حارث قدیر
رمضان لغاری کا کہنا ہے کہ: ’پی آئی اے کی مینجمنٹ محنت کشو ں کے حوالے کی جائے۔ حکومت ہمیں ایک روپیہ بھی نہ دے، صرف ’اوپن سکائی‘ پالیسی کو محدود کر کے عالمی معیار کے مطابق کیا جائے۔ پی آئی اے کا عملہ تمام خسارے بھی پورے کرے گا اور چند ہی سالوں میں پی آئی اے کو منافع بخش ادارے میں تبدیل کرے گا۔ 1992تک پی آئی اے عروج پر تھی،حکمرانوں کی پالیسیوں کی وجہ سے خساروں میں گئی۔ آج پی آئی اے کو بے توقیر کر کے حکمران قومی اثاثے کو اونے پونے داموں خریدنا چاہتے ہیں۔ محنت کش اس کے خلاف لڑیں گے اور قومی ادارے کے خلاف ہونے والے سازش کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔‘
رمضان لغاری پیپلز یونٹی پی آئی اے اسلام آباد کے صدر ہیں۔ وہ طویل عرصے سے نہ صرف پی آئی اے میں بلکہ ملک گھر کے محنت کشوں کے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کے عمل میں شریک ہیں۔2012اور2016میں جب پی آئی اے کی نجکاری کی کوششیں کی گئیں تو محنت کشوں نے اس کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ 2016میں پی آئی اے کے محنت کشوں پر فائرنگ کی گئی۔ رمضان لغاری اور ان کے ساتھیوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کے مقدمات بھی درج کئے گئے۔
گزشتہ روز ’جدوجہد‘ نے رمضان لغاری کے پی آئی اے کی نجکاری کی حالیہ کوششوں کے حوالے سے ایک خصوصی انٹرویو کیا جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
پی آئی اے کب تک منافع بخش ایئر لائن رہی اور کب سے اس کے خساروں کا آغاز ہوا؟
رمضان لغاری: پی آئی اے 1992تک منافع بخش رہی اور بہت بڑے عروج پر تھی۔ 1993میں میاں نواز شریف نے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی کا افتتاح کیا اور اس موقع پر ’اوپن سکائی پالیسی‘ کا اعلان کیا۔ اس پالیسی کے تحت دنیا بھر کی ایئرلائنوں کو پاکستان میں اجارہ داری قائم کرنے کے لیے موقع فراہم کیا گیا۔ اس کے بعد ایمریٹس اور اتحاد ایئرلائنوں نے یہاں ڈیرے جما لیے اور بعد ازاں مقامی نجی ایئرلائنوں کا قیام بھی ہو گیا۔ انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن(IATA) کے قوانین کے مطابق اگر دبئی سے ہماری دو فلائٹس آپریٹ کریں گی، تو ان کی بھی پاکستان سے دو ہی فلائٹس آپریٹ کر سکتی ہیں۔ تاہم اوپن سکائی پالیسی کے تحت وہ لامحدود رسائی حاصل کر سکتے تھے اور پی آئی اے کو اس کے بدلے میں وہ سہولیات دیگر ملکوں میں میسر نہیں تھیں۔ یوں ہمارا مسافر دوسری ایئر لائنوں کی جانب منتقل ہو گیا اور محض ایک سال کے اندر ہی پی آئی اے اپنی تاریخ میں پہلی بار2ارب خسارے میں چلا گیا تھا۔
1993کی اس پالیسی کی وجہ سے خساروں کا آغاز ہوا تھا۔ اس کے بعد 1997میں شاہد خاقان عباسی کو اس ادارے کا چیئرمین تعینات کیا گیا۔ جو کسر باقی تھی، انہوں نے وہ بھی نکال لی۔ وہ اپنی ایئرلائن کھڑی کرنا چاہتے تھے۔ اس میں کسی کو زیادہ سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ جس ادارے کے چیئرمین تھے اسی کے خلاف اپنا ادارہ کھڑا کرنا چاہتے تھے، تو پھر اس مقصد کے لیے پی آئی اے کو تباہ اور برباد کرنا ان کے لیے پہلی ترجیح تھا۔ انہوں نے پی آئی اے کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔
