نقطہ نظر

’آپریشن عزم استحکام: ریاست کنٹرولڈ طالبانائزیشن چاہتی ہے‘

حارث قدیر

ڈاکٹر عرفان اشرف کے مطابق:’’ہمیشہ سے ہم نے دیکھا کہ گڈ طالبان بیڈ بن جاتے ہیں اور بیڈ ایک وقت میں گڈ بن جاتے رہے ہیں۔ یہ ریاست کا اپنا بیانیہ ہے۔ اسی طرح افغان طالبان کیلئے جو گڈ ہونگے، وہ پاکستانی ریاست کیلئے بیڈ ہونگے، جو افغان طالبان کیلئے بیڈ ہونگے، وہ ان کیلئے بیڈ ہونگے، جو دونوں کیلئے بیڈ ہونگے، وہ امریکہ کیلئے گڈ ہو جائیں گے۔ یہ جو ڈرامہ چل رہا ہے ، اسے ہمیں سمجھنا چاہیے۔ اسی بنیاد پر عسکریت کا کاروبار چل رہا ہے۔ اب لوگ بھی سمجھ چکے ہیں کہ گڈ اور بیڈ کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘

ڈاکٹر عرفان اشرف پشاور یونیورسٹی میں شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں عملی صحافت سے بھی وابستہ رہے۔ خیبر پختونخواہ میں طالبانائزیشن پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ‘روزنامہ جدوجہد ’ کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے مجوزہ آپریشن عزم استحکام بارے تفصیلی گفتگو کی جو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف طالبان کی حامی جماعت سمجھی جاتی ہے، لیکن وہ بھی آپریشن کی مخالفت کر رہی ہے۔ کیا وہ ہمیشہ سے ہی آپریشن کی مخالفت کرتے رہے ہیں، یا اس مرتبہ کوئی اور وجہ ہے؟

عرفان اشرف: پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات، طالبان کی موجودگی یا افغانستان سے ملحقہ علاقوں میں طالبانائزیشن کے حوالے سے عمران خان کا ہمیشہ ایک ہی موقف رہا ہے۔ وہ کہتے رہے ہیں کہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے، اس لئے ہمیں طالبان کے ساتھ نہیں لڑنا چاہیے۔ جب2008-09میں ڈرون حملوں کے خلاف مظاہرے تھے، اس وقت بھی عمران خان ان علاقوں میں آتے تھے اور یہی موقف اپناتے تھے۔

اب بھی ان کا یہی موقف ہے۔ تحریک انصاف نے واضح طور پر آپریشن کی مخالفت تو نہیں کی، لیکن وہ طالبان کے خلاف ریاست کے نئے آپریشن کی ذمہ داری نہیں لینا چاہتے۔ اس سے زیادہ تر پی ٹی آئی سارے معاملے سے علیحدہ رہنے کی کوشش کر رہی ہے۔ نہ اس کو قبول کر رہی ہے اور نہ کوئی واضح بیان دے رہی ہے، اگر کوئی بیان دیا بھی ہے تو کوئی اتنا سخت نہیں ہے۔ اگر فوج آپریشن کرنا چاہتی ہے تو میرا نہیں خیال کے پی ٹی آئی اسے روک بھی سکے گی۔ اگرچہ وہ خیبرپختونخوا میں حکومت میں ہیں اور روک سکتے ہیں، لیکن میرا نہیں خیال کہ وہ روک پائیں گے۔

پی ٹی آئی نے صرف بیانات کی حد تک طالبانائزیشن کی حمایت نہیں کی ہے، عملی طور پر بھی ان کے اقدامات حمایت میں ہی رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی صوبہ میں اقتدار کی تیسری ٹرم ہے۔ ان کے زیادہ تر وزراء اور وزیراعلیٰ اور گورنر پر بھی الزام لگتا رہا ہے کہ طالبان کو بھتہ دیتے رہے ہیں۔ اسی دور میں زیادہ تر طالبان یا ان کے نام پر مختلف جگہوں پر محصول جمع کرنے یا چیک پوسٹیں قائم کرنے کا سلسلہ رہا ہے۔ جو سرکاری ٹھیکیدار وغیرہ کام کرتے تھے وہ ہر منصوبہ سے 5سے 10فیصد طالبان کا حصہ رکھتے رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آنے والی، ان کی وہی پالیسی ہے جو عمران خان کی رہی ہے۔ وہ پالیسی یہ ہے کہ طالبان کو مین سٹریم کیا جائے، کیونکہ یہ بڑے بہادر لوگ ہیں ، انہوں نے امریکہ کو شکست دی اور یہ ہمارے اپنے لوگ ہیں۔ اس لئے ان کا حق ہے۔

جب عمران خان وزیراعظم تھے، تب انہوں نے جنرل باجوہ اور فیض حمید کے ساتھ مل کر باقاعدہ5ہزار خاندانوں کی واپسی کی راہ ہموار کی تھی۔ ابھی وزیرداخلہ کا چند روز قبل بیان اخبارات میں سامنے آیا ہے کہ 5ہزار خاندانوں کو لانا ہماری غلطی تھی۔ اب یہ 35سے40ہزار افراد بنتے ہیں۔ یہ وہی اعداد و شمار ہیں جو عمران خان نے بھی بتائے تھے۔ اب غلطی تو تسلیم کی جا رہی ہے لیکن اس کی ذمہ داری کوئی لینے کو تیار نہیں کہ گزشتہ دو تین سال میں انہوں نے یہاں کتنے لوگوں کا قتل کیا۔ اب یہ وہی لوگ تھے جو اٹھ رہے ہیں اور طالبانائزیشن ہو رہی ہے۔ یہ لوگ پہلے افغانستان دھکیلے گئے، پھر انہیں واپس لایا اور یہاں آباد کیا گیا۔ ان میں سے تقریباً100سے زائد لوگ جیلوں سے بھی رہا کئے گئے۔ سوات سے لے کر وزیرستان تک ان کو دوبارہ سپورٹ کیا گیا۔ اب ان میں سے بہت سے لوگ گڈ طالبان کے نام پر بھتے بھی لے رہے ہیں اور طالبانائزیشن کو پروموٹ بھی کر رہے ہیں۔

یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے طالبانائزیشن کے خلاف کبھی بھی مزاحمت نہیں کی۔ ہمیشہ طالبان کی حمایت کی اور ابھی بھی ان کی وہی پالیسی ہے، جس پر وہ قائم ہیں۔

خیبرپختونخوا میں طالبان کے خلاف تحریکیں بھی ابھری ہیں اور ایک نفرت کا عنصر بھی موجود رہا ہے۔ اس کے باوجود تحریک انصاف کو انتخابات میں مسلسل حمایت مل رہی ہے۔دوسری جانب جو طالبان مخالف جماعتیں ہیں اے این پی اور پی ٹی ایم وغیرہ وہ انتخابات میں غیر مقبول ہیں۔ اس تضاد کو کیسے بیان کریں گے؟

عرفان اشرف: اس کے بہت سارے پہلو ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ طالبانائزیشن ریاست کی پالیسی ہے۔ افغانستان کو کنٹرول کرنے کیلئے ریاست نے یہ پالیسی بنا رکھی ہے۔ اگر کہیں آپریشن کرنے کی کوشش بھی ہو رہی ہے تو یہ اس لئے ہے کہ کنٹرولڈ طالبانائزیشن ہو، جو افغانستان میں مقررہ اہداف پورے کرے۔ ان اہداف میں اسے پانچویں صوبے کے طور پر برقرار رکھنے اور ان آفیشل یا ڈی فیکٹو کنٹرول قائم رکھنا شامل ہے۔

ریاست طالبان کو ختم نہیں کرنا چاہتی۔ ان کو کنٹرول کرنے کیلئے آپریشن بھی ہونگے اور دیگر طریقے بھی اپنائے جائیں گے۔ اس کی بنیاد پر افغانستان میں پاکستان کے مفادات پورے کئے جانے مقصود ہیں۔ وہاں وہ دھڑا برقرار رکھنا ضروری ہے، جس کے پاکستان کے ساتھ زیادہ گہرے تعلقات ہیں۔ یہ دھڑا حقانی نیٹ ورک ہے۔ قندھار گروپ بھی پاکستان کے خلاف نہیں ہے، لیکن پاکستان کو زیادہ قبول حقانی نیٹ ورک ہے، جو گراؤنڈ پر لڑتے ہیں اور ان کے قائم رکھنے کیلئے ٹی ٹی پی کا ہونا ضروری ہے۔ اس لئے یہ طالبان کا خاتمہ کبھی نہیں چاہیں گے، نہ انہوں نے کبھی یہ کوشش کی ہے۔ آج تک ایک طالبان کمانڈر بھی پاکستانی اداروں نے نہیں مارا ہے۔ القاعدہ کے لوگ مارے ہیں، یا پھر جو طالبان کمانڈر مارے گئے ہیں وہ ڈرون حملوں میں مارے گئے ہیں۔

افغانستان کے معاملے کے علاوہ طالبانائزیشن میں بہت بڑا پیسہ ہے۔ پورے پورے ادارے اس پر پل رہے ہیں۔ پاکستان کو کنٹرول کرنے اور پارلیمان کو کنٹرول کرنے کیلئے بھی طالبانائزیشن کا اوزار ضروری ہے۔ سکیورٹائزیشن ایک مقبول نعرہ ہے، جس کے نام پر سب خاموش ہو جاتے ہیں۔کوئی بھی ان پالیسیوں کو چیلنج کر کے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اگر ایسا کیا تو وہی حال ہو گا ، جو اے این پی کا ہواہے۔

پاکستان کے اندر طاقت اور معاشی انفراسٹرکچر طالبانائزیشن کے اردگرد پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں بیوروکریسی اور فوج کے بہت بڑے فائدے ہیں۔ اس بنیاد پر تعمیرات سے لے کر سرحدوں تک بڑے بڑے بجٹ اور خرچوں کو جواز مہیا کر لیا جاتا ہے۔ اس لئے کوئی بھی اس کو ختم نہیں کرنا چاہتا۔

خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے الیکشن پر بہت وقت سے اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔ یہاں ووٹ کام نہیں کرتا بلکہ بہت کچھ اوپر سے ہی ہوتا ہے۔ ان صوبوں میں سیاست نہیں ہوتی بلکہ کور کمانڈر اور ملٹری کے لوگ ہی سارے فیصلے لیتے ہیں۔ یہاں کسی پارٹی کا ہونا یا نہ ہونا معنی نہیں رکھتا۔ اگر کوئی پارٹی معنی رکھتی ہے تو وہ قوم پرست ہو سکتی ہے۔ خاص کر اے این پی کو اگر دیکھیں تو 2008سے2014تک انہوں نے بہت مزاحمت کی، اسی وجہ سے ان کے لوگ بھی مارے گئے۔ وہ پالیسیوں کی مخالفت کرتے تھے، تو یہ ان کے لوگ مار دیتے تھے۔ اس سے قبل ایم ایم اے تھی، ان کاکوئی بندہ نہیں مارا گیا، کیونکہ انہوں نے کبھی کسی پالیسی کی مخالفت نہیں کی۔ عمران خان کی پارٹی آئی، تو انکے بھی شاید ایک دو لوگ مارے گئے ہیں، لیکن زیادہ نقصان اے این پی کا ہوا۔ ان کے 1000کے قریب صف اول کے لوگ مارے گئے۔

سیاسی پارٹیاں اس صوبہ میں ہمیشہ ریاست کی پالیسی کو ہی آگے بڑھاتی رہی ہیں۔ یہاں سیاست کا عمل دخل بہت کم ہے اور آہستہ آہستہ وہی حال ہو گا جو بلوچستان میں ہے۔ زیادہ تر سیاست افغان پالیسی اور ریاست کی افغانستان سے متعلق سمجھ بوجھ کے تحت ہی ہو رہی ہے۔ اس لئے سیاست کو سمجھنے کیلئے بھی یہ سب کچھ دیکھنا ہوگا۔ اگر اس بار پی ٹی آئی جیتی ہے تواس کی ضرورت تھی۔ یہ وہ صوبے ہیں جہاں ریاست ہی فیصلہ کرتی ہے کہ کون آئے اور کون جائے گا۔ اگر کوئی قوم پرست جماعت بھی اقتدار میں آئی تو وہ بھی ریاست کی ہی مرضی سے آئے گی۔ تاہم شاید اس کی ڈائنامکس الگ ہوں، یا پھر میں یہ نہیں کہتا کہ وہ مزاحمت نہیں کریں گے، لیکن شاید ریاست کو اس وقت ضرورت ہوگی کہ کوئی قوم پرست جماعت اقتدار میں ہونی چاہیے۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ الیکشن کے نتائج کا فیصلہ اوپر ہی ہوتا ہے۔ مجھے بہت کم اس بات پر یقین ہے کہ الیکشن کے ذریعے کوئی تبدیلی یہاں آتی ہے۔

یہ ایک مایوسی سے بھرپور رائے ہے کہ کوئی قوم پرست جماعت بھی اگر آئی تو ریاست کی مرضی سے ہی آئے گی۔ یہ بات قوم پرستوں کو بھی پتہ ہے۔ یہی وجہ تھی کہ پچھلے الیکشن میں اے این پی کے کچھ ورکرز نے باقاعدہ مارخور کے نشان والی ٹوپیاں پہن رکھی تھیں۔ اس کے علاوہ ہم نے دیکھا کہ ایمل ولی نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اب ہم اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نہیں چلیں گے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اس سے پہلے وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلنے پر راضی تھے،یا انہیں پتہ تھا کہ یہاں پر اسٹیبلشمنٹ کے بغیر انہیں اقتدار نہیں مل سکتا۔

اس لئے اگر کہیں پی ٹی آئی یا اے این پی کو جیت ملے تو اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہاں الیکشن شفاف ہوئے ہیں۔ اوپر بیٹھے لوگوں نے دیکھنا ہے کہ کہاں پر عوامی مینڈیٹ کو روندا جائے اور کہاں پر استعمال کیاجائے۔ پی ٹی آئی کے مینڈیٹ کو اس طرح بھی دکھایا جا رہا ہے کہ اگر پاکستان میں دھاندلی ہوئی تو پھر خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کیسے جیت گئی۔

یہی وجہ ہے کہ قوم پرست جماعتوں کا مستقبل کوئی خودمختار نظر نہیں آرہا ہے۔ ہاں اگر وہ کچھ کمپرومائز کریں کہ وہ افغانستان، ڈیورنڈ لائن، پشتونوں اور وسائل کیلئے آواز نہیں اٹھائیں گے اور خالی خولی قوم پرستانہ نعرے لگانے تک محدود رہیں گے تو اس پر ریاست خوش ہو گی۔ اہم اس کیفیت میں پھر لوگ قوم پرست جماعتوں کی بجائے پی ٹی ایم یا این ڈی ایم کی طرف جائیں گے۔

جہاں تک بات ہے پی ٹی ایم کی تو اس نے الیکشن لڑا ہی نہیں، نہ ان کی پالیسی ہے۔ وہ پارلیمانی سیاست کرتے ہی نہیں ہیں۔ این ڈی ایم نے الیکشن لڑا ہے۔ محسن داوڑ کا کہنا ہے کہ انکا الیکشن چوری ہوا ہے۔ علی وزیر کے الیکشن کے بارے میں بھی وہ کہتے ہیں کہ وہ بھی جیتے ہوئے تھے، لیکن الیکشن چوری ہوا۔ محسن داوڑ پر فائرنگ بھی ہوئی، ان کے 4ساتھی بھی مارے گئے، ان کو بھی گولیاں لگیں۔ یہ سب کچھ صرف اس لئے ہوا کہ وہ الیکشن چوری ہونے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ ان عوامل کی بنیاد پر ہم نہیں کہہ سکتے کہ ساری قوم پرست جماعتیں ناکام ہوئی ہیں۔ جو اصل جماعتیں تھیں ان کو الیکشن میں جانے ہی نہیں دیا گیا۔ کچھ لوگ خود ہی الیکشن میں نہیں جارہے ہیں کیونکہ انہیں ریاست پر بھروسہ ہی نہیں ہے۔ کچھ جماعتیں جیسے اے این پی یا دیگر یہ شکوہ کرتی ہیں کہ ہم ریاست کے ساتھ چلتے بھی رہے اور تیار بھی ہیں، لیکن پھر بھی ہمیں ہروایا گیا ہے۔

بظاہر تو یہ لگ رہا ہے کہ حکومت یا فوج اس آپریشن سے کسی حد تک پیچھے ہٹی ہیں، لیکن وہ اس آپریشن سے مکمل دستبردار نہیں ہو رہے ہیں۔ ایسے میں سیاسی جماعتیں، قیادتیں، صوبائی حکومت اور عوام کیسے رد عمل دیں گے؟

عرفان اشرف: بنیادی طور پر یہ عوام کا ہی رد عمل ہے، جس کی وجہ سے ریاست پیچھے ہٹی ہے۔ سوات سے لے کر وزیرستان تک بھرپور رد عمل دیا گیا ہے۔ عوام کا پیغام بڑا واضح ہے کہ نہ طالبان کو مانتے ہیں اور نہ ریاست کی پالیسی کو۔ اب وہ طالبان کا بھی زیادہ نام نہیں لیتے، بلکہ اب وہ کہتے ہیں کہ ریاست کی پالیسی کو نہیں مانتے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ ریاستی پالیسی کے نیچے ہی طالبان چلتے ہیں۔ 2001کے بعد یا خاص کر 2006-07سے2013-14تک لوگ سمجھتے تھے کہ طالبان کوئی الگ ہستی ہیں، لیکن اب پشتون علاقوں میں طالبان کا تصور بڑا واضح ہے۔ لوگ اب سمجھتے ہیں کہ یہ ریاست کا وہ تاریک پہلو ہے یا ایسے پراکسی گروپ ہیں، جو ریاست مڈل مین کے طور پر اپنے ہی لوگوں کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ اس وجہ سے ردعمل بھرپور بھی ہے اورسخت بھی ہے۔ ابھی تک جو ریاست پیچھے ہٹی ہے وہ لوگوں کے رد عمل کی ہی وجہ سے ہوا ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ ریاست جو وقت لے رہی ہے وہ لوگوں کو دبانے کیلئے لے رہی ہے۔ کوشش کی جائے گی کہ مختلف طریقوں اور حربوں سے ان لوگوں کو ٹارگٹ کیا جائے، جو اس رد عمل کے پیچھے ہیں۔ تاہم میرے خیال میں یہ بہت بڑی غلطی ہوگی، کیونکہ یہ رد عمل کسی جماعت کی طرف سے نہیں بلکہ لوگوں کی طرف سے ہے۔ لوگوں کی ہی مزاحمت کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کو بھی موقف بدلنا پڑا ہے۔ جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی اور اے این پی نے اپنا موقف عوامی دباؤ کی وجہ سے تبدیل کیا ہے۔ جب انہیں لگا کہ لوگ کسی صورت یہ تسلیم نہیں کریں گے، تب انہوں نے سوچا کہ ہم لوگوں سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ اگر لوگوں کے ساتھ نہ کھڑے ہوئے تو سیاست میں برقرار رہنا مشکل ہو جائے گا۔

