اداریہ جدوجہد
گزشتہ 30 سال سے ہر سال کی طرح اس سال بھی 5 فروری کو کشمیریوں سے یکجہتی کا دن منایا جا رہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس مرتبہ پاکستان کی حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد (پی ڈی ایم) پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں 2 الگ الگ جلسے منعقد کر رہے ہیں۔
کوٹلی میں منعقدہ جلسہ میں وزیراعظم پاکستان عمران خان شرکت کریں گے اور تحریک انصاف کی پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں قائم شاخ کی جانب سے ان کے استقبال کی بھرپور تیاریاں جاری ہیں۔ عمران خان کو سفیر کشمیر قرار دیا جا رہا ہے اور وزارت امور کشمیر سمیت حال ہی میں تحریک انصاف کی سیاست میں متحرک ہونے والے سرمایہ داروں کے ذریعے بھاری سرمایہ خرچ کر کے اس جلسہ کو کامیاب بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
دارالحکومت مظفرآباد میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے زیر اہتمام جلسہ منعقد کیا جا رہا ہے۔ اس جلسہ میں پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی ایم) کی تمام قیادت شرکت کرے گی۔ مولانا فضل الرحمان، مریم نواز، بلال بھٹو، شاہد خاقان عباسی، پرویز اشرف، امیر حیدر ہوتی، اختر مینگل اور ڈاکٹر عبدالمالک کی شرکت کا اعلان کیا گیا ہے۔
یوم یکجہتی کے سلسلہ میں روایتی تقاریب کے انعقاد کیلئے قبل ازیں عسکری تنظیموں، مذہبی تنظیموں اور سول انتظامیہ کو استعمال کیا جاتا تھا۔ عالمی دباؤ کی وجہ سے عسکری تنظیموں پر پابندیاں عائد کئے جانے کے بعد انہیں کالعدم قرار دی گئی تنظیموں کے ذمہ داران کو پہلے ”تحریک آزادی کشمیر“، ”شہدائے کشمیر“ سمیت مختلف ناموں سے یہ سرگرمیاں منعقد کی جاتی تھیں۔ اس مرتبہ ”تحریک تحفظ ناموس رسالت“ کے نام سے بینرز شائع کئے گئے ہیں اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے تمام شہروں میں یہ بینرز اور پوسٹرز آویزاں کر دیئے گئے ہیں۔ ”تحریک تحفظ ناموس رسالت“ کے نام سے آویزاں کئے گئے ان بینرز میں کشمیر کی آزادی کا واحد حل ’جہاد‘ کو قرار دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ ’یوم یکجہتی کشمیر‘ منائے جانے کا یہ سلسلہ 1990ء سے شروع کیا گیا تھا۔ جموں کشمیر کی مکمل آزادی اور استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کیلئے جدوجہد کی بنیادیں رکھنے والے عظیم کشمیری ہیرو مقبول بٹ شہید کو 11 فروری 1984ء کو بھارتی دارالحکومت دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دیکر انکا جسد خاکی بھی جیل میں ہی دفنا دیا گیا تھا۔ مقبول بٹ شہید کی قربانی نے جموں کشمیر کی تحریک کو ایک نئی روح پھونک دی تھی اور ماہ فروری مقبول بٹ شہید کی قربانی کو خراج عقیدت پیش کرنے اور آزادی کی تحریک کے لئے انتہائی اہمیت اختیار کر چکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں نوجوانوں اور طلبہ کی اولین انقلابی روایت ’جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن‘ کی جانب سے 11 فروری 1990ء کو چکوٹھی کے مقام سے کنٹرول لائن عبور کرنے کی کال دے رکھی تھی۔
جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈڑیشن اس خطے کی واحد مقبول قوت تھی جس نے پراکسی جنگ کے خلاف واضح اور دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے نوجوانوں کو انقلابی نظریات کی بنیاد پر جدوجہد کی جانب لانے اور سپانسرڈ پراکسی جنگ میں نوجوانوں کو جھونکے جانے کی راستے میں رکاوٹیں پیدا کی تھیں۔
مقبول بٹ شہید کے یوم شہادت کی مقبولیت اور سامراجی پراکسی جنگ میں نوجوانوں کو جھونکنے والی دہشتگرد تنظیموں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والی ’جموں کشمیر این ایس ایف‘ کی لانگ مارچ کی کال کو سبوتاژ کرنے کیلئے اس وقت ’قاضی حسین احمد‘ نے 5 فروری کو کشمیریوں سے یکجہتی کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔
پنجاب حکومت اور تمام تر ریاستی وسائل کے استعمال کے ذریعے سے مقبول بٹ شہید کے یوم شہادت کی مقبولیت کو کم کرنے اور کنٹرول لائن کی جانب لانگ مارچ میں نوجوانوں کی شرکت کو متاثر کرنے کیلئے جس دن کی شروعات کی گئی تھی وہ پھر سرکاری سطح پر ہر سال منایا جانے لگا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
وفاقی وزارت امور کشمیر، کشمیر کونسل اور پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی بیوروکریسی، اسلام آباد میں مقیم حریت کانفرنس کے نمائندگان، مظفرآباد میں براجمان حکمران اشرافیہ اور اس خطے میں ’پراکسی جہاد‘ کے چندے اور اسلحہ فروشی کے ذریعے پلنے والے جرائم پیشہ افراد کیلئے ’یوم یکجہتی کشمیر‘ ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔
حکمران طبقات، سامراجی ریاست اور نوآبادیاتی حکمران اشرافیہ کی جانب سے کروڑوں روپے کے فنڈز جاری کر کے مصنوعی تقاریب اور مصنوعی پروگرامات کا انعقاد بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کی طرح کشمیریوں کے ساتھ ایک دھوکہ ہی ہے۔ حکمران طبقات کا ہر اقدام محنت کش طبقے کو مطیع کرنے اور اپنے مفادات اور منافعوں کو بڑھانے کیلئے ہی ہوتا ہے۔ سامراجی ریاستوں کے حکمران طبقات نوآبادیاتی حکمران اشرافیہ کو اپنے تنخواہ داروں کے طورپر استعمال کرتے ہوئے انکے ذریعے سے نوآبادیاتی قبضے مزید سخت اور مستحکم کرتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 73 سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود اقوام متحدہ جیسے ادارے اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کروانے کیلئے کوئی سنجیدہ اقدام نہ کر سکے (جو درحقیقت انہوں نے کبھی کرنا بھی نہیں تھا)، نہ ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں کی رٹ لگانے والے پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقات نے اس مسئلہ کو عوامی خواہشات کے مطابق حل کرنے کیلئے کوئی سنجیدہ اقدام کیا ہے۔
سرمایہ داری کی تاخیر زدگی کا شکار، سامراجی بھیک میں ملی لولی لنگڑی آزادی کی حیثیت کو برقرار رکھنے کیلئے مصنوعی دشمنی اور تضادات کا قیام ناگزیر تھا، جس کیلئے مسئلہ کشمیر کو رستے زخم کے طو رپر استعمال کیا گیا۔ جموں کشمیر کے باسیوں کی زندگیوں کو تاراج کیا گیا اور جموں کشمیر کے مظلوم و محکوم عوام کی ذلتوں اور دکھوں پر پاک بھارت حکمران طبقات کی بقا اور سامراجی امداد ممکن ہوتی رہی اور مقامی نوآبادیاتی حکمران اشرافیہ کا اقتدار چلتا رہا۔ گزشتہ 73 سال سے جموں کشمیر میں مظالم کے پہاڑ توڑے گئے، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئیں، جمہوری آزادیوں پر پابندیاں عائد کی گئیں اور 4 جنگوں کے علاوہ کنٹرول لائن پر تواتر کیساتھ ہونے والی فائرنگ اور پراکسی جنگ کے نتیجے میں ہزاروں کشمیریوں کا خون بہتا رہا جبکہ پاک بھارت حکمران بیک ڈور ڈپلومیسی کے نام پر مشترکہ مفادات کے تحفظ کیلئے مل کر پالیسیاں بناتے رہے۔
5 اگست 2019ء کے بھارتی اقدامات کے بعد منظر عام پر آنے والے حقائق نے یہ مزید واضح کر دیا ہے کہ بھارتی اقدامات بھی پاکستانی حکمرانوں کے ساتھ مشاورت کے بعد ہی کئے گئے اور بظاہر جموں کشمیر کے عوام کو حق رائے شماری دیئے جانے کے مطالبات سے بھرپور قراردادیں پیش کرنے والے پاکستانی حکمران طبقات اورریاستی ادارے سامراجی مفادات کے تحفظ کیلئے اب جموں کشمیر کو تقسیم کرنے والی خونی لکیر کو مستقل سرحد میں تبدیل کرنے کے ایجنڈے پر اتفاق کئے بیٹھے ہیں اور ساتھ ہی ’یوم یکجہتی کشمیر‘ کے نام پر یہ ڈھونگ بھی رچایا جا رہا ہے کہ کشمیریوں کے سفیر اور وکیل کی حیثیت سے انہیں حق خودارادیت دلوایا جائے گا۔
اس سارے عمل میں جہاں سامراجی ریاستیں اور انکے حکمران طبقات جموں کشمیر کے باسیوں کی غلامی اور استحصال کے ذمہ دار ہیں وہیں اس خطے کی نوآبادیاتی حکمران اشرافیہ بھی ہر دو اطراف جموں کشمیر کے باسیوں کے دکھوں اور تکالیف کی ذمہ دار اور ان زخموں سے مفادات کے حصول کی شراکت دار ہے۔
جموں کشمیر سمیت اس خطے کی تمام مظلوم قومیتوں کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو طبقاتی بنیادوں پر جڑت اختیار کرتے ہوئے اس خطے سے سرمایہ دارانہ نظام حکمرانی کے خاتمے کیلئے منظم ہونا ہو گا تا کہ اس خطے سے محکومی، غلامی اور استحصال کی ہر شکل کا خاتمہ کیا جائے اورتمام قومیتوں کے حق خودارادیت اور حق علیحدگی کو برقرار رکھتے ہوئے ایک سوشلسٹ فیڈریشن میں اس خطے کی تمام قومیتوں کو پرویا جا کر انسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کا خاتمہ کیا جائے اور ایک طبقات سے پاک منصفانہ معاشرے کی بنیادیں قائم کی جا سکیں۔ جموں کشمیر کے عوام سمیت تمام مظلوم و محکوم قومیتوں کیساتھ حقیقی اظہار یکجہتی دیگر قومیتوں کے محنت کشوں کی طبقاتی بنیادوں پر یکجہتی ہی ہو سکتی ہے جس کی بنیاد پر ظلم اور نا انصافی کے نظام کو ختم کر کے حقیقی انسانی آزادی کی بنیادیں رکھی جا سکتی ہیں۔