سماجی مسائل


ایماندار ’کافر‘ اپنی تہذیب کی اپنے ہی خنجر سے خودکشی کے انتظار میں

نیچے انگریزی میں لکھا ہے کہ گلدستہ لے جائیں اور پیسے بھیجنے کے لئے ایک سوئش (Swish) اکاونٹ دیا گیا ہے جہاں بذریعہ فون پیسے بھیجے جا سکتے ہیں۔سوئش موبائل کے ذریعے پیسے بھیجنے کی ایک ایپ ہے جو (میرے سوا)لگ بھگ ہر کسی کے پاس ہے۔

روزمرہ کے مسائل: برتن کافی سے دھونے، دھوپ میں رکھنے سے بو ختم ہو جاتی ہے

اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ جب برتن دھوئے جائیں تو انہیں کافی سے مانج لیا جائے۔ یہاں مراد وہ کافی ہے جو فلٹر سے بنا ئی جاتی ہے۔ عام طور پر کافی بنانے کے بعد،فلٹر پیپر میں بچ جنے والی میں کشید شدہ کافی کو پھینک دیا جاتا ہے۔ اس کشید شدہ کافی کا ایک بہترین استعمال یہ ہے کہ اسے برتن دھونے کے لئے استعمال کر لیا جائے۔ پاکستان میں عام طور پر کافی یا تو پی نہیں جاتی یا انسٹنٹ کافی پی جاتی ہے،اس لئے شائد یہ ٹوٹکا زیادہ کار آمد نہ ہو۔

ایسی تیسی ماحولیات کی: صاحب کا آرڈر لو

باقی لوگ گاڑی کا ہارن بجاتے، ایک مزدور بھاگا بھاگا جاتا،آرڈر وصول کرتا اور آئس کریم گاڑی تک پہنچا دیتا۔اگر کسی بات پر شکایت ہوتی تو پھر زور زور سے ہارن بجایا جاتا،کوئی مزدور بھاگم بھاگ جاتا اور صاحب،بیوی اور بچوں کی شکایت سنتا۔شائد شکایت رفع کرنے کی بھی کوشش کرتا۔ اس کے بعد، بل ادا کرنے کے لئے پھر سے ہارن بجایا جاتا۔

روزمرہ کے مسائل: دانت ناشتے کے بعد برش کریں

ہمیں بچپن سے سکھایا جاتا ہے کہ صبح اٹھتے ہی دانت صاف کر لئے جائیں۔ اس کی ایک وجہ شائد یہ ہو سکتی ہے کہ شہری زندگی سے قبل، لوگ رفع حاجت کے لئے،کھیتوں میں جاتے اور واپسی پر مسواک کرتے۔ اکثر اشتہار بھی ایسے ہوتے ہیں جن میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ صبح اٹھتے ہی دانت صاف کئے جائیں۔ میں چھ ماہ دلی میں بھی رہا۔ میرا مشاہدہ ہے کہ دِلی (یا شائد پورے ہندوستان میں) بھی یہی کلچر ہے کہ صبح اٹھتے ہی دانت صاف کر لئے جائیں۔پھر ناشتہ کیا جائے۔

شکر ہے آ ب زم زم نہیں تھا…

شکر ہے راحت فتح علی خان کے ملازم نے دم درود والی بوتل چرائی۔ اگر آب زم زم ہوتا تو جوش ایماں میں شائد خاں صاحب بچے کی جان ہی لے لیتے۔

طلبہ کا استحصال اور سماجی بیگانگی کا تعفن

ہر سال پاکستان کی یونیورسٹیوں میں ہزاروں کی تعداد میں ڈگریاں تقسیم کی جاتی ہیں، لیکن عملی میدان میں یہ ڈگریاں کاغذ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ درجہ نہیں رکھتیں۔ تعلیمی اداروں کے اندر ہونے والے ظلم، جبر اور استحصال کے خاتمے کے خلاف منظم ہو کے لڑائی لڑنے کے سوا اب طلبہ کے پاس کوئی چارہ موجود نہیں ہے۔ حکمران طبقے اور نجی تعلیمی اداروں کے کاروباری مالکان کے گٹھ جوڑ کو توڑنے کا اس کے علاوہ کوئی راستہ موجود نہیں ہے کہ منظم ہوا جائے، اپنی صفوں کو مستحکم کیاجائے اور نہ صرف معیاری و مفت تعلیم بلکہ یقینی روزگار کے حصول کے لیے دیگر پسے ہوئے، استحصال زدہ طبقات کے ساتھ مل کر جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے۔

میرے دل میرے مسافر

ہم اپنے اس کالم کے ذریعے سیاحت کی انڈسٹری اور سیاحتی حلقوں کو ایک پیغام اصلاح دے رہے ہیں کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور ناجائز منافع خوری کی بجائے انسان دوستی کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ بصورت دیگر عوام کی اکثریت سفر سے اکتا جائے گی اور سیاحتی انڈسٹری کی اصلاح بذریعہ کمپیوٹر اپلیکیشنز مثلاً ’Zoom‘ یا ’Whatsapp‘ وغیرہ سے ہو جائے گی۔

کیا ارادہ پختہ ہو تو انسان کوئی بھی منزل پا سکتا ہے؟

بہرحال اصل بحث یہ ہے کہ کیا انسان محنت اور مصمم ارادے سے سب کچھ حاصل کر سکتا ہے تو جواب ہے، نہیں۔ پہلی بات، اگر محنت سے دولت کا حصول ممکن ہوتا تو پاکستان کا کسان صدیوں سے بھوک کا شکار نہ ہوتا۔ کسان عمر بھر محنت کرتا ہے۔ مزدور عمر بھر اور دن بھر محنت کرتا ہے۔ دونوں دولت مند نہیں بن پاتے۔ جن ملکوں میں مزدور کی تنخواہ اچھی ہے، وہاں بھی مزدور جتنا مرضی اوور ٹائم لگا لے، ارب پتی تو کجا کروڑ پتی بھی نہیں بن پاتا۔ دولت محنت سے نہیں، دوسروں کے استحصال سے کمائی جاتی ہے۔

محرومیوں کی انتہاؤں میں خودکشی کاعفریت

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان میں جہاں پسماندگی اپنی تمام تر شکلوں میں موجود ہے۔ بے شمار وسائل ہونے کے باوجود اس خطے کے باسی سسک سسک کر اپنی زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔ بنیادی انفراسٹراکچر کی عدم تعمیر سے لے کر صحت اور تعلیم کی سہولیات کی خستہ حالی اور عدم موجودگی تک مسائل کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے۔ جو اس خطے کے باسیوں کی زندگیوں کو اجیرن کیے ہوئے ہے۔

روزمرہ کے مسائل: برتن سکھا کر ان میں کھائیں پئیں

گھروں کی ٹونٹیوں میں جو پانی ٹنکی سے آ رہا ہے اگر وہ پینے کے قابل نہیں تو ظاہر ہے ایسے پانی سے اگر برتن دھوئے جائیں تو لازمی ہے کہ برتنوں کے سوکھنے تک انہیں استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔ جب برتن سوکھ جائیں گے تب ہی ٹنکی والے پانی میں موجودجراثیموں کا خاتمہ ہو گا۔