نقطہ نظر

فتح اسرائیل کے گلے پڑ جائے گی: ایک تاریخی، مارکسی تجزیہ

آئزک ڈشر

(پولینڈ نژاد آئزک ڈشر معروف مارکسی تاریخ دان تھے۔ لیون ٹراٹسکی اور سٹالن کی سوانح عمریاں اور سویت یونین بارے ان کی تحریریں مستند حیثیت رکھتی ہیں۔ آئزک ڈشر کی اپنی جوانی کے دور میں لیون ٹراٹسکی سے ملاقات بھی ہوئی۔ وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سامنے آنے والے اہم ترین مارکسی دانشوروں میں شمار ہوتے تھے۔ یہودی النسل تھے۔ ان کے خاندان کے بعض افراد نازیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ ان کی اہلیہ تمارا کا خاندان بھی نازیوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس کے باوجود وہ دونوں کبھی صیہونیت کی جانب راغب نہیں ہوئے۔ معروف مارکس وادی جریدے ’نیو لیفٹ ریویو‘ نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد آئزک ڈشر سے انٹرویو کیا۔ غزہ پر تازہ اسرائیلی حملے کے بعد، جب دنیا بھر میں مسئلہ فلسطین پر بحث ہو رہی ہے، اس انٹرویو کی تاریخی اہمیت اور موجودہ حالات کے حوالے سے اس کی مطابقت کے پیش نظر اسے یہاں پوسٹ کیا جا رہا ہے۔ یہ مضمون طارق علی کی کتاب’بنیاد پرستیوں کا تصادم میں شامل تھا۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ فاروق سلہریا نے کیا)

آغاز گفتگو کے طور پر ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ عرب اسرائیل جنگ بارے آپ کا عمومی نقطہئ نظر کیا ہے؟

میرے خیال میں جنگ اور اسرائیل کی ’معجزانہ‘ فتح نے عرب ممالک اور خود اسرائیل کودر پیش کوئی بھی مسئلہ حل نہیں کیا۔ مسئلے حل کرنے کی بجائے جنگ نے پرانے مسائل کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے جبکہ نئے مسائل کو بھی جنم دیا جو اور بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ اس سے اسرائیل کا دفاع مضبوط نہیں ہوا الٹا اسرائیل پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہو گیا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اسرائیلی ہتھیاروں نے حال ہی میں آسانی کے ساتھ جوفتح حاصل کی ہے، مستقبل قریب میں یہ فتح خود اسرائیل کے گلے پڑ جائے گی۔

آئیے ذرا ان واقعات کے عالمی پسِ منظر کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہمیں اس جنگ کو عالمی سطح پر ہونے والی اقتدار کی کش مکش اور نظریاتی تنازعات کے سیاق وسباق میں دیکھنا ہوگا۔ پچھلے چند سالوں سے امریکی سامراج اور ایسی قوتیں جو امریکی سامراج سے وابستہ ہیں یا جنہیں امریکی سامراج کی پشت پناہی حاصل ہے، ایسی قوتیں ایشیا اور افریقہ کے وسیع خطے پر زبردست سیاسی، نظریاتی، معاشی اور فوجی حملے میں مصروف ہیں۔ اس کے برعکس ان قوتوں کی مزاحمت کرنے والی قوتیں، جن میں سر فہرست سوویت روس ہے، یا تو پیچھے ہٹ رہی ہیں یا بمشکل پاؤں جمائے کھڑی ہیں۔ یہ رجحان واقعات کے ایک تسلسل کے نتیجے میں سامنے آیا ہے: گھانا میں ہونے والی سرکشی جس میں نکروما حکومت کا خاتمہ ہوگیا، مختلف افرو ایشیائی ممالک میں رجعتی قوتوں کی طاقت میں اضافہ، انڈونیشیا میں کمیونزم مخالف قوتوں کی خونی کامیابی جو پورے براعظم ایشیا میں ردِ انقلاب کیلئے ایک بڑی کامیابی تھی، ویت نام اندر امریکی جنگ میں تیزی اور یونان اندر ’قدرے‘رائٹ ونگ بغاوت۔ عرب اسرائیل جنگ کوئی تنہا واقعہ نہیں، اس کا تعلق بھی انہی واقعات سے ہے۔ اس رجحان کا مخالف دھارا ہندوستان کے مختلف خطوں اندر انقلابی ہیجان کی صورت، عرب ممالک میں سیاسی موڈ میں ترقی پسندانہ تبدیلی، ویت نام میں نیشنل فرنٹ آف لبریشن کی موثر جدوجہد اور امریکی مداخلت کے خلاف عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی مخالفت کی صورت سامنے آیا ہے۔ گو امریکی سامراج اور ردِ انقلاب نے افروایشیائی خطے اندر بغیر کسی مزاحمت کے پیش قدمی نہیں کی، مزاحمت ہوئی ہے مگر ویت نام کے علاوہ یہ مزاحمت کہیں بھی اتنی بھر پور نہ تھی۔

مشرق وسطیٰ میں امریکی پیش قدمی زیادہ پرانی بات نہیں بلکہ ایک حالیہ پیش رفت ہے۔ جنگِ سویز کے دوران تو امریکہ کا موقف ’استعمار مخالف‘تھا۔ اس جنگ کے دوران امریکہ نے سوویت روس کے ساتھ مل کر برطانوی اور فرانسیسی دستوں کے انخلاء کو یقینی بنایا۔ امریکی پالیسی ہنوز اسی منطق کے مطابق چل رہی تھی جو 1940ء میں تھی کہ جب اسرائیلی ریاست ابھی تشکیل کے مرحلے میں تھی۔ جب تک امریکی پالیسی یہ تھی کہ افریقہ اور ایشیا سے پرانی استعماری طاقتوں کو فارغ کیا جائے تب تک تو وائٹ ہاؤس ’استعمار مخالفت‘ کا راگ الاپتا رہا۔ پرانی سلطنتوں کی زوال پذیری کے عمل کو پایہ تکمیل پہنچانے کے بعد امریکہ نے جب دیکھا کہ جو ’طاقت کا خلا‘ پیدا ہوا ہے اسے مقامی انقلابی جتھے یا سوویت یونین یا یہ دونوں مل کر پورا کرسکتے ہیں تو امریکہ کانپ کر رہ گیا۔ استعمار مخالفت دم توڑ گئی اور امریکہ نے ’مداخلت‘ کا فیصلہ کیا۔ مشرقِ وسطیٰ اندر اس عمل کا آغاز سویز بحران اور حالیہ عرب اسرائیل جنگ کے درمیانی عرصے میں ہوا۔ 1958ء میں جب امریکی فوجیں اتریں تو اس کا مقصد تھا اس خطے بالخصوص عراق اندر بڑھتی ہوئی انقلابی لہر کو روکنا۔ جب سے امریکہ نے، اور یقینا وہ سوویت روس کی ’اعتدال پسندی‘ پر بھی انحصار کر رہا ہے، مشرقِ وسطیٰ میں کھلی اور براہ راست فوجی مداخلت سے پرہیز کیا ہے اور اس لاتعلقی کا انداز اپنا رکھا ہے۔ ہاں البتہ اس کے باوجود امریکی موجودگی بہرحال ایک عنصر ہے جس میں اندازِ لاتعلقی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ایسی صورت حال میں آپ کے خیال سے اسرائیلی حکمتِ عملی کیا ہوگی؟

اسرائیل کے یقینا اپنے مقاصد تھے اور اسرائیلیوں نے محض امریکی سہولت کے لئے سب اقدامات نہیں اٹھائے۔ اس بارے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہونا چاہے کہ اسرائیلی عوام کی اکثریت عرب دنیا سے خائف ہے۔ ’اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے‘والے ’خونی‘ عرب اعلانات سن کر بلاشبہ ہر اسرائیلی کانپ کانپ جاتا ہے۔ یورپ میں رونما ہونے والے یہودی المیے کے تازہ زخموں کو سہلا تے ہوئے ا سرائیلی خود کو معاندانہ عرب دنیا کے کروڑوں لوگو ں کے گھیرے میں پاتے ہیں تو تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس صورتِ حال کے پیش نظر ان کے اپنے پراپیگنڈہ وادیوں کیلئے بہت آسان تھا کہ وہ اسرائیلیوں کے خوف کے ان جذبات سے کھیلتے ہوئے انہیں یہ باور کرائیں کہ ایک نیا المیہ رونما ہونے والا ہے اور اب کی بار یہ المیہ ایشیا میں رونما ہو سکتا ہے اوپر سے عربوں کی دھمکیاں جلتی پر تیل کا کام دے رہی تھیں۔ کتابِ مقدس کی داستانوں اور تاریخ یہود کے قومی نشانوں کا سہارا لیکر پراپیگنڈہ وادیوں نے جنگ، تکبر اور تعصب کا ماحول پیدا کیا جس کا عمدہ اظہار اسرائیلیوں نے اس وقت کیا جب وہ مصر، اردن اور فلسطین پر چڑھ دوڑے۔ اس تکبر اور جنون کے پیچھے البتہ اسرائیلیوں کا دبا ہوا احساسِ جرم چھپا ہے، یہ احساسِ جرم عربوں کے حوالے سے ہے، انہیں یہ احساس ستاتا ہے کہ عرب نہ تو ان زخموں کو بھولیں گے نہ معاف کریں گے جو اسرائیل نے لگائے ہیں: ان کی زمین پر قبضہ، ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں مہاجر، مسلسل فوجی شکستیں اور ذلت، عرب بدلے کے خوف سے نیم پاگل اسرائیلی آبادی کی ایک بڑی اکثریت نے اپنی حکومت کے ’عقیدے‘ کو مان لیا ہے، اس ’عقیدے‘ کے مطابق اسرائیل کے دفاع کیلئے ضروری ہے کہ گاہے گاہے ہر چند سالوں کے بعد جنگ لڑی جائے اور عرب ممالک کو ناکارہ بنا دیا جائے۔

بہر حال اسرائیلوں کے مقاصد اور خوف کچھ بھی ہوں، وہ مکمل طور پر آزاد نہیں ہیں۔ اسرائیل کی لگ بھگ بیس سالہ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ دوسروں پر انحصار اسرائیل کے خمیر میں پڑا ہے۔ تمام اسرائیلی حکومتیں اسرائیل کے وجود کو بچانے کیلئے مغرب کی طرف دیکھتی ہیں۔ مغرب پر ا نحصا ر کی وجہ ہی کافی تھی کہ اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں مغرب کی چوکی بن جائے اور سامراج (نو استعماریت) کے خلاف عرب عوام کی زبردست کش مکش اندر کردار ادا کرے۔ ہاں مگر اس کے علاوہ بھی کچھ عناصر کار فرما ہیں۔ اسرائیلی معیشت اپنے مہین توازن اور نشوونما کیلئے غیر ملکی صیہونی امداد بالخصوص امریکی چندوں پر انحصار کرتی ہے۔ یہ چندے اس نئی ریاست کیلئے درحقیقت ایک لعنت ثابت ہو رہے ہیں۔

ان چند وں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان کی بابت حکومت اس طرح سے ہی ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھ سکتی ہے اگر وہ اپنے ہمسایہ ملک سے تجارت کرے، دنیا کا کوئی بھی ملک ہوتا اسے یہی صورت حال درپیش آتی۔ اس کارن اسرائیل کا معاشی ڈھانچہ تباہ ہو کر رہ گیا ہے کہ اس طرح سے ایک بڑے غیر پیداواری شعبے نے جنم لیا ہے جبکہ اس کے نتیجے میں جومعیار زندگی وہاں موجود ہے وہ ملک کی پیداواریت اور آمدن سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اسرائیل نے پاؤں چادر سے کہیں زیادہ باہر پھیلا رکھے ہیں۔ کئی سال تک تو اسرائیلی خوراک کا ایک بڑا حصہ مغرب سے در آمد کیا جاتا تھا۔ امریکی انتظامیہ نے چونکہ ایسی آمدن اور منافع پر ٹیکس کی چھوٹ دے رکھی ہے جو اسرائیل کو امداد دینے کی مدد میں آتی ہو یوں ان تجوریوں پر واشنگٹن کا تالہ پڑا ہے جن پر اسرائیلی معیشت کا انحصار ہے۔ واشنگٹن جب چاہے ٹیکس کی چھوٹ واپس لے کر اسرائیل کو کاری ضرب لگا سکتا ہے (ہاں مگر اس کے نتیجے میں انتخابات اندر یہودی ووٹ سے ہاتھ دھونا پڑے گا)۔ ایسی کسی پا بندی کی دھمکی، گو یہ دھمکی کبھی دی نہیں گئی مگر یہ سرپر لٹکتی تلوار ضرور ہے اور اشاروں کنا ئیو ں میں اس کا ذکر چلتا رہا ہے، اسرائیل کی ہر حکمتِ عملی کو امریکہ منشاء کے تابع رکھنے کیلئے کافی ہے۔

کئی سال پہلے جب میں اسرائیل گیا تو ایک بڑے اسرائیلی اہل کار نے مجھے ان فیکٹریوں کی تفصیل بتائی جو اسرائیل امریکی اعتراضات کے باعث تعمیر نہیں کرپایا ____ان فیکٹریوں میں سٹیل ملیں اورزرعی مشینری بنانے والے پلانٹ شامل تھے۔ دوسری طرف ایسی فیکٹریاں شامل تھیں جو بالکل بے کار تھیں مثلاً بڑے پیمانے پر پلاسٹک کے برتن اور کھلونے وغیرہ بنانے والی فیکٹریاں۔ نہ تو کوئی اسرائیلی انتظامیہ سنجیدگی کے ساتھ عرب پڑوسیوں کے ساتھ تجارت اور معاشی تعلقات کی اہم اور دیرپا ضرورت بارے آزادانہ سوچ سکتی ہے نہ ہی سوویت روس اور مشرقی یورپ سے اقتصادی تعلقات استوار کرنے بارے سوچا جاسکتا ہے۔

اس اقتصادی انحصار نے اسرائیل کی اندرون ملک پالیسی اور ’ثقافتی ماحول‘ کو کئی طرح سے متاثر کیا ہے۔ زمین مقدس میں اہم ترین غیر ملکی سرمایہ کار امریکی ڈونر ہے۔ ایک امیر امریکی یہودی جو ’دنیا دار کاروباری‘ ہے، نیویارک، فلاڈیلفیا اور ڈیٹرائٹ میں اپنے غیر یہودی ساتھیوں اور دوستوں کے گھیرے میں دل ہی دل اندر خوش ہے کہ وہ ’برگزیدہ لوگوں‘ کا حصہ ہے اور اسرائیل اندر وہ اپنے اثرورسوخ کو مذہبی رجعت پسندی اور قدامت پسندی کے لئے استعمال کرتا ہے۔ آزاد منڈی میں یقین رکھنے والا یہ شخص ہسترا درت اور کبوتزم کی معمولی سی ’سوشلزم‘ کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اسے فرو کرنے کی سعی کرتا رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس نے قانون سازی اور تعلیم پر ربیوں کی بالادستی قائم رکھنے میں مدد دی ہے تاکہ نسلی، تلمودی تجرد پسندی اور برتری کو قائم رکھا جاسکے۔ نتیجہ ان ساری باتوں کا یہ نکلا ہے کہ عرب دشمنی میں اضافہ ہوا ہے۔

سرد جنگ نے رجعتی رجحانات کو فروغ اور عرب اسرائیل تنازعے کو ہوا دی۔ اسرائیل پوری طرح کمیونزم مخالفت کا علمبردار تھا۔ یہ درست ہے کہ اپنے آخری دور میں سٹالن نے جو پالیسی اپنائی، سلانسکی، راژک اور کوسٹو کے خلاف مقدمات میں یہودی مخالف نعرہ بازی، عرب قوم پرستی کی انتہائی نامعقول رجحانات کی بھی سوویت حوصلہ افزائی، یہ تمام عناصر بھی اسرائیلی روئیے کا باعث بنے ہاں مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سٹالن اسرائیل کا ان داتا تھا۔ یہ چیکو سلواکیہ سے آیا ہوا اسلحہ تھا، جو سٹالن کی ہدایت پر دیا گیا تھا، جس کی مدد سے یہودیوں نے پہلے برطانوی قبضے اور پھر عربوں کے خلاف ____ 1947-48ء ____ لڑائی لڑی اور ہاں جب اقوام متحدہ میں ریاست اسرائیل کے قیام کی قرار داد، پیش ہوئی تو اسے سب سے پہلے تسلیم کرنے والا ووٹ سوویت روس کے سفارت کار نے دیا تھا۔ اس بات پر بحث کی گنجائش موجود ہے کہ اسرائیل کی طرف سٹالن کا رویہ جو بدلا تو اس کی وجہ اسرائیل کی مغرب سے دوستی تھی۔ سٹالن کے بعد والے دور میں اسرائیلی حکومتوں نے مغرب نوازی جاری رکھی۔

اسی کارن یہ بات اسرائیلی حکمتِ عملی کا اصول بن گئی کہ وہ مغرب سے نجات کیلئے عرب خواہشات کی مخالفت کرے گا۔ لہٰذا 1956ء میں اسرائیل نے جنگِ سویز کے دوران جو کردار ادا کیا اس کی سمجھ آتی ہے۔ اسرائیل کے سوشل ڈیمو کریٹک وزیروں نے مغرب کی طرز پر اس غائتِ وجود کو گلے لگا لیا ہے جس کے مطابق دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ عربوں کو پس ماندہ اور منقسم رکھو جبکہ ہاشمی خاندان اور دیگر جاگیردارانہ عناصر کو بادشاہت مخالف، انقلابی قوم پرست قوتوں کے خلاف برسرِپیکار رکھو۔ اس سال کے آغاز میں جب یہ خطرہ پیدا ہوا کہ بادشاہت مخالف سرکشی یا کوئی بغاوت سامنے آسکتی ہے جو شاہ حسین کا تختہ الٹ دے گی تو اشکول حکومت نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کھل کر کہا کہ عمان میں ’ناصر اسٹ بغاوت‘ ہوئی تو اسرائیلی دستے اردن میں داخل ہو جائیں گے۔ گذشتہ جون کے واقعات کا پیش خیمہ تو شام کی نئی حکومت کے خلاف اپنایا جانے والا اسرائیل کا وہ جارحانہ رویہ تھا جس کے مطابق وہ اس حکومت کو ’ناصر اسٹ‘ بلکہ ’الٹراناصراسٹ‘ کہہ رہی تھی (کیونکہ شام کی حکومت بظاہر مصر سے زیادہ سامراج مخالف اور ترقی پسند دکھائی دے رہی تھی)۔

کیا اسرائیل نے واقعی مئی میں شام پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا جیسا کہ سوویت خفیہ اداروں کا خیال تھا اور جس کے حوا لے سے ماسکو نے ناصر کو خبردار کیا تھا؟ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ یہ اسی سوویت تنبیہ اور سوویت حوصلہ افزائی کا نتیجہ تھا کہ ناصر نے سینائی کے محاذ پر فوجیں لگا دیں۔ اگر تو اسرائیل نے کوئی منصوبہ بنا رکھا تھا تو ممکن ہے ناصرکے اقدام کے نتیجے میں شام پر اسرئیلی حملہ ملتوی ہو گیا ہو۔ اگر اسرائیل نے ایسا کوئی منصوبہ نہیں بنا رکھا تھا تو اس طرزِ عمل سے اسرائیل کو عرب دنیا سے لاحق خطرات کی معقولیت کا جواز مل گیا۔ صورتِ حال کچھ بھی تھی، اسرائیلی حکمرانوں کو بہر حال یقین تھا کہ شام اور مصر پر اسرائیلی جارحیت کو مغرب سے حمایت اور امداد ضرور ملے گی۔ پانچ جون کے اسرائیلی حملے پیچھے اس قسم کے اندازے نے اہم کردار ادا کیا۔ ان کو امریکہ اور کسی حد تک برطانیہ کی، اخلاقی، سیاسی اور معاشی امداد کا مکمل یقین تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ وہ عربوں پر حملے میں چاہے جس بھی حد سے کیوں نہ گزرچاہیں، انہیں امریکہ کی سفارتی چھتری نہیں تو کم از کم امریکہ کی سرکاری مداخلت ضرور میسر رہے گی۔ وہ تھے بھی درست۔ وائٹ ہاؤس اورپینٹاگون ایسے افراد کی حوصلہ افزائی کئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے جو اپنے ہی مقاصد کیلئے امریکی استعمار کے عرب دشمنوں کا خاتمہ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ جنرل ڈیان نے مشرق وسطیٰ کے مارشل قی کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری برق رفتاری، چابکدستی اور بے رحمی سے نبھائی۔ جنرل ڈیان جنرل قی کی نسبت کہیں زیادہ کم خرچ بھی ثابت ہوئے اور انہوں نے اتنی جگ ہنسا ئی بھی نہیں کرائی جتنی جنرل قی نے کروائی تھی۔

