خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
شاعری
سانحہ مشرقی پاکستان پر
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو
جمہوریت
خاک ایسے جینے پر
آؤ کہ کوئی خواب بنیں
ڈس لے گی جان و دل کو کچھ ایسے کہ جان و دل
طلوع اشتراکیت
جشن بپا ہے کٹیاؤں میں اونچے ایواں کانپ رہے ہیں
’تیرا ملنا خوشی کی بات سہی، تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں‘
وجہ بے رنگی ِگل زار کہوں تو کیا ہو
انتساب
آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا
تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا
تجھ کو کسی مذہب سے کوئی کام نہیں ہے
’سنا ہے جمی کارٹر آپ کا ہے پیر مولانا‘
دعا ہی سے فقط کٹتی نہیں زنجیر مولانا
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا