پاکستان

عوامی تحریکوں میں عوام کی بدلتی نفسیات

سیف اللہ

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں گزشتہ لگ بھگ ایک سال سے بنیادی عوامی مطالبات پر ایک تحریک جاری تھی،جس کو کچلنے کے لیے ریاست کی طرف سے ہر طرح کا حربہ استعمال کیا گیا،لیکن عوام کے غم و غصے کے آگے ریاست کو منہ کی کھانی پڑی۔ مختلف پیچ و خم سے گزرتی یہ تحریک عوام کے شعوری ہونے کا منہ بولتا ثبوت تھی۔

جب لانگ مارچ شروع ہوا تو عوام کے جذبات، احساسات یکسر تبدیل ہو چکے تھے۔ لوگ مارنے مرنے کے لیے خوشی سے تیار تھے۔ کل تک کشمیری عوام جو مذہب، قبیلوں، فرقوں، علاقائی تعصبات اور قوموں میں تقسیم تھے۔اس غیر معمولی تحریک میں تمام تعصبات کو روندتے ہوئے ایک جٹ ہو کر زندگی موت کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھ رہے تھے۔ مزاحمت کو عملی بنیادوں پر فخر اور حقیقی زندگی سمجھا جا رہا تھا۔

حکمرانوں کی طرف سے ترقی پسندوں کے خلاف ہر دور میں کیے گئے پروپگنڈوں کو عوام جھٹلا رہی تھی۔ مختلف شہروں اور دیہاتوں سے ’انقلاب زندہ باد‘کے نعرے لگاتے عوامی ریلے جیت اور جینے کی امید لیے حکمرانوں کے ایوانوں کو لرزانے کے لیے مظفرآباد کی طرف رواں دواں تھے۔

ایک عام آدمی کے شعور کا معیار انقلابیوں سے بلند نظر آ رہا تھے۔ چی گویرا نے کہا تھا ’خوف جہاں ختم ہوتا ہے زندگی وہاں سے شروع ہوتی ہے۔‘عوام کے لیے زندگی اور موت کے معنی بھی تبدیل ہوتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ سہولت کاری کو عوام موت قرار دے رہے تھے۔ اسلحے سے لیس پولیس انتظامیہ، ایف سی، رینجرز اور دیگر فورسز کا خوف ختم ہو چکا تھا۔ عوام کی ’کرو یا مرو‘ کی نفسیات حکمرانوں کے لیے شدید خوف کا سبب بن رہی تھی اور وہ نہتے عوام ریاستی مشینری کو شکست دینے کے لیے پرامید تھے۔

جب دیہاتوں اور شہروں سے ریلے نکلنا شروع ہوئے تو سڑکوں کے کنارے چھوٹے بچے ’آزادی‘، ’آٹا مہنگا‘،’بجلی مہنگی‘ کے نعرے لگا کر عوامی شعور کی غمازی کر رہے تھے۔

بوڑھی مائیں اور بزرگ اپنی جھولیاں اٹھائے مظفرآباد کی طرف جانے والے قافلوں کی کامیابی کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ عوامی اتحاد، رواداری، احساس اور بھائی چارے کی مثال جو عوام نے قائم کی وہ دیکھنے میں نہیں ملتی۔

راستوں میں مختلف جگہوں پر قافلوں کے لیے عوام نے خود رو منظم ہو کر پانی کی سبیلیں لگائیں، مختلف علاقوں میں عوام قافلوں کو خوش آمدید کہتے اور ان کو کھانے پینے کی اشیاء فراہم کرتے۔

جس جگہ قافلوں کا پڑاؤ ہوتا وہاں کی عوام رہائش اور دیگر ضروریات پوری کرنے میں مصروف تھی۔ قافلوں میں بے شمار چھوٹے بچے اور بزرگ بھی اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر شامل تھے۔ اس کے علاوہ پورے جموں کشمیر میں خواتین نے بھی اہم کردار ادا کیا اور شرکت کی۔

عوام نے بہت ساری جانیں قربان کیں۔ تین نوجوان ریاستی دہشتگردی کا نشانہ بھی بنے لیکن پھر بھی عوام کے حوصلے پست نہ ہوئے عوام ان چوروں کو گھسیٹنے کے لیے تیار تھی۔راستے میں جب کہیں ریاستی دہشتگردی کی اطلاع ملتی تو قافلے میں شامل نوجوان ڈنڈے لے کر تصادم والی جگہ جانے کے لیے تیار ہو جاتے اور وہاں پہنچنے کا انتظار کرتے۔

بے قابو عوام خود سے فیصلے اور قیادت کر رہے تھے۔ کئی جگہوں پر بوڑھے بزرگ قافلوں کو پانی دینے میں مصروف نظر آتے۔ جس سے جتنا ممکن تھا وہ اس سے بڑھ کر احساس و ہمدردی کی مثال قائم کر رہا تھا۔ جو کشمیری نوجوان بیرون ممالک تھے وہ خود سے سوشل میڈیا کیمپین میں مصروف تھے۔

ریاستی فورسز اور افسروں کو عوام نے یر غمال بنایا ہوا تھا۔ چوکوں میں لٹکتے افسروں کے لباس عوامی طاقت کے آگے ان کی بے بسی کا واضح اظہار کر رہے تھے۔ ریاستی گاڑیوں کی تباہی بھی ریاست کی کمزوری کو ظاہر کر رہی تھی، لیکن تصادم میں جانے والی جانیں سستے آٹے اور سستی بجلی سے کہیں گنا بڑھ کر زیادہ قیمتی تھیں۔ سلام ہے ان نوجوانوں کو جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔شاید ان جانوں کا ازالہ تمام تر مطالبات کی منظوری کے ذریعے سے ممکن تھا،جو کہ نہ ہو سکا،لیکن پھر بھی عوام اپنی فتح پر نہ صرف ناز کر رہی تھی بلکہ ایک جشن کا سماں دیکھنے کو مل رہا تھا۔

جب قافلے واپس پہنچے تو عوام کی طرف سے پرتپاک استقبال کیا جا رہا تھا۔ ایک دوسرے کو مبارکیں دی جا رہی تھیں اور پر امیدی کا اظہار کیا جا رہا تھا۔

جب عوام کو اپنی طاقت کا اندازہ ہو جاتا ہے،پھر حکمرانوں کے تخت و تاج خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ دوسری طرف عوامی طاقت اور غم و غصے کو دیکھ روایتی قیادتیں بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر غلط فیصلے کر دیتی ہیں جن کا اندازہ عوام کو بعد میں ہوتا ہے اور ان کا خمیازہ بھی عوام کو ہی بھگتناپڑتا ہے۔

تحریکیں کامیابی یا ناکامی کی صورت میں عوام کے شعور کے معیار کا پتا دیتی ہیں۔ تحریکوں میں عوامی شعور بلند ہو جاتا ہے اور یہی شعور انقلاب کی طرف لاشعوری طور پر عوام کو گامزن کر رہا ہوتا ہے جس کا اظہار عوام کسی غیر معمولی واقعے میں کرتے ہیں۔

عوام کی پرامیدی، قربانی کے جذبات اور احساسات ہی عوام کے سرخرو ہونے کا جواز ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب تخت اکھاڑے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے اور عوامی راج کے ذریعے یہاں سے غربت، مہنگائی، بے روزگاری،لاعلاجی،رجعت اور فرسودگی سمیت ہر طرح کی محرومی کا خاتمہ کیا جائے گا۔

Roznama Jeddojehad
+ posts