اب آتے ہیں تصویر کے عرب رخ کی طرف، اس بحران کے موقع پر ان کا برتاؤ کیسا تھا؟

عرب ردِ عمل بالخصوص لڑائی کے موقع پر ناصر کا منتشر ذہن اسرائیلی عزم اور بے روک جارحیت سے قطعی میل نہیں کھاتا تھا۔ سوویت حوصلہ افزائی سے اپنی فوجوں کو سینائی محاذ تک لانے حتیٰ کہ روسی ساخت کے میزائل نصب کرنے کے بعد ناصر نے ماسکو سے مشور ہ کئے بغیر آبنائے تران کی ناکہ بندی کا اعلان کردیا۔ یہ اقدام اشتعال انگیز ضرور تھا لیکن عملی لحاظ سے اس کی کوئی خاص اہمیت نہ تھی۔ مغربی قوتوں نے اس بات کو اہم نہیں سمجھا کہ وہ اس ناکہ بندی کا ’امتحان‘ لیں۔ اس سے ناصر کی تکریم میں ضرور اضافہ ہوا کہ اس طرح ناصر کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ 1956ء میں اسرائیل کے ہاتھوں گنوایا جانے والا آخری حصہ بھی واپس لے لیا گیا ہے۔ (جنگ سویز سے قبل اسرائیلی جہاز اس آبنائے سے گزر نہیں سکتے تھے)۔ اسرائیلیوں نے اس ناکہ بندی کو اپنی معیشت کیلئے زہر قاتل قرار دیدیا، حالانکہ ایسا نہیں تھا، اورجوابی طور پر انہوں نے بھی اپنی فوجیں سرحد سے لگا دیں۔

عوامی سطح پر سوویت پراپیگنڈہ عربوں کی حوصلہ افزائی کرتا رہا۔ ہاں البتہ مئی میں مشرقِ وسطیٰ کی اشتراکی جماعتوں کا اجلاس (اس کی قرار دادوں کا خلاصہ پراودا میں شائع ہوا) حیران کن حد تک اس بحران بارے خاموش تھا اور یہ اجلاس بالکنا یہ ناصر پر تنقید کرتا بھی سنائی دیا۔ اس سے بھی اہم وہ پس پردہ سفارتی چالبازیاں ہیں۔ 26مئی کو رات گئے (ڈھائی بجے) سوویت سفیر نے ناصر کو جگا کر یہ تنبیہ دی کہ مصر حملہ کرنے میں پہل نہ کرے۔ ناصر نے ایسا ہی کیا۔ اس بات پر ناصر نے اس حد تک عمل کیا کہ پہل کرنا تو ایک طرف، ممکنہ اسرائیلی حملے کے خلاف کسی قسم کے حفاظتی اقدامات بھی نہیں اٹھائے گئے۔ ناصر نے اپنے ائیر فیلڈز کو محفوظ بنایا نہ ہی اپنے جنگی طیاروں کو کیموفلاج کیا۔ اور تو اور آبنائے تران میں بارودی سرنگیں تک بچھائی گئیں نہ ان ساحلوں پر کسی قسم کی توپیں نصب کی گئیں (جیسا کہ بعد ازاں اسرائیلی دستوں نے دریافت کیا اور اس بات پر خاصے حیران ہوئے)۔

ان سب باتوں سے ناصر اور مصری قیادت کا اناڑی پن ظاہر ہوتا ہے۔ البتہ اصل اناڑی کریملن میں بیٹھے تھے۔ برژنیف اور کوسیجن نے ان واقعات کے دوران جو رویہ اپنایا اس نے کیوبا بحران دوران خروشیف کے روئیے کی یاد دلا دی گو خروشیف کا ردِ عمل اور بھی زیادہ بے تکا تھا۔ ہاں البتہ نمونہ ایک سا تھا۔ پہلے تو غیر ضروری طور پر دوسرے دھڑے کو غیر ضروری طور پر مشتعل کیا گیا اور بات کو آخری ’دھانے‘ تک پہنچایا گیا، اگلے مرحلے میں اچانک خوفزدہ انداز میں پسپائی اختیار کی گئی اور آخر میں عزتِ سادات بچانے کیلئے بدحواس ہو کر اقدامات اٹھائے گئے تاکہ تمام سراغ مٹائے جاسکیں۔ عرب خوف کو ہوا دے کر، انہیں خطرناک اقدامات اٹھانے کی ترغیب دے کر، ساتھ دینے کا وعدہ کرکے اور بحیرہ روم میں امریکہ کے چھٹے بحری بیڑے کے مقابلے پر اپنی بحریہ کے دستے بھیجنے کے بعد روسیوں نے ناصر کے ہاتھ پاؤں باندھ دئیے۔

انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ جوں جوں تناؤ میں اضافہ ہوا، کریملن اور وائٹ ہاؤس کے مابین ’ہاٹ لائن‘ حرکت میں آگئی۔ دونوں عالمی طاقتوں نے فیصلہ کیا کہ وہ براہ راست مداخلت سے گریز کریں گی اور تنازعے میں ملوث فریقوں کو روکیں گی۔ اگر تو امریکیوں نے اسرائیلیوں کو روکا تھا تو اِس بے دلی سے روکا تھا یا روکنے کے ساتھ ساتھ اشارہئ ابرو بھی دیا تھا کہ اسرائیلیوں نے شہ پا کر پیشگی حملہ کردیا۔ (ہم نے کم ازکم ابھی تک یہ نہیں سنا کہ امریکی سفیر نے رات گئے اسرائیلی وزیر اعظم کو جگا کر یہ کہا ہو کہ اسرائیل حملے میں ہرگز پہل نہ کرے)۔ سوویت روس نے ناصر پر جو روک لگائی وہ شدید، ناتراشیدہ اور موثر تھی۔ مگر اس کے باوجود کسی بھی قسم کی حفاظتی تدابیر سے ناصر کا اجتناب ایک پہیلی ہے۔ کیا ماسکو کے سفیر نے رات گئے جو ملاقات کی تھی اس میں ناصر کو یقین دلایا تھا کہ اسرائیل حملے میں پہل نہیں کرے گا؟ کیا واشنگٹن نے ماسکو کو اس نوعیت کی کوئی ضمانت دی تھی؟ کیا ماسکو اس قدر سادہ لوح تھا کہ واشنگٹن کی ضمانت پر اعتبار کر بیٹھا؟ یقین نہیں آتا۔ ہاں مگر کچھ ایسا ہی ہوا ہو گا جبھی تو ناصر نے کوئی سرگرمی نہیں دکھائی اور ماسکو لڑائی شروع ہونے پر حیران و ششدر تھا۔

اس سارے اناڑی پن کے پیچھے سوویت حکمتِ عملی کا مرکزی تضاد کار فرما ہے۔ ایک طرف تو سوویت رہنما عالمی سٹیٹس کو ____بشمول معاشرتی سٹیٹس کو ___جاری رکھنے کے خواہاں ہیں کہ وہ ’پر امن بقائے باہمی‘ اور قومی سلامتی کی ایک شرط تصور کرتے ہیں۔ اسی کار ن وہ طبقاتی تنازعات کے طوفانی مراکز سے دنیا بھر میں اجتناب برتتے ہیں اور خطرناک غیر ملکی مداخلت سے پرہیز کرتے ہیں۔ دوسری جانب وہ نظریاتی و سیاسی وجوہات اور اقتدار کیلئے جاری کش مکش کے باعث خطرناک جھگڑوں میں الجھے بغیر بھی نہیں رہ سکتے۔ جب امریکی نو استعمار افروایشیا یا لاطینی امریکہ میں اپنے دشمنوں سے برسرِ پیکار ہوتا ہے تو سوویت روس خاموش نہیں رہ سکتا کہ وہ سب سوویت روس کی طرف ایک دوست اورمحافظ کی صورت دیکھتے ہیں۔ عام حالات میں تو یہ تضاد مخفی رہتا ہے، ماسکو امریکہ سے صلح صفائی کیلئے کوشاں رہتا ہے اور محتاط انداز میں اپنے افرو ایشیائی یا کیوبن دوستوں کو مدد بھی دیتا ہے اور انہیں مسلح بھی کرتا ہے۔ ہاں مگر جب کوئی بحران جنم لیتا ہے توتضاد کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ ایسے موقع پر ماسکو کے پاس دو راستے ہوتے ہیں، وہ یا تو اپنے اتحادیوں کا ساتھ دے یا سٹیٹس کو جاری رکھنے کیلئے اپنا وعدہ نبھائے۔ جب وہ بری طرح پھنس جائے اور کچھ سجھائی نہ دے تو سٹیٹس کو کے حق میں فیصلہ کرتا ہے۔

