نقطہ نظر

سرخ جھنڈا اور جموں کشمیر کی عوامی حقوق تحریک

عمر عبداللہ

گزشتہ روز بڑے بھائیوں کے آشرباد سے چلنے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر چلنے والی ایک وڈیو نظر سے گزری۔ ویڈیو میں جموں کشمیر میں موجود حریت پسندوں اور انقلابیوں کو انتشاری ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ وڈیو میں راولاکوٹ سے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ایک رہنما کا ایک کلپ بھی شامل کیا گیا تھا،جس میں جناب سرخ جھنڈے اور نظریات سے بیزاری کا اظہار کر ہے تھے۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ؛

جناب عالی!

آپ کویقینا یاد ہوگا کہ اس کامیاب تحریک، جس کے لیے بلا شبہ آپکی بے شمار خدمات ہیں،میں انہی سرخ جھنڈے والوں کی بھی بے مثال قربانی اور ناقابل مصالحت جدوجہد شامل ہے۔ اس تحریک کی بنیادیں اس وقت رکھی گئی تھیں، جب یہی سرخ پرچم ہاتھوں میں لئے یہی تھوڑے انقلابی تن تنہا گلیوں، بازاروں،چوک،چوراہوں، یونیورسٹی،کالجوں اور کھیل کے میدانوں میں یہی نعرے لگایا کرتے تھے،جو اس وقت جموں کشمیر کے لاکھوں گھروں میں بچہ بچہ لگا رہا ہے۔ تب ان نوجوانوں کو پورے سماج کی طرف سے ایسے ہی طعنے، تمسخر اور تحقیر کا سامنا کرنا پڑتا تھا،لیکن اس سب کے باوجود انہوں نے اپنے نظریات سے پیچھے ہٹنے سے انکار کیا اور بالآخر پورا سماج انکے ساتھ ہم آواز ہو کر وہی نعرے لگانے اور جدوجہد کرنے پر تیار ہوا۔

آپکو یاد ہوگا کہ یہ سرخ جھنڈے والے ہی تھے،جو اس کمیٹی یا تحریک پرہونے والے حملے کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے اورڈٹ کر مقابلہ کیا، ماریں کھائیں اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں،تاکہ تحریک کے رہنماؤں کو نہ کرنی پڑیں۔یہی سرخ جھندے والے اس تحریک کا نعرہ بنے،بازو بنے اوراس کا پیغام بن کر پورے خطے کے محکوموں اور محنت کشوں تک جموں کشمیرکے محکوموں اور غریبوں کی اس تحریک کی سفارت کاری کی۔

یہ سرخ جھنڈے والے ہی تھے،جنہوں نے اس تحریک کی ابتدا سے لے کر اس کی فتح تک پوری تاریخ کو قلم بند کیا،تاکہ اس کے اسباق سے نہ صرف آنے والی نسلیں بلکہ اس پورے خطے کے محکوموں اور محنت کشوں تک یہ اسباق پہنچائے جا سکیں۔عوام کو درپیش مسائل،انکے حل اور ایکشن کمیٹی کے پیغام کے بارے میں عوام کوتعلیم دینے میں سب سے ہراول کردار انہی سرخ جھنڈے والوں نے ادا کیا۔

اسی سرخ پرچم اورانقلاب وحریت کے نظریات سے لیس خواتین تھیں،جنہوں نے ریاستی جبر کے مقابلے میں جموں کشمیر کی بلند حوصلہ ماؤں اور بہنوں کی صفوں کو منظم کیا۔

جناب عالی!

یہی حریت پسند اورسرخ جھنڈے والے تھے،جواس وقت کمیٹی کے پیچھے چٹان بن کر کھڑے ہوگئے،جب آپ کو حکمران اشرافیہ تھکا چکی تھی،آپ کے حوصلے کمزور پڑرہے تھے اوربجلی کے مسئلے کے حل کے بغیر ہونے والے ایک کمزور نوٹیفیکیشن کو فتح قرار دے دیا تھے۔

یہی سرخ جھنڈے والے تھے جنہوں نے مظفرآباد میں تین دن پولیس اور ریاستی تشدد کا مقابلہ کیا اور آپکے کے لیے مورچہ سنبھال کر رکھا تاکہ آپکو یہ سب نہ کرنا پڑے۔

عزت مآب!

