دنیا

’سری لنکا میں مارکسسٹ صدارتی الیکشن نہیں جیتا، ایک سنہالہ شاؤنسٹ جیتا ہے‘

کویتا کرشنن

(کویتا کرشنن کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ لیننسٹ) کے پولٹ بیورو کی رکن رہی ہیں۔ ان کا شمار جنوبی ایشیا کی اہم مارکسی دانشوروں میں ہوتا ہے۔ یوکرین جنگ کے سوال پر انہوں نے اپنی پارٹی سے استعفیٰ دے دیاتھا۔وہ چاہتی تھیں کہ یوکرین پر روسی جارحیت کی مخالفت کی جائے نہ کہ حمایت۔ سری لنکا کے حالیہ صدارتی انتخاب میں جے وی پی کے رہنما انورا ڈسا نائیکے کی کامیابی پر ایک طرف دنیا بھر میں بات ہو رہی ہے تو دوسری طرف عالمی بایاں بازو اس پر بحث کر رہا ہے۔ جے وی پی خود کو مارکسسٹ لینن انسٹ کہتی ہے مگر وہ سنہالہ شاونزم کے لئے بھی بدنام ہے۔وہ کھل کر تامل آبادی پر ریاستی جبر کی حمایت کرتی رہی ہے۔ کویتا کرشنن نے جے وی پی کی کامیابی پر ایک فیس بک پوسٹ لکھی جس کا ترجمہ یہاں پیش کیا جا رہا۔ اس مضمون کا مقصد بحث کو آگے بڑھانا ہے۔ کل ایک سری لنکن مارکسسٹ بالاسنگھم سکنتھا کمار کا انٹرویو پیش کریں گے جو مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں)

بھارت کی طرح سری لنکا میں بھی جمہوری کردار کا پہلا امتحان تامل قومی سوال اور سنہالہ شاؤنسٹ و فرقہ وارانہ سیاست کا سوال ہے۔

سری لنکا کی فوج کی طرف سے تامل قوم کے لوگوں کے خلاف 6 دہائیوں سے جاری تشدد اور نسل کشی 15 سال قبل اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔ سری لنکا میں تاملوں کی نسل کشی تاریخ کی خوفناک ترین نسل کشی میں سے ایک ہے اور آج بھی وہاں کے تامل لوگوں کو نہ انصاف ملا ہے اور نہ ہی تحفظ اور مساوات۔ اس کے برعکس سری لنکا کی سیاست میں بہت سی جماعتیں سنہالا شاؤنزم کی بنیاد پر (الیکشن میں) مقابلہ کرتی ہیں۔

ایسے میں جمہوری تبدیلی کی پہلی شرط سنہالا شاؤنزم کے خلاف مہم چلانے کے لیے سیاسی عزم ہے۔

مودی کی طرح مہندا راجا پاکسا نے بھی خود کو بھگوان جیسا قومی لیڈر کہہ کر مقبولیت حاصل کی تھی۔ انہوں نے معاشی تباہی کی راہیں ہموارکیں، جس نے ملک کو غیر ملکی قرضوں اور کفایت شعاری (austerity)کے اقدامات کے جال میں پھنسا دیا۔ نتیجے کے طور پرمہنگائی اور غربت میں اضافہ ہوا، لیکن سنہالا شاونسٹ جذبات نے ان کی مقبولیت کو متاثر ہونے سے ایک طویل عرصے تک بچائے رکھا۔

…لیکن دو سال قبل سری لنکا کے لوگ آخرکار اقربا پروری، معاشی افراتفری اور آمریت کے خلاف غصے میں پھٹ پڑے اور ایک بغاوت نے راجا پاکسا اور ان کے بھائیوں کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔

حالیہ صدارتی انتخاب میں بلاشبہ سری لنکا نے تبدیلی کی امید کے ساتھ ووٹ دیا۔ انوراڈسانائیکے نے اپنے آپ کو حکمران اشرافیہ کو چیلنج کرنے والے ایک عام آدمی کے طورپر پیش کیا اور ایک معجزانہ حل کا وعدہ کر کے تبدیلی کی اس امید کو اپنے حق میں استعمال کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ’فرنٹ لائن‘ میں شائع ہونے والا ایک مضمون ان کی انتخابی مہم کا احاطہ کرتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ مہم ٹرمپ اور مودی کی طرز کی تھی۔

ڈسانائیکے کی پارٹی ’جے وی پی‘ براہ راست تاملوں کی نسل کشی میں ملوث تھی۔جے وی پی کی ملیشیاؤں نے تاملوں کا قتل عام کیا۔ آج بھی جے وی پی اور اس کا این پی پی اتحاد سنہالا شاونسٹ سیاست، خاص کر تاملوں اور مسلمانوں کے خلاف سیاست میں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ ’فرنٹ لائن‘میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق ”جے وی پی کا دعویٰ ہے کہ وہ کمیونسٹ ہے لیکن تامل اور مسلمان اس کی تقریباً تمام تر سرگرمیوں سے خارج ہیں۔ڈسانائیکے اور جے وی پی کے مقابلے میں سابق صدر مہندا راجا پاکسا اور ان کے بھائی گوٹابایا راجاپاکسا سنہالہ شاؤنزم کا ایک ’لائٹ‘ ورژن دکھائی دیتے ہیں۔“

