دنیا

بھارتی کمیونسٹوں کی زیر قیادت فرقہ واریت کے خلاف جنگ

سرابانی چکرورتی/ وجے پرشاد

گزشتہ ماہ ’جیکوبن‘ نے ’بھارتی کمیونسٹوں کا مسلم مخمصہ‘ کے عنوان سے شادمان علی خان کا ایک مضمون شائع کیا۔ مصنف کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک ’بڑا بحران‘ہے، اور یہ اس سماجی تبدیلی کے حصول کے حوالے سے تخیل کا بحران ہے، جس تبدیلی کا حصول مقصد کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے۔‘کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ(سی پی آئی ایم) کو ’انتخابی طورپر متعلق‘ رہنا چاہیے، جبکہ یہ ’شناخت کے نتازعات میں الجھ جاتی ہے۔‘

اس کا مطلب ہے کہ بھارتی کمیونسٹ آج کے بھارت کے سماجی تضادات میں پھنسے ہوئے، جس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے مسلم مخالف سیاست کی بدصورتی کو اپنے اندر جذب کر لیا ہے۔ یہ ایک مضبوط دعویٰ ہے لیکن شکر ہے کہ یہ مضمون برقرار نہیں رہ سکا۔

تحریر میں موجود غلطیوں اور تجاہل پسند ی کی ایک مثال کے طور پر مضمون کے لیے بنیاد فراہم کرنے والے دو بیانات میں سے ایک کیرالہ کے وزیر اعلیٰ اور سی پی آئی ایم پولیٹ بیورو کے رکن پنارائی وجین کا ہے۔ شادمان کا کہنا ہے کہ وجین نے ’دی ہندو‘ کے صحافی سوبھانا نائر کے سامنے یہ بات کہی کہ کیرالہ کے کچھ حصوں میں سونے کی سمگلنگ ’ملک دشمن‘ مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ مضمون کے نچلے حصے میں اخبار نے سونے کی سمگلنگ سے متعلق مواد کو شامل کرنے پرمعذرت کی۔ یہ بیان وزیراعلیٰ نے نہیں بلکہ تعلقات عامہ کی کمپنی Kaizzenکی طرف سے تحریری طور پر بنایا گیا تھا۔ دودن بعد وجین نے بھی اس بات کا اعادہ کیا کہ انہوں نے یہ بیان نہیں دیا، نہ ہی ایسے کسی بیان کی منظوری دی۔ شادمان نے اس سب کے برعکس یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بیان وجین کا ہے اور انہوں نے اس کی بنیاد پر پورا مضمون بنا دیا۔

پس شادمان اپنے ماخذ مواد کے طور پر سرمایہ دارانہ پریس کے تراشے گئے مضامین پر انحصار کرتے ہیں اور کسی بھی مقام پر وہ سی پی آئی ایم کے منشور اور دستاویزات یا اس کی جانب سے بھارت میں ہندوتوا طاقتوں کے ایجنڈے کے خلاف کمیونسٹوں کی قیادت میں چلنے والی متعدد مہموں پرغور نہیں کرتے۔ نہ ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے کمیونسٹ تحریک کے بارے میں اپنے خیالات کے بارے میں آن ریکارڈ کسی سے کوئی انٹرویو کیا ہو۔

یہ وسیع تناظر قارئین کواس وقت بھارت کے کمیونسٹوں کی جاری جدوجہد کے بارے میں انصاف کرنے کے لیے واضح فہم فراہم کرے گا۔

مغربی بنگال میں ترقی

بھارتی جمہوریہ کی پوری تاریخ میں بائیں بازو کو پارلیمانی اور غیر پارلیمانی شعبوں میں بورژوا اور زمیندار طبقے کی مقرر کردہ حدود کے اندر کام کرنا پڑا ہے۔ تاہم کئی لمحوں میں بائیں بازو نے ریاستی حکومتوں میں اقتدار میں آنے کے لیے اپنی زبردست عوامی جدوجہد کی بنیاد کی بنیاد رکھی ہے۔ مغربی بنگال میں لیفٹ فرنٹ نے 1977سے2011تک ریاست پر حکومت کرنے کے لیے لگاتار 7انتخابات جیتے۔ لیفٹ فرنٹ کی حکمرانی کی ابھی تک کسی بھی زبان میں مکمل تاریخ نہیں لکھی گئی۔ اس کے لیے اس دور کی پیشرفتوں اور کوتاہیوں کا وسیع مطالعہ درکار ہے۔ شادمان نے دستاویزات سے ’چیری پکنگ‘ (اپنا من پسند موادجمع کرنا) کی ہے اور وسیع تر سیاق و سباق کو نظر انداز کر دیا ہے۔ انہوں نے جس چیز کو نظر انداز کیا، وہ یہ ہے کہ لیفٹ فرنٹ کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد دائیں بازو کی جو حکومت 2011سے اقتدار میں ہے، اس کے دور میں عدم مساوات اور بھوک سے اموات میں اضافہ ہوا ہے۔

