آتش خان
گزشتہ ماہ 27 دسمبر 2024 کو پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے شہر کوٹلی میں بلدیہ کی ایک ملازمہ کی میت کو اس بنیاد پر دفن کرنے کے لیے مقامی قبرستان میں جگہ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا کہ اس کا تعلق صفائی کے پیشے اور اس برداری سے تھا جس کو اس سماج میں آج بھی اچھوت سمجھا جاتا ہے۔قبر کھودنے سے روکنے پر سینٹری ورکرز نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور تدفین نہ کرنے دینے پر آئندہ صفائی نہ کرنے کی دھمکی دی۔یہ محض ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ صفائی کرنے والے محنت کشوں کے حوالے سے عمومی سماجی نفسیات اور حقارت آمیز رویے کا اظہار ہے جو برصغیر جنوبی ایشیاء میں آج بھی پایا جاتا ہے۔انسانی سماج کی طبقات میں تقسیم کے بعد ذرائع پیدوار پر قابض حاکم طبقے نے محکوموں کا نہ صرف بدترین جسمانی استحصال کیا بلکہ ان کا سماجی مرتبہ بھی دیگر جانوروں سے معمولی ہی بلند رکھا ہے۔غلام داری نظام میں جیسے غلاموں کو مکمل انسان نہیں تصور کیا جاتا تھا،اسی طرح ذات پات کے نظام میں بھی نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے افراد کو مکمل انسان نہیں تصور کیا جاتا تھا۔
انسانی سماج کا ارتقا سیدھی لکیر میں نہیں رہا بلکہ دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف جغرافیائی اور موسمی حالات اور دیگر عوامل کی بنا پر مختلف رہا ہے۔یورپ اور مشرق وسطیٰ میں طبقاتی تقسیم کا آغاز غلام دارانہ نظام کی صورت میں ہوا،تو برصغیر جنوبی ایشیاء میں ذات پات کی صورت میں سماج طبقات میں تقسیم ہوا ہے۔اس ذات پات کی طبقاتی تقسیم کو دیو مالائی داستانوں کے ذریعے مقدس اور فطری قرار دیا گیا۔جنوبی ایشیاء میں اگرچہ یورپ کی طرح براہ راست غلامی نہیں رہی ہے،لیکن ذات پات کے تعصبات اور استحصال کی شدت کم نہیں رہی ہے۔ذات پات کی تقسیم پرمبنی اس نظام میں اونچی اور نچلی ذاتوں کے لوگ بالکل علیحدہ دائروں میں زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔ان کے پانی کے کنویں علیحدہ رہے ہیں۔نچلی ذات والے اونچی ذات والوں کے ساتھ نہ کھانا کھا سکتے ہیں، نہ پانی پی سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی ذات میں شادی کر سکتے ہیں۔اچھوتوں اور دلتوں کا شمار ہندو ذات پات کے نظام سے ہی باہر سمجھا جاتا ہے۔
برطانوی سامراج کے برصغیر میں قبضے کے بعد سرمایہ دانہ نظام نے ایشیائی طریقہ پیدوار کا خاتمہ کر دیا۔اس کے ساتھ ذات پات پر مبنی قدیم دور سے چلی آ رہی تقسیم محنت کا بھی خاتمہ ہو گیا لیکن پرانے سماجی ڈھانچے کی باقیات آج بھی اس خطے میں موجود ہیں۔پرانے خاندانی ڈھانچے کی باقیات سے لے کر ذات پات،برادری،قبیلائی،علاقائی،مذہبی اور صنفی تعصبات موجود ہیں۔محنت اور قدرتی وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور منڈیوں پر سامراجی قبضے کی غرض سے رائج ہونے والا نوآبادتی ریاستی ڈھانچہ اور سرمایہ دارنہ نظام سماج کو یکساں بنیادوں پر ترقی دینے سے قاصر ہیں۔بے ہنگم اور غیر ہموار مادی ترقی کا اظہار انسانی شعور میں بھی جدت اور پسماندگی کی صورت میں ہوتا ہے۔
آج ایک طرف انسان مریخ پر قدم رکھنے کی تیاری کر رہا ہے، روبوٹیکس اور مصنوعی ذہانت انسانی عقل کو چیلنج کر رہے۔دوسری جانب آج بھی صفائی کرنے والے محنت کش مشینوں کی بحائے اپنے ہاتھوں سے غلاظت اٹھانے پر مجبور ہیں۔صفائی کا کام کرنے والے اکثر محنت کش ذاتی حفاظت کرنے والے سازوسامان کے بغیر ہی اپنا کام کرتے ہیں،جس باعث ان میں کئی طرح کی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔گندی نالیاں اور متعفن ٹینک صاف کرتے ہوئے،خطرناک ماحول میں مضر صحت کیمیائی مواد کے ساتھ براہ راست کام کرنے کی وجہ سے ان کی جان کو شدید خطرہ ہوتا ہے۔بہت سے محنت کش حفاظتی سامان نہ ہونے کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔جدید ممالک میں گندہ پانی اور فضلہ براہ راست انسانی ہاتھوں کی بجائے مشینوں کے ذریعے صاف کیا جاتا ہے۔ہاتھ سے صفائی کرنے والے محنت کشوں کی زندگیوں کو ان محنت کشوں کے مقابلے میں خطرہ زیادہ ہوتا ہے،جو تمام کام مناسب ساز و سامان، مشینوں اور حفاظتی کپڑوں کے ذریعے سر انجام دیتے ہیں۔