پی آئی اے کے خسارے میں جانے کی ایک وجوہات حکمران بیان کرتے ہیں، آپ کی نظر میں کیا بنیادی وجوہات ہیں، جن کی وجہ سے پی آئی اے خسارے میں گیا؟
رمضان لغاری: ہمیشہ سے ہی حکومت پی آئی اے کے خساروں کا ملبہ محنت کشوں پر ڈالتی آئی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ قومی ادارے چلانا حکومتوں کا کام نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی حکومت نے محنت کشوں کے تعاون سے اس قومی ادارے کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچایا تھا۔ پی آئی اے کا قیام اور اس کا کئی سال تک عروج حکمرانوں کے ان دعوؤں کی مکمل نفی کرتا ہے۔ یہ ثابت کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہا کہ ملکی تحویل میں ادارے چل بھی سکتے ہیں اور محنت کشوں کا خیال رکھا جائے تو وہ ان اداروں کو آسمان کی بلندیوں تک بھی لے جا سکتے ہیں۔
ہمارا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ مختلف حکومتوں نے جو سی ای اوز لگائے ہیں، انہوں نے پی آئی اے کو اس نہج تک پہنچایا۔ حکومتوں کی پہلی کوشش یہی رہی ہے کہ اس ادارے کو ناکام کیا جائے اور اس کو فروخت کر دیا جائے۔
نجکاری کے لیے حکمرانوں کی جانب سے پی آئی اے کو ناکام ثابت کرنے کے لیے کی گئی دانستہ کوششوں پر روشنی ڈالیں۔
رمضان لغاری: حکومت کا پی آئی اے کی نجکاری کے لیے ایک مجرمانہ کردار رہا ہے۔ فواد حسن فواد2016میں وزیراعظم نوازشریف کے پرنسپل سیکرٹری تھے۔ اس وقت بھی یہ پی آئی اے کو فروخت کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے جب نجکاری کے خلاف جدوجہد کی تو انہوں نے ہم پر سیدھی فائرنگ کروائی۔ اس وقت اس سارے ظلم و ستم کے مرکزی ہینڈلر کا کردار فواد حسن فواد نے ادا کیا۔ اب ایسے ہی شخص کو نجکاری کا وزیر بنا دیا گیا ہے۔
آج انہوں نے اربوں روپے میڈیا اور فرموں پر لگا کر پی آئی اے کے عیب گنوائے اور نجکاری کا منصوبہ بنایا۔ یہ اربوں روپے بھی ضائع کیے گئے ہیں اور نجکاری کے حوالے سے بھی انہیں منہ کی کھانی پڑی ہے۔ یہ کون سی نجکاری ہے، جس میں اداروں کی مالک حکومت ادارے کو بیچنا چاہتی ہے اور اس کے وزیر ٹی وی پر بیٹھ کر ان اداروں کے عیب دنیا بھر کو بتارہے ہیں۔ اس عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسی انٹرنیشنل مارکیٹ نے ان کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا اور انہیں منہ کی کھانی پڑی۔
