لاہور(رپورٹ:فاروق سلہریا)1973میں ذوالفقار علی بھٹو نے ایران کا دورہ کیا۔ شاہ ایران سے ملاقات اور 200ملین ڈالر کی اقتصادی و فوجی امداد کے وعدے کے بعد واپسی پر بھٹو نے بلوچستان کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ حکومت برطرفی کی وجہ اسلام آباد میں عراق کے سفارتکار کے گھر سے ملنے والی 350سوویت سب مشین گنوں اور 1لاکھ گولہ بارود کے ذخیرے کا برآمد ہونا قرار دی گئی۔ بھٹو نے دعویٰ کیا کہ یہ ہتھیار پاکستانی یا ایرانی بلوچستان کے لیے تھے۔
شاہ ایران نے بھٹو کو اپنی سرحد پر کسی بھی قوم پرست تحریک کو ناقابل برداشت قرار دیا تھا۔ خود شاہ ایران نے مصدق کی قوم پرست حکومت کے خلاف امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی ایماء پر ہونے والی بغاوت کے نتیجے میں 1950میں اقتدار حاصل کیا تھا۔ مصدق حکومت نے ایرانی تیل کے کچھ حصے کو قومیانے کی دھمکی دی تھی۔ شاہ ایران کو تیل سے مالامال بلوچستان کی زیادہ فکر تھی، کیونکہ بلوچستان پاکستان، افغانستان اور ایران کے درمیان تقسیم ہے۔
عراق کے سفارتکار کے گھر سے ہتھیار برآمد ہونے کے بعد بھٹو نے امریکی صدر نکسن کو ایک خط لکھا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ اس برآمدگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’دشمن طاقتیں پاکستان کے مشرقی حصے کو الگ کرنے سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ ان کا مقصد پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے۔‘
جلد ہی فرانسیسی میراج پاک فضائیہ کے زیر استعمال اور امریکی کوبرا ہیلی کاپٹر بلوچستان پر بمباری کرنے لگے۔ چونکہ پاکستانی پائلٹ ابھی تک کوبرا کو نہیں اُڑا سکتے تھے، اس لیے شاہ ایران نے نہ صرف اپنے کوبراز بلکہ پائلٹ بھی بھیجے تھے۔ میراج اور کوبرا اسکواڈرن کے ساتھ 80,000 زمینی دستے بھی شامل تھے۔ شورش بھی کچھ کم نہ تھی۔
ایک اندازے کے مطابق 80,000 باغی بلوچستان پیپلز لبریشن فرنٹ کی زیر قیادت بغاوت کی صفوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ اگرچہ بلوچستان کی شورش بنیادی طور پر پریس سنسرشپ کی وجہ سے الگ تھلگ رہی اور ملک کے باقی حصوں میں حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی، لیکن اس نے لاہور کے کچھ متوسط طبقے کے مارکسی نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کیا۔ ان میں احمد رشید بھی شامل تھے جنہوں نے بعد میں صحافت کا رخ کیا اور طالبان پر ایک بہترین کتاب منظر عام پر لائی جس نے انہیں پوری دنیا میں مقبول بنایا۔ ان لاہوری باغیوں نے بلوچ نام بھی اپنا لیے تھے۔ احمد رشید شہباز خان بن گئے تھے۔
بلوچستان میں بھٹو کی مہم جوئی میں 3300 پاکستانی فوجیوں کی جانیں گئیں جبکہ 5300 گوریلے مارے گئے۔ مرنے والوں کی تعداد میں آپریشن کے دوران ہلاک ہونے والی خواتین اور بچے شامل نہیں ہیں۔ سب سے بڑھ کر بھٹو نے ایک اور بار پاکستانی فوج کو شہری معاملات میں شامل کرکے اپنی قبر خود کھودی۔ فوج نے جو بلوچستان میں کیا، وہ بعد میں باقی پاکستان میں بھی کیا۔ 1977 تک پورے پاکستان پر پاکستانی فوج نے قبضہ کر لیا تھا۔ پاکستان پر قبضہ کرنے پر نئے فوجی آمر نے بلوچستان میں فتح کا اعلان کیا اور بلوچستان سے فوج واپس بلا لی گئی۔
بلوچستان کے سوال کی ابتداء اس کے زبردستی پاکستان میں شامل ہونے کے وقت ہی ہو گئی تھی۔ تقسیم کے وقت برطانوی بلوچستان کے علاوہ بلوچستان میں 4ریاستیں تھیں: قلات، مکران، خاران اور لسبیلہ۔ قلات سب سے طاقتور اور سب سے بڑی تھی۔ خان آف قلات میر احمد یار خان قلات کے لیے نیپال جیسا درجہ چاہتے تھے۔ انہوں نے 1946میں کیبنٹ مشن کو بتایا کہ نیپال اور قلات ہندوستان کی دو ایسی ریاستی ہیں، جنہوں نے دہلی کی بجائے گوروں سے بات چیت کی۔
