خبریں/تبصرے

’کافی کی چسکی‘ میں ناروے کا پچاس سالہ ’مسئلہ پاکستان‘

فاروق سلہریا

ناروے میں بڑی تعداد میں پاکستانی تارکینِ وطن کی موجودگی کا پہلی بار احساس 1970ء میں ایک اخبار کی شہ سرخی سے ہوا۔ وہ شہ سرخی تھی، ناروے کا پاکستان پرابلم۔ اِکا دُکا پاکستانی شاید 1970ء سے پہلے بھی آ چکے تھے مگر ڈیڑھ ہزار کے قریب پاکستانی 1970ء میں ناروے آ پہنچے یا ان کی موجودگی کا احساس ضرور ہوا۔ یوں ناروے کے’پاکستان پرابلم‘کا آغاز ہوا۔ مسئلہ اخبار کے مطابق یہ تھا کہ ان نئے آنے والوں کو نہ تو زبان آتی ہے، نہ نارویجن ثقافت کا پتہ ہے، یہ معاشرے کا حصہ کیسے بنیں گے۔ اس ’پرابلم‘ کو اب پچاس سال ہو چکے ہیں۔

وہ جو معروف فرانسیسی مفکر مشعل فوکو نے کہا تھا نا کہ”جس کے پاس طاقت ہوتی ہے، اسی کا بیانیہ بھاری ہوتا ہے“۔ ناروے کے مین اسٹریم اخباروں کو ’پاکستان پرابلم‘ تو ضرور دکھائی دیا مگر پاکستانیوں کا ’ناروے پرابلم‘ اکثر بے زبان ہی رہا۔

’کافی کی چسکی‘ کی شکل میں پاکستانی نارویجن تھیٹر اور فلم ڈائریکٹر ٹونی عثمان نے پاکستانیوں کے ’ناروے پرابلم‘ کو ایک سٹیج پلے کی شکل میں آواز دی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ناروے کے دارلحکومت اوسلو کے دل میں واقع ایک تھیٹر میں آج کے دن جب یہ کھیل پہلی بار پیش کیا جائے گا تو ناروے کی حکومت میں وزارتِ ثقافت کا قلمدان ایک پاکستانی نژاد سیاستدان عابد راجہ کے پاس ہے۔ اس وقت ناروے میں دائیں بازو کی حکومت ہے مگر اس سے پہلے جوبائیں بازو کی حکومت تھی اس میں بھی اس وزارت کا قلمدان ایک پاکستانی نژاد خاتون، ہادیہ تاجک، کے پاس تھا۔

گو اس کھیل کا ایک پیغام تو یہ ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود (جو بعض اوقات مضحکہ خیز واقعات کی شکل میں رونما ہوتے اور’کافی کی چسکی‘ میں انہیں دیکھ کر حاضرین ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جائیں گے) آج ناروے میں پاکستانی تارکینِ وطن نہ صرف ناروے کی سیاسی، سماجی، کاروباری اور ثقافتی زندگی کا حصہ ہیں بلکہ چالیس ہزار کے لگ بھگ یہ کمیونٹی ناروے کی سب سے بڑی غیر ملکی کمیونٹی سمجھی جاتی ہے۔

’کافی کی چسکی‘ البتہ صرف اس سادہ سے پیغام پر مشتمل کھیل نہیں ہے۔ یہ اپنے گریبان میں جھانکنے کی بھی ایک کوشش ہے۔ کہانی کے دو مرکزی کردار ہیں۔ کھاریاں سے تعلق رکھنے والا صادق جب 1970ء میں اوسلو پہنچا تو ایئر پورٹ پر ہی شفیق کے ساتھ مڈ بھیڑ ہو گئی۔ دونوں میں فوراً دوستی ہو گئی جو پچاس سال سے قائم ہے۔ سالہا سال سے سات آٹھ پاکستانی نژاد دوست ہر ماہ ملا کرتے تھے مگر پھر باہمی ناراضگیاں اور انفرادی مسائل کی وجہ سے اب ان دو کی ہی ماہانہ ملاقات ہو پاتی ہے۔

تکنیکی لحاظ سے کھیل اس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے کہ سٹیج پر ان دو کرداروں اور ایک رقاصہ کے علاوہ کوئی نظر نہیں آتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کردار نبھانے والے دونوں اداکار پاکستانی کمیونٹی سے تعلق نہیں رکھتے۔

صادق دائیں بازو کے خیالات رکھتا ہے۔ ساری زندگی ناروے میں رہا مگر ثقافتی اور سماجی طور پر پاکستان سے تعلق رکھنے والی رجعتی سوچوں سے باہر نہ نکل سکا۔ بیٹی کی شادی ایک بھانجے سے کی۔ طلاق ہو گئی تو ہمیشہ اپنی بیٹی کوموردِ الزام ٹہراتا رہا حالانکہ غلطی بیٹی کی نہیں تھی۔ دلچسپ بات ہے کہ اسے ناروے کے رائٹ ونگ اچھے نہیں لگتے مگر پاکستان میں رائٹ ونگ سیاست کا فروغ چاہتا ہے۔

اس کے برعکس شفیق نے پسماندہ سوچوں سے جان چھڑا لی ہے۔ اسے صادق کے دوغلے پن سے سخت کوفت ہوتی ہے مگر تمام تر اختلافات کے باوجوددونوں کی دوستی قائم رہتی ہے۔

کھیل کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ایک طرف اگر یہ دکھایا گیا ہے کہ پاکستان اور ناروے کی ثقافت کا ملاپ ہو رہا ہے جس میں ہامسن، بابا بلھے شاہ، احمد فراز اور استاد دامن بھی اس کھیل میں شامل ہیں۔ تو دوسری جانب پاکستان کی سیاسی تاریخ پر بھی ایک ترقی پسندانہ تبصرہ موجود ہے۔ آخر یہ تاریخ ناروے کی پاکستانی کمیونٹی کی شناخت پر کئی حوالے سے اثر انداز ہوتی آئی ہے۔

اس کی ایک مثال تو یہ ہے کہ 1970ء میں جب پہلی بڑی کھیپ ناروے پہنچی تو بنگلہ دیش مشرقی پاکستان تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی اَسی کی دہائی میں یہ پر زور مطالبہ کر رہے تھے کہ ان کے بچوں کو ناروے کے اسکولوں میں ان کی مادری زبان (جس سے مراد اردو لی جاتی ہے، گو اکثر کا تعلق پنجاب سے تھا یا ہے) پڑھائی جائے۔ ادھر بنگلہ دیش بننے کی ایک وجہ وہ بیگانگی بھی تھی جو اردو بنگالی تنازعے کی وجہ سے پاکستان بنتے ہی پیدا ہوئی۔

مرکزی کرداروں کے مابین نظریاتی اختلاف کے ذریعے اس تضاد کو بھی پیش کیا گیا ہے مگر کھیل کا ایک اہم پہلو نسل پرستی کی بد نما سیاست کو ننگا کرنا بھی ہے۔ اداکاروں کی ٹریڈ یونین کے پلیٹ فارم اور بعض دیگر پلیٹ فارمز سے ٹونی عثمان خود بھی عمر بھر نسل پرستی کے خلاف انتہائی متحرک رہے ہیں۔

اَسی کی دہائی میں یہ ہوا کہ اوسلو میں کریانے کی اکثر دکانیں پاکستانیوں کی ملکیت تھیں۔ ان دکانوں پر نسل پرستوں کے حملے عام سی بات تھی۔ انشورنس کمپنیوں نے پاکستانی دکانداروں کو ہدایت کر رکھی تھی کہ وہ شیشے کی کھڑکی پر لوہے کا جنگلہ لگائیں ورنہ حملے سے ہونے والے نقصان کے بعد انشورنس کامعاوضہ نہیں ملے گا گویا حملے اس قدر عام تھے۔

اس کھیل کی دلچسپ بات یہ ہے کہ نارویجن پاکستانی شناخت، سیاست، تاریخ اور ثقافت کے مسائل یا امتزاج کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ ناروے کی پبلک ’مینوں دھرتی قلعی کرا دے‘بھی سنے گی جسے اس کھیل کے لئے ارم حسن نے گایا ہے۔ پی ٹی وی کے پرانے قارئین کو یاد ہو گا کہ ارم حسن کون تھیں۔ آجکل وہ ناروے میں مقیم ہیں اور شو بز سے کنارہ کش ہو چکی ہیں مگر اس کھیل کے لئے ٹونی عثمان نے ان کو بھی شامل کر لیا ہے۔

اسی طرح آرٹسٹک اعتبار سے یہ بھی ایک دلچسپ تجربہ ہے کہ غیر پاکستانی اداکار پاکستانی کردار ادا کریں گے۔ اس کھیل کو چھ دفعہ اسٹیج پر پیش کیا جائے گا۔ اس کھیل میں دلچسپی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ناروے کے ریاستی ٹیلی وژن چینل این آر کے (NRK) نے اس کھیل پر ایک رپورٹ پیش کی ہے۔ سوشلسٹ پارٹی (SV)سے تعلق رکھنے والی اوسلو کی میئربھی اس کھیل کو دیکھنے آ رہی ہیں۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