نقطہ نظر

کیا جنگیں صرف پیسے بنانے کے لیے ہوتی ہیں؟

عمیر خورشید

جب بھی کوئی جنگ چھڑتی ہے، لوگ سب سے آسان اور سطحی وضاحت کی طرف لپکتے ہیں کہ ’یہ سب پیسے کے لیے ہو رہا ہے۔‘ وہ لینن کا مشہور جملہ دہراتے ہیں کہ ’جنگ ایک انتہائی منافع بخش چیز ہے۔‘ یہ بات کر کے یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ جیسے یہ پوری بحث کا خلاصہ ہے، یاجیسے سرمایہ داری ایک جوا خانہ ہے جہاں جنگ ڈالیں اور منافع نکال لیں۔

اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ کچھ لوگ واقعی جنگوں سے پیسہ کماتے ہیں۔تاہم لینن نے کبھی یہ نہیں کہا کہ جنگیں اس لیے ہوتی ہیں کہ سرمایہ دار انہیں شروع کر کے منافع کمانا چاہتے ہیں۔ یہ ایک سادہ مگر غلط فہمی پر مبنی مؤقف ہے جو لینن کے اصل تجزیے کو مسخ کر دیتا ہے۔ اپنی کتاب ’امپیریلزم: سرمایہ داری کا اعلیٰ ترین مرحلہ‘میں لینن نے وضاحت کی کہ جنگوں کی جڑیں انفرادی سرمایہ داروں کے فیصلوں میں نہیں بلکہ سرمایہ داری کے اس ڈھانچے میں پیوست ہیں جو اپنے سامراجی مرحلے میں ریاستوں کو جنگ کی طرف دھکیلتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت ریاستوں کو وسائل، منڈیوں اور عالمی اثر و رسوخ کے لیے مسلسل مسابقت میں الجھائے رکھتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ ایسے تنازعات میں پڑ جاتی ہیں جو شاید وہ بصورت دیگر نہ چنتیں۔ تاہم یہ کہنا کہ ’رے تھیون نے یوکرین کی جنگ صرف اس لیے شروع کروائی تاکہ اس کے شیئرز کی قیمت بڑھ جائے‘، بالکل ہی غیرسنجیدہ بات ہے۔

کچھ لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو ممالک سب سے زیادہ ہتھیار خریدتے ہیں،جیسے بھارت اور سعودی عرب،وہی ممالک ہیں جو تنازعات میں ملوث ہیں۔ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ جنگ کا اصل مقصد منافع کمانا ہے؟

یہ درحقیقت اس مغالطے کی ایک مثال ہے جہاں محض تعلق کو وجہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ جو ممالک جنگ میں ہوتے ہیں، وہ ہتھیار اس لیے خریدتے ہیں کیونکہ انہیں ان کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ اس لیے کہ اسلحہ ساز کمپنیوں نے انہیں جنگ میں دھکیل دیا ہے۔ اگر بوئنگ یا رے تھیون کل ختم ہو جائیں، تب بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان سرحدی تنازعات برقرار رہیں گے، اور سعودی عرب کے علاقائی حریف بدستور موجود رہیں گے۔ مزید برآں یہ دلیل ان ممالک کو نظرانداز کر دیتی ہے جو کسی فعال جنگ میں ملوث نہیں لیکن پھر بھی دنیا کے سب سے بڑے اسلحہ درآمد کنندگان میں شامل ہیں، جیسے قطر اور آسٹریلیا۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (SIPRI) کی Trends in International Arms Transfersرپورٹ 2025 کے مطابق یہ دونوں ممالک بڑے پیمانے پر ہتھیار درآمد کرتے ہیں، حالانکہ وہ کسی براہ راست جنگ میں شریک نہیں۔ اسلحہ کی صنعت جنگوں سے منافع ضرور کماتی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ جنگوں کو جنم دیتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے انشورنس کمپنیاں گاڑیوں کے مالکان کو پالیسیاں بیچ کر ٹریفک حادثات کا سبب نہیں بنتیں۔