تامل پارٹی’آئی ٹی اے کے‘ نے ڈسانائیکے کے حریف ’ایس جے بی‘کے امیدوار ساجیت پریماداسا کی حمایت کی اور اسے تامل علاقوں میں ووٹوں کا بڑا حصہ ملا۔ ایس جے بی بھی کسی بھی طرح سے سنہالا شاؤنسٹ داغ سے آزاد نہیں ہے، لیکن تاملوں نے نوٹ کیا کہ پریماداسانے اتحاد اور احترام کی زبان میں تامل ووٹروں کی حمایت طلب کی۔ پریماداسا کے والد ایل ٹی ٹی ای کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔دوسری طرف ڈسانائیکے کا کہنا ہے کہ انہیں تاملوں کے خلاف نسل کشی کی جنگ کی حمایت کرنے پر کوئی افسوس نہیں ہے۔

بھارت میں بائیں بازو کے رہنما اور پارٹیاں ڈسانائیکے کی جیت کا جشن منا رہے ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ سری لنکا کے عوام نے ایک مارکسسٹ اور بائیں طرف جھکاؤ رکھنے والے رہنما کا انتخاب کیا ہے۔ وہ ڈسانائیکے کو کامریڈ کہتے ہوئے مبارکباد دے رہے ہیں۔ (ایسا نہیں ہے کہ ان کامریڈوں کے پاس جے وی پی کے کردار اور تاریخ کے بارے میں لاعلمی کا کوئی عذر ہے: انہیں صرف ٹی این کے بائیں بازو کے رہنماؤں سے پوچھنا پڑے گا۔ مجھے یاد ہے کہ سی پی آئی (ایم ایل) میں ہمارے (مرحوم) کامریڈ گنشن نے ہمیں جے وی پی کی سیاست کے بارے میں تعلیم دی تھی۔)

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ’مارکسسٹ‘،’کمیونسٹ‘ یا’بائیں طرف جھکاؤ‘ کے الفاظ کا اصل مطلب کیا ہے؟

شاؤنسٹ اور متعصب نہ ہونا ایک مہذب انسان اور سیاست دان ہونے کے لیے ابتدائی تقاضہ ہے، نہ کہ کوئی اعلیٰ معیار جس پر مارکسسٹ یا لیننسٹوں کوپرکھنا چاہیے۔

اگر جے وی پی اس کم از کم معیار میں ناکام ہو جاتی ہے اور سری لنکا کے کچھ بدترین شاؤنسٹوں سے زیادہ شاؤنسٹ اور فرقہ پرست ہے، تو یہ ہنسی کی بات ہے کہ بایاں بازو اس بات پر بحث کر رہا ہے کہ آیا وہ مارکسسٹ ہے یا نہیں۔ میں لینن اسٹ اصطلاحات میں ’حق خودارادیت‘ پر اپنے موقف کی بنیاد پر اس بارے میں بحث نہیں کر رہی ہوں کہ آیا ڈسانائیکے ایک اچھے مارکسسٹ ہیں یا نہیں۔ میں کہہ رہی ہوں کہ وہ اور ان کی پارٹی دائیں بازو کے ہیں اور فرقہ وارانہ شاونسٹ ہیں، اس لیے وہ جمہوری نہیں ہیں۔

ہم ایسے لیڈر کو ’مارکسسٹ‘، ’کمیونسٹ‘، ’بائیں طرف جھکاؤ رکھنے والا کیسے کہہ سکتے ہیں،جو تامل اور مسلم اقلیتوں کے خلاف نفرت کی سیاست کرتا ہو اور جس کی پارٹی کی تاریخ تاملوں کے خون سے رنگی ہوئی ہو؟

کیا جمہوری ہونا اور تعصب کی مخالفت مارکسسٹ ہونے کی پہلی شرط نہیں ہے؟ بائیں بازو کا کوئی بھی فرد ایسا کیسے کہہ سکتا ہے کہ’جے وی پی تاملوں کے خلاف تھی، وہ سنہالا قوم پرست ہیں لیکن آئی ایم ایف کے سوال پر وہ بائیں بازو کے ہوں گے۔‘ یا اس سے بھی بدتربائیں بازو کے کچھ لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ’جے وی پی کا تامل شاؤنزم اور علیحدگی پسندی کے خلاف ہونا بالکل درست تھا۔‘

کتنی شرم کی بات ہے کہ بھارتی بائیں بازو کا کوئی بھی یہ کہنے کے قابل نہیں لگتاکہ:

ہاں،سری لنکا کے لوگ تبدیلی چاہتے ہیں۔
ہاں،معاشی بحران اور کفایت شعاری کے بوجھ سے چھٹکارا پانا نئی حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے۔
لیکن جمہوریت۔۔۔یعنی سنہالی شاؤنزم کو شکست دینا۔۔۔ اس سے بھی بڑا سوال ہے، جس پر نئے صدر سے کوئی بھی توقع نہیں کر سکتا۔

بائیں بازو کی طرف سے کسی کو بھی ڈسانائیکے اور جے وی پی کو اپنے جرائم کو سرخ جھنڈے سے چھپانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ ان کا’مارکسزم‘ ایک دھوکہ ہے، ان کی سیاست شاؤنسٹ اور فرقہ وارانہ ہے۔ وہ ’بائیں جانب جھکاؤ‘ نہیں بلکہ ’فاشسٹ جھکاؤ‘ والے ہیں۔

امید صرف یہ ہے کہ سری لنکا میں کافی لوگ نئی حکومت کو مزید شاؤنزم اور آمریت کی سمت میں ’تبدیلی‘سے روکنے کی ذمہ داری لیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ وہ نئی حکومت سے تاملوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو ہوا دینے والے بدھ راہبوں اور سیاست دانوں کی گرفتاری اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے میں کوئی وقت ضائع نہیں کریں گے۔

Kavita Krishnan
+ posts

کویتا کرشنن کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ لیننسٹ) کے پولٹ بیورو کی رکن رہی ہیں۔ ان کا شمار جنوبی ایشیا کی اہم مارکسی دانشوروں میں ہوتا ہے۔