گومگو کی یہ کیفیت حقیقی بھی ہے اور اس ایٹمی دور میں خطرناک بھی۔ اس کا سامنا امریکہ کو بھی ہے کہ امریکہ بھی عالمی جنگ سے اسی قدر دامن بچانا چاہتا ہے جس قدر سوویت روس۔ ہاں البتہ اس صورتِ حال سے سوویت روس کے برعکس امریکہ کو حاصل سیاسی ونظریاتی حملے کی آزادی میں کوئی بہت زیادہ کمی واقع نہیں ہوئی۔ امریکہ اس قدر خوفزدہ نہیں کہ اگر اس کے کسی حلیف کی کوئی حرکت یا خود اس کی اپنی فوجی مداخلت عالمی طاقتوں کے مابین لڑائی کا موجب بن سکتی ہے۔ کیوبن بحران اور ویت نام میں جنگ کے بعد عرب اسرائیلی تنازعے نے ایک مرتبہ پھر سوویت روس اور امریکہ کے بیچ اس فرق کو آشکار کیا ہے۔

ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا کبھی اسرائیل کے پاس یہ موقع آیا کہ وہ عربوں کے ساتھ معمول کے یا کم ازکم قابل برداشت تعلقات قائم کرسکے؟ کیا اس کے پاس کوئی راستہ موجود تھا؟ گزشتہ جنگ کس حد تک ناقابل تنسیخ سلسلہئ واقعات کا نتیجہ تھی؟

جی ہاں کسی حد تک موجودہ جنگ کو دوسری عالمی جنگ اور کسی حد تک پہلی عالمی جنگ کے بعد سے چلے آرہے عرب اسرائیل تعلقات کا شاخسانہ کہا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ اسرائیل کے پاس کچھ راستے موجود تھے۔ مجھے یہاں ایک قصہ دہرانے کی اجازت دیجئے جو میں نے ایک مرتبہ ایک اسرائیلی مجمع میں سنایا تھا:

ایک شخص جلتے ہوئے گھر کی آخری منزل سے چھلانگ لگاتا ہے جبکہ اس گھر میں اس کے خاندان کے کئی افراد پہلے ہی ہلاک ہوچکے ہیں۔ وہ اپنی جان تو بچا لیتا ہے مگر وہ گرتا ہے تو ایک اور شخص پر گرتا ہے اور اس کی ٹانگیں اور بازو توڑ دیتا ہے۔ چھت سے چھلانگ لگانے والے شخص کے پاس کوئی چارہ نہ تھا ماسوائے چھلانگ لگانے کے ہاں البتہ جو شخص اس کے نیچے آکر اپنی ٹانگیں اور بازو گنوا بیٹھا وہ چھلانگ لگانے والے کو اپنی مصیبت کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ اگر تو دونوں منطقی انداز اختیار کرتے تو دونوں کے بیچ دشمنی جنم نہ لیتی۔ چھت سے چھلانگ لگانے والا جو جلتے ہوئے گھر میں جل کر مرنے سے بچ رہا تھا، ہوش میں آنے کے بعد دوسرے کی مدد کرسکتا تھا جبکہ دوسرا یہ سوچ سکتا تھا کہ وہ دونوں حالات کے مارے ہیں اور حالات پر ان دونوں کو اختیار نہ تھا۔ زخمی ہونے والا شخص البتہ چھت سے چھلانگ لگانے والے کو اپنی بدقسمتی کی وجہ قرار دے کر اس کے در پے ہو جاتا ہے۔ وہ جس نے چھت سے چھلانگ لگائی تھی، وہ زخمی ہونے والے کے بدلے سے خائف ہے اور جب بھی ان کی ملاقات ہوتی ہے۔ وہ اسے مارتا اور اس کی ہتک کرتا ہے۔ زخمی کو جب زدوکوب کیا جاتا ہے تو وہ اور زیادہ زور وشور سے بدلے کی باتیں کرتا ہے۔ یہ شدید دشمنی جو شروع میں ترنگی دکھائی دیتی تھی، اس قدر شدیدہو جاتی ہے کہ دونوں کی جان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے اور دونوں کے ذہن زہر آلود ہو کر رہ جاتے ہیں۔

آپ سمجھ گئے ہوں گے (میں نے اسرائیلی مجمع سے پوچھا) کہ میں کس کی بات کر رہا ہوں، چھت سے چھلانگ لگانے والا یورپی یہودیوں کی اسرائیلی باقیات جبکہ دوسرا شخص فلسطینی عرب ہیں کہ جن کے دس لاکھ سے زائد ساتھی اپنا وطن اور گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ وہ غصے سے تلملا رہے ہیں۔ وہ سرحدوں پر کھڑے ہو کر اپنی پرانی جگہوں کو دیکھتے ہیں۔ وہ چوری چھپے آپ پر گھات لگا کر حملہ کرتے ہیں اور بدلہ لینے کی قسمیں کھاتے ہیں۔ آپ بے رحمی سے انہیں زدوکوب کرتے ہیں، آپ انہیں یہ باور کراتے ہیں کہ آپ زدو کوب کرنا خوب جانتے ہیں۔ مگر اس کی کوئی وجہ؟ آخر اس کا انجام کیا ہوگا؟

یورپی یہودیوں کے المیے، آشوتز، مژدانک اور یہودی آبادیوں میں قتلِ عام کی ذمہ داری ہماری مغربی بورژوا ’تہذیب‘ پر عائد ہوتی ہے کہ نازی ازم جس کی جائز گو روبہ تنزل، اولاد تھی۔ جی ہاں مغرب نے جو جرائم کئے اس کی قیمت عرب ادا کر رہے ہیں۔ وہ اب تک یہ قیمت چکانے پر مجبور ہیں کہ مغرب کا ’خلش زدہ ضمیر‘ اسرائیل کا حامی اور عرب مخالف ہے۔ اور ذرا دیکھئے کہ اسرائیل کس آسانی کے ساتھ اس ’زرِ ضمیر‘ کو رشوت کے طور پر قبول کرنے کیلئے تیار ہوگیا ہے۔ اسرائیلیوں اور عربوں کے مابین ایک منطقی تعلق قائم ہو سکتا تھا اگر اسرائیل نے یہ تعلق قائم کرنے کی کوشش کی ہوتی، اگر جلتے ہوئے گھر کی چھت سے چھلانگ لگانے والے نے بے گناہ زخمی کے ساتھ دوستی اور اس کے زخموں کا مداوا کرنے کی سعی کی ہوتی۔ آغاز سے ہی صیہونیت ایک خالص یہودی ریاست بنانے پر تلی ہوئی تھی اور اس بات پر خوش تھی کہ اس نے ملک کو عربوں سے خالی کرا لیا۔ تب سے لیکر کبھی کسی اسرائیلی حکومت نے یہ کوشش نہیں کی کہ وہ سنجیدگی کے ساتھ شکایات کو رفع کرے یا ان کا مداوا کرے۔ اسرائیلی تو اس وقت ان مہاجرین کے عظیم انبوہ بارے بات کرنے پر بھی تیار نہیں تاآنکہ عرب ریاستیں اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیں گویا جب تک عرب سیاسی طو رپر اسرائیل کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیک دیتے تب تک اسرائیل کسی قسم کی گفتگو کرنے پرتیار نہیں۔ چلیں اس مطالبے کو سودے بازی کا ہتھیار قرار دے کر نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ عرب اسرائیل تعلقات مزید تنزل کا شکار جنگ سویز کے بعد اس وقت ہوئے جب یورپ کی پرانی دیوالیہ سامراجی قوتوں نے مشرق وسطیٰ میں آخری مرتبہ مصر پر اپنی گرفت رکھنے کیلئے مشترکہ موقف اختیار کیا تو اسرائیل ان کا ہر اول دستہ بن گیا۔ اسرائیل کو کوئی ضرورت نہیں تھی کہ وہ سویز کینا ل کمپنی کے حصص برداروں کا ساتھ دیتا۔ مخالف اور موافق دلائل بالکل واضح تھے، حق اور باطل میں تمیز ہر گز مشکل نہ تھی مگر اسرائیل نے اخلاقی و سیاسی لحاظ سے باطل کا ساتھ دیا۔

بظاہر عرب اسرائیل تنازعہ دو متحارب قوم پرستیوں کا جھگڑا ہے جس میں ہر دو خود ساختہ راست بازی اور مہان نصب العین کے گھن چکر میں پڑے ہیں۔ تجریدی انٹرنیشنل ازم کا تقاضا تو یہ ہے کہ دونوں کو ہی با آسانی بے کار اور رجعتی قرار دے کر رد کیا جائے۔ یہ بات البتہ صورت حال سے وابستہ معاشرتی اور سیاسی حقائق کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہوگا۔ اپنی خود مختاری کیلئے لڑتے ہوئے نو آبادیاتی یا نیم نو آبادیاتی ممالک کے لوگوں کی قوم پرستی کا مقابلہ حملہ آور اور قابض قوموں کی قوم پرستی سے نہیں کیا جاسکتا۔ اول الذکر کے پاس ایک تاریخی جوازموجود ہے اور اس کی قوم پرستی ترقی پسندانہ اقدام ہے جبکہ ثانی الذکر کے سلسلے میں ایسا نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب قوم پرستی، اسرائیلی قوم پرستی کے برعکس، اول الذکر قوم پرستی کے زمرے میں آتی ہے۔

اس کے باوجود مظلوم اورمحروم کی قوم پرستی کو بھی غیر تنقیدی نظر سے نہیں دیکھا جاسکتا کیونکہ اس کے ارتقاء میں بھی کئی مراحل آتے ہیں۔ ایک مرحلہ ہوتا ہے جب ترقی پسندانہ رجحانات غالب ہوتے ہیں پھر ایک مرحلہ آتا ہے جب رجعت پسندانہ رجحانات آگے آجاتے ہیں۔ جوں ہی آزادی حاصل ہو جاتی ہے یا آزادی کی منزل قریب پہنچ جاتی ہے، قوم پرستی اپنا انقلابی پہلو پس پشت ڈالتے ہوئے رجعت پرستانہ نظریہ بن جاتی ہے۔ اس کا اظہار ہم ہندوستان، انڈونیشیا، اسرائیل اور کسی حد تک چین میں بھی دیکھ چکے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اپنے انقلابی دور میں بھی ہر قوم پرستی کسی حد تک نامعقولیت، تجرد پسندی، قومی انا اور نسل پرستی کا شکار ہوتی ہے۔ عرب قوم پرستی بھی اپنے تمام تر خوبیوں اور ترقی پسندانہ کردار کے باوجود ان عناصر سے مبراء نہیں۔

