تاریخ


نظریاتی سیاست کاروشن ستارہ، تاج محمد لنگاہ

مسلمہ اصولوں اور نظریات کی بنیاد پر سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنا کوئی معیوب بات نہیں لیکن آج پاکستان میں سیاست گیری کا واحدمقصد اقتدارکے ذریعے ذاتی مفادات کا حصول ہے۔چڑھتے سورج کے پجاری جوق در جوق مقبول پارٹیوں میں شمولیت کے اعلانات کرتے ہیں اور جب یہی پارٹی مسند اقتدار سے اترتی ہے تو سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔

راجہ پورس: پاکستان میں تاریخ کی اسلامائزیشن کا شکار

اگست 1947ء میں برِصغیر کی تقسیم نے بھارت اور پاکستان میں ملکی و قومی تعمیر میں مذہب کو ایک خاص جگہ دی، جس کی وجہ سے دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہیرو، مخیر حضرات اور بے نظیر انسانی روحوں کو مسترد کر دیا گیا۔ نتیجتاً ہماری تاریخ، متن اور علمی تصانیف کے صفحات سے بہت سے باصلاحیت اور قابل افراد کو خارج کر دیا گیا ہے۔

یمن کا سوشلسٹ تجربہ عرب دنیا کیلئے ایک سیاسی سنگ میل تھا

کئی وجوہات کی بنا پر آج ’PDRY‘ کے بارے میں بہت کم جانا جاتا ہے۔ 1990ء میں متحد ہو کر پورے یمن پر قبضہ کرنے والی حکومت کی طرف سے ’PDRY‘ کی تاریخ کو چھپانے کی دانستہ کوشش کی گئی اور 1994ء کی مختصر خانہ جنگی کے بعد ’PDRY‘ حکمرانی کے تمام نشانات کو ختم کر دیا تھا۔ مزید برآں، اس خطے کے یمنی باشندوں کی اکثریت جو آج زندہ ہے، اس حکومت کے خاتمے کے بعد پیدا ہوئی۔ وسیع تر تناظر میں بین الاقوامی عالمی نظریات میں ڈرامائی تبدیلیاں آئی ہیں، جنہوں نے سوشلسٹ تجربات کے مثبت پہلوؤں کو ہر جگہ دبا دیا ہے، انہیں شیطانی بنا دیا ہے اور کسی بھی حوالہ کو ان کے انتہائی منفی پہلوؤں پر مرکوز کر دیا ہے۔

بھگت سنگھ کون تھا؟

1۔ آزادی کے اس ہیرو کے نام پر اس چوک کا نام بھگت سنگھ چوک رکھا جائے۔
2۔ بھگت سنگھ کی جدوجہد کو تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے۔ پاکستان کی نصابی کتابوں میں بھگت سنگھ سمیت آزادی کے بیشتر غیر مسلم ہیروز کا تذکرہ کم ہی ملتا ہے، بھگت سنگھ مذہبی نوجوان نہیں تھا۔ وہ ایک انقلابی نوجوان تھا۔ مذہبی بنیادوں پراس کی انگریز سامراج کے خلاف برصغیر کی آزادی کی جدوجہد کی مخالفت کرنا درست نہیں ہے۔
3۔ بھگت سنگھ بہادری کی ایک درخشان مثال تھا۔ بھگت سنگھ آزادی کا ہیرو ہے، اور اسے پاکستانی حکومت سرکاری طور پر قومی ہیرو تسلیم کرے۔

نسوانی حقوق اور انقلابی جدوجہد!

آج دنیا بھر کی بیشتر خواتین خواہ وہ یورپ، امریکہ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک سے ہی کیوں نہ تعلق رکھتی ہوں، ان کی آزادی ادھوری ہے اورپسماندہ ممالک میں تو عورت کی حالت اذیت ناک اور کئی گنا بدتر ہے۔ کہیں رسموں رواجوں کی آڑ میں اور کہیں ثقافتی روایات کے جبر سے عورت کو تابعدار بنا کر رکھا گیا ہے۔ اجرتوں سے لے کر سماجی رویوں تک ہر شعبے میں مردوں کی نسبت خواتین دوہرے جبر کا شکار ہیں۔ اس بدبودار نظام میں کہیں خواتین کو ہوس کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو کہیں غیرت کے نام پر قتل تک کر دیا جاتا ہے۔ کہیں کنویں سے لاشیں برآمد ہو رہی ہیں اور کہیں تیزاب پھینکنے کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف: روشن خیال نہ اعتدال پسند