مغربی بنگال میں زرعی اصلاحات اور تعلیم کو جمہوری بنانا دو بڑی اصلاحات تھیں۔ دیہی علاقوں کو زمینی اصلاحات، کرایہ داری کے اندراج اور مقامی سیلف گورنمنٹ کو اختیارات کی منتقلی سے فائدہ ہوا۔ (شادمان نے اعتراف کیا کہ ’اس پروگرام سے مسلم شراکت داروں کو بہت فائدہ پہنچا،اور ان کے سماجی اقتصادی حالات بہتر ہوئے۔‘)

سکولوں کو بہتر کیا گیا، بنیادی صحت کے مراکز کو بہتر کیا گیا، اور اساتذہ اور طبی ماہرین کے لیے تربیتی ادارے تیار کیے گئے۔ لیفٹ فرنٹ کی حکومت نے تاریخی طور پر مسلم سکولوں (مدارس) میں پڑھانے والوں کے لیے اساتذہ کی تربیت فراہم کی اور کلکتہ کے مدرسے کو عالیہ یونیورسٹی میں تبدیل کیا، اور عربی اور اسلامی تھیالوجی میں زبان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، آرٹس اور ریاضی (STEM Fields) کے شعبوں کو بھی کورس میں شامل کیا۔ معمولی ہی سہی لیکن ان پیش رفتوں نے بہرحال محنت کش طبقے کے مسلم طلبہ کی ثقافتی زندگیوں میں بہتری لائی۔ دیہی مغربی بنگال میں مسلم نوجوانوں کو درپیش تعلیمی تفریق شہری مغربی بنگال کے مقابلے میں کم تھی، جس کا پختہ مطلب یہی ہے کہ زرعی اصلاحات نے سماجی تبدیلیوں میں اہم کردار ادا کیا۔

لیفٹ فرنٹ کی حکومت میں یقینا کچھ خامیاں بھی تھیں، خاص طور پر جب بات طبی سہولیات اور روزگار کے مواقع کی فراہمی کی ہو۔ ان ناکامیوں کی ایک لمبی فہرست تیار کرنا اور ان امکانات پر ماتم کرنا ممکن ہے، جو پورے ہونے سے رہ گئے۔ اگر شادمان کی کمیونسٹ پارٹی پر بھرپور تنقید کرنے کی خواہش تھی تو کچھ مثالیں لینا اور بتانا دلچسپ ہوتا کہ کون سی ایسی پالیسیاں بنائی جانی ضروری تھیں، جن سے محنت کش طبقے اور کسانوں کی کی،بالخصوص مغربی بنگال میں مسلمانوں کی زندگیوں میں فوری بہتری آتی۔

مثال کے طور پر دیہی علاقوں میں وسیع پیمانے پر تقسیم کی گئی صحت کی دیکھ بھال کے لیے کلینک بنانے کی پالیسی سے مغربی بنگال کو فائدہ ہو سکتا تھا، جیسے بھارت کے تیلگو بولنے والے علاقوں میں بائیں بازو کے ڈاکروں کے ذریعے بنائے گئے پولی کلینکس کی ایک مثال موجود ہے۔ اس طرز حکومت کی بنیاد پرائمری ہیلتھ سینٹرز(پی ایچ سیز) کے ساتھ موجود تھی۔
اگر آپ شادمان کی پوری بحث پڑھیں تو آپ کو اس نوعیت کی کوئی تنقید نظر نہیں آئے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صرف بائیں بازو کے اندر سے نہیں بلکہ باہر سے کی گئی بحث ہے۔

تشدد کا مسئلہ

اسی طرح کیرالہ میں مسلم سیاسی تنظیموں کے بارے میں اپنے جائزے میں شادمان پاپولر فرنٹ آف انڈیا(پی ایف آئی) کے کردار کو نظر انداز کرتے ہیں، جس کی بنیاد2006میں رکھی گئی تھی اور پھر 2022میں اس پر پانچ سال کے لیے پابندی لگا دی گئی تھی۔ پی ایف آئی پر پابندی اس لیے لگائی گئی تا کہ آدیواسی کسانوں کے بچے ابھیمینیوکے قتل کر اجاگر کیا جا سکے، جسے 2جولائی2018کی صبح سویرے پی ایف آئی کے طلبہ ونگ کے کارکنوں کے ہاتھوں قتل کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے اسے اس لیے مار ڈالا کیونکہ وہ کمیونسٹ سٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا(ایس ایف آئی) کا رکن تھا اور اس نے مہاراجہ کالج کی ایک دیوار پر ’فرقہ واریت کی موت‘ کا نعرہ لکھا تھا۔