صفائی کا کام کرنے والے محنت کش دیگر بہت سے محنت کشوں کی طرح شدید معاشی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہے جو باضابطہ طور پر صفائی کا کام کرنے کے لیے ملازمت کرتے ہیں۔ایسے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے جو سرکاری یا نجی شعبے کے علاوہ گھروں اور دیگر مقامات پر سماجی یا صحت کے تحفظ کے بغیر کام کرتے ہیں۔صفائی کرنے والے محنت کشوں کو معاشی عدم تحفظ کے ساتھ اجرتوں میں بھی امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔دیگر محنت کشوں کی نسبت صفائی کرنے والے محنت کشوں کی اجرتیں کم ہیں۔غیر رسمی روزگا کی وجہ سے وہ معاشی عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں،جس کے نتیجے میں ان میں انسانی ترقی کا عنصر بھی کم پایا جاتا ہے۔تعلیم، صحت،روزگار اور آگے بڑھنے کے برابر مواقع نہ ہونے کی وجہ سے جب ایک مخصوص سماجی طبقہ ایک کام پر انحصار کرنے لگتا ہے تو جدید سرمایہ دارانہ سماج میں بھی ماضی کا تعصب غالب آ جاتا ہے۔
مقامی حکمران طبقے اور سامراجی طاقتوں کے درمیان معاہدوں کے ذریعے حاصل کی گئی نام نہاد آزادیوں کے بعد جنوبی ایشیائی ممالک کے محنت کشوں کے حالات زندگی سامراجی قبضے کے وقت سے زیادہ بدتر ہیں۔صفائی کرنے والے محنت کشوں کے حالات بھی تقریباً ان ممالک میں ایک جیسے ہیں۔غیر رسمی روزگار، پسماندگی، سماجی تعصب ان تمام ممالک میں موجود ہے۔
جنوبی ایشیائی ممالک میں صفائی کا کام کرنے والے محنت کشوں کا تعلق ایک مخصوص سماجی پرت سے ہے،جس کے باعث کم و بیش تمام جنوبی ایشیائی ممالک میں صفائی کا کام کرنے والے محنت کش ایک مخصوص طبقے سے تعلق رکھنے والے نظر آتے ہیں،جن کے حالات زندگی دیگر محنت کشوں سے بھی زیادہ بدتر ہیں۔ایک طرف صفائی کا کام کرنے والے محنت کشوں کی صحت کو شدید خطرات درپیش ہوتے ہیں،دوسری طرف معاشرے میں بھی ان کے خلاف امتیازی سلوک برتا جاتا ہے،جس کے باعث ان کے وقار کو ٹھیس پہنچتی ہے۔جنوبی ایشیائی ممالک میں صفائی کا کام کرنے والے محنت کش سابقہ ہندو اچھوت ہیں، جنہوں نے عدم مساوات اور حقارت سے فرار حاصل کرنے کے لیے اسلام، بدھ مت، عیسائیت سمیت دیگر مذاہب اپنائے لیکن پھر بھی وہ ان تعصبات سے نجات نہیں حاصل کر سکے ہیں۔پاکستان میں صفائی کرنے والے مسلمان محنت کشوں سے ان کے ہم مذہب امتیازی سلوک کرتے ہیں، ان کے استعمال کیے ہوئے برتن الگ کیے جاتے ہیں۔صفائی کے کام کو مذہبی اور سماجی اثرات کی بنیاد پر پلید تصور کیا جانا اور ایک ہی برادری کے لوگوں کا مخصوص شعبے سے وابسطہ ہونا سرمایہ داری کی غیر ہموار ترقی اور ذات پات کے نظام کی باقیات کا اظہار ہے۔
سماجی پسماندگی اور ماضی کے تعصبات سے نجات کے لیے جو حل اس نظام کی حدود میں رہتے ہوئے تجویز کیے جاتے ہیں،وہ قانون سازی کے ذریعے تعصبات کا خاتمہ کرنے کی تجاویز پر مبنی ہوتے ہیں۔اگر قوانین کے ذریعے ان تعصبات کا خاتمہ ممکن ہوتا توپھران تمام ممالک میں امتیازی سلوک کے خلاف قوانین توموجود ہیں،لیکن محض قوانین سے ان ماضی کے تعصبات پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ جنوبی ایشیا میں صفائی کے کام سے وابسطہ محنت کش تنہا ان تعصبات اور غیر انسانی حالات زندگی کا مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں۔اس کے لیے انہیں محنت کشوں کی دیگر پرتوں سے مل کر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کرنی ہو گی۔امیر اور غریب کی طبقاتی تفریق کا خاتمہ کرتے ہوئے ہی ذات پات کی تفریق کا خاتمہ ممکن ہے۔محنت کش طبقہ ہی واحد طبقہ ہے جو ذرائع پیدا وار پر قبضہ کر کے منصوبہ بندی کے ذریعے نہ صرف سماج کو یکساں بنیادوں پر ترقی دے سکتا ہے،بلکہ ذات پات کی فرسودہ روایات اور سامراجی تقسیم کا بھی خاتمہ کر سکتے ہیں۔