حسنین بلوچ
(نوٹ: حسنین بلوچ اس وقت کراچی کی سنٹرل جیل میں قید ہیں۔ وہ 6سال قبل 16سال کی عمر میں لاپتہ ہوئے تھے، بعد ازاں ان کی گرفتاری ایک دہشت گردی کے کیس میں ظاہر کی گئی۔ 13نومبر کو حسنین بلوچ کی 22ویں سالگرہ تھی۔ ان کی جیل میں لکھی گئی شاعری قارئین کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔)
ہے قلم ہاتھ میں کسی جنگجو کی جھلک رکھتا ہوں
دل میں آگ لیے لہروں کی تڑپ رکھتا ہوں
ظلم کی آنکھوں میں دیکھوں گا غضب رکھتا ہوں
تمہیں زندانوں میں ملوں گا، شرف رکھتا ہوں
ظلم کی کوکھ میں پلتے ہوئے بغاوت کے چراغ
ہوں تجھ سے واقف میں اتنی تو خبر رکھتا ہوں
میں نہتا مگر ہاتھوں میں قلم رکھتا ہوں
ہے زمانے کا یہ کہنا میں زہر رکھتا ہوں
تجھ سے لڑتا رہوں اتنی تو سکت رکھتا ہوں
زہر کہتے جسے ہیں وہ قلم رکھتا ہوں
ہے بغاوت مجھے منظور زبان رکھتا ہوں
تجھ سے لڑتا رہوں ہاتھوں میں قلم رکھتا ہوں
علم کے ہاتھوں سماجوں میں قدم رکھتا ہوں
شعور ہاتھوں سے پلا کر میں بھرم رکھتا ہوں
یہی آلہ ہے میرا میں قلم رکھتا ہوں
تیری زنجیروں سے نکلا ہوں عقل رکھتا ہوں
حکمتِ جہد سے واقف ہوں صبر رکھتا ہوں
گر میں آگ نہیں پھر بھی تپش رکھتا ہوں
ہوں اگر بر سرِ پیکار صبر رکھتا ہوں
گر ہوں خاموش، تڑپ رکھتا ہوں
نئے سورج کو دور سے محسوس تو کر سکتا ہوں
ہو اگر دیر صبح، پھر بھی اثر رکھتا ہوں