکومتی رکاوٹوں کے باوجود اپنی تخلیقی تحریری سرگرمیوں کو وسعت دی اور سیاسی حالات پر بھی لکھا۔

چچا‘(امریکہ) اور ’بھتیجا‘ (پاکستان)

دسمبر 1951ء سے لے کر اپریل 1954ء تک کے عرصہ میں اُنہوں نے چچا سام یعنی امریکہ کے نام 9 خطوط لکھے۔ طنزومزاح سے بھرپور تفریح مہیا کرنے والے یہ خطوط نہ صرف منٹو کے فن کا ایک مختلف رخ دکھاتے ہیں بلکہ یہ عالمی سیاسی حالات نیز”چچا“(امریکہ) اور ”بھتیجا“ (پاکستان) کے درمیان رشتہ کو سمجھنے میں بھی مددگار ہیں۔

آج کل کے لونڈے لپاڑے، جو فیشن کے طور پر امریکہ کی مخالفت کرتے ہیں، انہیں یہ خطوط ضرور پڑھنے چاہئیں۔ہوسکتا ہے کہ پھر وہ مزاحمت اور بدتمیزی میں فرق جان کر نقلی سے اصلی سامراج مخالفت شروع کر دیں۔ منٹو نے کئی اصناف میں لکھا اور ہمیشہ ایمانداری سے لکھا۔ اُنہوں نے فکشن میں تصور اور حقیقت کا ایسا امتزاج تخلیق کیا کہ اصل اور تخیل میں فرق ختم ہو جاتا ہے۔ کشمیر کے تنازعے کے متعلق اُن کی کہانی”ٹیٹوال کا کُتا“میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگی جنُون کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ افسانے میں یہ فیصلہ نہیں ہو پاتا کہ ایک آوارہ کُتا پاکستانی ہے یا ہندوستانی لہٰذا دونوں ممالک کے فوجیوں کی طرف سے کُتے پر دُشمن کا اہلکار ہونے کا الزام لگنے کے بعد سرحد کی دونوں طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ ہوتی ہے اور کُتا مر جاتا ہے۔

کمیونسٹ پارٹی سے’ناجائز تعلق‘

منٹو کی حسِ مزاح بہت اچھی تھی۔ وہ مشکل سے مشکل وقت میں بھی مذاق کرنا نہیں چھوڑتے تھے۔ سی آئی ڈی نے جب آزاد پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کے دفتر پر چھاپہ مارا تو وہاں کہیں منٹو کا نام لکھا دکھائی دیا۔ فیصلہ ہوا کہ منٹو کے گھر جاکر پُوچھ گچھ کی جائے۔ سی آئی ڈی کے آدمی نے منٹو سے کمیونسٹ پارٹی سے تعلق کے متعلق پُوچھا۔ منٹو نے جواب میں کہا”تعلق ہے مگر ناجائز تعلق ہے۔“

منٹو صحافی، کالم نگار، مترجم، مُدیر، اداکار، ڈرامہ نگار اور عظیم افسانہ نگارتھے۔ وہ 43 سال کی عمر کو نہیں پہنچ سکے تھے مگر اپنی مختصر سی زندگی میں 270 افسانے، 100 سے زائد ڈرامے، شخصیات پر بے شمار خاکے، ایک ناول اور کئی فلموں کے سکرپٹ لکھنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کئی بین الاقوامی مصنفین کا اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ وہ حیران کن حد تک Productiveتھے اور مختصر وقت میں بے تحاشہ لکھ گئے۔ اس کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے خود اتنا نہیں لکھا جتنا اُن کے بارے میں لکھا جاچُکا ہے۔ اس کی شاید وجہ یہ ہے کہ جس طرح اُنہوں نے نفسیاتی حقائق کی ترجمانی کی ہے وہ پڑھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ”نقوش“کی خصوصی اشاعت منٹو نمبر میں عبادت بریلوی اپنے مضمون”منٹو کی حقیقت نگاری“میں لکھتے ہیں ”زندگی کے ہر پہلو کی ترجمانی میں اس نے کسی نہ کسی اہم نفسیاتی حقیقت کو بے نقاب کیا ہے۔ بعض افسانے تو اُس نے ایسے لکھے ہیں جن کی بُنیاد کسی نہ کسی نفسیاتی حقیقت پر استوار ہے لیکن جو افسانے نفسیاتی حقائق کو بنیاد بناکر نہیں لکھے گئے ہیں اُن میں بھی قدم قدم پر نفسیاتی حقائق کی ترجمانی نظر آتی ہے۔“

منٹو کی تحریریں ہضم کرنا مُشکل ہیں کیونکہ سچائیاں برداشت نہیں ہوتیں۔ ناروے میں مُقیم صحافی اور ادیب سید مُجاہد علی نے لاہور سے شائع ہونے والے”جدوجہد“کے جنوری 2005 کے منٹو نمبر میں اپنے مضمون بعنوان ”تاخ! تراخ“میں لکھا:”منٹو آئینہ ہے جس میں آپ وہی دیکھتے ہیں جو کچھ آپ ہیں۔ اس معاشرے اور اس کے کرداروں کی وہ تصویر جو ہم میک اپ کے ذریعے مدھم کر دینا چاھتے ہیں مگر سعادت حسن منٹو گرم پانی کے ایک چُلو سے وہ جعلی میک اپ اُتار پھینکتا ہے اور ایک مکردہ بھیانک چہرہ ہمارے سامنے آجاتا ہے کیونکہ یہی چہرہ اصل چہرہ ہے۔“