جون کے بحران نے عرب سیاسی فکر اور عمل کی چند بنیادی کمزوریوں کو آشکار کردیا ہے: سیاسی حکمت عملی کی کمی، اپنے آپ میں مگن رہنے کارجحان اور قوم پرست نعرہ بازی پر بلا کا انحصار۔ یہ کمزوریاں عربوں کی شکست کی بڑی وجہ ثابت ہوئیں۔ اسرائیل کو تباہ کرنے حتیٰ کہ صفحہئ ہستی سے مٹا دینے کی دھمکیاں ____ اور یہ دھمکیاں کتنی کھو کھلی تھیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عرب فوجی لحاظ سے بالکل بھی تیار نہ تھے___جو مصر اور اردن کے بعض پراپیگنڈہ وادیوں نے دیں درحقیقت اسرائیلی شاونزم کو خوب ہوا دینے کے کام آئیں اور ان دھمکیوں کی بدولت ہی اسرائیلی حکومت نے اپنے عوام کو خائف کرتے ہوئے بے رحم جارحیت پر اکسایا اور عرب اس جارحیت کا شکار بنے۔

یہ سچ ہے کہ جنگ حکمت عملی کا ہی تسلسل ہوتی ہے۔ چھ روزہ جنگ نے عرب حکومتوں کے کچے پن کو آشکار کردیا ہے۔ اسرائیل کو محض پیشگی حملے کے باعث فتح حاصل نہیں ہوئی بلکہ اس کی وجہ اس کی جدید معاشی، سیاسی اور فوجی تنظیم بھی ہے۔ کسی حد تک اس جنگ نے جنگ سویز سے شروع ہونے والی دہائی کے دوران عرب دنیا اندر ہونے والے ارتقاء کا حساب کتاب پیش کردیا ہے۔ مصر اور دیگر عرب ریاستوں کے سماجی ومعاشی ڈھانچے اور عرب سیاسی فکر نے اس تیزی سے ترقی نہیں کی جس کا گمان ان عرب حکومتوں کو پسند کرنے والوں کو تھا۔

اس جاری پس ماندگی کی جڑیں یقینا معاشی و سماجی حالات میں تلاش کی جاسکتی ہیں۔ مگر نظریہ اور تنظیم کے طریقہئ کار بذاتِ خود بھی تو کمزوری کا باعث ہوتے ہیں۔ میں جو یہ بات کر رہا ہوں تو میرے ذہن میں یک جماعتی نظام، ناصر ازم کے گرد شخصیت پرستی اور مبا حثے کی آزادی کا عدم فقدان ہے۔ ان تمام باتوں نے عوام کی سیاسی تربیت اور سوشلسٹ سوچ کو پروان چڑھنے سے روکا ہے۔ ان باتوں کے منفی اثرات مختلف سطح پر دیکھے جاسکتے ہیں جب حکمت عملی کے حوالے سے تمام اہم فیصلوں کا دارو مدار کم وبیش ایک آمر مطلق قسم کے رہنما کے ہاتھ میں ہوں، سیاسی عمل میں جب عمومی حالات اندر عوام شریک نہ ہوں، محتسب اور متحرک شعورموجود نہ ہو، نچلی سطح سے کوئی پہل نہ ہورہی ہو تو اس صورت حال کے برے نتائج برآمد ہوتے ہیں، فوجی شعبے میں بھی۔ روایتی ہتھیاروں کے ساتھ اسرائیل کا پیشگی حملہ اتنا مہلک نہ ہوتا اگر مصر کی مسلح افواج اندر انفرادی حیثیت میں افسر اور سپاہی کوئی اقدام اٹھانے کے عادی ہوتے۔ اس صورت میں یہ ہوتا کہ مقامی کمانڈر اپنے تئیں کچھ نہ کچھ حفاظتی تدابیر ضرور اختیار کرتے اور اوپر سے جاری ہونے والے احکامات کا انتظار نہ کرتے رہتے۔ یہ بری فوجی کار کردگی در حقیقت وسیع پیمانے پر موجود سماجی و سیاسی کمزوری کا اظہار تھی۔ ناصر ازم کا فوجی وبیوروکریٹک طریقہ کار عرب تحریک آزادی کے سیاسی اتحاد کی راہ میں بھی رکاوٹ ہے۔ قوم پرست نعرہ بازی تو خوب ہوتی ہے مگر یہ نہ تو حقیقی اتحاد کا نعم البدل ہے نہ ہی فیصلہ کن، جاگیر دارانہ اور رجعتی عناصر کے خلاف عوام کو بڑے پیمانے پر حقیقی انداز میں متحرک کرنے کا نعم البدل۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ ایمر جنسی حالات اندر ایک ’لیڈر‘ پر بے جا انحصار کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرب ممالک کی قسمت کا انحصار عالمی طاقت کی مداخلت اور سفارتی چالوں کے حادثات پر تھا۔

دوبارہ اسرائیل کی بات کرتے ہیں، اس فتح سے اسرائیل کیا فائدہ حاصل کرپائے گا؟ خطے میں اسرائیل اپنے آئندہ کردارکو کس انداز سے دیکھ رہا ہے؟

متناقص اور عجیب وغریب طور پراسرائیلی اب مشرقِ وسطی کے پرشیائی بن کر ابھرے ہیں۔ وہ اب اپنے عرب ہمسائیوں کے خلاف تین جنگیں جیت چکے ہیں۔ ایک صدی قبل پرشیا والوں نے بھی چند سالوں کے مختصر عرصے میں اپنے تمام ہمسائیوں کو شکست دی جن میں آسٹریا، ڈنمارک اور فرانس سبھی شامل تھے۔ اس فتح کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں اپنی صلاحیتوں پرکامل اعتماد ہو گیا، وہ اپنے اسلحے پر اندھا اعتماد کرنے لگے، شاؤنسٹ تکبر نے جنم لیا اور وہ دوسرں کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگے۔ مجھے خدشہ ہے کہ اس قسم کا کچا پن___اور یہ کچا پن ہی ہوتا ہے ___اسرائیل کے سیاسی کردار میں بھی رونما ہو سکتا ہے۔ اس کے باوجود اسرائیل مشرقِ وسطیٰ کے پرشیا کے طور پر اصل پرشیا کا معمولی سا پر تو ہی ہو سکتا ہے۔ پرشیا والوں نے اپنی فتوحات سے کم ازکم یہ فائدہ حاصل کیا کہ آسٹرو ہنگیرین سلطنت سے باہر رہنے والے ان تمام لوگوں کو متحد کر دیا جو جرمن زبان بولتے تھے۔ جرمنی کے تمام ہمسائے مفادات، تاریخ، مذہب اور زبان کی بنیاد پر تقسیم تھے۔ بسمارک، ولھیلم اور ہٹلر ان کو ایک دوسرے سے لڑا سکتے تھے۔ اسرائیل کے ارد گرد صرف عرب بستے ہیں۔ عربوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کی کوششیں آخر کار رائیگاں جائیں گی۔ 1948ء میں جب اسرائیل نے پہلی جنگ لڑی تو عرب ایک دوسرے سے گتھم گتھا تھے، 1956ء میں وہ نسبتاً کم تقسیم کا شکار تھے جب اسرائیل نے ان سے دوسری جنگ لڑی، اور 1967ء میں وہ مشترکہ محاذ بنا کرلڑے۔ ممکن ہے آئندہ جب اسرائیل سے سامنا ہو تو وہ کہیں زیادہ متحدہ ہوں۔

جرمنوں نے اپنے تجربے کو ایک زہر آلود فقرے میں یوں بیان کیا ہے:

’انسان قبر کی طرف اپنی دوڑ جیت سکتا ہے‘۔ اسرائیلی اسی دوڑ میں مشغول ہیں۔ وہ اتنا نگل نہیں سکتے جتنا بڑا نوالہ انہوں نے منہ میں ڈال لیا ہے۔ جن علاقوں پر اسرائیل نے قبضہ کیا ہے وہاں پندرہ لاکھ عرب رہتے ہیں جو کل آبادی کا چالیس فیصد ہیں۔ کیا قبضے کو جاری رکھنے کیلئے اس بڑی آبادی کو وہاں سے دیس نکالا دیا جائے گا؟ یوں تو ایک نیا مہاجر مسئلہ کھڑا ہوجائے گا جو پہلے کی نسبت زیادہ بڑا اور گھمبیر ہو گا۔ کیا مقبوضہ علاقوں کو خالی کردیا جائے گا؟ اکثر اسرائیلی رہنما تو اس سوال کا جواب نفی میں دے رہے ہیں۔ اسرائیلی شاونزم کی بدروح بن گورین کہتا ہے کہ اردن میں ایک ’عرب فلسطینی ریاست‘ قائم کردی جائے جو اسرائیل کی باجگزار ہو۔ کیا اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ عرب با جگزار ریاست بننا پسند کریں گے؟ کیا وہ اس منصوبے کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائیں گے؟ ایک بھی ایسی اسرائیلی جماعت نہیں جو دو قومی عرب اسرائیلی ریاست پر بات کرنے کیلئے تیار ہو۔ دریں اثناء بے شمار عربوں کو مجبور کیا گیا ہے کہ وہ اردن میں اپنے گھر بار چھوڑ کرکہیں اور چلے جائیں اور جو نہیں گئے ان کے ساتھ اتنا برا سلوک کیا جارہا ہے کہ اتنا برا سلوک تو مارشل لاء کے تحت زندگی گزارنے والی اس عرب اقلیت کے ساتھ بھی نہیں ہوا جو اسرائیل میں تھی۔ جی ہاں! یہ جیت اسرائیل کے لئے شکست سے بھی بری ہے۔ اسرائیل کو محفوظ بنانے کی بجائے اس فتح نے اسے مزید غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ اگر تو اسرائیل کو عرب بدلے اور پائمالی کا خدشہ ہے تو اپنے روئیے سے اسرائیل نے ایک خدشے کو حقیقی خطرے میں بدل دیا ہے۔