پی ٹی ایم واحد قوت ہے جس نے اگلے قدموں پر آکر اس رد عمل کی قیادت کی ہے۔ اس نے لوگوں کو بہت شعور دیا ہے۔ بہت قربانیاں بھی دی گئی ہیں، لیکن اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی رہے یا نہ رہے۔ہاں البتہ ریاست گیلامن وزیر کی طرح مزید لوگوں کے خلاف بھی کارروائی کروا سکتی ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ باقی لوگوں کو بھی ان کے مخالفین کے ہاتھوں، یا کسی حادثے میں مارنے جیسے واقعات ہو سکتے ہیں۔ پشتونوں کے ہی کندھوں میں بندوق رکھ کر لوگوں کو مارنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

یہ سلسلہ بھی زیادہ عرصہ جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ لوگ اب سوال پوچھ رہے ہیں کہ جس طرح عثمان کاکڑ کو سر پر مارا گیا، اسی طرح ہی ارمان لونی کو بھی اور اب گیلامن وزیر کو بھی ایسے ہی مار ا گیا ہے۔ یہ طریقے اب پرانے ہو چکے ہیں۔ یہ عوامی تحریک ہے، جب تک عوامی خدشات کو دور نہیں کیا جاتا، یہ تحریک نہیں رکے گی۔ یہ بھی ہے کہ ریاست کبھی عوامی خدشات کو دور نہیں کرے گی۔ یہ ریاست عوام کی ضد پر بنی ایک کلونیل ریاست ہے، جو پوسٹ کلونیل حالات میں عوام کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ عوامی خدشات کو اس وقت دور کیا جا سکتا ہے، جب سیاسی زعماء عوام کی امنگوں کی ترجمانی کریں۔ وہ اپنے فیصلوں، پالیسیوں اور طرز فکر میں آزاد ہوں، جس کی بنیاد پر ریاست کے ساتھ تعلق قائم ہو ، تو شاید کچھ بہتر ہو سکتا ہے۔

ابھی تو اداروں اور بیوروکریسی کی حکومت ہے، جو سامراجیوں کی ایماء پر اس ریاست کو چلا رہے ہیں۔ اس سلسلے کو سیاستدان ہی چیلنج کر سکتے ہیں اور ان میں یہ جرأت عوام ہی لا سکتے ہیں۔

عوام بھی اب اتنے باشعور ہو چکے ہیں کہ ماضی کی طرح کوئی انہیں یہ نہیں کہہ سکتا کہ پشتون خود ہی چاہتے ہیں اس لئے طالبان آئے ہیں۔ اب اس طرح کے ہتھکنڈے لوگوں میں مزید غم وغصہ بھڑکاتے ہیں۔ اس طرح ریاست چلانا مزید مشکل ہو جائے گا۔ ریاست سول وار اور لوگوں کے ساتھ متصادم ہونے کی طرف جا رہی ہے۔ مضبوط ریاست اور اس کی بقاء اسی میں ہے کہ رائے عوام کی ہو ، جس کی ترجمانی سیاستدان کریں اور عملدرآمد ریاست کرے۔

یہاں ریاست عملدرآمد نہیں کر رہی اور الزام سول اداروں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ عدالتیں طالبان کو چھوڑ دیتی ہیں، یا یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ پارلیمان کے لوگ فیصلے نہیں کر سکتے، یا لوگ ہی چاہتے ہیں کہ طالبان موجود رہیں۔ یہ سلسلہ ابھی تک تو ریاست نے چلایا ہے اور اس کی بنیاد پر خوب بندر بانٹ کی گئی ہے۔ 33ارب ڈالر تو ایک رقم ہے، باقی کسی کو پتہ ہی نہیں کیا کیا ہڑپ کیا جا چکا ہے۔ ہر بجٹ میں ان آپریشنز کیلئے رقوم رکھی جاتی ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ سلسلہ کب تک چلائیں گے۔ ان دھاندلیوں کے ذریعے ریاست اپنے آپ کو ہی نقصان دے گی۔ لوگ اس کیلئے تیار نہیں ہیں، نہ ہی پاکستانی معیشت اس کی متحمل ہو سکتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم سچ بولیں، سچ کا سامنا کریں، لوگوں کی رائے کو سامنے لائیں، نہ کہ ان لوگوں کی جو ریٹائرمنٹ کے بعد یہاں سے بھاگ جاتے ہیں۔ وہ اہم عہدوں پر رہتے ہوئے دوسرے لوگوں کی ایماء پر ریاست کو چلاتے ہوئے صورتحال کو اس نہج پر لے جائیں، جہاں پر لوگ اور ریاست ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہوں۔

ماضی میں دہشت گردی کے خلاف جو آپریشن کئے گئے ہیں ان کے اثرات پختونخوا میں کیا پڑے ہیں اور لوگ کیسے متاثر ہوئے ہیں؟

عرفان اشرف: ان آپریشنز کا خیبرپختونخوا کے لوگوں پر بہت برا اثر پڑا ہے۔ ایک طرح سے وہ پیرانائیڈہو چکے ہیں۔ ریاستی پالیسیوں، ریاست کے اداروں اور وعدوں پر کوئی اعتبار نہیں رہا ہے۔ جو نوجوان ان جگہوں پر پلے بڑے ہیں، انہوں نے ہی پی ٹی ایم بنائی ہے۔ ان کے نعروں میں سب کچھ واضح ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نہ سڑک چاہیے، نہ ترقی چاہیے، نہ ہی فوج چاہیے، ہمیں صرف زندہ رہنے کا حق چاہیے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ آپ ہماری زندگی سے نکل جائیں۔ ریاست کی پالیسیوں کو وہ اپنی زبوں حالی کا موجب سمجھتے ہیں۔

