صیاد نے یونہی تو قفس میں نہیں ڈالا
شاعری
جاگیر
جس میں پنہاں مرے خوابوں کی طرب گاہیں ہیں
مہسا امینی کے نام
ہمیں بدصورت اور بد وضع دکھائی دینے کی
ایرانی طلبہ کے نام
فیض احمد فیض نے اس نظم کو ان نوجوان طالب علموں سے یکجہتی کے لئے منظوم کیا جو شاہ ایران کے خلاف جدوجہد میں شہید ہوئے۔
ایک نغمہ جو ہم سب پر قرض ہے!
اپنے اس پیغام کو’انسانیت کا پرانا نغمہ‘ قرار دیتے ہوئے وہ کہہ رہی ہیں کہ غربت، ماحولیاتی آلودگی اور طبقاتی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے کا وقت آ گیا ہے۔
دھیرے چلو!
کچے گھروندوں کے بکھرتے کھنڈر
سیلاب زدگان کے لئے فیض احمد فیض کی ایک نظم
اَج کیکن ویہڑیوں ٹوریا
’صبحوں کا ہنسنا بھی لہو، راتوں کا رونا بھی لہو‘
میری آنکھوں میری گرد آلود آنکھوں کا لہو
داخلی جلا وطنی!
کیا آپ بھی کسی ایسی ہی جگہ جلا وطنی کے دن تو پورے نہیں کر رہے؟
’اپنے اندر ذرا جھانک میرے وطن: اپنے عیبوں کو مت ڈھانک میرے وطن‘
تیری بربادیوں کا تجھے واسطہ