عمرعبداللہ
تضحیک اور خوف حکمرانوں کے دیرینہ ہتھیار رہے ہیں، اور ہراسانی ایک ایسا اوزار ہے جو ان دونوں کو یکجا کرتا ہے۔ یہ روزمرہ کی بنیاد پر ہونے والا ایک ایسا کنٹرولڈ تشدد ہے جو اتنا شدید نہیں ہوتا کہ بغاوت پھوٹ پڑے، اور اتنے تسلسل سے جاری رہتا ہے کہ جبر سہنے کی عادت برقرار رہتی ہے۔ مثال کے طور پر، کسی ایک طالب علم کی غلطی پر پوری کلاس کو سزا دینا، پولیس کا بلاوجہ ناکے لگا کر لوگوں کی تلاشی لینا، یا جیلوں میں ریپ کا نفسیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال وغیرہ۔ یہ سب طبقاتی نظام کے منظم تشدد کے مختلف پہلو ہیں۔ یہ حربے ایک اجتماعی خوف اور احساس کمتری کی ایسی فضا قائم کرتے ہیں جو جبر کے نظام کو برقرار رکھتی ہے۔ اس تشدد کی سب سے خوفناک شکل جنسی تشدد اور ہراسانی ہے۔ طبقاتی سماج طاقتور اور کمزور کی تفریق کے بنیادی اصول پر کھڑا ہے، جس کا ڈھانچہ پدرشاہانہ ہے۔ اس میں عورتیں اور بچے طاقت کی سماجی درجہ بندی میں سب سے نچلے درجے پر ہیں اور انہیں اپنے مکمل کنٹرول میں رکھنا اس نظام کے لیے ناگزیر ہے۔ چنانچہ اس جسمانی،نفسیاتی اور جنسی جبر کا سب سے زیادہ اور بدترین شکار بھی وہی ہوتے ہیں۔ نظام کا بحران جوں جوں بڑھتا ہے، ریاست کے تشدد کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ ریاست کے پاس نظام کو چلانے کے لیے تشدد ہی واحد راستہ بچتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ یہ تشدد لوگوں کو عارضی طور پر ڈرا کر خاموش کر دے، لیکن طویل مدت میں اس کے نتیجے میں بغاوت کا پیدا ہونا ناگزیر ہوجاتاہے۔
حالیہ عرصے میں کالج کے طلبہ کے احتجاجی مظاہروں میں اس مظہر کا ایک واضح اظہار دیکھنے کو ملا ہے۔ جس میں طلبہ کی سب سے نوجوان پرت نے اپنی ایک ساتھی کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتی کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ یہ مظہر بظاہر معمولی لگ سکتا ہے لیکن اس کو گہرائی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بالعموم ضیاء الحق کے بعد اور بالخصوص پچھلے چند سالوں میں رجعت پسند اور نیم فسطائی قوتوں کی طرف سے،جن میں تحریک انصاف اورٹی ایل پی سہر فہرست ہیں،معاشرے میں مردانہ شاؤنزم،عورت دشمن نظریات اور جنسی تشدد کی ذمہ داری متاثرہ فرد پر ڈالنے کا ایک زہریلا کلچر پروان چڑھایا گیاہے۔ کالج کے ان طلبا ء وطالبات نے محض دو دنوں میں اس کلچر کو ردکردیا، جواس نئی نسل کااس فرسودگی کی طرف اپنے مزاج کا ایک عندیہ ہے۔تاہم، جہاں ان نوجوانوں کو اپنی ساتھی کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتی کا غصہ تھا، وہاں ان میں سے ہر ایک نوجوان نے اپنے ساتھ ہونے والی ہراسانی کے خلاف بھی زوردار ردعمل دیا ہے، جو اس پورے طبقاتی نظام تعلیم کی گہری گھٹن کو عیاں کرتا ہے۔
پاکستان کے تعلیمی ادارے اس وقت مکمل جیلوں میں تبدیل ہو چکے ہیں، جو پرائیویٹ گارڈز کی صورت میں اور چند یونیورسٹیوں میں تو براہ راست ایف سی اور رینجرز کے ذریعے مکمل فسطائی قوانین کے تحت چلائے جا رہے ہیں۔ یہاں یونین سازی کا جمہوری حق تو دور، چند طلبہ کو بیٹھ کر کسی موضوع پر سٹڈی سرکل کرنے تک کی اجازت نہیں ہے۔ ہر ادارے میں ان گارڈز کا مقصد طلبہ کو ہراساں کرنا، ان کی توہین کرنا، خواتین کو چھیڑنا، نسلی پروفائلنگ، اور اخلاقی پولیسنگ ہے۔ حال ہی میں راقم کو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کے چند طلبہ نے بتایا کہ ان کی یونیورسٹی میں تو مسلح گارڈز اسلحے سمیت لائبریری تک میں داخل ہو جاتے ہیں اور طلباء و طالبات کو ہراساں کرنا ایک معمول بن چکا ہے۔ یہی صورت حال تقریباً تمام پرائیویٹ اور پبلک اداروں کی ہے۔تاہم یہ مسئلہ صرف سکیورٹی گارڈز کا نہیں ہے، بلکہ مسئلے کی اصل جڑ تقریباً ہر ادارے میں ان دستوں کی کمان کرنے والے وہ افسرہیں،جو سکیورٹی کے نام پر یونیورسٹیوں اور کالجوں پر مسلط ہیں۔وہ ان گارڈزکو یہ سب کرنے کے احکامات یا چھوٹ دیتے ہیں۔ یہ عموماً کوئی ریٹائرڈ کرنل یا بریگیڈیر ہوتے ہیں، جو اپنے پروموٹ نہ ہو پانے کا سارا غصہ اور محرومی طلباء و طالبات پر نکالتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے ادارے کو باقاعدہ تھراپی کروا کر سماج میں دوبارہ ضم کرانا چاہیے، نہ کہ انہیں نوجوان نسل کی تربیت کی ذمہ داری ہی دے دی جائے۔
ایک موٹا سا اصول یہ ہے کہ فوج کا کام ایک ایسا فرد تیار کرنا ہے جو اپنا دماغ نہ چلائے اور زیادہ سے زیادہ احکامات پر عمل کرے، جبکہ یونیورسٹیوں کا کام اس کے برعکس ایسے ذہن پیدا کرنا ہے جو تنقیدی صلاحیت رکھتے ہوں۔ایسے میں ان افسران،جنہوں نے زندگی کا بڑا حصہ فوجی اداروں میں گزارا ہو،کو جب یونیورسٹی کا نظم دیا جائے گا،تو وہ اسے بباکل ویسے ہی چلائیں گے جیسی ان کی ٹرینگ ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے فوج کا نظم پروفیسروں کے حوالے کر دیا جائے،تو پوری فوج جنگی تربیت کی بجائے بحثیں کرتی نظرآئیگی۔ اس لیے ان افسران کی اداروں میں موجودگی اور انہیں طلبہ پر کنٹرول جمانے کی اجازت دینے کی کوئی معقول دلیل نہیں بنتی۔ انہیں درس و تدریس کے عمل سے جتنا جلدی الگ کیا جائے گا، تعلیمی ادارے اتنے ہی جلد صحت مند ہونے لگیں گے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے، تشدد کے اس سپیکٹرم میں سب سے زیادہ خوفناک جنسی تشدد اور ہراسانی ہے، جس کا سامنا طلبہ، خاص طور پر طالبات کو کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں اکثریتی طالبات جنسی ہراسانی کی کسی نہ کسی شکل سے ضرور گزرتی ہیں۔ ریپ اور زبردستی جیسے انتہائی جبر کے واقعات بھی آئے دن سامنے آتے ہیں، لیکن اس مظہر کی ایک اور زہریلی شکل بلیک میلنگ ہے، جو نہ صرف بظاہر آنکھوں سے اوجھل ہے بلکہ سب سے زیادہ ہونے والا جبر بھی ہے۔ جس دن طالبات نے اس جبر کی کہانیاں سنانا شروع کر دیں، اس دن اس سماج کی تہذیب کے سارے پردے پاش پاش ہو جائیں گے۔تعلیمی اداروں میں انتظامیہ اور اساتذہ کے پاس ایک طالب علم کے مستقبل کو برباد کر دینے کی مکمل طاقت موجود ہے، اور دوسری طرف طلبہ کو اس قدر کمزور کر دیا گیا ہے کہ وہ ان کے مکمل رحم و کرم پر ہیں۔ بقول جارج اورول، ’مکمل اختیار مکمل طور پر کرپٹ کرتا ہے‘۔ یہی حال ہماری یونیورسٹیوں کا بھی ہے۔ اس کے علاوہ، تعلیمی اداروں کے اندر موجود حکام اور طاقتور جرائم پیشہ عناصر کے پورے پورے ریکٹ ہیں، جو ایک منظم طریقے کے ساتھ اس عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