ماضی کے 200سال کے دوران پشتون اور بلوچ قبائلی نظام کو سب سے پہلی ضرب انگریزوں نے دی ہے۔ اب یہ خالی اور کھوکھلا نظام رہ گیا ہے۔ ان کے اختیارات اور سوچ چھین لی گئی، اب قبائلی اپنے آپ کو قبائلی تو کہتے ہیں لیکن نظام کچھ بھی نہیں ہے۔ ایک پولیٹیکل ایجنٹ سب کچھ کنٹرول کرتا ہے، جو سب سے پہلے انگریزوں نے بٹھایا گیا۔ یہ نظام دیہاتوں میں چلتا تھا، لیکن جہاں سے ریل یا سڑک گزرتی تھی وہاں انگریزوں کا قانون اور پالیسی چلتی تھی۔ دوسرے لفظوں میں ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ جہاں ان کے مفادات تھے وہاں کسی قبائلی نظام کی گنجائش نہیں تھی، وہاں سے قانون کی عملداری شروع ہو جاتی تھی۔ اس طرح قبائلی نظام قابل عمل نہیں رہ سکا۔ اس کی اقدار ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل نہیں ہو سکیں۔ پولیٹیکل ایجنٹ سیاسی فیصلے انگریز سرکار کے حق میں کرتا تھا اور کلچرل فیصلے، بالخصوص خواتین سے متعلق یا تہواروں سے متعلق قبائلی اقدار کے ذمہ ڈال دیتا تھا۔ پدر شاہی کے ذریعے تشدد اور لشکر کشی وغیرہ اقدار قرار دی جاتی تھیں ، لیکن ریاست کے مفادات کیلئے تمام اقدار پس پشت چلی جاتی تھیں۔

اس طرح یہ بھی خوش تھے کہ ہم آزاد ہیں۔۔۔ چونکہ ریاست کے سامنے مظلوم بن جاتے تھے، لیکن گھر کے اندر آزاد تھے، کمزور کے خلاف بھی آزاد تھے، خواتین کے خلاف بھی آزاد تھے۔ ان کو مارتے، جرگے میں بٹھاتے اور اس طاقت کے مزے لیتے رہے۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان کمزوروں کو ہوا، جس میں خواتین سرفہرست ہیں۔ خواتین کی ترقی خاص کر کلونیل دور میں بالکل ختم ہو گئی۔ اس سے قبل قبائلی نظام میں خواتین اس قدر مقید اور زبوں حالی کا شکار نہیں تھیں۔ یہ قدرتی عمل ہے کہ جب آپ کے اوپر طاقت آجاتی ہے تو آپ نفساتی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کے سامنے تو ڈرتے ہیں لیکن پھر اپنے آپ کو مطمئن کرنے کیلئے کمزور پر غصہ نکالتے ہیں۔ یوں عورتوں کو مارنا، کمزور کو تشدد کا نشانہ بنانا اور ڈومیسٹک وائلنس وغیرہ پروان چڑھتی ہے۔

پاکستان بننے کے بعد خاص کر افغان جہاد اور گزشتہ 20سال کی دہشت گردی کے خلاف جنگ نے اس قبائلی نظام کو مکمل طور پر ختم ہی کر دیا ہے۔ بے دخلیوں اور نقل مکانی کی وجہ سے علاقے خالی ہو گئے۔ جو لوگ موجود ہیں وہ بھی یہاں سے نکل رہے ہیں۔ کوئی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے، کوئی امن چاہتا ہے، کوئی زندہ رہنا چاہتا ہے۔ یہ سب کام فاٹا میں نہیں ہو سکتا۔ اس لئے آبادی کم ہوتی جا رہی ہے۔

سب سے زیادہ اثر تو یہ ہوا ہے کہ ہمارے پاس نہ ماضی کا کوئی نظام رہا ہے، جو نظم قائم کر سکے، نہ آگے کچھ واضح ہے۔ میں صرف پشتونوں کی اداروں میں نمائندگی میں کمی کی بات نہیں کر رہا۔ تاریخ اور نسل کو آگے لے جانے کے ضامن، یعنی نوجوان کیلئے نہ ریاست میں کوئی جگہ ہے، نہ قبائلی ڈھانچے میں اور نہ ہی شہری سیٹ اپ میں کوئی جگہ ہے۔ اس کے پاس ہنر اور تعلیم بھی نہیں ہے۔ اس بنیاد پر بلوچوں اور پشتونوں کو بہت مشکل زندگی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

نتیجے کے طور پر نوجوان یہاں سے بھاگ رہے ہیں۔ ایران اور ترکی سے ہو کر یورپ جانے کی کوشش یا سمندری راستوں کے ذریعے یورپ جانے کی کوشش میں مارے جارہے ہیں۔میں نے یورپ پہنچنے والے کچھ نوجوانوں کے انٹرویوز کئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ سرحدوں پر لوگوں کی ہڈیاں پڑی ہیں۔ اب ان نوجوانوں کیلئے سمندر اور خشک راستے ہی بچے ہیں اس ملک سے بھاگتے ہوئے مرنے کیلئے، کہیں داؤ لگ گیا تو کسی جیل تک پہنچ جاتے ہیں، ورنہ راستوں میں ہڈیاں بھی گل سڑجاتی ہیں۔

سرحدوں پر اغواء کرکے گھر والوں کو ویڈیوز بھیجتے ہوئے پیسے وصولنے کا سلسلہ بھی چل رہا ہے۔ ایسے کیس بھی نوٹس میں آئے ہیں، جنہیں ترکی اور ایران وغیرہ میں پکڑا گیا ہے اور ان کے گھر والوں سے پیسے مانگے جا رہے ہیں۔

یہ بھی بتائیں کہ ماضی کے آپریشنز کا خواتین پر کیا اثر پڑا اور موجودہ وقت خواتین اس حوالے سے کیا رائے رکھتی ہیں؟

