اسلام آباد (پ ر) ڈائریکٹر ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اس بات کا سختی سے نوٹس لیا ہے کہ جامعہ قائد اعظم کے مقدس کیمپس پر چند گمراہ طلبا و طالبات نے ہولی جیسا کافرانہ دن ناچ ناچ کر منایا۔ اس شرمناک واقعہ سے نپٹنے کے لئے ہونے والے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایک ہنگامی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستانی یونیورسٹیوں میں تحقیق، عقل اور علم کے علاوہ ہولی پر بھی مکمل پابندی کو یقینی بنایا جائے۔
Month: 2023 جون
خون سے ہولی کھیلیں لیکن رنگوں کی ہولی منع ہے، ایچ ای سی نے مراسلہ جاری کر دیا!
آج ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی جانب سے ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کے طلبہ، اساتذہ اور انتظامیہ کے نام ایک مراسلہ جاری کیا گیا جس میں ادارے کی پالیسی اور مملکت خدادکی نظریاتی اساس کی نئی تشریح پیش کی گئی۔ جس کے مطابق پچھلے دنوں قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے طلبہ کی جانب سے ہولی کے منائے جانے پر انتہائی ”تشویش“ کا اظہار کیا گیا اور اسے ایک ہندو تہوار گردانتے ہوئے ملکی نظریاتی اساس کے برخلاف قرار دیا گیا۔ ہولی کا تہوار کتنا مذہبی اور کتنا ثقافتی ہے اس موضوع پر پھر کبھی تفصیل سے لکھا جا سکتا ہے۔ فی الوقت اہم بات ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ترجیحات اور اس کی جانب سے شائع کردہ اس مراسلے پر بحث کرنا ہے۔
3 ڈچ بادشاہوں نے افریقہ اور ایشیا سے 545 ملین یورو کی دولت لوٹی
یہ تحقیق غلامی اور نوآبادیاتی تجارت کے ڈچ ہاؤس آف اورنج کی مالیاتی قدر کا اندازہ لگانے والی پہلی تحقیق ہے۔ تحقیق کے مطابق ڈچ نوآبادیاتی دور میں کم از کم 6 لاکھ افریقہ مردوں، عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا گیا، جبکہ ایشیا کے 6 لاکھ 60 ہزار سے 10 لاکھ کے درمیان لوگوں کو ظلم و جبر اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کا استحصال کیا گیا اور ان کی آزادی اور ان کے نام پر ڈاکہ ڈالا گیا۔
یہ ایک میراث ہے، جس کیلئے ولیم الیگزینڈر سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ ایمسٹرڈیم کے اوسٹر پارک میں یکم جولائی کو ’زنجیریں توڑنے‘ کے تہوار کے موقع پر ڈچ غلامی کا دور ختم ہونے کے 150 سال بعد ایک رسمی معافی نامہ پیش کرینگے۔
افغانستان میں جینڈر اپارتھائیڈ کو بین الاقوامی جرم قرار دینے کا مطالبہ
اقوام متحدہ پہلے ہی طالبان کے تحت افغانستان میں ہونے والی صورتحال کو ’صنف کی بنیاد پر اپارتھائیڈ‘ (صنفی نسل پرستی) کے طور پر لیبل کر چکا ہے، لیکن اس اصطلاع کو فی الحال روم کے آئین کے تحت بدترین بین الاقوامی جرائم میں سے ایک تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔
پی ٹی یو ڈی سی کا احتجاج: کشتی حادثہ کے متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ
اسلام آباد (پ ر) نیشنل پریس کلب کے سامنے پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپئین (PTUDC) کے زیر اہتمام یونان میں کشتی حادثہ میں ہلاک ہونے والے نوجوانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے مظاہرہ کیا گیا۔
مظاہرے میں ڈاکٹر فرزانہ باری، یونائیٹڈ سٹاف آرگنائزیشن ریڈیو پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری اعجاز خان، ریلوے لیبر یونین ڈیزل ورکشاپ کے صدر آصف رسول،عوامی ورکرز پارٹی کے بشیر حسین شاہ کے علاوہ JKNSF ، RSF اور PTUDC کے کامریڈز نے شرکت کی۔
لیون ٹراٹسکی کے قتل کا آخری زندہ گواہ اب اس دنیا میں نہیں رہا
لاہور (جدوجہد رپورٹ) انقلاب روس کے قائد لیون ٹراٹسکی کے نواسے ایسٹیبان وولکوف 97 سال کی عمر میں میکسیکو میں فوت ہو گئے ہیں۔
کراچی پر کس کا غلبہ ہو! کون فیصلہ کرتا ہے؟
سنئے پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے سیکرٹری جرنل قمر الزماں خان کا تجزیہ و تبصرہ بعنوان ’کراچی پر کس کا غلبہ ہو! کون فیصلہ کرتا ہے؟‘
پاکستانی تارکین وطن کو کشتی کے ڈیک سے زبردستی نچلے حصے میں لایا گیا: گارڈین
’گارڈین‘ نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو اس ٹرالر نما کشتی کے ڈیک سے زبردستی کشتی کے نچلے حصہ میں دھکیل کر دیگر قومیتوں کے تارکین وطن کو کشتی کے ڈیک پر لایا گیا۔ اس اقدام کی وجہ سے پاکستانی شہریوں کے ڈوبنے کا زیادہ امکان تھا۔
انسانی سمگلنگ روکنے کے اقدامات: کشتی حادثے کے بعد کیا ہوا؟
یوں روزگار فراہم کرنے کی آئینی ذمہ داری سے دستبردار ریاست کے نمائندوں نے روزگار کیلئے جان قربان کرنے والوں کے ورثاء کو ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔ ریاست اگر اس طرح کے اقدامات نہیں کرتی تو انگلی ریاست کی طرف بھی اٹھ سکتی ہے۔ احتجاج منظم ہو سکتا ہے اور احتجاج کرنے والے سب سے پہلے یہی سوال کریں گے کہ یہ نوجوان کیوں ایسے زندگی داؤ پر لگانے کیلئے مجبور ہوئے۔ اس لئے ایک منظم انداز میں ریاست نے احتجاج کا راستہ ہی روک دیا ہے۔
ملک چھوڑنے کی جستجو: غریب اگر نہیں رہنا چاہتا، تو حکمران کب رہتے ہیں؟
یہ سوال سب سے زیادہ پوچھا جا رہا ہے کہ جو لوگ 20سے25لاکھ روپے خرچ کر کے غیر قانونی طریقوں سے یورپ جا رہے تھے، وہ اس رقم سے یہاں بھی کوئی چھوٹا موٹا کاروبار استوار کر کے دو وقت کی روٹی تو مہیا کر ہی سکتے تھے۔ ایک سوال یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ یورپ جانے کی کوشش میں ہلاک ہونے والوں میں سے اکثر کے رشتہ دار، کچھ کے بھائی بھی پہلے سے یورپ کے مختلف ملکوں میں موجود تھے۔ انہیں روٹی کا مسئلہ تو نہیں تھا، وہ کیوں بیرون ملک گئے۔