آئے دن کوئی نہ کوئی طالبہ یہ بتاتی ہے کہ پروفیسر کی پیش قدمی کو مسترد کرنے کی پاداش میں اس کا سبجیکٹ فیل کر دیا گیا، اور اس کا پورا سال یا سمسٹر ضائع ہو گیا۔ایک ایسے پدرشہانہ سماج میں،جہاں خواتین کو پڑھنے کی اجازت ہی نہ ملتی ہو یا کسی بھی وقت اجازت ختم ہونے کی تلوار مسلسل لٹک رہی ہو، وہاں مہنگی تعلیم کی چکی میں پستے ماں باپ کی بڑھتی ہوئی ہڈیوں کے بوجھ تلے دبی ان طالبات پر کیا بیتی ہوگی، یہ تو وہی جانتی ہیں۔سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ تعلیمی اداروں کے اندر موجود انتظامیہ کی اپنی نام نہاد”انسداد ہراسانی“کمیٹیوں میں وہی لوگ یا انہی کے دوست احباب بیٹھے ہوتے ہیں، جو اس منظم واردات میں شامل ہیں۔ یہ کمیٹیاں انسداد ہراسانی کمیٹیوں کی بجائے ہراسانی کمیٹیاں بن چکی ہیں۔
اس تمام صورتِ حال میں طلبہ کے پاس اس جبر کے خلاف بغاوت کرنے اور اپنی مشترکہ طاقت پر انحصار کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا۔ اگرچہ یہ مسائل اس نظام کی بنیادوں سے جڑے ہوئے ہیں، اور جب تک ہم اس پدرشاہانہ نظام کا خاتمہ کرکے ایک غیر طبقاتی سماج قائم نہیں کر لیتے، طاقتور کمزور کو اپنی وحشت اور ہوس کا نشانہ بناتے رہیں گے۔ اس جبر کی ہر شکل کو موجودہ نظام کے اندر اصلاحات سے مکمل طور پرختم کرنا ممکن نہیں۔ تاہم، ہر قسم کی ہراسانی کے خلاف فوری مزاحمت اور جدوجہد کو مؤخر بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اس لیے ضروری ہے کہ؛
٭ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں طلباء و طالبات کی قیادت میں منتخب’انسدادِ ہراسانی کمیٹیاں‘تشکیل دی جائیں۔
٭یونیورسٹیوں میں ہر کلاس اور سیکشن میں انتخابات کے ذریعے ایک مرد اور ایک خاتون نمائندہ منتخب کیا جائے، جن پر مشتمل ہر ڈپارٹمنٹ میں ایک ’انسدادِ ہراسانی وتفریق کمیٹی‘ تشکیل دی جائے۔
٭ ہر ڈپارٹمنٹ کمیٹی دو نمائندہ طالب علم منتخب کرے، اور اس طرح تمام ڈپارٹمنٹس سے منتخب ان نمائندوں پر مشتمل یونیورسٹی کی مرکزی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔
٭کالجوں میں یہی عمل 11ویں اور12ویں جماعت کے منتخب طلبہ نمائندوں پر مشتمل کمیٹیوں کی تشکیل کی صورت میں کیا جائے۔
٭ان کمیٹیوں کو ہراسانی میں ملوث انتظامیہ، فیکلٹی، سیکورٹی اہلکاروں یا طلبہ کے خلاف معطلی سے لے کر مکمل برخاستگی یا داخلہ منسوخ کرنے کے اختیارات دیے جائیں۔
٭تمام متعلقہ تھانوں کو پابند کیا جائے کہ کمیٹی کی سفارش پر، یونیورسٹی کے باہر سے وارداتوں میں ملوث افراد یا یونیورسٹی کے اندر کے مجرموں کے خلاف، جو تعزیرات پاکستان کے تحت سزا کے مستحق ہیں، فوری طور پر ایف آئی آر درج کی جائے اور دورانِ تفتیش ہر مرحلے پر متعلقہ کمیٹیوں کو مکمل اعتماد میں لیا جائے۔
