فاروق سلہریا
اس سال جنوری میں کراچی کے ادبی میلے میں پاکستان کے معروف دانشور پروفیسر پرویز امیر علی ہود بھائی نے تحریکِ پاکستان، اس تحریک کے اکابرین،’نظریہ پاکستان‘، بنگلہ دیش کے قیام اور سول ملٹری تعلقات پر ایک تقریر کی۔
ان کی اس تقریر کو، ان کی باقی تقاریر اور مضامین کی طرح، کافی پذیرائی ملی۔ پرویز ہودبھائی کی مقبولیت کی ایک وجہ ان کی بے باکی اور اصول پسندی بھی ہے۔ وہ بے لاگ تبصرہ کرتے ہیں۔’جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہتے‘ہیں۔ ان جیسا حوصلہ مند عوامی دانشور شائد ہی کوئی اور ہو۔ ہتک، لال مسجداور احمدی کمیونٹی کے بارے میں جب میڈیا اور پبلک سفیئر میں کوئی بات کرنے کو تیار نہ تھا، انہوں نے جان خطرے میں ڈال کر اپنا ما فی الضمیر بیان کیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ طاقتور حلقوں کے نشانے پر رہتے ہیں۔
ان کا مقابلہ کرنے کے لئے اگر ایک طرف ’بول‘جیسے چینلز پر کردار کشی کی مہم چلائی جاتی ہے تو دوسری جانب جاوید جبار جیسے انگریزی میڈیم سوفٹ سپوکن، بقول شخصے ’موچی‘، کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ ہودبھائی کی مذکورہ بالا تقریر کا جواب جاوید جبار نے ایک یوٹیوب انٹرویو میں، بہ زبانِ انگریزی، دیا۔
جاوید جبار کا خاکہ ہم نے ظریفانہ انداز میں ’جدوجہد‘ میں چند دن قبل پیش کیا تھا لہٰذا ٰ تکرار سے بچنے کے لئے ہم ان کے بیانئے کا جائزہ لیتے ہیں۔
جاوید جبار نے نقطہ بہ نقطہ ہود بھائی کو جواب دیا ہے۔ ذیل میں اسی ترتیب سے موقف پیش کیا جائے گا۔
پہلا نقطہ: جاوید جبار ہودبھائی کی اس بات سے متفق ہیں کہ پاکستان کے قیام کے وقت اکابرینِ تحریک شدید گومگو (کنفیوژن) کا شکار تھے مگر جاوید جبار کی نظر میں یہ کوئی بری بات نہیں اور یہ کہ ہود بھائی جسے کنفیوژن کہہ رہے ہیں، دراصل اسے ارتقا کہنا چاہئے۔ اس نقطے پر چونکہ جاوید جبار نے زیادہ بحث نہیں کی، اس لئے ہم بھی اگلے نقطے کی طرف بڑھتے ہیں۔
دوسرا نقطہ: جاوید جبار مشہور و معروف دو قومی نظرئے کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ گاندھی اور آریہ سماج جیسی تنظیموں نے جناح، اقبال اور چوہدری رحمت علی پر مسلط کیا۔ دوم، یہ بنگلہ دیش بن جانے سے بھی غلط ثابت نہیں ہوا۔ رہی بلوچستان میں علیحدگی پسندی تو ایسی تحریکیں تو سکاٹ لینڈ اور باسک کی شکل میں برطانیہ عظمیٰ اور سپین کو بھی درپیش ہیں۔
یہ وہ نقطہ ہے جب اس انٹرویو میں جاوید جبار انگریزی میں مطالعہ پاکستان پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کے دانشوارانہ دیوالیہ پن کا سب سے بد ترین اظہار یہ ہوتا ہے کہ ان کے منہ سے برطانوی کلونیل ازم کے خلاف ایک لفظ نہیں نکلتا۔ صرف اس لئے نہیں کہ پاکستان کا حکمران طبقہ ایک زمانے میں انگریزوں کا گماشتہ تھا، یہ اس لئے بھی کلونیل ازم کا ذکر نہیں کرتے کہ دو قومی نظرئے کا بت دھڑام سے زمین بوس ہو جاتا ہے۔ کلونیل ازم سے پہلے، ایک ہزار سال تک یہاں کوئی ہندو مسلم قوم نہیں تھی۔ ویسے بھی قومیت ایک جدید نظریہ ہے جس نے سرمایہ داری کے ساتھ جنم لیا لیکن مصیبت یہ ہے کہ پاکستان اور اسرائیل کے علاوہ مذہب کو کسی ملک میں بھی قومیت کی بنیاد نہیں بنایا گیا اور ان دونوں ملکوں میں مسلسل خون خرابہ جاری ہے۔
بنگلہ دیش کے بارے میں جاوید جبار نوائے وقت طرز پہ یہ گھسا پٹا موقف لیتے ہیں کہ دیکھئے جی بنگلہ دیش واپس بھارت میں ضم نہیں ہوا اس لئے دو قومی نظریہ ٹھیک ہے۔ جواباً عرض ہے: بلوچستان اور سندھ کے علیحدگی پسند بھی بھارت میں ضم نہیں ہونا چاہتے پھر ان پر غداری کے الزام کیوں؟ لیکن اصل بات یہ کہ اگر مذہب قومیت کی بنیاد ہے تو پاکستان ٹوٹا ہی کیوں؟ محض الفاظ کے گورکھ دھندے سے آپ حکمران طبقے کے اتنے بڑے جرم پر پردہ ڈال کر کسے بیوقوف بنانا چاہتے ہیں؟ آخر اس کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں کی جان گئی اور آج بھی بلوچستان میں لاشوں کو جیپوں کے پیچھے باندھ کر گھسیٹا جا رہا ہے۔
ایسا ہی ایک سوال افغان مہاجرین کے حوالے سے بھی اٹھتا ہے۔ اگر مسلمان ایک قوم ہیں تو بے چارے افغان مہاجرین کو کیوں نکالا؟ پھر ان پچاس سے زیادہ مسلمان ملکوں کی کیا تُک ہے؟ اور نہیں تو کم از کم ایران اور افغانستان کے ساتھ ہی کوئی فیڈریشن بنا لی جائے۔ حالت تو یہ ہے کہ ’کافر‘ ہندوستان کی نسبت آج کل پاکستان کے ’اسلامی‘ افغانستان سے تعلقات زیادہ خراب ہیں۔
سب سے اہم بات: ہندوستان کے پندرہ بیس کروڑ مسلمانوں بارے جاوید جبار نے ہماری رہنمائی نہیں کی۔ وہ ہندوستانی شہری ہیں یا پاکستانی قوم کا حصہ؟
ہماری جاوید جبار اور ان کے طبقے سے گزارش ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو بی جے پی کے ظلم سے نجات دلانے کے لئے پاکستان بلا لیجئے۔ ہاں مگر اس دفعہ ان کی آباد کاری سندھ کی بجائے پنجاب کے ڈی ایچ ایز اور بحریہ ہاؤسنگ اسکیمز میں کیجئے گا۔
تیسرا نقطہ: ہود بھائی کے اس اعتراض پر کہ جناح کے پاس کوئی منصوبہ نہیں تھا، انہوں نے کبھی کوئی کتاب لکھی نہ ریسرچ پیپر تو جاوید جبار ہود بھائی کا کسی حد تک تمسخر اڑاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جناح ایک سٹیٹس مین تھے نہ کہ ’پروفیسر‘، جناح نے دنیا کا نقشہ بدل دیا (ڈئیر جاوید جبار: ویسے نقشہ شیخ مجیب نے بھی بدلا تھا!)، اگر وہ کتابیں لکھنا بیٹھ جاتے تو پاکستان مزید پچاس سال تک نہ بنتا۔
جاوید جبار کی خدمت میں عرض ہے کہ نہرو اور گاندھی کو بھی سٹیٹس مین سمجھا جاتا ہے اور انہوں نے بھی کتابیں لکھیں۔ لینن اور ٹراٹسکی نے تو نقشہ ہی نہیں، تاریخ بدل کر رکھ دی اور ان کی لکھی کتابیں دنیا کی ہر اچھی یونیورسٹی میں زیر بحث رہتی ہیں۔ کتابیں صرف پروفیسر نہیں لکھتے۔
چوتھا نقطہ: ہودبھائی کا یہ کہنا کہ جناح نے کبھی گیارہ اگست والی تقریر میں سیکولر ازم کی بات کی تو کبھی ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کی، جاوید جبار کے نزدیک ہر گزکسی قسم کے تضاد کی عکاسی نہیں ہے۔