کیا اسرائیلی فتح سے امریکہ کو کوئی حقیقی فائدہ پہنچا؟ کیا اس کے نتیجے میں افروایشیا خطے اندر امریکہ کے نظریاتی حملے میں تیزی آئی ہے؟

جنگ بندی کے موقع پرایک لمحہ تو ایسا آیا جب لگا کہ مصر کی شکست ناصر کے زوال اور ناصر کے نام سے وابستہ پالیسیوں کے خاتمے کا باعث بنے گی۔ اگر ایسا ہو جاتا تو مشرقی وسطیٰ کو مغربی دائرہ میں واپس لانا لگ بھگ یقینی تھا۔ مصر ایک اور انڈونیشیا یا گھانا بن جاتا۔ ایسا مگر نہ ہوسکا۔ ایسا اس لئے نہ ہوسکا کہ عرب عوام قاہرہ، دمشق اور بیروت کی سڑکوں پر نکل آئے اور ان کا مطالبہ تھا کہ ناصر استعفیٰ نہ دیں۔ یہ ایک ایسا منفرد تاریخی مقبول عام ہیجان تھا جو لمحوں کے اندر اندر کسی سیاسی توازن کو یا تو عدم استحکام سے دو چار کردیتا ہے یا اسے متوازن بنا دیتا ہے۔ اس بار یہ ہوا کہ شکست کے لمحے میں جب نچلی سطح سے ایک پہل ہوئی تو اس کا فوری اثر ہوا۔ تاریخ میں ایسا کم کم ہوا ہے جب عوام نے ایک شکست خوردہ رہنما کا یوں ساتھ دیا ہو۔ صورت حالِ ہنوز غیر یقینی ہے۔ رجعت پرست قوتیں عرب ممالک اندر گھانا یا انڈونیشیا ایسی بغاوت کیلئے کام کرتی رہیں گی۔ ہاں البتہ وقتی طور پر نواستعما ریت اسرائیلی ’فتح‘ کا پھل نہیں کھا پائے گی۔

ماسکو کے اثرورسوخ اور دبدبے کو ان واقعات سے شدید دھچکا لگاہے۔ کیا اسے مستقل نقصان کہا جاسکتا ہے یا یہ عارضی نوعیت کا نقصان ہے؟ کیا اس کا اثر ماسکو اندر سیاسی دھڑے بندی پر بھی پڑ سکتا ہے؟

قاہرہ، دمشق اور بیروت سے جون میں ایک زہر آلود پکار یہ سنائی دے رہی تھی کہ ’ماسکو نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا ہے‘۔او ر جب عربوں نے دیکھا کہ سوویت سفیر امریکہ والوں کے ساتھ مل کر جنگ بندی کی اس قرار داد کیلئے ووٹ ڈال رہا ہے جس میں اسرائیلی دستوں کی واپسی کی شرط عائد نہیں کی گئی تو اہل عرب کو محسوس ہوا کہ ان کے ساتھ شدید دھوکاہوا ہے۔ سنا ہے ناصر نے سوویت سفیر سے کہا کہ ’سوویت یونین اب دوسرے بلکہ چوتھے درجے کی طاقت بن کر رہ جائے گا‘۔ ان واقعات سے چین کے ان الزاما ت کی تائیدہوتی نظر آتی ہے کہ سوویت روس امریکہ کے ساتھ ملا ہوا تھا۔ اس شکست فاش نے مشرقی یورپ میں بھی خطرے کی گھنٹیاں بجادیں۔ ’اگر سوویت روس اس طرح سے مصرکا ساتھ چھوڑ سکتا ہے تو کیا بعید کہ جب ہمیں جرمن جارحیت کا سامنا کرنا پڑے تو ہمارے ساتھ بھی وہ ایسا ہی کرے؟ پولش اور چیک یہ سوال اٹھا رہے ہیں۔ یوگو سلاویہ بھی سخت سیخ پا ہے۔ ٹیٹو، گوملکا اور دیگر رہنما ماسکو پہنچے تاکہ صور تحال کی وضاحت طلب کرسکیں اورساتھ ہی ساتھ عربوں کیلئے کسی ہنگامی آپریشن کا مطالبہ کرسکیں۔ یہ بات اور بھی زیادہ قابلِ توجہ ہے کہ یہ مطالبہ ان لوگوں کی طرف سے آیا جو اعتدال پسند اور ’ترمیم پسند‘ کہلاتے ہیں جبکہ عموماً ان رہنماؤں کا موقف ’پرامن بقائے باہمی‘ اور امریکہ سے مفاہمت کا رہا ہے۔ یہی رہنما اب امریکی سامراج کے ساتھ سوویت ساز باز کی بات کررہے ہیں۔

سوویت رہنماؤں کو کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا۔ اس حقیقت کے پیش نظر کہ عرب عوام کی مداخلت نے ناصر حکومت کو بچالیا، سوویت روس کے ہاتھ نئی چالبازی کے لئے ایک موقع ہاتھ لگ گیا۔ عظیم دھوکے کے بعد سوویت رہنما ایک مرتبہ پھر عرب ریاستوں کے دوست اورمحافظ بن کر سامنے آئے۔ اسرائیل سے تعلقات کا خاتمہ، اقوامِ متحدہ میں چند تقرریں یا ایسے چند نمایاں اقدامات سے ماسکو کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ وائٹ ہاؤس بھی ان کی ’حالت زار‘ کو ’سمجھتا‘ ہے اور وائٹ ہاؤس کو بھی اس ’تدبیری ضرورت‘ کا احساس ہے کہ جس کے پیشِ نظر کوسیجن کو اقوام متحدہ تک آنا پڑا۔

بہرحال ضرورت اس بات کی تھی کہ محض اچھے اشارے دینے کی بجائے کچھ کیا جائے کہ سوویت حیثیت پھر سے بحال ہو۔ عربوں کا مطالبہ تھا کہ سوویت روس فوری طورپر ان کی اس فوجی طاقت کو بحال کرنے میں مدد دے جو سوویت مشوروں کے باعث تباہ ہوگئی تھی۔ انہوں نے جہاز، نئے ٹینک، نئی بندوقیں اوراسلحے کے نئے ذخائر مانگے۔ مگر اس نئے اسلحے کی قیمت تو ایک طرف رہی___صرف مصر کو جو فوجی اسلحے کا نقصان ہوا اس کا تخمینہ لگ بھگ ایک ارب پونڈ لگایا گیا ہے۔ ماسکو کے نقطہئ نظر سے عرب فوجوں کی تعمیر نو کے ساتھ بہت سے سیاسی خطرات وابستہ ہیں۔ عرب اسرائیل کے ساتھ مذاکرات پر تیار نہیں، وہ یہ استطاعت رکھتے ہیں کہ اسرائیل اپنی فتح کے نشے میں ڈٹا رہے۔ قاہرہ کی پہلی ترجیح ہے از سرِ نو مسلح ہونا۔ اسرائیل نے اہل مصر کو ایک سبق سکھا دیا ہے: اگلی بار عین ممکن ہے پیشگی حملہ مصر کی فضائیہ کرے اور ماسکو کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اس حملے کے لئے ہتھیار مہیا کرے یا نہ کرے۔

ماسکو ایسے کسی عرب حملے کی حمایت نہیں کرسکتا مگر وہ مصر کے ازِ سرنو مسلح کرنے کے مطالبے کو بھی رد نہیں کر سکتا۔ ادھر عربوں کے ازسرِ نو مسلح ہونے سے اسرائیل کو یہ ترغیب ملے گی کہ وہ ایک مرتبہ پھر پیشگی حملہ کردے اور یوں ایک مرتبہ پھر سوویت روس کو وہی صورت حال پیش ہوگی جو مئی جون میں بہت بری شکل اختیار کر گئی تھی۔ اگر مصر نے پہلے حملہ کیا تو امریکہ یقینا مداخلت کرے گا۔ اگر اسرائیلی فضائیہ کو چت کرکے عرب یروشلم یاتل ابیب کی طرف پیش قدمی کرتے نظر آئے تو بحیرہئ روم میں موجود امریکہ کا چھٹا بحری بیڑا محض خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھا رہے گا۔ اگر سوویت روس ایک مرتبہ پھر تنازعے سے دامن بچاتا رہا تو اس کی عالمی حیثیت ایسی تباہ ہوگی کہ کبھی سنبھل نہ پائے گی۔

جنگ بندی کے ایک ہفتے بعدسوویت چیف آف سٹاف قاہرہ میں تھا اور ہوٹل سوویت مشیروں اورماہروں سے بھرے ہوئے تھے، مصر کی مسلح افواج کی تعمیرِ نو کا کام شروع ہوا ہی چاہتا تھا۔ اس کے باوجو دسوویت روس تحمل کے ساتھ اس پیش منظر کو نہیں دیکھ سکتا کہ عرب اسرائیل پیشگی حملے کا مقابلہ جاری ہے اور یہ کہ اس کے وسیع اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ شائد سوویت ماہر آہستہ آہستہ جلدی کررہے ہیں جبکہ دوسری جانب سوویت سفارت کاری عربوں کیلئے وہ امن حاصل کرنا چاہتی ہے جو اس نے جنگ کے دوران ان کے ہاتھوں سے ضائع کروا دیا تھا۔ مگر وقتی طورپر کتنی ہی چالاکی سے کام کیوں نہ لیا جائے، سوویت حکمت عملی کے مرکزی مسئلے کو حل نہیں کیا جاسکتا۔ سوویت روس کتنی دیر تک امریکہ کی پیش قد می سے موافقت پیدا کرسکتا ہے؟ افروایشیائی خطے میں امریکہ کے معاشی سیاسی اورفوجی حملوں کے مقابلے پر سوویت روس کی کس حد تک پسپائی جاری رہی توبراہ راست سوویت امریکہ جنگ ناگزیر ہو جائے گی۔ اگر برژنیف اور کوسیجن اس مسئلے سے عہدہ برا نہ ہو پائے تو قیادت میں تبدیلی ناگزیر ہو جائے گی۔ کیوبا اور ویت نام کے بحران نے خروشیف کے زوال کو تیز کیا۔ مشرقِ وسطیٰ کے بحران کے مکمل اثرات ابھی کھل کر سامنے نہیں آئے۔