عرفان اشرف: ماضی کے آپریشنز کے ساتھ ساتھ ہماری خواتین دو طرح سے متاثر ہو رہی ہیں۔ ایک تو قبائلی نظام کا کلونیل ازم سے جو تعلق رہا، اس کی بنیاد پر عورت پر بہت سی اقدار کا بوجھ ڈالا گیا۔ کلونیل دور میں اکانومی کنٹرولڈ تھی، کوئی بنک نہیں تھا، کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا۔ ایک ہی ذریعہ ماش تھا کہ فوج، ملیشیا، لیوی یاپیرا ملٹری ٹروپس میں بھرتی کیا جاتا تھا۔ یہاں سے لوگوں کو اکٹھا کر کے دنیا کے مختلف علاقوں میں جنگوں کیلئے بھیجا جانے لگا۔ فوج وغیرہ کا ایک نظام ہوتا ہے، جسے اگر گھر میں نافذ کیا جائے تو پدر شاہی کی متشدد شکل میں ہی سامنے آتا ہے۔ انگریزوں نے پشتونوں کی سرحدوں اور جسموں کو سامراجی جنگوں کیلئے استعمال کیا۔ اس بنیاد پر جو قبائلی شکل سامنے آئی، وہ عورت کی ضد پر آئی۔ مثال کے طور پر جرگہ، لشکر وغیرہ ایسی شکلیں تھیں جو عورت کی ضد پر تھیں۔ عورت کی کوئی نمائندگی نہیں تھی، نہ گھر میں نہ گھر سے باہر۔ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا، خواتین کھیتوں میں کام کرتی تھیں۔انکا معاشرے میں ایک بڑا کردار تھا۔ برقع پہننے والا رواج نہیں تھا۔ اب وہ سب کچھ تبدیل ہو گیا۔ اقدار کے نام پر جو رجعت آئی، اس نے عورت کیلئے گھر ہی نہیں، جسم بھی چار دیواری بنا دیا گیا۔ یہ اقدار پاکستان بننے کے بعد زیادہ گہری ہو گئیں۔ جب یہاں جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ جہاد اور اسلام کے نام پر ریاست جو جنگیں یہاں مسلط کرتی رہی، امریکی نصاب تیار کئے گئے۔ افغانستان کو پوری دنیا کا محور بنایا گیا۔ اس وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی صنف خواتین تھیں۔ مجاہدین، طالبا ن وغیرہ امریکہ اور پاکستانی ریاست کے برین چائلڈ تھے۔ طالبان دنیا کا واحد اسلامی گروہ ہے جو عورت کو سکول نہیں جانے دیتا۔ 55سے زائد اسلامی یا مسلم اکثریتی ملک ہیں، لیکن کہیں بھی عورت کے سکول جانے پر پابندی نہیں ہے۔ افغانستان واحد جگہ ہے، جہاں عورت سکول نہیں جا سکتی۔ یہی کچھ ہمارے ہاں بھی ہے۔

یہ سب کچھ ان جنگوں کی پیداوار ہے۔ اس میں سب سے زیادہ خواتین اور بچے متاثر ہوتے ہیں۔ سکول چھوڑنے کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ لینڈ مائنز میں سب سے زیادہ بچے متاثر ہو رہے ہیں۔ جگہ جگہ لینڈ مائنز ہیں، ریاست انہیں ہٹانا بھی نہیں چاہتی۔ ان مائنز کو ہٹانے کے گرد بھی کوئی نیا کاروبار کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ جب تک کہیں سے رقوم حاصل کر کے ان کو ہٹانے کا انتظام کیا جاتاہے، تب تک لوگ اسی طرح معذور ہوتے رہیں گے۔ فاٹا میں سکول تباہ ہو چکے ہیں، یونیورسٹی سرے سے ہے ہی نہیں۔ ایک یونیورسٹی پر سالوں سے کام چل رہا ہے۔ پہلے وہ کالج تھا، اب وہ یونیورسٹی بھی نہیں بن پایا اور کالج بھی نہیں رہا ہے۔ اس خطے کو خیبرپختونخوا کے ساتھ ضم تو کیا گیا ہے لیکن کوئی بجٹ نہیں دیا گیا۔ نہ ہی این ایف سی ایوارڈ میں کوئی حصہ دیا جا رہا ہے، نہ ہی کوئی مالی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ ان علاقوں کو صرف عسکریت کا شکار بنانے کیلئے رکھا گیا ہے۔

ماضی میں دہشت گردی کے خلاف جو آپریشن کئے گئے وہ دہشت گردی کے خلاف کس حد تک موثر قرار دیئے جا سکتے ہیں؟

عرفان اشرف: جتنے بھی آپریشن ہوئے، ان میں سے کچھ کو موثر قرار دیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر سوات میں جو آپریشن ہوا، اسے موثر قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کا کریڈٹ بھی اے این پی کو جاتا ہے۔27اکتوبر2008کو یہ آپریشن شروع ہوا۔ اے این پی کی حکومت تھی، انہوں نے مذاکرات کئے، جو ناکام ہوئے تو آپریشن شروع ہوا۔ یہ ایک حد تک کامیاب اس لئے تھا کہ عسکریت پسندوں کو بیک فٹ پر کیا گیا۔ تاہم ایک مکمل کامیاب اس لئے نہیں تھا کیونکہ فضل اللہ اور اس کے ساتھی افغانستان چلے گئے تھے اور وہاں سے انہوں نے کارروائیاں جاری رکھیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ریاست نے جب بھی آپریشن کیا، وہ اس حد تک ہی کامیاب ہوا کہ عسکریت پسندوں کو افغانستان دھکیل دیا گیا۔ ان کو کبھی ختم نہیں کیا گیا۔

دوسرے درجے پر سب سے کامیاب آپریشن ضرب عضب تھا۔ اس کے دوران بھی طالبان کو افغانستان کی طرف ہی دھکیلا گیا۔ اس لئے بھی یہ سب کیا گیا کہ وہاں نیٹو فوسز تھیں اور انہیں کہا گیا کہ لڑائی کی جگہ وہ ہے۔ اس کے بعد انہیں دوبارہ واپس لایا گیا۔ اب انہی کے خلاف پھر آپریشن کی بات ہو رہی ہے۔

فوج نے یا ریاست نے تو ہمیشہ ہی آپریشن کو کامیاب ہی قرار دیا ہے۔ لوگ ہمیشہ سے ہی سوال اٹھاتے رہے ہیں کیونکہ ان آپریشنز میں عسکریت پسند کوئی بھی مارا نہیں گیا، یا اگر کوئی گرفتار بھی کیا گیا تو بعد میں چھوڑ دیا گیا۔