سوال یہ نہیں کہ دفاعی صنعت جنگ سے منافع کماتی ہے یا نہیں،یہ واضح ہے کہ وہ ایسا کرتی ہے،بلکہ سوال یہ ہے کہ آیا ان کے منافع جنگ کا سبب بنتے ہیں۔ لینن کا تجزیہ یہ نہیں تھا کہ سرمایہ داری جنگ کو ہتھیاروں کی فروخت کی خاطر جنم دیتی ہے، بلکہ یہ تھا کہ سرمایہ دارانہ سامراج وہ جغرافیائی و سیاسی حالات پیدا کرتا ہے جو جنگ کو ناگزیر بنا دیتے ہیں۔ یہ فرق معمولی نہیں، بلکہ بنیادی ہے۔ ہاں، اسلحہ ساز کمپنیاں جنگ سے فائدہ اٹھاتی ہیں، لیکن اگر جنگ واقعی محض ایک کاروباری حکمت عملی ہوتی، تو ہم دیکھتے کہ لاک ہیڈ مارٹن جیسی کمپنیاں مسلسل اور براہ راست بڑی جنگوں کے لیے مہم چلاتیں۔تاہم حقیقت میں وہ محض دفاعی بجٹ بڑھانے کے لیے لابنگ کرتی ہیں۔ وہ یہ فیصلہ نہیں کرتیں کہ جنگ کب اور کہاں شروع ہو۔ امریکہ کی اسلحہ ساز کمپنیاں تائیوان کو ہتھیار بیچ کر اربوں کماتی ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ چین کو حملہ کرنے پر مجبور کر سکتی ہیں۔ دفاعی صنعت کا اثر و رسوخ ہے، لیکن اثر و رسوخ اور کنٹرول میں فرق ہوتا ہے۔

اگر اسرائیل فلسطین کے تنازعے کو دیکھیں، تو واضح ہو جاتا ہے کہ جنگ کو محض منافعے کے زاویے سے دیکھنا کتنا سطحی نقطہ نظر ہے۔ اگر یہ جنگ صرف پیسہ بنانے کے لیے ہوتی، تو یہ سرمایہ داری کے اصولوں کے مطابق کوئی عقل مندانہ سرمایہ کاری نہ ہوتی۔ اسرائیل اپنی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا ایک بڑا حصہ دفاع پر جھونک دیتا ہے۔ جنگ اس کی معیشت کو بگاڑتی ہے، کاروباری لاگت میں اضافہ کرتی ہے، اور اسے بین الاقوامی سطح پر مزید تنہا کر دیتی ہے۔ بے شک اسرائیلی فوج کو اسلحہ فراہم کرنے والی کمپنیاں نفع کماتی ہیں، لیکن خود جنگ کسی سرمایہ دارانہ تجارتی منصوبے کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک نوآبادیاتی تنازعہ ہے، جو زمین، شناخت، اور خودمختاری کی جدوجہد سے جڑا ہوا ہے اور دہائیوں سے بھڑک رہا ہے۔

امریکہ اسرائیل کو اربوں ڈالر کی فوجی امداد دیتا ہے، اور ہاں وہ رقم بالآخر اسلحہ ساز کمپنیوں کے پاس جاتی ہے۔ تاہم اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل نے محض لاک ہیڈ مارٹن کے مفادات کے لیے یہ جنگ شروع کی، تو آپ تاریخ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ فلسطینیوں کے خلاف صیہونی ملیشیائیں 1930 کی دہائی میں سرگرم تھیں، جب موجودہ جدید اسلحہ ساز کمپنیاں ابھی قائم بھی نہیں ہوئی تھیں۔ اگر آپ واقعی اس جنگ کو سمجھنا چاہتے ہیں، تو آپ کو نکبہ کی تاریخ، قبضے کی سیاست، اور حماس کے عروج جیسے عوامل کو دیکھنا ہوگا،نہ کہ صرف یہ دیکھا جائے کہ ہتھیار بیچنے سے کس کو کتنا منافع ہو رہا ہے۔

’جنگ صرف منافع کے لیے ہوتی ہے‘، جیسا مؤقف اس لیے ناقص ہے کہ یہ ہر تنازعے کو ایک سادہ سازش میں بدل دیتا ہے، جیسے جنگیں بس چند سرمایہ داروں کے ایگزیکٹو دفاتر میں طے کی جاتی ہوں۔ درحقیقت جنگوں کے پیچھے کہیں زیادہ پیچیدہ جغرافیائی، سیاسی اور تاریخی عوامل کام کر رہے ہوتے ہیں۔ لینن نے کبھی یہ نہیں کہا کہ تاریخ محض ایک دھوکہ ہے جس کا مقصد حکمران طبقے کو فائدہ پہنچانا ہے۔لینن نے کہا کہ سرمایہ داری وہ دباؤ پیدا کرتی ہے جو قوموں کو تنازعات کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ یہ کوئی معمولی فرق نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات، جب سرمایہ دار جنگ نہیں چاہتے، تب بھی جنگ ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات، جب جنگ معاشی طور پر تباہ کن ہوتی ہے، تب بھی جنگ برپا رہتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ کو سمجھنے کے لیے ایک میم یا ایک جملہ کافی نہیں بلکہ، جیسے لینن نے کہاکہ ہمیں ’کسی بھی صورتحال کا ٹھوس تجزیہ‘درکار ہوتا ہے۔ اگر آپ ایسا کرنے کو تیار نہیں، تو آپ تاریخ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے، محض سب سے آسان جواب ڈھونڈ رہے ہیں۔

Umair Khurshid
+ posts