ابھیمینیو کے قتل کے وقت تک پی ایف آئی نے سی پی آئی ایم کے 16ساتھیوں کو قتل کر دیا تھا۔ شاید سبسے زیادہ عام حملہ اس وقت ہوا جب پی ایف آئی نے کالج کے ایک استادٹی جے جوزف کا ہاتھ کاٹ دیا، کیونکہ انہوں نے کلاس کے امتحان میں محض نام’محمد‘ کا ذکر کیا تھا۔ اس حملے کے بعد بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی، لیکن پی ایف آئی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔

شادمان کا کہنا ہے کہ پی ایف آئی جیسی قوتیں کیرالہ میں ’مسلم کمیونٹی میں بہت زیادہ پسماندہ ہیں۔‘ ایسا ہی ہے، لیکن یہ صرف ان کے خلاف دوسری مسلم تنظیموں اور بائیں بازو کی جدوجہد کی وجہ سے ہے۔ شادمان نے اپنے مضمون میں اس بات کا تذکرہ نہیں کیا کہ کیرالہ کے کمیونسٹ رہنما وجین ہندوتوا طاقتوں کے سب سے زیادہ واضح ناقدین میں سے ایک ہیں اور ان کے خلاف سخت تقاریر کرتے ہیں۔ 2021میں ایک راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) رہنما نے وجین کو پھانسی دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ نومبر کے آخر میں وجین نے کیرالہ میں مسلم کمیونٹی کی سیاست پر تنازع پیدا کرنے کی کوشش کرنے پر کانگریس پارٹی پر تنقید کی۔ نومبر میں کوولم میں ایک ضلعی پارٹی کانفرنس میں وجین نے نشاندہی کی کہ لیجنڈری سی پی آئی ایم رہنما ای ایم ایس نمبودیریپاد نے کہا تھا کہ ’ہمیں آر ایس ایس کے ووٹ نہیں چاہئیں۔‘ وجین نے پوچھا کہ ’کیا کانگریس میں یہ کہنے کی ہمت ہے؟‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ شادمان کا کہنا ہے کہ 2024کے پارلیمانی انتخابات کے سی پی آئی ایم کے جائزے میں پارٹی قیاس کے مطابق اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ’مسلمانوں نے بائیں بازو کو نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے خلاف لڑائی میں ایک طاقت کے طور پر نہیں دیکھا۔‘تاہم کیرالہ کے اندر بائیں بازو نے 2021میں دوبارہ انتخابات جیتے، کیونکہ مسلمانوں سمیت رائے دہندگان بائیں بازو کو ریاست میں حکومت کے لیے بہترین قوت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ شادمان کا سی پی آئی ایم کے ریکارڈ دیکھنے میں غلطی کرنا کیرالہ کے ووٹروں کی غلط تصویر بناتا ہے، جو اپنی ووٹنگ عادات میں ذہانت پر مبنی حکمت عملی کے حامل ہیں۔

صاف الفاظ میں شادمان نے سماجی آزادی کے لیے بھارتی بائیں بازو کی لڑائی کو غلط انداز میں پیش کیا ہے۔ اپنی تمام محدودیت کو تسلیم کرتے ہوئے اور بھارت کے تناظر میں سی پی آئی ایم نہ صرف تمام بھارتیوں کی مکمل شہریت کی جدوجہد میں بلکہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی زہریلی فسطائی فرقہ پرستی کے عروج کے خلاف لڑائی میں ایک بنیادی قوت ہے۔ 1998میں سی پی آئی ایم کے سابق جنرل سیکرٹری سیتارام یچوری نے کہا تھا کہ ہندوتوا کی طاقتیں ’استحصال کی اس عمارت کو مضبوط کرتی ہیں، جو ہمارے لوگوں پر مصائب کے ڈھیر لگا رہی ہے۔‘ ہر سال لاکھوں بھارتی بچے غذائی قلت سے مر جاتے ہیں۔

اس سے لڑنے کے لیے ہمیں تمام بائیں بازو، سیکولر اور جمہوری قتوں کو متحد کرنا ہوگا۔ یہی سی پی آئی ایم کا نقطہ نظر ہے: عوامی طاقت کے لیے اتحاد تلاش کرنا اور سستی انتخابی فائدے کے لیے لوگوں کو تقسیم کرنے سے اجتناب برتنا۔

(بشکریہ: جیکوبن، ترجمہ: حارث قدیر)

Roznama Jeddojehad
+ posts