اس کا حل کیا ہے؟کیا عرب اسرائیل مسئلے کا کوئی منطقی حل موجود ہے؟

میرا خیال نہیں کہ اس مسئلے کو فوجی انداز میں حل کیا جا سکتا ہے۔ یقینا عرب ریاستوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی حدتک اپنی مسلح افواج کو ازسرِ نو تعمیر کریں۔ انہیں البتہ فوری طورپر جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے سماجی وسیاسی حکمت عملی اور جدوجہد آزادی کے لئے نئے طریقہ کار۔ یہ کلی طورر پر منفی حکمت عملی نہیں ہوسکتی جس کامقصد صرف اسرائیل کی تباہی ہو۔ جب تک اسرائیل مقبوضہ علاقے خالی نہیں کرتا، وہ اس کے ساتھ مذاکرات سے انکار کرسکتے ہیں۔ وہ اردن اور غزہ کی پٹی میں غاصبانہ حکومت کی مخالفت کریں گے۔ ہاں مگر اس کا مطلب از سر نو جنگ نہ ہوگا۔

کسی مقدس جنگ یا پیشگی حملے سے حاصل ہونے والی کامیابی کی نسبت جو حکمتِ عملی ان کیلئے زیادہ سود مند ثابت ہوگی، وہ حکمتِ عملی جو ان کیلئے حقیقی فتح کا موجب بنے گی، ایک مہذب فتح کا موجب، اس حکمت عملی کا مرکزی نقطہئ ہوناچاہیے عرب معاشیات اورسیاسیات کے ڈھانچے میں زبردست جدت اور عرب قومی اتحاد جو ہنوز پرانی وراثتی اور سامراج کی بنائی ہوئی سرحدوں اور تقسیم کا شکار ہے۔ یہ مقاصد جب ہی حاصل ہوسکتے ہیں اگر عرب سیاست اندر انقلابی اور سوشلسٹ رجحانات کو فروغ ملے۔

آخرکار عرب قوم پرستی بطور نجات دہند ہ تب ہی موثر ثابت ہوگی بشرطیکہ یہ انٹرنیشنل ازم کے تابع ہو کر چلے اوریوں عرب اسرائیل کے مسئلے کو ایک نئے انداز میں حل کرنے کی کوشش کریں جو ہنوز وہ نہیں کرپائے۔ وہ اسرائیل کے وجود کو مٹانے والی خونی نعرہ بازی جاری نہیں رکھ سکتے۔ اقتصادی ترقی، صنعت کاری، تعلیم، زیادہ موثر تنظیم اور زیادہ متین حکمت عملیوں کے نتیجے میں عرب وہ کچھ حاصل کرپائیں گے جو عرب اپنی محض تعداد اور اسرائیل مخالف جوش وخروش سے حاصل نہیں کر پائے یعنی حقیقی وژن جس کے نتیجے میں اسرائیل خود بخود اپنی عاجزانہ حیثیت اورمشرقِ وسطیٰ اندر مناسب کردار تک محدود ہوجائے گا۔

یہ یقینا کوئی مختصر المدت منصوبہ نہیں۔ اس کے باوجود اس خواب کو حقیقت بننے کیلئے زیادہ مدت نہیں لگنی چاہیے اور آزادی کی جانب جانے والا اس سے زیادہ کوئی اورمختصر راستہ موجود نہیں۔ نعرہ بازی، بدلے اورجنگ ایسے شارٹ کٹ خاصے مہلک ثابت ہوئے ہیں۔ دریں اثناء عرب حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ اسرائیلی حکومت سے بالابالا اسرائیلی عوام سے براہ راست اپیل کی جائے، وہاں کے مزدوروں سے اور کیبونزم سے اپیل کی جائے۔ اسرائیلی عوام کا خوف واضح یقین دہانی سے دور کیا جائے اور یہ عہد کیا جائے کہ اسرائیل مستقبل کی مشرقِ وسطیٰ فیڈریشن کا حصہ ہوگا۔ یوں اسرائیلی شاونزم کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی جبکہ اشکلول اورڈیان نے فتح اور قبضے کی جو حکمتِ عملی اپنا رکھی ہے اس کی مخالفت میں اضافہ ہو گا۔ اس قسم کی حکمتِ عملی کے جواب میں اسرائیلی مزدوروں کے مثبت ردِ عمل کا کسی طور کم اندازہ نہیں لگانا چاہیے۔

عالمی طاقت کے کھیل سے مزید آزادی بھی ضروری ہے۔اس کھیل نے مشرقِ وسطیٰ کی سماجی وسیاسی ترقی کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ میں اس بات کی وضاحت کر چکا ہوں کہ کس طرح امریکی اثرورسوخ نے اسرائیل کی موجودہ پالیسی کو رجعتی اور نفرت انگیز رنگ دیا ہے۔ روسی اثرو رسوخ نے بھی عرب ذہنیت پر نعرہ بازی اور لفاظی کی حوصلہ افزائی کر کے ایک غلاف چڑھا دیا ہے جبکہ ماسکو کی انا پرستی اورموقع پرستی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ترشروئی اورمایوسی نے جنم لیا ہے۔ اگر تو مشرق وسطیٰ پالیسی عالمی طاقتوں کے لئے شطرنج کا کھیل بنی رہی تو مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ نہ تو عرب اپنے گھن چکر سے باہر آپائیں گے نہ اسرائیلی۔ ہمیں، بائیں بازو کو، یہ بات کھل کر بے دھڑک ہو کر عربوں اوراسرائیلیوں کو بتانی پڑے گی۔

اس بحران کے لئے بایاں بازو بالکل تیار نہیں تھا لہٰذا وہ تقسیم اور گومگو کا شکار ہوگیا، یہاں بھی یہ صورت حال ہے، فرانس حتیٰ کہ امریکہ میں بھی یہی صورتِ حال ہے۔ امریکہ میں تو خدشہ ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے تقسیم ویت نام جنگ کے خلاف چلنے والی تحریک کو بھی تقسیم کرسکتی ہے؟

جی ہاں گومگو کی اس کیفیت سے کسی کو انکار نہیں اور یہ کیفیت کافی وسیع پیمانے پر موجود رہی ہے۔ میں یہاں میسرز مولٹ ایسے ’اسرائیل دوست‘ شخص اوراس کی کمپنی کا ذکر نہیں کروں گا جو لارڈایون اور سون لائڈکی طرح اس جنگ کو سویزمہم کا تسلسل سمجھ رہے تھے اور 1956ء میں ہونے والی شکست فاش کا بدلہ چکانے بارے سوچ رہے تھے۔ نہ ہی میں لیبرپارٹی اندر موجود رائٹ ونگ صیہونی لابی کا ذکر کر کے وقت برباد کروں گا۔ اس پارٹی کا جو ’انتہائی بایاں بازو‘ تھا جس میں سڈنی سلورمین ایسے لوگ شامل ہیں، ان کا کردار بھی اس قول کی مانند تھا: ”یہودی لیفٹ ونگ کو چھیلو، اندر سے ایک صیہونی نکلے گا“۔

ہاں مگر گومگو کی کیفیت بہت وسیع حلقے کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے تھی اور بے شمار ایسے لوگ جو ہمیشہ سامراج کے خلاف جدوجہد کرتے رہے، وہ بھی گومگو کا شکار ہوگئے۔ ایک فرانسیسی لکھاری جو الجزائر اور ویت نام میں جنگ کے خلاف موقف رکھنے کی وجہ سے مشہور تھا، وہ بھی اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کی بات کرنے لگا اور اس کا کہنا تھا کہ اگر اسرائیل کے وجود کا سوال ہے تو وہ امریکی مداخلت کی بھی مخالفت نہیں کرے گا اور اس کا نعرہ ہوگا ’صدر جانسن قدم بڑھاؤ‘۔ کیا اس لکھاری کویہ عدم مطابقت نظر نہیں آئی کہ ویت نام میں تو ’صدر جانسن واپس جاؤ‘ کا نعرہ لگ رہا ہے مگر اسرائیل میں ’قدم بڑھاؤ‘ کا؟ ژاں پال سارتر نے بھی، قدرے محتاط انداز میں، اسرائیل سے یکجہتی کیلئے کہا مگر بعدازاں سارتر نے بے تکلفی کے ساتھ اقرار کیا کہ اس مسئلے کے حوالے سے وہ گومگو کا شکار ہیں اور اس کی وجوہات سے آگاہ نہیں۔سارتر کا کہنا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے عرصے میں دوران مزاحمت انہوں نے یہ سبق سیکھا تھا کہ یہودی کو اپنا بھائی سمجھو اور ہمیشہ اس کا دفاع کرو۔ الجزائر کی جنگ دوران عرب ان کے بھائی تھے اور وہ ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ موجودہ تنازعہ ان کیلئے برادرکشی کی جدوجہد تھی جس میں وہ ایک متین فیصلہ نہ کرپائے اورمتحارب جذبات کاشکار ہوگئے۔

