ٹوٹ کر یوں ہی زندگی کی ہے
شاعری
یہ محلوں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
یہ دنیا ہے یا عالم بد حواسی
’رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا‘
رنگ رکھنا یہی اپنا اسی صورت لکھنا
’سوداگران دین کی سوداگری کی خیر‘
فاقہ کشوں کے خون میں ہے جوش انتقام
شاطرانہ چال
غربت، اقلیتوں کے مسائل اور عام لوگوں کی زندگی ان کی شاعری اور تصانیف کے موضوعات تھے۔
عبید اللہ علیم: ایک نظم، ایک غزل
مرے خدایا میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں
جبر و اختیار کا نیا موسم!
ایک نئے موسم کا
غزل: کون ہے صبح کی جبینوں میں
کس کی آہٹ ہے خوابگینوں میں
سندھ کی بیٹی پوجا کے نام
بجلیوں سے مقابلہ تو کیا
پرچھائیاں
جوان رات کے سینے پہ دودھیا آنچل