ایک ہزار ارب کے اثاثوں کی بولی10ارب روپے آنا ان کے منہ پر تاریخ کی لگائی گئی کالک ہے۔ یہ سب حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ ہمارا پہلے سے موقف تھا کہ یہ پی آئی اے بیچ نہیں رہے ہیں، بلکہ پی آئی اے خرید رہے ہیں۔ ابھی میاں نوازشریف کے منہ پر یہ بات بھی آئی ہے کہ میں اپنی بیٹی سے بیٹھ کر ڈسکس کر رہا تھا کہ اس کو ہم کیوں نہ خرید لیں۔یہ بات ظاہر کر رہی ہے کہ اصل میں یہ خود ہی اس ادارے کو خریدنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے اس ادارے کو بے توقیر کیا جا رہا ہے، تاکہ سستے داموں فرنٹ مین کے ذریعے خود ہی خرید سکیں۔
پی آئی اے کی نجکاری کی ماضی میں کتنی بار کوششیں ہو چکی ہیں اور ہر بار ناکامی کیوں ہوئی؟
رمضان لغاری: میاں نوازشریف تو پہلے روز سے ہی نجکاری کے چکر میں ہیں۔ حبیب بینک اور ایم سی بی کی طرح یہ چاہتے ہیں کہ پی آئی اے کو بھی خرید لیں۔ ہر بار اس کے راستے میں آئین کے مطابق قائم ہونے والی یونین، مزدور کی آواز اور مزدور کا سینہ آجاتے ہیں۔ 2012میں یہ کوشش کی گئی، اس کے بعد2016میں یہ کوشش کی گئی اور پھر2018میں بھی پی آئی اے کو بیچنے کی کوشش کی گئی لیکن ہر بار مزدور کی طاقت سے ہم نے اس کوشش کو ناکام بنایا ہے۔
موجودہ نجکاری کی کوشش ابتدائی طور پر تو بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے کی جا رہی تھی۔ وہ کیا صورت بنی کہ محض ایک بولی دہندہ تک نوبت آپہنچی؟
رمضان لغاری: انٹرنیشنل مارکیٹ میں یہ پی آئی اے کسی کو دینا ہی نہیں چاہتے تھے۔ یہ چاہتے ہیں کہ ان کا کوئی فرنٹ مین پی آئی اے کو خریدلے۔ بلیو ورلڈ سٹی کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے، یہ بس ایک پراپرٹی کا دفتر ہے۔ اس کے پیچھے نوازشریف کے لوگ ہیں۔ بلیو ورلڈ فرنٹ مین کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اصل میں نوازشریف اس ایئرلائن کو خود ہی خریدنا چاہتے ہیں، جو ان کی دیرینہ خواہش ہے۔
نجکاری کے لیے پی آئی اے کے 60فیصد شیئرز کی کم از کم بولی 85ارب روپے مقرر کی گئی۔ کیا یہ قیمت پی آئی اے کے اثاثوں سے مطابقت رکھتی ہے؟
رمضان لغاری: کم سے کم بولی85کروڑ رکھنا ہی بہت بڑی کرپشن اور بہت بڑا ظلم تھا۔ پی آئی اے کی آج بھی اگر قیمت کا تعین غیر جانبدار ماہرین سے کروایا جائے تو سب ہی یہ بتائیں گے کہ اس کی کم از کم بولی بھی 400ارب روپے سے شروع ہونی چاہیے۔ یہ انہوں نے ایک سازش رچی ہے کہ 85ارب کم از کم بولی ہو۔ اگر85ارب پر بھی کوئی پی آئی اے کے شیئرز خرید لیتا ہے تو یہ بھی ملک اورقوم کے ساتھ ظلم ہوگا۔ اس کے اثاثے اس بولی سے 500گنا زیادہ ہیں۔
پی آئی اے کی اس وقت کل مالیت کتنی ہے اور اس کے پاس کون کون سے بڑے اثاثے ہیں؟
رمضان لغاری: پی آئی اے کے پاس جو اس وقت 10ایئر بس چل رہے ہیں، ان میں سے ہر ایک کی قیمت14ارب روپے سے زیادہ ہے۔ 4ٹرپل سیون بوئنگ ہیں، جن کی 25ارب سے زائد کی مارکیٹ ہے۔ باقی روٹس کو چھوڑ کر صرف برطانیہ کے روٹ کا ہی تذکرہ کیا جائے تو صرف یہ ایک روٹ ہی 400ارب روپے سے زیادہ کا ہے۔ اس طرح یہ سب کچھ ملا کر 1ہزار ارب روپے سے زائد کے اثاثے ہیں، ن کی مالی85ارب روپے لگانا بہت بڑا ظلم ہے۔ پی آئی اے کی ابھی بھی بہت بڑی ساکھ ہے۔ ایک نام اور برینڈ ہے، جسے بے توقیر کر کے بیچا جا رہا ہے۔
