احمد فراز
پر اس میں ہوا نقصان بڑا
کچھ بخت میں ڈھیروں کالک تھی
کچھ اب کے غضب کا کال پڑا
ہم راکھ لیے ہیں جھولی میں
اور سر پہ ہے ساہوکار کھڑا
یاں بوند نہیں ہے ڈیوے میں
وہ باج بیاج کی بات کرے
ہم بانجھ زمین کو تکتے ہیں
وہ ڈھور اناج کی بات کرے
ہم کچھ دن کی مہلت مانگیں
وہ آج ہی آج کی بات کرے
جب دھرتی صحرا صحرا تھی
ہم دریا دریا روئے تھے
جب ہاتھ کی ریکھائیں چپ تھیں
اور سر سنگیت میں سوئے تھے
تب ہم نے جیون کھیتی میں
کچھ خواب انوکھے بوئے تھے
کچھ خواب سجل مسکانوں کے
کچھ بول کبت دیوانوں کے
کچھ لفظ جنہیں معنی نہ ملے
کچھ گیت شکستہ جانوں کے
کچھ نیر وفا کی شمعوں کے
کچھ پر پاگل پروانوں کے
پر اپنی گھائل آنکھوں سے
خوش ہو کے لہو چھڑکایا تھا
ماٹی میں ماس کی کھاد بھری
اور نس نس کو زخمایا تھا
اور بھول گئے پچھلی رت میں
کیا کھویا تھا کیا پایا تھا
ہر بار گگن نے وہم دیا
اب کے برکھا جب آئے گی
ہر بیج سے کونپل پھوٹے گی
اور ہر کونپل پھل لائے گی
سر پر چھایا چھتری ہوگی
اور دھوپ گھٹا بن جائے گی
جب فصل کٹی تو کیا دیکھا
کچھ درد کے ٹوٹے گجرے تھے
کچھ زخمی خواب تھے کانٹوں پر
کچھ خاکستر سے کجرے تھے
اور دور افق کے ساگر میں
کچھ ڈولتے ڈوبتے بجرے تھے
اب پاؤں کھڑاؤں دھول بھری
اور جسم پہ جوگ کا چولا ہے
سب سنگی ساتھی بھید بھرے
کوئی ماسہ ہے کوئی تولا ہے
اس تاک میں یہ اس گھات میں وہ
ہر اور ٹھگوں کا ٹولا ہے
اب گھاٹ نہ گھر دہلیز نہ در
اب پاس رہا ہے کیا بابا
بس تن کی گٹھری باقی ہے
جا یہ بھی تو لے جا بابا
ہم بستی چھوڑے جاتے ہیں
تو اپنا قرض چکا بابا