مثال کے طور پر 2004میں نیک محمد کے خلاف آپریشن ہوا۔ پھر مذاکرات ہوئے اور انہیں پیسے بھی دیئے گئے۔ 2005میں بیت اللہ کے خلاف آپریشن ہوا، پھر مذاکرات کے بعد پیسے دیئے گئے۔ ہر آپریشن کے بعد مذاکرات شروع ہوئے، اس میں لوگ بھی چھوڑے گئے اور پیسے بھی دیئے گئے۔ اس بنیاد پر دیکھیں تو عسکریت کو ختم نہیں کیا گیا، بلکہ دھکیل کر افغانستان بھیجا گیا ہے، پھر مختلف طریقوں سے دوبارہ واپس مسلط کیا گیا ہے۔ اس لئے عسکریت پسندی ختم نہیں ہو رہی ہے۔ جب پوچھا جاتا ہے کہ آپریشن کیوں کر رہے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ عسکریت کے خلاف ہو رہا ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ تو وہی لوگ ہیں، جن کے خلاف پہلے آپریشن ہوا اور واپس بھی خود ہی لائے گئے۔ پھر یہ جواب دیا جاتا ہے کہ ہم نے غلط کیا ہے۔ جب آپ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ غلط کیا ہے تو پھر آپریشن ان کے خلاف کریں، جنہوں نے غلط کیا۔ اداروں کے اندر بھی آپریشن ہونا چاہیے۔ عمران خان سے باجوہ اور فیض حمید تک سب لوگ شامل ہیں۔ان سب کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ جب تک ریاست مثال نہیں قائم کرے گی اور اپنے لوگوں کو کٹہرے میں نہیں لائے گی تو عسکریت کبھی ختم نہیں ہو سکے گی۔ جو عسکریت پھیلا رہے ہیں، وہ ریاست کے اندر بھی ہیں اور باہر بھی۔ باہر والوں کو افغانستان دھکیل دیتے ہیں، یا گرفتار کر دیتے ہیں۔ جو ریاست کے اندر ہیں، ان کا کوئی کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ جب تک ان کا احتساب نہیں ہوتا، تو پالیسی برقرار رہے گی۔ جب تک پالیسی برقرار رہے گی تو آپریشن ہوتے رہیں گے، لیکن عسکریت ختم نہیں ہو گی۔

ماضی میں ریاست کی گڈ اور بیڈ طالبان کی پالیسی جا ررہی ہے۔ موجودہ وقت پختونخوا میں ریاستی پالیسی کیا نظر آتی ہے اور کیا موجودہ آپریشن بھی طالبان کے مخصوص گروہ کے خلاف ہی ہوگا؟

عرفان اشرف: یہ گڈ اور بیڈ والا مسئلہ بھی بہت سنجیدہ ہے۔ لوگوں کے اس پر بہت تحفظات ہیں۔ یہ ریاست کی پالیسی ہے کہ اس علاقے کو ایک سرکس بنایا جائے یا وار تھیٹر بنایا جائے۔ انگریز بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ وہ اپنے فوجیوں کو جنگ کیلئے تربیت دیتے تھے، ابھی بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ہمیشہ سے ہم نے دیکھا کہ گڈ طالبان بیڈ بن جاتے ہیں اور بیڈ ایک وقت میں گڈ بن جاتے رہے ہیں۔ یہ ریاست کا اپنا بیانیہ ہے۔ اسی طرح افغان طالبان کیلئے جو گڈ ہونگے، وہ پاکستانی ریاست کیلئے بیڈ ہونگے، جو افغان طالبان کیلئے بیڈ ہونگے، وہ ان کیلئے بیڈ ہونگے، جو دونوں کیلئے بیڈ ہونگے، وہ امریکہ کیلئے گڈ ہو جائیں گے۔ یہ جو ڈرامہ چل رہا ہے ، اسے ہمیں سمجھنا چاہیے۔ اسی بنیاد پر عسکریت کا کاروبار چل رہا ہے۔ اب لوگ بھی سمجھ چکے ہیں کہ گڈ اور بیڈ کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ ایک ہی طرح کے عسکریت پسند ہیں، جو ان کی زیادہ سروسز لیتا ہے، اسے یہ سہولیات دیتے ہیں۔ ان سہولیات کے پیچھے بین الاقوامی قوتوں ، خاص کر امریکہ، قطر، سعودی عرب، یو اے ای کا بڑا کردار ہے۔ ایران کا بھی اس میں کردار موجود ہے۔

اس لئے گڈ اور بیڈ والے مسئلے سے نکلنا چاہیے۔ نہ کوئی گڈ ہے اور نہ بیڈ ہے، یہ صرف کاروبار ہے۔ کسی نے 33ارب ڈالر کمائے، کسی نے تین ٹریلین ڈالر ضائع کئے۔ کسی نے گڈ اور بیڈ کو پیدا کیا اور کسی نے ملک گنوا دیا۔ اسے نیو گریٹ گیم بھی کہا جاتا ہے۔ ابھی بھی گڈ اور بیڈ والا معاملہ ختم نہیں ہوا، یہ چل رہا ہے۔ پاکستان کیلئے اس وقت گڈ وہ ہیں جو سرنڈر کر رہے ہیں۔ جو سرنڈر کرتے ہیں وہ فوج کے طابع ہو جاتے ہیں۔ انہیں مراعات دی جاتی ہیں اور وسائل سے حصہ ملتا ہے، اڈے وغیرہ چلانے کی اجازت ملتی ہے اور پھر ریاست کیلئے کام کرتے ہیں۔ پھر ایک وقت میں انہی میں سے کچھ باغی ہو جاتے ہیں اور انہیں بیڈ طالبان قرار دے دیا جاتا ہے۔ انہی میں سے لوگ ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں تو ریاست کہتی ہے کہ یہ باغی ہیں۔ اس سب کا مقصد جنگ کو طول دینا ہے۔ ان میں کوئی آئیڈیالوجی کا فرق نہیں ہے، اس کے پیچھے سب ملکوں کے مفادات ہیں۔ پشتونوں کے سر پر پیسے کمائے جا رہے ہیں اور علاقوں میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا مقصد ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

آپریشن عزم استحکام کے حوالے سے بائیں بازو کا موقف کیا ہے اور دہشت گردی کی روک تھام کیلئے کیا اقدامات تجویز کئے جا سکتے ہیں؟

عرفان اشرف: بائیں بازو کے موقف کے حوالے سے میرے خیال میں سب کچھ واضح ہے، کوئی ابہام نہیں ہے۔ یہ امریکہ کی سامراجیت ہے۔ امریکہ سامراجیت کے نیچے ریاستیں پالتا ہے اور علاقوں کو عدم استحکام کا شکار کرتا ہے۔ یہ پیسہ بھی ایک ہی جگہ سے آرہا ہے۔ بائیں بازو کے لوگ سامراجیت کو مارکیٹ اور طاقت کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ جیسے مارکس کے مطابق ریاست سرمائے کا انتظامی ہاتھ ہے۔ معیشت کا منبع امریکہ ہے۔ وہ پیسہ جب افغانستان پہنچ جاتا ہے تو پھر اس کی بندر بانٹ شروع ہو جاتی ہے۔ اس سب کا مقصد علاقے کو عدم استحکام کا شکار کرنا ہے، تاکہ چین، ایران یا بھارت مداخلت نہ کر سکیں۔ کہا جاتا ہے کہ بھارت امریکہ کا حلیف ہے، لیکن ایسا نہیں ہے، امریکہ یہاں اپنے مفاد کے علاوہ کسی کا مفاد نہیں دیکھنا چاہتا۔ یہ پورا کوریڈور ہے، جو وسط ایشیائی ریاستوں کو ملاتا ہے، پاکستان کے ذریعے بحیرہ عرب کو ملاتا ہے ۔ اس کے ساتھ پورے ارب کی سکیورٹی منسلک ہے۔ خلیج ہرمز اس سے کچھ فاصلے پر ہے، جہاں سے 60سے70فیصد تیل کی آمدو رفت ہوتی ہے۔ ان راستوں کو محفوظ کرنا، چین پر اثرورسوخ قائم رکھنا، روس کیلئے ایک تھریٹ کے طور پر موجود رہنا، یہ سارے وہ عوامل ہیں، جس کی بنیاد پر سامراجیت اس ریجن میں ریلیشنز آف پروڈکشن کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

یہ گڈ اور بیڈ طالبان، پاکستانی ریاست، افغانستان کے وارلارڈز وغیرہ کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ گزشتہ 50سالوں سے جو جنگ ہوئی ہے، اس میں اسی پالیسی کا ہاتھ ہے کہ یہ خطہ عدم استحکام کا شکار رہے، تاکہ امریکہ کو یہاں موجودگی کا جواز ملتا رہے۔ جب تک امریکہ یہاں آسانی سے کنٹرول حاصل کرتا، تب تک وہ اس کو عدم استحکام کا شکار رکھے گا۔

یہ پالیسی اب بھی جاری ہے۔ امریکہ نے ہی طالبان کو اس خطے میں پاکستان کی ایماء پر چھوڑا ہے۔ امریکہ ہی پاکستان کے پالیسی میکرز کے پیچھے بھی ہے۔ جب بھی افغانستان میں کچھ ہوتا ہے تو پاکستان امریکہ کی طرف ہی دیکھتا ہے۔ ابھی بھی جو آپریشن وغیرہ ہیں، اس میں پاکستان کو امریکی تائید حاصل ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ طالبان کے خلاف ہیں۔ افغانستان میں بھی پاکستان نے تین حملے کئے ہیں، طالبان نے زبانی مذمت کے علاوہ کوئی رد عمل نہیں دیا۔ وجہ یہ ہے کہ انہیں بھی پتہ ہے کہ آج بھی انہیں سب سے زیادہ پیسے امریکہ سے ہی آتے ہیں۔ ان کی معیشت امریکی ڈالروں سے ہی چل رہی ہے۔

ایسے میں بائیں بازو کا یہی موقف ہو سکتا ہے کہ اس کے خلاف کھڑے ہو جائیں۔ جو بھی اس کے خلاف اٹھا اس نے شعوری یا لاشعوری طور پر یہی موقف لیا کہ جنگ نہیں ہونی چاہیے۔ جس نے اس پالیسی کے خلاف لڑنے کی کوشش کی وہ مارا گیا۔ آج بھی اگر منظور پشتین کہتا ہے کہ میں امن چاہتا ہوں تو ریاست اس کی سب سے بڑی دشمن ہے۔جب بھی امن کیلئے اٹھے گا ریاست اس کی سب سے بڑی دشمن ہوگی۔ ایسا اس لئے ہے کہ سامراج یہاں جنگ چاہتا ہے اور اس جنگ پر معیشت چلتی ہے۔

بائیں بازو کا وہی موقف ہو سکتا ہے، جو پی ٹی ایم کا ہے۔ اس بیانئے کے خلاف مزاحمت کرنی ہے جو جنگ سے عبارت ہے، اس ساری معیشت کے خلاف مزاحمت کرنا ہوگی جو جنگ سے عبارت ہے۔ یہ ڈالروں کی معیشت مختلف حربوں سے یہاں آتی ہے۔ صحافت کے ذریعے یہاں آتی ہے، جس کے ذریعے سے پھر ہم جنگ کی کہانیاں بیچتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم جنگ کو ہی دوبارہ مسلط کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمارا سارا طبقہ اس جنگ سے کھا رہا ہے۔ ٹیچر اسی جنگ سے کھا رہا ہے اور یونیورسٹیاں تک اسی جنگ پر پل رہی ہیں۔ جنگ سے قبل دو یونیورسٹیاں تھیں، اب 35ہیں، لیکن امریکہ چلا گیا ہے تو ان یونیورسٹیوں کے پاس تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں ہیں۔ اس لئے یہ لوگ دعا کریں گے کہ ایک اور جنگ ہو، تاکہ ان کی تنخواہیں چل سکیں۔ یہ پوری معیشت جو اس جنگ سے متعلق پھیلی ہوئی ہے، یہی اس سامراجی نظریے اور جنگ کو برقرار رکھنے میں مدد گار ہے۔ یہ درست ہے کہ کوئی بھی بایاں بازو یا ترقی پسند اس کے سامنے کھڑا ہوگا تو اس کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا، لیکن اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