کبھی گیارہ اگست والا بیانیہ، کبھی اسلامی نظام والا بیانیہ؟ ایک ہی بیانیہ کیوں نہیں۔ اگر یہ اتنا بڑا تضاد نہیں تھا تو حکمران، بالخصوص ضیا آمریت گیارہ اگست والی تقریر کو کیوں چھپاتی رہی۔ اوریا مقبول جان جیسے لوگ آج بھی بضد ہیں کہ یہ تقریر کبھی کی ہی نہیں گئی۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں ریاستی سنسر شپ کا سب سے پہلا نشانہ ہی گیارہ اگست والی تقریر بنی تھی۔ آخر کیوں؟ کیونکہ گیارہ اگست والی تقریر بہت بڑا تضاد تھی۔ آپ ہودبھائی سے اتفاق نہ کیجئے، سٹینلے والپرٹ کو ہی تسلیم کر لیجئے جس کی ساری زندگی جناح کی تعریف کرتے گزر گئی۔
پانچواں نقطہ: ہودبھائی کا خیال ہے کہ پاکستان میں شروع سے سائنس پر توجہ نہیں دی گئی جبکہ جاوید جبار کا کہنا ہے کہ جناح نے تعلیم کو بہت اہمیت دی۔ اس نقطے پر ہر دو طرح سے بحث ہو سکتی ہے اس لئے آگے بڑھتے ہیں۔
چھٹا نقطہ: ہودبھائی کا خیال ہے کہ ملکوں کو کسی نظرئے کی ضرورت نہیں۔ جاوید جبار کا کہنا ہے کہ ہر ملک کا ایک نظریہ ہوتا ہے۔ ہمارا دونوں سے اختلاف ہے۔ ملک صرف ملک نہیں ہوتے۔ ریاست کا ایک طبقاتی پہلو ہوتا ہے۔ اس مسئلے پر انتونیو گرامشی اور لوئی آلتھوسرکا نقطہ نظر بالکل درست ہے۔ تفصیلات آئندہ کسی موقع پر۔
ساتواں نقطہ: ہودبھائی مشرقی پاکستان میں ہونے والے مظالم کی بات کرتے ہیں تو جاوید جبار اس کا جواب جماعت اسلامی کی لغت سے یہ دیتے ہیں کہ بنگالیوں نے بھی تو پاکستانیوں کو قتل کیا تھا۔ یہ شرمناک جواب کوئی ایسا شخص ہی دے سکتا ہے جو سیاسی اخلاقیات سے بالکل ہی عاری ہو۔ جاوید جبار کی منطق بالکل یہ ہے کہ ایک ریپسٹ اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کے لئے عدالت کو بتائے کہ اس کی وکٹم نے بھی اسے ریپ کے دوران مزاحمت کرتے ہوئے ناخنوں سے زخمی کر دیا تھا بلکہ منہ پر بھی تھوکا تھا۔ جاوید جبار تو بلکہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وکٹم نے منہ پر تھوک کر ریپسٹ کی ہتک عزت کی ہے لہٰذا وکٹم پر ہتک عزت کا دعویٰ دائر کیا جاتا ہے۔
آٹھواں نقطہ: بلوچستان پر بات کرتے ہوئے جاوید جبار ہمیں بتاتے ہیں کہ وہاں مکمل آزادی اظہار ہے جس کی ایک مثال یہ ہے کہ حال ہی میں ایک ریٹائرڈ میجر جنرل صاحب نے بلوچستان پر ایک تنقیدی کتاب لکھی ہے۔
جاوید جبار کی اس منطق کا جواب راقم دینے کی ہمت نہیں رکھتا۔ اس نقطے پر راقم جاوید جبار سے پوری طرح متفق ہے۔
نواں نقطہ: سول ملٹری تعلقات پر ہودبھائی کو یاد دلاتے ہوئے جاوید جبار کہتے ہیں کہ چار فوجی مداخلتیں ماضی کا قصہ ہیں۔ اب تو الیکشن بر وقت ہو رہے ہیں اور پاکستان کے لوگ جمہوریت سے بہت محبت کرتے ہیں۔
جاوید جبار سے اس نقطے پر بھی راقم ان سے پوری طرح متفق ہے۔ دو دن پہلے ’کرنل کی بیوی‘ نے جاوید جبار کی بات پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