پی آئی اے کے خساروں کی وجہ بھاری بھرکم عملہ کو بھی قرار دیا جاتا ہے اور نجکاری کو ہی حل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ محنت کشوں کا اس پر کیا موقف ہے اور پی آئی اے کو کیسے دوبارہ منافع بخش کیا جا سکتا ہے؟
رمضان لغاری: حکمران تو کہتے ہیں کہ نجکاری کے علاوہ اس کا کوئی حل نہیں ہے۔ہم کئی بار نجکاری کے بغیر پی آئی اے کو خساروں سے نکالنے کے لیے حل دے چکے ہیں، لیکن اس جانب توجہ ہی نہیں دی جا رہی ہے۔ ہمیں یہ ایک روپیہ بھی نہ دیں، صرف پی آئی اے کے اندر سے ہی اس کو چلانے کا حق دے دیں۔ ہم اپنی مینجمنٹ لگائیں گے۔ حکومت اپنی ناقص پالیسیوں پر نظر ثانی کرے اور اوپن سکائی پالیسی کو محدود کیا جائے۔ صرف یہ پالیسیاں تبدیل کر دیں اور اپنے سی ای اوز لگانے کا سلسلہ بند کر دیں۔ ہم لیزپر جہاز لے آئیں گے، اپنے روٹ کھولیں گے اور چل پڑیں گے۔ ہمارے پاس پی آئی اے کو دوبارہ منافع بخش طریقے سے چلانے کے لیے بہت سے حل موجود ہیں۔ تاہم حکمرانوں کے مقاصد پی آئی اے چلانا، یا اسے منافع بخش بنانا نہیں ہیں۔ یہ پی آئی اے پر شب خون مارنا چاہتے ہیں، اسے خریدنا چاہتے ہیں۔ وہ کسی ایسے حل کی طرف بات نہیں کرنا چاہتے، جس سے پی آئی اے کی ترقی ہو اور پی آئی اے دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے۔
ان کا مقصد محض یہ ہے کہ پی آئی اے کو زمین بوس کر کے اسے خریدا جائے۔ اسی لیے پی آئی اے کے حق میں کسی بھی پالیسی اور محنت کشوں کے دیے گئے تمام فارمولے مسترد کیے جا رہے ہیں۔ ہم نے بار ہا تجاویز دی ہیں، لیکن ہر بار مسترد کی گئی ہیں۔ ہم اب سمجھ چکے ہیں کہ یہ اسے چلانا ہی نہیں چاہتے،بلکہ برباد کرنا چاہتے ہیں۔
نجکاری کے خلاف پی آئی اے کے محنت کش کیا رد عمل دے رہے ہیں اور اس سلسلے میں دیگر ٹریڈ یونینوں اور ترقی پسند کارکنوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
رمضان لغاری: ہم کسی صورت نجکاری نہیں ہونے دیں گے۔ ہمارا پہلے دن سے اصولی موقف ہے کہ یہ وہ ادارہ ہے،جسے محنت کشوں نے بنایا ہے۔ ہم اپنے بنائے ہوئے ادارے کی حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہم کمزور ہیں، حکومتی طاقتیں ہمارے پاس نہیں ہیں۔ تاہم ٹریڈ یونینوں کی طاقت ہمارے پاس ہے۔
ہمارا احتجاج ہونے جا رہا ہے، تمام یونینوں کے رہنما ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں اور ہمارے احتجاج میں بھرپور طریقے سے شریک ہونگے۔ ہم سڑکوں پر آئیں گے اور کسی بھی صورت پی آئی اے کو بے توقیر کر کے اس کا سودا نہیں کرنے دینگے۔ پی آئی اے چل سکتی ہے، ہم اسے چلا کر دکھائیں گے۔ حکمرانوں کو ایک بار پھر پیچھے ہٹنا پڑے گا۔
آج ہمارا موقف ایک بار پھر درست ثابت ہوا ہے اور یہ دنیا بھرمیں بے توقیر ہوئے ہیں۔ ان کی چوریاں عیاں ہو رہی ہیں کہ یہ پی آئی اے کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ ہم پی آئی اے کا ہر صورت میں دفاع کریں گے اور ایک بار پھر اسے آسمان کی بلندیوں تک پہنچائیں گے۔