ضیغم عباس
دنیا بھر میں قومی آزادی کی تحریکیں عموماً طاقتور مقامی تحریکوں اور ان سے ابھرنے والی مضبوط سیاسی قیادت کے گرد مرکوز ہوتی ہیں۔ نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے یہ تحریکیں طویل مزاحمت میں شامل ہوتی ہیں، جو اکثر مسلح جنگ کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور ایک طاقتور نوآبادیاتی مشینری کے خلاف برسر پیکار ہوتی ہیں۔ ایسی تحریکوں میں نوآبادیاتی یا سامراجی غلبے کے خلاف ردعمل میں عوامی مزاحمت کا اظہار ہوتا ہے، جہاں محکوم لوگ نوآبادیاتی نظام کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں اور ایسے جذبات کو فروغ دیتے ہیں جو اس نظام کو چیلنج کرتے ہیں۔
قومی شناخت، ثقافت اور ورثے کی اہمیت پر زور دینا نوآبادیاتی مخالف جدوجہدوں کی نمایاں خصوصیت ہے۔
مشہور اطالوی مارکسی انٹونیو گرامشی کے بقول یہ محکوم لوگ ’حالت ِجنگ (وار آف پوزیشن)‘میں ہوتے ہیں۔ گرامشی حالت جنگ کو ایک ثقافتی اور فکری جدوجہد کے طور پر بیان کرتے ہیں، جہاں بورژوازی کی ثقافتی بالادستی کا مقابلہ کرنے کے لیے انقلابی پرولتاری اپنی ثقافت تشکیل دیتے ہیں۔ گرامشی کے لیے، حالت جنگ ایک سیاسی جدوجہد ہے جس میں سیاسی تحریک، ٹریڈ یونینیں اور پرولتاری ثقافت کو فروغ دینا شامل ہے۔
آزادی کی جنگوں میں بغاوت کا جذبہ اور ہتھیار اٹھانے کی ترغیب ہمیشہ عام لوگوں کی طرف سے آتی ہے، جوان پر مسلط کردہ نظام کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ نوآبادیاتی مخالف تحریکیں گوریلا حربوں پر انحصار کرتی ہیں، جس میں ایک بڑی، روایتی طور پر مضبوط نوآبادیاتی فوج کے خلاف چھاپہ مار حملے اور چھوٹے پیمانے پر آپریشنز شامل ہوتے ہیں۔ ایسی جنگیں واضح سیاسی نظریے یا تحریک پر مبنی ہوتی ہیں جو آزادی یا انقلاب کے حصول کے لئے جدوجہد کرتی ہیں۔
یکم نومبر 1947 کو گلگت بغاوت جس کے نتیجے میں جموں کشمیر کی حکومت کے گلگت پر نوآبادیاتی کنٹرول کا خاتمہ ہوا، کو’آزادی کی جنگ‘ یا ’آزادی کی تحریک‘ بھی کہا جاتا ہے۔ 1947 تک گلگت بلتستان جموں کشمیر کی شاہی ریاست کا حصہ تھا۔ برطانوی حکومت نے گلگت ایجنسی کو 1935 میں اس کی حکمت عملی کی اہمیت کی وجہ سے مہاراجہ جموں کشمیر سے لیز پر لیا اور اسے براہ راست برطانوی حکام کے ذریعہ چلایا گیا،جب تک کہ اگست 1947 میں ہندوستان کی آزادی کے لئے تیاریاں شروع ہونے پر لیز واپس نہیں کی گئی۔ تقسیم برصغیر کے بعد مہاراجہ کے بھارت کے ساتھ الحاق کے فیصلے نے میجر براؤن کو گلگت میں فوجی بغاوت کی منصوبہ بندی کرنے پر مجبور کیا۔ اس کے نتیجے میں جموں کشمیر کے گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کر کے گلگت سے نکال دیا گیا اور آخر کار گلگت کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی راہ ہموار کی گئی۔
میجر ولیم براؤن، جو گلگت میں برطانوی سیاسی ایجنٹ تھے، نے جموں کشمیر حکومت کے خلاف بغاوت کرنے اور گلگت کو پاکستان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اس بارے میں وضاحت کی کمی ہے۔ ان کی سوانح حیات ’دی گلگت ریبیلین‘ ان کے ذاتی مقاصد کے ساتھ ساتھ خطے کے مستقبل کے حوالے سے ان کے سامراجی عزائم کو بھی واضح کرتی ہے۔
