ایک اور مثال یہ ہے کہ ایک دوسرے کے بستر میں سونا معیوب نہیں سمجھا جاتا۔

ایک اور مثال یہ ہے کہ ایک دوسرے کے بستر میں سونا معیوب نہیں سمجھا جاتا۔
اگر ہمیں اس مسئلے سے نپٹنا ہے تو اس نظام کو لگام ڈالنی پڑے گی جو اس کا سبب ہے۔
رپورٹ میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ جنسی تفریق میں کمی دیکھی گئی ہے مگر تعصبات کے حوالے سے صورت حال حوصلہ افزا نہیں ہے۔ یو این ڈی پی نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ ان تعصبات کے خاتمے کے لئے بھی اقدامات اٹھائیں۔
جب عورتیں مرد کی سفلی انا کے دائرے سے نکل کر کسی آزادی کا اظہار کرتی ہیں تو انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ہر دو حلقوں کا موقف منافقت اور دوغلے پن کا شکار ہے۔ ایک درست اور اصولی موقف یہ ہونا چاہئے کہ ریاست ایران اور سعودی عرب کی ہو یا فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی، ریاست کو حق نہیں کہ وہ لوگوں کے لباس کا فیصلہ کرے یا ان کے گھر کے اندر جھانکے۔ برقعہ پہننا چاہئے یا نہیں، اس پر بحث اسی وقت ہو سکتی ہے جب فرد کو بنیادی شخصی آزادی کا تحفظ ریاست کی جانب سے حاصل ہو۔
اس ترانے کی عالمی مقبولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا بھر میں عورتوں کو پدر سری نظام کا سامنا ہے اور ان کی جدوجہد عالمی یکجہتی کا تقاضا کرتی ہے۔
سب سے افسوسناک بات تو یہ ہے کہ وزیر اعظم کا بیان محنت کش اور کارکن عورت بارے ان کے جنسی تعصب پر مبنی رویے کی نشاندہی کرتا ہے۔
تیزاب پھینکنا خواتین پر تشدد کی ایک شیطانی شکل ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اس تشدد کی حقیقت سے بے خبر ہیں۔ دیپیکا پڈوکون جیسی مرکزی دھارے کی گلیمرس اور مہنگی اداکارہ کیلئے فلم کا معاون فلمساز بننا اور مرکزی کردار نبھانا بہت زیادہ حوصلہ مانگتا ہے۔ فلم نے میگھنا گلز ار کی ہدایتکاری کے تاج میں ایک اور پنکھ لگا دیا ہے۔
شہریوں کو چھت اورگھر کی فراہمی ریاست کا بنیادی فریضہ ہے مگر ریاست ہی ملک ریاض کے گھر کی لونڈی بن چکی ہے۔
ثنا خوان ِ تقدیس مشرق عورت کے بھوکے پیٹ اور اس کی بھوکی گود میں بلکتے بچے کو دیکھ کر بے حیائی کا ماتم کرتے کبھی بھی دکھائی نہیں دئیے۔