٭ہاسٹلوں میں کرفیو اوقات کا تعین کرنے میں کمیٹی کے ساتھ معنی خیز مشاورت کی جائے۔
٭کیمپس کے اندر سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی اور انخلاء کی حد بندی کی جائے اور کسی ہنگامی صورت حال کے علاوہ تمام مسلح یا غیر مسلح سکیورٹی اہلکاروں کے کلاس روم، لائبریری، لیبارٹری اور دیگر طلبہ کے اکھٹے ہونے کے لیے مختص مقامات پر داخلے پر پابندی عائد کی جائے۔
٭کسی ہنگامی صورتحال کے علاوہ پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کے کیمپس میں داخلے کی اجازت کو کمیٹی کی رضامندی سے مشروط کیا جائے۔
٭خواتین کے ساتھ امتیازی اور صنفی تفریق پر مبنی تمام قوانین ختم کیے جائیں اور طالبات کو ادارے کی ہر سرگرمی میں مساوی بنیادوں پر حصہ لینے کا مکمل حق دیا جائے۔
٭سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ختم کی جائے۔
٭ انتظامیہ، سکیورٹی اور فیکلٹی کی طرف سے طلبہ کی اخلاقی پولیسنگ بند کی جائے اور طلبہ کے ساتھ ہرقسم کے متعصبانہ رویے کو قابل سزا جرم کر دیا جائے۔
٭ یونیورسٹی اور کالج انتظامیہ کمیٹی کی رہنمائی میں تقریر و تحریر اور ایک صحت مند بحث و مباحثے کے لیے ماحول سازگار بنائے۔
مندرجہ بالا اقدامات سمیت چند دیگرایسے ترقی پسند اقدامات ہیں،جن سے اس نظام کے سٹرکچرل مسائل توحل نہیں ہو سکتے، لیکن سماجی معیار میں کچھ بہتری آ سکتی ہے۔ تاہم، یہ ریاست تاریخی طور پر اس قدر متروک اور بحران زدہ ہے کہ اس کے پاس فسطائیت اور رجعت کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس لیے اس ملک کے طلبہ کو اپنی مدد آپ کے تحت یہ لڑائی لڑنی ہوگی، نہ صرف اپنے لیے بلکہ اس سماج کے مستقبل کی بقاء کے لیے۔ طلبہ کو مطالبات کی منظوری کا انتظار کرنے کی بجائے اس جدوجہد کے متوازی ان کمیٹیوں کے ڈھانچوں کی تشکیل شروع کر نی ہوگی،تاکہ بڑھتے ہوئے جنسی تشدد اور استحصال کا مقابلہ کرنے کے لیے طلبہ کے پاس کوئی نمائندہ پلیٹ فارم موجود ہو۔
تمام ترقی پسند اور انقلابی تنظیموں کے سیاسی کارکنان کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل ہے، جوخاص طور پر پچھلے چند سالوں میں ان مسائل کو سیاسی بحث کا مرکزی حصہ بنانے میں کسی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ اب اس عمل کو ایک قدم آگے لے جاتے ہوئے طلبہ کو ان کے گردسیاسی طورپر منظم کرنے کی ضرورت ہے۔
اس تحریر کی ابتدا میں ذکر کیاگیا ہے کہ یہ نظام بچوں اور خواتین کو دہرے تہرے جبر سے گزراتاہے،لیکن دوسری طرف جب خواتین اس جبر کے خلاف بغاوت کردیتی ہیں،تو ایک ایسی ناقابل تسخیر قوت بن جاتی ہیں کہ جبر کے پہاڑ روئی کی طرح اڑجاتے ہیں۔اس کی ایک جھلک اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی میں طالبات کے کامیاب احتجاج میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔اس ملک کی طالبات کوبالخصوص اس جدوجہد کی قیادت اور ہراول پرت کا کردار ادا کرتے ہوئے ایک جبر سے پاک سماج کی بنیادیں رکھنے کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