براؤن نے گلگت کے ’نگہبان‘ اور ’رہنما‘ کے طور پر اپنے کردار کو بیان کیا ہے،جسے شمالی سرحد پر استحکام برقرار رکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ براؤن نے مہاراجہ کی حکومت کے بارے میں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا، خصوصاً ہری سنگھ کی مقامی آبادی سے دوری اور غیر مقبولیت اس کی وجہ بنی۔ براؤن نے مہاراجہ کے بھارت کے ساتھ الحاق کو مقامی آبادی کی امنگوں کے خلاف ایک ’دھوکہ‘قرار دیا اور ان کے مطابق گلگت کا اسٹریٹجک محل وقوع خطے کے استحکام کے لئے اہم تھا۔ براؤن نے کہا کہ اگر یہ علاقہ بھارتی کنٹرول میں آ گیا تو مقامی مزاحمت کے باعث شمالی سرحد میں عدم استحکام کا خدشہ تھا۔ ان کے خیال میں گلگت کو پاکستان کے لیے محفوظ کرنا استحکام برقرار رکھنے کا عملی حل تھا۔
آٹو بائیوگرافی میں عام طور پر حقائق کی بجائے شخصیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا رجحان ہوتا ہے۔ لہٰذا میجر ولیم براؤن کی کچھ وضاحتوں سے اتفاق کرنا مشکل ہے۔ اگرچہ گلگت میں مہاراجہ کے خلاف ناپسندیدگی موجود تھی لیکن جموں کشمیر کے کنٹرول کو ختم کرنے کی کوئی منظم سیاسی تحریک نہیں تھی۔ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کے درمیان واقع مقامی آبادی برصغیر کے دیگر علاقوں کی پیش رفت سے کافی حد تک الگ تھلگ اور بے خبر تھی۔ کچھ مؤرخین نے بھی قیاس آرائی کی ہے کہ اس بغاوت کو پاکستانی حکام کی جانب سے غیر رسمی ترغیب یا درپردہ حمایت حاصل ہو سکتی ہے جو گلگت بلتستان کو محفوظ بنانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ جموں کشمیر حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے آپریشن کا نام’آپریشن دتہ خیل‘ رکھا گیا تھا، جس کے احکامات مبینہ طور پر شمال مغربی سرحدی صوبے (پشاور) کے ہیڈکوارٹر سے آئے۔ تاہم براہ راست احکامات کی کوئی باضابطہ دستاویز نہیں ملی اور براؤن نے ہمیشہ یہ موقف اختیار کیا کہ بغاوت کا فیصلہ ان کا اپنا تھا اور یہ مقامی حالات کے جواب میں کیا گیا۔
براؤن نے گلگت بغاوت کو گلگت اسکاوٹس کی مدد سے عملی جامہ پہنایا جن کے محرکات اور کردار کو بھی کم سمجھا گیا ہے۔ گلگت اسکاوٹس ایک نیم فوجی قوت تھی جسے 1913 میں گلگت ایجنسی میں برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ نے قائم کیا تھا۔ ان کا کردار امن قائم کرنا، شمالی سرحدوں کی حفاظت اور برطانوی مفادات کا دفاع کرنا تھا۔ کچھ رپورٹس تھیں کہ جموں کشمیر کے بھارت سے الحاق کے بعد مہاراجہ کی حکومت گلگت اسکاوٹس کو تحلیل کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔ اس ممکنہ فیصلے نے اسکاوٹس میں بے چینی پیدا کر دی اور بغاوت کی تحریک کو بڑھایا۔ گلگت اسکاوٹس نے مقامی آبادی کے لئے روزگار اور معاشی استحکام فراہم کیا تھا۔ تحلیل کرنے سے ملازمتوں کا نقصان اور مالی عدم استحکام پیدا ہوتا۔ اس عدم مساوات نے ان کے حوصلے کو پست کیا اور بغاوت میں شمولیت کے لئے آمادگی کو ہوا دی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے کردار میں وفاداری کے علاوہ معاشی عوامل بھی شامل تھے۔ براؤن کو اسکاوٹس کے ان خدشات کا علم تھا اور اس نے ان کے عزائم کو مضبوط کیا۔
یکم نومبر 1947 کو گلگت میں ہونے والی فوجی بغاوت کو ’آزادی کی جنگ‘ قرار دینا ایک سادہ تعبیر ہے،جو اس وقت موجود پیچیدہ سیاسی حرکیات اور مقاصد کو نظر انداز کرتی ہے۔ روایتی نوآبادیاتی مخالف جدوجہد کے برعکس، جو عموماً خود مختاری کے واضح نظریات کی حامل منظم سیاسی تحریکوں کے ذریعہ چلائی جاتی ہیں، میجر ولیم براؤن کی قیادت میں گلگت اسکاوٹس کے اقدامات میں ایسی سیاسی وابستگی کی کمی تھی۔ اس بغاوت کو برطانوی سامراجی مفادات کی خدمت کے لئے ایک منصوبہ بند اقدام کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے، جس کا مقصد خطے میں جغرافیائی اثر و رسوخ برقرار رکھنا اور ایک مربوط ہندوستانی ریاست کو ابھرنے سے روکنا تھا،نہ کہ اسے کوئی حقیقی آزادی کی تحریک قرار دیا جاسکتا ہے۔
گلگت اسکاوٹس نے کسی اجتماعی سیاسی شناخت یا آزادی کے نظریے کے بغیر بطور واحد منظم فوجی قوت، اپنے ذاتی مفادات میں یہ تمام تر اقدامات کیے۔ براؤن کی قیادت اور اسے مقامی آبادی کے لئے ’نجات دہندہ‘کے طور پر پیش کرنے کا تصور برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی کے خونریز ورثے کے برعکس ہے۔ اس ورثے کی مثال 1891 کی اینگلو-بروشہ جنگ کے مظالم ہیں،جہاں ہنزہ اور نگر میں مقامی آبادی کے افراد کا قتل عام، عصمت دری اور لوٹ مار کی گئی۔ کرنل الجرنن ڈورینڈ جیسے لوگوں کا چھوڑا ہوا ورثہ آج بھی مقامی آبادی کے لئے ایک خوفناک یادگار کے طور پر موجود ہے۔
یکم نومبر 1947 کے واقعات کو ’آزادی کی جنگ‘ یا’آزادی‘ کے طور پر بیان کرنا پاکستان کی سرکاری تاریخ نگاری میں تاریخی تخیل پر مبنی ہے۔ یہ بیانیہ گلگت کو ایک خود مختار علاقے کے طور پر پیش کرتا ہے، جبکہ حقیقت میں گلگت بلتستان گزشتہ سات دہائیوں سے پاکستانی حکومت کی مسلسل انتظامی محرومی کا شکار ہے۔ آزادی کے دعوے کے برعکس، گلگت بلتستان کو زیادہ تر ایک نوآبادی کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے، جہاں حکمرانی خود مختار نمائندوں یا اداروں کی نہیں بلکہ اس کا طرز حکمرانی باہر سے عائد کردہ احکامات کی عکاسی کرتا ہے،جو مقامی اتھارٹی کو اسلام آباد کے تابع رکھتے ہیں۔ 2018 کا گلگت بلتستان اختیارات اور خود مختار حکومت کا تصور عملی طور پر پاکستان کے مرکزی کنٹرول کو مضبوط کرتا ہے، جو منتخب شدہ مقامی اداروں کو کلیدی سیاسی اور انتظامی فیصلوں پر محدود اختیار دیتا ہے۔
یکم نومبر 1947 کے واقعات کو حقیقی آزادی کی بجائے ایک نظام کی تبدیلی کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ اخلاقی اور سیاسی طور پر درست مؤقف یہ ہے کہ اس بیانیے پر سوال اٹھایا جائے،جبکہ خود حکومتی اور خود مختاری کے حق کو تسلیم کیا جائے۔ خود ارادیت کا مطالبہ اس خطے کے لوگوں کا بنیادی حق ہے،جو جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کے مسائل کا احاطہ کرتا ہے، اور یہ ایک حقیقی سیاسی اختیار اور کشمیری تنازع کے وسیع تناظر میں حل کی طرف راہ ہموار کر سکتا ہے۔