آپ خود ساری زندگی ایک سیاسی کارکن رہے ہیں۔آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ یہ سرخ پرچم دراصل وہ سفید پر چم ہے،جسے شہدائے شکاگو نے پہلی دفعہ اپنے خون سے رنگا تھا اوراس سرخ رنگ میں تب سے لے کر اب تک کروڑوں محنت کشوں کا خون شامل ہوچکا،جو اس سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں قتل کر دئیے گئے،جن میں اب شہدائے مظفرآباد بھی شامل ہو چکے ہیں۔ ان شہدا کی یاد اس سرخ پرچم میں فتح یاب انقلاب تک لہراتی رہے گی۔

عالی جاہ!

معاشرے میں فرد کا کرداربہت اہم ہے، لیکن یہ کردار جتنا بھی بڑا کیوں نہ ہو جائے اپنے حالات سے ماورا نہیں ہوسکتا۔ بالکل ویسے ہی تحریکوں میں بھی قیادت کے کردار کو مائنس نہیں کر سکتے،لیکن کسی لیڈر کا کردار تحریک سے بلند کبھی نہیں ہوسکتا۔ خاص طور پرحالیہ تحریک میں تو تحریک کی قیادت عوام نے خود ہی کی ہے اور ہر مشکل وقت میں رہنماوں کی رہنمائی کرتے ہوئے فتح کو یقینی بنایا ہے۔ ایسے میں اگر کسی رہنما کے اندر اپنی شخصیت کی کرشماتی طاقت کا کوئی گمان پیدا ہو گیا ہے، تو یہ اسکے زوال کی طرف پہلا قدم ہوگا۔ اٹھارویں صدی میں پہلے انقلاب فرانس کی کامیابی کے نتیجے میں میکسیمیلین راب سپئیر نمایاں انقلابی لیڈر اور پہلی انقلابی حکومت کا سربراہ بن کر ابھرا،لیکن صرف 9 ماہ بعد ہی انہی لوگوں نے،جنکی وہ قیادت کر رہا تھا،تانا شاہی کے الزام میں گرفتار کرکے بغیر کسی مقدمے کے قتل کر دیا تھا۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جس سے ہمیں سیکھنا چاہیے۔

جناب عالی!

دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسکے پیچھے نظریہ نہ ہو۔ حکمرانوں کے نظریات کا مقابلہ صرف محنت کش طبقے کے انقلابی نظریات سے کیا جا سکتا ہے۔نظریے کو سیاست سے الگ کرنے کا واحد مقصد اس میں سے محنت کش طبقے کے نظریات کو الگ کرنا ہی ہوتا ہے،کیونکہ جہاں کوئی نظریہ نہیں ہوگا وہاں حکمرانوں کا نظریہ غالب رہے گا۔ وہی شخصیت پرستی کا زہر جس کے خلاف آپ جدوجہد کر رہے ہیں،سماج کی رگوں میں دوڑتا رہے گا۔ آپ اور کمیٹی کے دیگر ممبران سے گزارش ہے کہ دل بڑا رکھیں اور اپنی سوچ کو تھوڑی وسعت دیں،تاکہ تحریک کو مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکے۔تنگ نظری آپ کو دوبارہ کسی بند گلی میں نہ لے آئے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر بار تحریک آپ کو مشکل سے نکالنے کے لیے آپ کی مدد کو آئے ہی آئے۔

Omer Abdullah Khan
+ posts

عمر عبداللہ خان کا تعلق ریولوشنری سٹوڈنٹس فرنٹ اسلام آباد/راولپنڈی سے ہے۔