منٹو آزادی فکر کے حامی تھے اور ان کا ماننا تھا کہ ادب میں ایمانداری کی ہمیشہ اجازت ہونی چاہیے۔ ان کا تھیٹر و ڈرامہ کی باریکیوں کے متعلق علم، طنزومزاح میں مہارت، انتہائی تفصیل سے مُشاہدہ کرنے کی صلاحیت اور انسانیت پرستی نے انہیں اپنے وقت سے بہت آگے تک پہنچا دیا۔ اُن کا چنچل پن، دلیری اور فوری مزاحیہ تبصرے نئے خیالات پیدا کرنے میں مددگار ہیں۔

اُن کی تحریریں کئی حساس اور اہم سیاسی و سماجی مسائل کو چھوتی ہیں اور ان کے گہرے مشاہدات انسانی رویے کے بُرے ترین پہلوؤں کو ظاہر کرتے ہیں۔ جنسیات اور بڑے شہر کے انڈرورلڈ جیسے ممنوعات کی تصویر کشی نے انہیں حکام کے ساتھ ہمیشہ مشکل میں رکھا۔ اُن پر الزام لگاکہ وہ سوسائٹی کو ننگا کرکے فحاشی پھیلاتے ہیں۔ جواب میں اُنہوں نے لکھا:”میں تہذیب و تمدن اور سوسائٹی کی چولی کیا اُتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔“

اُن پر جب الزام لگا کہ وہ عورت اور مرد کے درمیان رشتے کو اُچھال کر فحاشی پھیلا رہے ہیں تو اُنہوں نے جواب دیا”ممالک سیاسی طور پر بکھرے جا سکتے ہیں، مذاہب کو ان کے بنیادی عقائد میں فرق کی بنیاد پر الگ کیا جا سکتا ہے، زمین کے ٹکڑوں کو قوانین کے ذریعے حد بندی کی جا سکتی ہے۔ تاہم کوئی بھی سیاست، مذہب یا قانون خواتین اور مردوں کو الگ نہیں کر سکتا۔“

17 جنوری 1955 کی شام کو جب منٹو گھر پہنچے تو تھوڑی دیر بعد اُنہیں خون کی قے آئی۔ رات کو ان کی حالت مزید بگڑ گئی۔ ایک ڈاکٹر کو بلایا گیا اور اُنہوں نے منٹو کو ہسپتال لے جانے کا مشورہ دیا البتہ منٹو ہسپتال نہیں جانا چاہتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد اُنہوں نے اپنے بھانجے سے کہا ”میرے کوٹ کی جیب میں ساڑھے تین روپے ہیں اس میں کچھ پیسے ڈالو اور مجھے وہسکی منگوا دو۔“

وہسکی منگوائی گئی اور وہ وہسکی پینے کے بعد بے ہوش ہوگئے۔ آدھی رات انہیں ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال لے جایا گیا مگر 18 جنوری کو رات گئے وہ راستے میں ہی دم توڑ گئے۔ ویسے شُکر ہے کہ منٹو محض 42 سال 8 ماہ اور 4 دن کی عمر میں انتقال کر گئے ورنہ یا تو اُنہیں آزاد پاکستان کے ریاستی ادارے کمیونسٹ سمجھ کر حسن ناصر اور نذیر عباسی کی طرح جان سے مار دیتے یا پھر ایک ہجوم اُن پر توہین مذھب کا الزام لگا کر اُنہیں اتنی بے دردی سے ہلاک کرتا کہ اُن کی لاش بھی پہچانی نہ جاتی۔

عمران خان کی ’منٹو‘ پر پابندی

منٹو حکومتی اہلکاروں کی مخالفتوں کی پرواہ کئے بغیر مرتے دم تک دلیری سے اپنی فکر کا اظہار کرتے رہے۔ اس لئے اُن کے مداح بڑھتے ہی گئے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اُن کا فن اُن کی موت کے بعد بھی اتنا ہی متعلقہ اور فکر انگیز ہے جتنا اُن کی زندگی کے دوران تھا۔ اُں کی قلمی صلاحیت بلاشبہ بہت تیز تھی۔ اسی لئے اُنہیں روزبروز نئے سرے سے دریافت کیاجارہا ہے اور بھارت اور پاکستان، دونوں ممالک میں یکساں طور پر اُن کے

کام کو سراہا جارہا ہے۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اُن کا تخلیق کیا ہوا جدید ادب کلاسک ہے اور جب تک معاشرہ ننگا ہے کم از کم تب تک تو اس کا اثر ختم نہیں ہوگا۔سال 2005 میں فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں منٹو کی پچاسویں برسی کے موقع پر اُن کی تصویر کے ساتھ ایک خصوصی پاکستانی ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا۔ سال 2012 میں صدر آصف زرداری کے دور میں یومِ آزادی کے موقع پر اُنہیں نشان امتیاز سے نوازا گیا۔سال 2015 میں پاکستانی ہدایتکار سرمد کھوسٹ نے منٹو کے نام سے بائیو پِک فلم بنائی۔سال 2018 میں بھارت کی ہدایتکارہ نندیتاداس نے منٹو کے نام سے فلم بنائی۔ پاکستان میں اس فلم پر وزیرِ اعظم عمران خان کے دور میں سنسر بورڈ نے فلم کو”تقسیم مخالف“اور”پاکستانی معاشرے کے اصولوں کے خلاف“ قرار دے کر پابندی لگا دی گئی۔

Toni Usman
+ posts

ٹونی عثمان اداکار، ہدایت کار اور ڈرامہ نویس ہیں۔ ’جدوجہد‘ کے پرانے ساتھی ہیں اور’مزدور جدوجہد‘ کے ادارتی بورڈ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