مشرف کی وراثت آئینی حکم کی خلاف ورزی ہے، بلوچستان میں موت اور تباہی کا کھیل ہے، طالبانائزیشن کی وہ فصل ہے، جس کے گرداب میں ملک آج بھی پھنسا ہے اور جھوٹ اور فریب سے بھرا کیریئر ہے۔ میڈیا پر ان کی لاش پاکستان بھیجے جانے کی خبریں ہیں، کراچی میں ان کے تیسرے بڑے اور آخری سفرکی ذلت آمیز داستان رقم ہو رہی ہے۔ ایک سزا یافتہ آمر کے طور پر جو نہ تو لبرل تھا اور نہ ہی اعتدال پسند۔

پاکستانی طالبان سے لڑنے کے لئے فیض احمد فیض کا نسخہ

وفاداری کو یقینی بنانے کے لئے ’نمک حلال‘ ہونے کا پراپیگنڈہ احمقانہ ہے۔ فیض صاحب کا کہنا تھا ”میں نے انہیں بتایا کہ یہ نمک حلال والی بات احمقانہ ہے۔ ہندوستان ان کا اپنا وطن ہے اور وہ اپنی ہی دھرتی کا نمک کھا رہے ہیں۔ یوں ہندوستانی سپاہی کی وفا داری نہیں جیتی جا سکتی۔ ہندستانی سپاہی کو بتانا ہو گا کہ ان کے وطن کو جاپان سے کیا خطرہ لاحق ہے اور اگر ہندوستان پر جاپان نے قبضہ کر لیا تو کیا نتیجہ نکلے گا۔ سپاہیوں کو باور کرانا ہو گا کہ یہ جنگ وہ اپنی دھرتی اور اپنے خاندانوں کی حفاظت کے لئے لڑ رہے ہیں“۔

بیادِ کامریڈ لطیف آفریدی: مارکسسٹ منارہ نور

لطیف لالا نے انسانی حقوق کے لئے عملی جدوجہد کی۔ جب اَسی کی دہائی میں جسٹس دراب پٹیل مرحوم، عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمن نے انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا تو لطیف لالا نے ان کی بھر پور حمایت کی۔ پاک بھارت عوامی رابطوں میں بھی متحرک رہے۔ 1998ء میں جب پاکستان انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیماکریسی کے 300 مندوب (جن میں آدھے بھارت سے تھے) پشاور اور خیبر ایجنسی آئے تو لطیف لالا نے ان کی میزبانی کی۔ کابل کے افغان قوم پرستوں اور مارکس وادیوں سے بھی ان کا مسلسل رابطہ رہتا۔

لطیف آفریدی مارکسسٹ اور بے آوازوں کی آواز تھے

میں ان کی سوچ اور جدوجہد سے واقفیت رکھتا ہوں کیونکہ ہم نے مل کر قانونی و سیاسی حکمت عملیاں تشکیل دیں، ایک غاصبانہ ریاست سے لڑے، افغانستان اور پشتون خطے میں سٹریٹیجک پالیسی کے خلاف نبرد آزما رہے، ملک میں لاپتہ افراد کی رہائی کے ئے مشترکہ کوششیں کیں، سابق فاٹاکے سیاسی حقوق کے لئے کتنی ہی رکاوٹوں کو اکٹھے عبور کیا، پختونخواہ میں دہشت گردی اور ریڈیکلائزیشن کے حوالے سے ریاست کی ناکام پالیسیوں کے خلاف مل کر آواز اٹھائی اور جمہوریت کے آدرش کی خاطر جدوجہد کی۔

میری زندگی اور میرا عہد: عبد الصمد خان اچکزئی کی سوانح حیات

امید ہے کہ اچکزئی کی سوانح ”میری زندگی اور میرا عہد“ کے بعد صورت حال میں کچھ بہتری آئے گی۔ ان کے صاحب زادے محمد خان اچکزئی نے، جو بلوچستان کے گورنر بھی رہ چکے ہیں، اس کا انگریزی ترجمہ شائع کیا ہے۔ چار حصوں پر پھیلی اس تصنیف میں اس قوم پرست رہنما کی ابتدائی زندگی سے لے کر تعلیم، خاندان، سیاست میں دلچسپی، اسیری کے دن، ان کے اخبارات، سیاسی رفیقو ں کا احوال، دوسری شادی اور آزادی سے جڑے واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