خان آف قلات نے قیام پاکستان کے 24گھنٹوں کے اندر قلات کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے دہلی اور وائٹ ہال میں قلات کی آزادی کے مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے ایک برطانوی ڈگلس فیل کو اپنا وزیر خارجہ مقرر کیا تھا۔ اس کے علاوہ جناح نے 18 جون 1947 کو وعدہ کیا تھاکہ ’ریاستیں آئینی اور قانونی طور پر بالادستی کے خاتمے پر آزاد اور خودمختار ہو سکتی ہیں اور اپنی پسند کا کوئی بھی طریقہ اختیار کرنے کے لیے آزاد ہوں گی۔‘
جولائی 1947 میں برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی نے اعلان کیا کہ تقسیم کے بعد برصغیر کی تمام شاہی ریاستوں کے پاس تین آپشن ہوں گے: آزادی، ہندوستان سے الحاق یا پاکستان سے الحاق۔ جناح اور نہرو نے پہلے اس پر اتفاق کیا تھا،لیکن بعد میں نہ صرف انہوں نے اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کی، بلکہ برطانوی حکمرانوں نے بھی زبانی وعدوں پر عملدرآمد کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
قلات اور پاکستان کے درمیان یکم اپریل 1948 کو اس وقت تصادم ہوا، جب پاکستانی فوج نے بلوچستان میں اپنے گیریژن کمانڈر کو حکم دیا کہ وہ قلات پر مارچ کرے اور خان کو گرفتار کرے،جب تک کہ وہ الحاق کے معاہدے پر دستخط نہ کرے۔ خان نے ہتھیار ڈال دیے، لیکن ان کے چھوٹے بھائی شہزادہ عبدالکریم، جو اس وقت مکران کی نئی الحاق شدہ بلوچ ریاست کے گورنر تھے، نے اسلحہ، گولہ بارود اور خزانے کے فنڈز اپنے کنٹرول میں لے لیے اور پاکستان کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیاتھا۔ تقریباً 700 پیروکاروں کو سرحد پار افغانستان لے جانے کے بعد عبدالکریم نے بلوچ نیشنل لبریشن کمیٹی کے نام سے ایک منشور جاری کیا۔
آزادی کے 225 دنوں کے بعد خان آف قلات کو الحاق کے معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا۔ خان کے بھائی شہزادہ عبدالکریم نے افغانستان میں رہتے ہوئے مٹھی بھر گوریلوں کے ساتھ الحاق کی مزاحمت کی لیکن جلد ہی اس بغاوت کو کچل دیا گیا۔ کریم کو پھنسا کر گرفتار کر لیا گیا۔ بلوچستان کو پاکستان میں شامل کیا گیا تھا۔اس طرح یہ مغربی پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بن گیا، اور اس کے رقبے کا تقریباً 40 فیصد، لیکن آبادی کا صرف چار فیصد تھا۔
10 سال بعد بلوچستان ایک بار پھر بغاوت کی لپیٹ میں آگیا۔ پنجابی حکمران طبقے کو خدشہ تھا کہ مغربی پاکستان کے تین اقلیتی صوبے مشرقی پاکستانیوں کے ساتھ مل کر ان کے خلاف ہو سکتے ہیں۔ نیز عددی طور پر بڑے مشرقی پاکستانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے، انہوں نے 1954 میں مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کو ایک یونٹ میں متحد کر دیا۔ تینوں چھوٹے صوبوں اور افغانستان نے ون یونٹ پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ بلوچستان میں بڑھتی ہوئی ون یونٹ مخالف تحریک کو کچلنے کے لیے پہلی فوجی آمریت کے نفاذ سے ایک دن قبل فوج نے چڑھائی کر دی۔ خان آف قلات کو گرفتار کر لیا گیا، ان کے محل کی توڑ پھوڑ کی گئی۔ گرفتاریاں اور گھر گھر تلاشی روز کا معمول بن گیا۔ بلوچوں مسلح مزاحمت کے ذریعے اس ریاستی جارحیت کا ردعمل دیا۔ 10 اکتوبر 1958 کو 1000 افراد پر مشتمل ملیشیا جمع ہوئی اور نوروز خان کی قیادت میں ملیشیا نے ون یونٹ کے خلاف اور خان آف قلات احمد یار خان کی رہائی کے لیے جدوجہد شروع کی۔ ملیشیا نے 19 مئی 1959 تک پاکستانی فوج کو ایک سال سے زیادہ عرصے تک لڑائی میں مصروف رکھا،جس کے بعد دونوں فریقین نے بات چیت پر اتفاق کیا، لیکن یہ بات چیت ملیشیا لیڈر نوروز خان کو گرفتار کرنے کا محض ایک جال ثابت ہوئی۔ جولائی میں نوروز کے 5رشتہ داروں بشمول ان کے بیٹے کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ وہ خود 1964 میں جیل میں ہی فوت ہو گئے۔
1960 کی دہائی کے دوران بلوچستان نے فوج کے خلاف مزاحمت کی۔ سیلگ ہیریسن کے مطابق دسمبر 1964 میں 500 گوریلوں نے فوج پر حملہ کیا جس میں بہت سے لوگ مارے گئے۔ دسمبر 1965 میں 200 پاکستانی فوجی مارے گئے۔ 1966 میں بلوچستان کے علاقوں مری بگٹی میں ایک اور بڑا فوجی حملہ کیا گیا۔ آخرکار 28 جنوری 1967 کو حکومت پاکستان نے عام معافی کا اعلان کیا۔ بلوچ رہنماؤں اور اسلام آباد کے درمیان مذاکرات کا نیا دور شروع ہوگیا۔ ایک دہائی پرانی مسلح جدوجہد اپنے اختتام کو پہنچی۔ تاہم یہ مسلح جدوجہد چند سالوں بعد اس وقت دوبارہ شروع ہو گئی، جب شاہ ایران کی ہدایت پر بھٹو نے بلوچستان میں ایک بدقسمت آپریشن شروع کیا۔
1970 میں بلوچستان میں ہونے والے پہلے عام انتخابات نے بلوچ قوم پرستوں کو وہ قانونی حیثیت حاصل کرنے میں مدد دی جس کی انہیں ضرورت تھی۔ انہیں بلوچستان میں بھاری اکثریت میں ووٹ دیے گئے۔انتخابی کامیابی نے اس پروپیگنڈے کا بھی منہ بند کر دیا کہ وہ محض احتجاج کرنے والے ہیں، انہیں عوامی حمایت حاصل نہیں۔ بلوچ قوم پرستوں نے جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کی حمایت سے بلوچستان کی پہلی منتخب حکومت بنائی، جسے 1973میں بھٹو نے دورہئ ایران سے واپسی پر برطرف کر دیا تھا۔
تاہم اس کے بعد بھی کچھ نہیں بدلا۔ بلوچستان معدنی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود معاشی طور پر پسماندہ ترین صوبہ ہے۔ بلوچوں کی بڑی شکایات قدرتی گیس کی رائلٹی اور اس کے استعمال کے گرد گھومتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بلوچستان میں دریافت ہونے والی گیس دریافت ہونے کے بعد تقریباً دو دہائیوں تک بلوچستان کے دارالحکومت میں دستیاب نہیں تھی، جب کہ یہ پنجاب کے دور دراز علاقوں تک پہنچ چکی تھی۔ فوج اور بیوروکریسی میں بلوچوں کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ چوٹی کے 40 صنعتکار گروپوں میں سے کسی کا تعلق بھی بلوچستان سے نہیں ہے۔ صحت اور تعلیم کی سہولیات بڑے پیمانے پر دستیاب نہیں ہیں۔ معاشی محرومیوں میں اس وقت اضافہ ہوا جب وفاقی حکومت نے ساحلی شہر گوادر میں ایک منصوبہ شروع کیا۔ اس وقت بلوچ اس منصوبے کی مزاحمت کر رہے ہیں کیونکہ یہ دوسرے صوبوں سے بڑے پیمانے پر بلوچستان کی طرف نقل مکانی کا باعث بنے گا۔ 150 ملین کے ملک میں پہلے سے ہی ایک چھوٹی قومیت کے طورپر موجود بلوچ جلد ہی ریڈ انڈین بن جائیں گے۔ پہلے ہی پشتونوں کی بڑی موجودگی بلوچوں کی پوزیشن کو کمزور بناتی ہے۔
بلوچوں کا مطالبہ ہے کہ گوادر میں بلوچوں کو نوکریاں دی جائیں اور گوادر میں غیر بلوچوں کی آمد کو روکا جائے۔ مشرف حکومت نے بلوچوں کی شکایات پر کوئی توجہ دینے کے بجائے بلوچستان میں تین نئے فوجی اڈے بنانے کا اعلان کیا۔ بلوچ نئے فوجی اڈوں کی تعمیر کو انہیں مزید محکوم بنانے کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔
نتیجتاًمشرف دور میں ہی بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) تیزی سے ابھرنا شروع ہوئی۔ ریاست نے بلوچوں کی شکایات کو سننے اور ان کا ازالہ کرنے کی بجائے طاقت کے ذریعے ہی جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ سی پیک منصوبوں،بیرونی سرمایہ کاری اور وسائل کے استحصال کے بارے میں بلوچوں کی شکایات اب ان منصوبوں کے خلاف مضبوط ہوتے ہوئے مسلح رد عمل کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ یوں یکم اپریل1948سے شروع ہونے والے مسلح تصادم کا کوئی فوری اختتام نظر نہیں آرہا ہے۔