تمام باتوں کے باوجود ہمیں فیصلہ لینا چاہیے اور ہمارے جذبات اور یادیں کتنی ہی گہری اور اچھی کیوں نہ ہوں، ہمارے فیصلے پر جذبات غالب نہیں آنے چاہیں۔ آشوتز کے نام پر فریاد بھی ہمیں غلط دھڑے کی حمایت پر بلیک میل نہ کرنے پائے۔ میں یہودی النسل مارکس وادی کے طور پر یہ بات کہہ رہاہوں جس کے خاندان والے آشوتز میں مارے گئے اور جس کے رشتہ دار اسرائیل میں رہتے ہیں۔ عربوں کے خلاف اسرائیل کی جنگ کو جائز قرار دینا یا اس کی حمایت کرنا درحقیقت اسرائیل دشمنی اور طویل المدت بنیادوں پر اسرائیل کے مفادات کے منافی ہے۔ میں ایک مرتبہ پھر یہ کہہ رہا ہوں کہ 1956ء اور 1967ء کی جنگوں کے نتیجے میں اسرائیل کا دفاع مضبوط نہیں ہوا بلکہ وہ اور زیادہ غیر محفوظ ہو گیا ہے۔ اسرائیل دوست لوگوں نے درحقیقت اسرائیل کو تباہی کے راستے پر ڈالنے میں مدد دی ہے۔ طوہاً وکرہاً انہوں نے بھی اس رجعتی موڈ کو فروغ دینے میں مدد دی جو اس بحران کے دوران اسرائیل کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے تھا۔ میں ان دنوں جب یہ بحران چل رہا تھا، یہ سارے مناظر ٹی وی اسکرین پر دیکھتا تو تلملا کر رہ جاتا۔ فاتح کا تکبر اوروحشی پن، شاونزم سے بھرپور ہاؤ ہو اور شرمناک فتح کا جشن بالکل مختلف تھا ان تصویروں سے جن میں عربوں کی تباہ حالی، اردنی مہاجرین کے نقشِ قدم اور پیاس کے ہاتھوں دم توڑ دینے والے مصری سپاہیوں کی لاشیں نظر آتی تھیں۔ میں قرونِ وسطیٰ کی یاد دلاتے ہوئے ربیوں اور خاصیدم کو خوشی سے چھلانگیں لگاتے ہوئے دیکھتا تو سوچتا کہ تمودی رجعت پرستی کابھوت___ اور میں اس سے خوب واقف ہوں ___اس ملک پر سوار ہے اور سوچتا کہ یہ ماحول کتنا گھٹن آمیز ہے۔ اس کے بعد جنرل ڈیان کے انٹرویو نشر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس ہیرو اور نجات دہندہ کا سیاسی افق کسی رجمنٹ کے سارجنٹ میجر سے زیادہ نہیں، وہ مقبوضہ علاقوں بارے لمبی چوڑی ہانکتا اورمقبوضہ علاقوں کے عربوں کا ذکر انتہائی بے رحمی سے کرتا (مجھے ان سے کیا لینا دینا؟ جہاں تک میرا تعلق ہے، وہ چاہیں تو رہیں، چاہیں تو چھوڑ کر چلے جائیں‘) مشکوک قسم کا یہ فوجی لیجنڈ ___ مشکوک اس لئے کہ اس چھ روزہ مہم کی نہ تو اس نے منصوبہ بندی کی تھی نہ ہی اس پر عمل در آمد ___ ایک مکروہ شخصیت ہے جو آمر کا منصب سنبھالنے پر غور کررہا ہے: اشارہ یہ بات کہی گئی کہ اگر سول جماعتوں نے عربوں سے ’نرمی‘ برتی تو یہ نیا جوشا، منی ڈیگال، ان جماعتوں کو سبق سکھا دے گا، اقتدار خود سنبھال لے گااور اسرائیل کو ’عظمت‘ کی نئی بلندیوں پر پہنچا دے گا۔ ڈیان کے پیچھے انتہائی رائٹ ونگ صیہونیوں کا رہنما اوروزیر بیگن کھڑا تھا جو ایک عرصے سے دعویٰ کررہا ہے کہ اردن بھی تاریخی طورپر موجود اسرائیل، کا حصہ ہے۔ رجعتی جنگ لازمی طور پر سورماؤں، جذبات اورنتائج کو جنم دیتی ہے جو درحقیقت اس جنگ کے کردار اور مقاصد کا عکس ہوتے ہیں۔

ایک گہری تاریخی سطح پر یہودی المیہ اسرائیل میں ایک درد ناک انجام کو پہنچ رہا ہے۔ اسرائیلی رہنما خودساختہ جواز کیلئے آشوتز اور تربلنکا کا ضرورت سے زیادہ استحصال کرتے ہیں مگر ان کے اقدامات حقیقی یہودی المیے کا مذاق اڑانے کے مترادف ہیں۔ ماضی میں جو کردار انہوں نے ادا کیا، یورپی یہودیوں نے اس کی بھاری قیمت چکائی، یہ کردار انہوں نے خود نہیں چنا تھا، وہ زرعی بے زر اور قدرتی معاشرے میں رہنے والے لوگوں اندر منڈی کی معیشت اور ’سرمائے‘ کے نمائندے تھے۔ وہ قبل از سرمایہ داری دور اندر ابتدائی سرمایہ داری کے نمایاں بار بردار، تاجر اور سود خور تھے۔ جب جدید سرمایہ داری نے ترقی کی تو ان کا کردار، گوہنوز نمایاں تھا، مگر ثانوی بن کر رہ گیا۔ مشرقی یورپ میں یہودیوں کی اکثریت غریب دستکاروں، چھوٹے تاجروں، پرولتاریہ، نیم پرولتاریہ اور سیدھے سیدھے مفلس و قلاش لوگوں پر مشتمل تھی۔ ہاں البتہ ایک امیر یہودی تاجر اور سود خور (جو حضرت عیسیٰ کو مصلوب کرنے والوں کی نسل سے تھا) غیر یہودی لوک داستانوں کا حصہ بنا رہا اور لوگوں کے ذہن پر یہ کردار نقش رہا جس کے نتیجے میں اس کا اعتبار قائم نہ ہوسکا اور لوگ اس سے خائف رہے۔ نازیوں نے اس نقش کو استعمال کیا، اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کرپیش کیا اور مسلسل اسے لوگوں کو دکھاتے رہے۔آگست بیبل نے ایک مرتبہ کہا تھا ردِ سامیت ’احمقوں کی سوشلزم‘ ہے۔ 1930ء کی دہائی میں جب اقتصادی مندی عروج پر تھی، بے روزگاری اور مایوسی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی، ان دنوں اس قسم کا سوشلزم عام تھا اور حقیقی سوشلزم خال خال۔ یوررپی مزدور طبقہ بورژوا نظام کو تو نہ گرا پایا البتہ سرمایہ داری سے نفرت عروج پر تھی اور اس کے اظہار کیلئے کوئی رستہ چاہئے تھا لہٰذا ایک قربانی کا بکرا چاہیے تھا جس پر غصہ نکالا جائے۔ نچلے درمیانے طبقے میں، لمپن بورژوازی اندر اورلمپن پرولتاری عناصر میں ایک سٹپٹائی ہوئی سرمایہ داری مخالفت نے جنم لیا جس میں کمیونزم کا خوف اور اجنبیوں سے نفرت کی اعصابی بیماری بھی شامل ہوگئی۔ جلتے ہوئے حالات کے شعلوں نے اس نفرت کو مزید گرمی پہنچائی اور نازی ازم نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا۔ جب نازیوں نے یہودیوں کے خلاف محاذ کھولا تو اس کا زبردست اثر ہوا کیونکہ بہت سے لوگ تھے جن کے لئے یہودی اجنبی اور بے رحم خون خو رکا کردار کے طور پر کسی حد تک ایک حقیقت تھا۔ ایک وجہ یہ بھی بنی کہ جو غیر جرمن تھے انہوں نے یہودیوں کے قتلِ عام پر کوئی ہمدردی ظاہر نہ کی۔ احمقوں کی سوشلزم شیلاک کو گیس چیمبر کی اوٹ جاتے دیکھ کر خوش ہو رہی تھی۔

اسرائیل نے یورپی یہودی آبادی سے نہ صرف ’قومی گھر‘ کا وعدہ کیا بلکہ یہ قسم بھی کھائی کہ وہ یہودیوں کے دامن پر لگے ہر دھبے کو مٹا ڈالے گا۔ کبوتزم، ہستادرتھ حتیٰ کہ صیہونیت کا بھی بڑی حد تک یہی پیغام تھا۔ یہودی غیر پیداواری، دکاندار، اقتصادی وثقافتی دست انداز اور سرمایہ داری کے بار بردار نہیں رہیں گے۔ وہ ’اپنے وطن‘ میں پیداواری کارکن بن کر رہیں گے۔

اس کے باوجود وہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک مرتبہ پھر ناگوار ایجنٹ کا کردار ادا کررہے ہیں اور یہ کردار وہ اپنی، کسی حد تک کمزور، سرمایہ داری کیلئے نہیں بلکہ طاقتور مغربی مفادات کیلئے ادا کررہے ہیں اور وہ نو استعماریت کے حلیف بنے ہوئے ہیں۔ یہ کردار ہے ان کا عربوں کی نظروں میں اورعرب ایسے غلط بھی نہیں۔ ایک مرتبہ پھر وہ اپنے ہمسائیوں کے دل میں شدید نفرت کو جنم دے رہے ہیں، یہ نفرت وہ سامراج کا شکار رہنے والے یا ہنوز سامراج کا شکار لوگوں کے دلوں میں بھی پیدا کررہے ہیں۔ کیا بدقسمتی ہے یہودی لوگوں کی کہ وہ یہ کردار ادا کررہے ہیں۔ ابتدائی سرمایہ داری کے بار بردار کے طور پر وہ جاگیردارانہ معاشرے اندر ترقی کے بانی تھے البتہ موجودہ دور کی جدید، انتہائی ترقی یافتہ، سامراجی سرمایہ داری کے ایجنٹ کے طورپر ان کا کردار افسوسناک ہے اورایک مرتبہ پھر وہ ایسی حالت میں ہیں کہ جہاں عین ممکن ہے انہیں قربانی کا بکرا بنایاجائے۔ کیا تاریخ یہود اندر استدلال کا یہ چکر جاری رہے گا؟ یہ نتیجہ نکلے گا اسرائیل کی’فتح‘ کا اور جو اسرائیل کے حقیقی دوست ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں اسرائیل کو خبر دار کریں۔

دوسری جانب عربوں کو چاہیے کہ وہ احمقوں کی سوشلزم اوراحمقوں کی سامراج مخالفت سے پرہیز کریں۔ ہمیں امید ہے کہ وہ اس کا شکار نہیں ہوں گے، اپنی شکست سے سبق سیکھتے ہوئے اور اس شکست سے جانبر ہوتے ہوئے وہ ایک حقیقی ترقی پسند، سوشلسٹ مشرق وسطیٰ کی بنیا د رکھیں گے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts