عدنان فاروق
گذشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پرفیصل آباد کے ایک پولیس افسر کی تصویر کافی زیادہ شیئر کی جا ری ہے۔ مذکورہ پولیس افسر نے مبینہ طور پر ایسے چار افراد کو جان سے مار ڈالا ہے جن پر ایک بچے سے زیادتی کا الزام تھا۔
جلداور فوری انصاف کی بڑھکیں، ’ لٹکادو‘والی سوچ، بد عنوان عدالتوں کا ماتم۔ ۔ ۔ سب ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا پر ابھر آیا ہے۔ مذکورہ پولیس افسر کی حمایت میں سینہ تان کر کھڑے اِن سوشل میڈیا ریفارمرز میں آپ کو صحافی، یونیورسٹی پروفیسر، ڈاکٹر، انجینئر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ تو نظر آئیں گے، یورپ اور شمالی امریکہ میں مقیم پاکستانی، بالخصوص خواتین، کا شور بھی سنائی دے گا۔
تارکین وطن یہ شور مچاتے ہوئے سب سے زیادہ مضحکہ خیز نظر آتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے سیاسی پناہ ہی اس بنیاد پر لی ہوتی ہے کہ پاکستان میں ان کو پھانسی کی سزا ہو سکتی ہے۔
ابھی چند دن پہلے، انہی صفحات میں ’جدوجہد‘نے سخت سزاؤں پر بات کرتے ہوئے ایک مضمون میں یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ سخت سزاؤں سے بچوں کے خلاف زیادتی کے واقعات کم نہیں ہوں گے ورنہ قصور کی زینب والے مقدمے میں مجرم کو پھانسی دینے کے بعد مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔ بلکہ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے، جس کو مکمل جراحی سے ختم کیا جا سکتا ہے محض علامات کے علاج سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جب تک ہم اس نفسیات کو ٹھیک نہیں کرتے یا ان کی اس بارے باقاعدہ تربیت نہیں کرتے، یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ ضیا دور میں تو ایسے ہی ایک مجرم کو مغلپورہ لاہور میں سر ِعام پھانسی دی گئی تھی۔ مسئلہ حل ہونا ہوتا تو ضیا دور میں ہی حل ہو جاتا۔
اب ذرا اس مسئلے کی طرف آتے ہیں کہ جب عدالتیں انصاف نہیں کرتیں توکیا پولیس کو خود ہی سزا دینی چاہئے؟
اس سوال کا جواب ہمیں پاکستان کی حالیہ تاریخ سے ہی مل جاتا ہے۔ نوے کی دہائی میں شہباز شریف نے ’جلد اور سستے انصاف کی فراہمی‘ کے لئے پولیس مقابلوں کا سلسلہ شروع کروایا تھا۔ شروع شروع میں شہباز شریف اور پولیس مقابلے کرنے والے افسروں کو ہیروآئز (Heroize)کیا گیا۔ پھر پتہ چلا کہ فلاں انسپکٹر کو پیسے دو، پولیس مقابلوں کا ماہر ہے، کسی کو بھی قتل کروا لو۔ کہا جاتا ہے کچھ پولیس انسپکٹر پولیس مقابلوں کے ذریعے ارب پتی بن گئے۔
جب انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے ان پولیس مقابلوں پر تنقید کی تو کسی نے بات نہ سنی۔ انگریزی اخبارات میں بھی تھوڑا بہت احتجاج ہوا مگر عمومی طور پر ان مقابلوں پر شروع میں کسی نے اعتراض نہ کروایا۔ یہ الزامات بھی لگنے لگے کہ شہباز شریف اپنے سیاسی مخالفین کو پولیس مقابلوں میں مروا رہے ہیں (ایم ایس ایف کے ناپسندیدہ رہنما اسی عرصے میں پولیس مقابلوں میں ہلاک ہوئے)۔ چند سال کے بعد ایک تو یہ ہوا کہ پولیس مقابلوں کی مذمت ہونے لگی دوسرا یہ ہوا کہ پنجاب میں جرم کی نوعیت بہت متشدد ہو گئی۔
ڈاکے ڈالنے والے نوجوان سوچتے تھے کہ پکڑے گئے تو پولیس مقابلے میں مارا تو جانا ہی ہے لہٰذا ٰدو چار کو مار کر مرو تو کیا فرق پڑتا ہے۔ ایسے کیس بھی سامنے آئے کہ ڈاکو وں نے ڈاکے کے علاوہ گھر کی خواتین کے ریپ بھی کئے۔
ہمارے ان مڈل کلاس دانشوروں سے چند سوالات ہیں جو خون کے پیاسے ہوئے جا رہے ہیں: اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ فیصل آباد والے آپ کے ہیرو کل کلاں کسی بے گناہ کو نہیں ماریں گے یا یہ کہ جن کو ہلاک کیا گیا ہے وہ واقعی بے گناہ تھے؟ پولیس کا کام قانون کی پاسداری ہے یا خلاف ورزی؟ اگر پولیس کے جعلی یا اصلی اور اخلاقی مقابلے درست ہیں تو پھر فوج پر آپ کس منہ سے تنقید کریں گے اگر اس نے پھر اقتدار پر قبضہ کر لیا، کیا قانون کی پابند صرف فوج ہے؟ کیا انکم ٹیکس انسپکٹر کو بھی یہ اختیار ملنا چاہئے کہ وہ ٹیکس چوری کرنے والے کو پھڑکا دے (اور ٹیکس چوری کرنے میں سخت سزاؤں کا مطالبہ کرنے والے سب سے آگے ہوتے ہیں)؟ سب سے اہم: اگر زیادتی کا شکار بننے والے بچے کے والد نے مبینہ مجرموں کو قتل کر دیا ہوتا تو کیا آپ اِس کے والد کو بھی ہیروآئز کرتے؟ اگر ایسا ہے تو کیا صرف بچوں سے زیادتی اور ریپ کا بدلہ لینے کے لئے قتل جائز ہے یا کسی بھی قسم کی زیادتی کے لئے سزا کا تعین پولیس مقابلہ کرنے والا پولیس افسر یا ظلم کا شکار ہونے والا خاندان خود کرے گا؟ اگر ان سارے سوالوں کا جواب ہاں میں ہے تو ریاست کا کیا مقصد ہے؟
جدید دنیا کا جائزہ یہی بتاتا ہے کہ جرم سخت اور وحشیانہ سزاؤں سے ختم نہیں ہوتا۔ اب تو سعودی عرب نے بھی کوڑوں کی سزا ختم کر دی ہے۔ دوستووسکی نے کہا تھا: ”جرم معاشرے میں موجود مسائل کے خلاف احتجاج ہوتا ہے۔ جرائم کی وجوہ ختم کرنے کی ضرورت ہے۔“
اسی طرح اگر عدالتیں انصاف نہیں دیتیں تو عدالتیں ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ پولیس مقابلے کرنے کی۔ اگر عدالتیں بکتی ہیں تو پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ پولیس مقابلے بھی بکتے ہیں۔ عدالتوں میں تو شائد انصاف ہو جائے، پولیس مقابلے میں ہر بے گناہ اور معصوم کاانجام ہمیشہ قبرستان ہوتا ہے۔