تاریخ


ساکا ننکانہ کا معاشی اور سماجی پہلو

بھارت میں مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کی طرف سے مذہبی اقلیتوں پر ظلم و ستم کے ایک اور اقدام نے عالمی برادری کی توجہ اس وقت مبذول کرائی جب اس نے ساکا ننکانہ (یا ننکانہ قتل عام) کی سوویں سالگرہ (جو کہ 20 فروری 2021ء کو تھی) میں شرکت کے لیے 700 سکھوں کو ننکانہ صاحب (پاکستان) جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔

ایک سیاسی رہنما جس کی زندگی عاجزی اور انکساری سے عبارت تھی

طالب علم رہنما کی حیثیت سے وہ 1955ء میں ون یونٹ کے خلاف احتجاج میں شامل رہے۔ فوجی آمر جنرل ایوب خان کے دور میں انہوں نے بلوچ طلبہ کے وظائف اور ان کے حقوق کی جنگ جاری رکھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کے بالوں کی سیاہی تو سفیدی میں بدل گئی لیکن اپنی قوم کے حقو ق کی جدوجہد کا جذبہ آخری سانس تک اسی طرح جوان رہا۔

’آپ کے اندر کا انقلابی مرنا نہیں چاہئے‘

”انقلاب کیلئے جذباتیت یا خون خرابے کی بجائے مستقل مزاجی سے کی جانے والی جدوجہد، پیش قدمی اور قربانی چاہیے۔ سب سے پہلے ذاتی تسکین کے خوابوں سے چھٹکارا پانا ہو گا… مشکلات اور مصائب آپ کو مایوس نہ کریں۔ نہ ہی ناکامی اور غداریوں سے دل برداشتہ ہوا جائے۔ جتنی بھی مشقت کرنی پڑے، آپ کے اندر کا انقلابی مرنا نہیں چاہیے۔ ان امتحانات سے گزر کر ہی آپ کامیاب ہو ں گے اورآپ کی فتح ہی انقلاب کا اثاثہ ہو گی“۔

نوجوان سیاسی کارکنوں کو بھگت سنگھ کا پیغام

آپ کو انتہائی دھیمی رفتار سے آگے بڑھنا ہو گا جس کے لئے ہمت اور مضبوط عزم کی ضرورت ہے۔ مشکلات اور مصیبتیں آپ کو مایوس نہ کریں۔ نہ ہی ناکامی اور غداریوں سے دل برداشتہ ہوا جائے۔ جتنی بھی مشقت کرنی پڑے، آپ کے اندر کا انقلابی مرنا نہیں چاہیے۔ مصائب اور کامیابیوں کے اس امتحان سے گزر کر ہی آپ کامیاب ہو ں گے، اور آپ کی ذاتی فتح ہی انقلاب کا اثاثہ ثابت ہو گی۔

اعجاز احمد سے دلی میں چند ملاقاتیں

جب بھی ان کی کوئی تحریر فرنٹ لائن، منتھلی ریویو یا سوشلسٹ رجسٹر پر شائع ہوتی تو سارے کام چھوڑ کر ضرور پڑھتا۔ ان کی یہ تحریریں میری ہی نہیں، نئی اور آنے والی نسل کی بھی رہنمائی کرتی رہیں گی۔ ان سے ملاقاتیں بلاشبہ اہم تھیں اور باعث اعزاز ہیں مگر ان سے ملاقات کا بہترین ذریعہ ان کی لافانی تحریریں ہیں جو مارکسزم، انقلاب اور محنت کش طبقے سے کمٹ منٹ کا ان مٹ نشان ہیں۔

لاہور کا سر کردہ ماہر تعلیم

ممتاز سماجی اصلاح کار، سائنس دان، استاد، سیاست دان، عوامی دانشور اور نو آبادیاتی پنجاب کے سر کردہ ماہر ِتعلیم ہونے کے باوجود، رْوچی رام ساہنی کو ہندوستان اور پاکستان کے سماجی اور علمی حلقوں میں وہ مناسب مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے۔ انھوں نے معروف طبیعات دان ارنسٹ ردرفورڈ اور نیلز بوہر کے ساتھ کام کیا تھا، تاہم، ان کی سائنسی اور تعلیمی میراث اکیسویں صدی کے آغاز تک بڑی حد تک فراموش کر دی گئی تھی۔

صحافت کا پہلا اور آخری سبق: ڈاکٹر مہدی حسن کی یاد میں

ان کی پوری زندگی جراتِ اظہار، تحمل اورپیشہ وارانہ دیانتداری کا نمونہ تھی۔ جراتِ اظہار ایسی کہ ہر آمر کے سامنے نعرہ حق بلند کیا اور اس کے لئے سختیاں تک برداشت کیں، جیل بھی گئے اور ملازمت سے ہاتھ بھی دھوئے۔ وہ سچ کو صحافت کی پہلی شرط قرار دیتے تھے۔ تحمل ایسا کہ اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں تمام زیادتیوں اور حریفوں کے استحصال کو پامردی سے برداشت کیا۔ ہم نے انہیں کبھی غصے میں نہیں دیکھا۔ جب کبھی غصہ آتا چہرہ سرخ ہو جاتا اور خاموش نظر آتے۔