انہیں سندھ کے زمینی اشرافیہ کے خلاف مزاحمت کی علامت ہونے کی وجہ سے یاد رکھنا چاہئے کیونکہ ان کا کردار امریکہ کی خواتین ٹیکسٹائل ورکرز سے کم اہم نہیں ہے جنہوں نے 1857ء میں سرمایہ داروں کے ذریعے ان کے استحصال کے خلاف بغاوت کی تھی۔

انہیں سندھ کے زمینی اشرافیہ کے خلاف مزاحمت کی علامت ہونے کی وجہ سے یاد رکھنا چاہئے کیونکہ ان کا کردار امریکہ کی خواتین ٹیکسٹائل ورکرز سے کم اہم نہیں ہے جنہوں نے 1857ء میں سرمایہ داروں کے ذریعے ان کے استحصال کے خلاف بغاوت کی تھی۔
افسوسناک امر ہے کہ اس زبردست جدوجہد کو پاکستانی میڈیا میں کوئی کوریج نہیں دی جا رہی جس سے کمرشل میڈیا کے طبقاتی اور نظریاتی کردار کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے
دس سال پہلے تیونس میں بھی انقلاب سیدی بو سید نامی چھوٹے سے قصبے میں شروع ہوا تھا اور چند دن بعد دارلحکومت کو اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ علی آباد، وزیرستان اور کوئٹہ بھی اسلام آباد پہنچ سکتے ہیں۔ ایک مثال ابھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہے!
امریکہ میں ڈاک کے ذریعے اور قبل از وقت ووٹنگ کا آغاز ہو گیا ہے اور کہا جا رہاہے کہ اب تک تقریباً 22 ملین لوگ پورے ملک میں اپنا حق رائے دہی استعمال کر چکے ہیں۔
ایک لمبے عرصے کے بعد مزدوروں نے ایک عاجزانہ مگر پورے استقلال اور جرآت سے پیش رفت کا آغاز کیا ہے۔
اگر ہمارے قبرستان اس حالت میں ہیں تو یہ نہ صرف ریاست کی ناقابل بیان ناکامی ہے جو نہ ہمارے جینے کی ذمہ داری لیتی ہے نہ مرنے کی۔
میرے نقطہ نظر کے مطابق شمس الرحمن کی یہ تصنیف ایک پدر سری معاشرے کا صنفی استعارہ ہے جس میں سماجی نا انصافیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک عورت کے انفرادی رویے کو غلط ثابت کیا گیا ہے جو بذات خود ان سماجی ناانصافیوں کا شکار ہے۔
مجھے لگ بھگ پانچ مزید سال درکار ہیں تاکہ میں اس بات کو یقینی بنا سکوں کہ میری سیاسی وراثت رائیگاں نہ جائے
”ہم جان بوجھ کر تباہی پھیلا رہے ہیں۔ پچھلے بیس سال کا جائزہ لیا جائے تو یہی سبق ملتا ہے کہ ہم تباہی پھیلا رہے ہیں۔ کرونا بحران نے ایک مرتبہ پھر یہ سبق دیا ہے کہ سیاسی اور کاروباری رہنما اپنے ارد گرد سے لاتعلق ہیں “۔
ایشیا پیسیفک کے لئے مختص چار نشستوں کے لئے پانچ امیدوار تھے: چین، نیپال، ازبکستان، پاکستان اور سعودی عرب۔