نقطہ نظر

10 سال میں بشار الاسد نے 5 لاکھ شامی ہلاک کر دئے، کیا یہ ’سامراج مخالفت‘ ہے؟ غالیہ بدیوی

فاروق سلہریا

غالیہ بدیوی ایک ممتاز بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ ٹی وی رپورٹر ہیں۔ وہ مشرق وسطیٰ کی سیاست، دہشت گردی اور تحقیقاتی صحافت جیسے پیچیدہ مسائل پر گزشتہ دو دہائیوں سے کام کر رہی ہیں۔ اس سے قبل وہ بی بی سی اور سی بی سی (کینیڈا) کے ساتھ کام کر چکی ہیں۔ انہوں نے اپنی کیریئر کا آغاز شام سے کیا اور انہوں نے قطر، برطانیہ، کینیڈا اور امریکہ سمیت مختلف ملکوں میں کام کیا ہے۔

انہوں نے سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز(SOAS) سے’گلوبل میڈیا اینڈ پوسٹ نیشنل کمیونیکیشن‘ میں ماسٹرز کیا ہے۔ انہوں نے عرب ٹی وی چینلز کی سیاسی معاشیات پر تحقیق کی ہے۔گزشتہ روز شام کے موجودہ حالات سے متعلق ’جدوجہد‘ نے غالیہ بدیوی کا ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:

جنوری کے شروع میں،کافی سالوں بعد آپ دمشق واپس گئیں۔ اسد رژیم کے خاتمے کے بعد یہ یقینی طور پر کافی جذباتی منظر رہا ہوگا۔ ظاہر ہے یہ پیشہ وارانہ دورہ تھا، لیکن دمشق سے ہی آپ کا تعلق ہونے کی وجہ سے آپ کی ایک جذباتی وابستگی بھی ہوگی۔ ہمیں اپنے اس سفر کے حوالے سے کچھ بتائیں؟

غالیہ: 2011میں جب عرب بہار کا آغاز ہوا۔ ہم بہت بے چین اور پرجوش تھے، ہم سوچ رہے تھے کہ ہم بھی تبدیلی کا حق رکھتے ہیں۔ ہم کیوں عرب بہار میں شامل نہیں ہو رہے، ہم کیوں اپنے ملک میں تبدیلی نہیں دیکھ سکتے، تاکہ ہم اپنے معیار زندگی کو بلند کر سکیں، ٹیکنالوجی سے مستفید ہو سکیں اور پابندیوں کا خاتمہ ہو سکے۔

ہمیں یہ دیکھ کر دھچکا لگا کہ شامی حکومت نے ہمارے مطالبات کو تسلیم نہیں کیا، انہوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ اس طرح ایک پرامن انقلاب،جس میں تمام فرقوں اور مذاہب کے لوگ شامل تھے، کو حکومتی تشدد نے جنگ میں تبدیل کر دیا۔ لوگوں نے اسے انقلاب کہنا بند کر دیا، کیونکہ یہ ایک خانہ جنگی میں تبدیل ہو گیاتھا۔ انقلاب نے اپنی ساکھ کھونا شروع کر دی۔ جو انقلاب آمریت کے خلاف شروع ہوا تھا، اس میں اب مختلف کھلاڑی شامل ہوچکے تھے۔ اس انقلاب کوداعش جیسے کھلاڑیوں نے استعمال کرنا شروع کر دیا اور یہ انقلاب تتر بتر ہو کر رہ گیا۔بہت سے لوگوں نے امید چھوڑ دی اور یہاں تک کہ بین الاقوامی کمیونٹی نے بھیان ایداف پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا، جو اہداف انقلاب کے آغاز میں مقرر کیے گئے تھے۔

بہر حال بہت سے ایسے لوگ بھی تھے، جنہوں نے اس انقلاب پر یقین نہیں چھوڑا، لیکن وہ بھی ناامید ہو گئے۔ خاص طور پر اس وقت جب عرب رہنماؤں نے اسد حکومت کے ساتھ تعلقات بحال کرنا شروع کر دیے۔ انہوں نے بطور صدر مملکت ان کی اپنے ملکوں میں میزبانی کی۔ اس سب کے باوجود کہ شام میں ہلاکتوں، گرفتاریوں اور حراستوں کا ایک بہت بڑا ریکارڈ موجود تھا۔ اس طرح شامیوں نے دیکھا کہ بشار الاسد کو بطور صدر تسلیم کیا جانے لگاہے۔ یہاں تک کہ کچھ یورپی رہنما اور کچھ اعلیٰ سطح کے سفارتکار بھی ان کے ساتھ رابطے میں تھے۔ اس طرح ہم نے امید چھوڑ دی تھی۔ ہمیں لگ رہا تھا کہ شاید اب کچھ نہیں ہونے والا، یا یہ کہ اسد بہت زیادہ طاقتورہے۔ خاص طور پر کیونکہ روس اور ایران اسد کی حمایت کر رہے تھے، دیگر کھلاڑی اور اپوزیشن کمزور ہو رہے تھے۔

تاہم اچانک بے شمار وجوہات کی بنا پر، جن پر پھر کبھی بات ہوگی، 27نومبر2024کو ہم نے سننا شروع کیا کہ شامی اپوزیشن نے ادلب سے جنوب کی جانب دیگر صوبوں اور شہروں کو فتح کرنے کے لیے پیش قدمی شروع کر دی ہے۔ ہم حیران تھے۔ 28نومبر کو وہ حلب پہنچے، یہ مکمل طور پر اسد حکومت کے کنٹرول میں نہیں تھا۔ 2011سے اس کے کچھ حصوں پر حکومت اور کچھ حصوں پر اپوزیشن کا کنٹرول رہا۔ تاہم اب پورا حلب شہر اپوزیشن کے قبضے میں تھا۔ یہ ایک بڑا واقعہ تھا۔باغیوں نے جنوب کی طرف فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا۔ انہوں نے حماہ پر بھی قبضہ کر لیا۔

حماہ حکومت کے لیے ریڈ لائن تھا، اور یہ ہمیشہ سے ہی اسد حکومت کی مضبوط گرفت میں رہا۔ خاص طور پر حما ہ کی ایک خاص تاریخ بھی تھی۔ 1982 میں بشار الاسد کے والد کی حکومت میں یہاں لوگوں کا قتل عام کیا گیااور انہیں اجتماعی قبروں میں دفن کیا گیا تھا۔ اسی وجہ سے یہاں اسد حکومت کا سخت کنٹرول بھی تھا۔ حما ہ کے چھن جانے نے ہمیں حیران کر دیاتھا۔ دو دن میں انہوں نے پورے حما ہ کا کنٹرول حاصل کر لیا اور مزید جنوب کی جانب سفر شروع کر دیا۔ ہمیں اس پر یقین نہیں آرہا تھا۔

اس کے بعد جنوب کے باغیوں نے درعا سے شمال کی جانب پیش قدمی شروع کر دی۔ انہوں نے تمام اطراف سے دمشق کا گھیراؤ کر لیااور پھر اندر داخل ہو گئے۔ شامی حکومت نے کوئی مزاحمت نہیں کی اور خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا۔ سپاہیوں کو احکامات دیئے گئے کہ وہ اپنا ملٹری یونیفارم اتار دیں، اپنے ہتھیار پھینک دیں اور بھاگ جائیں، انہوں نے ایسا ہی کیا۔ ہم اس روز پوری رات نہیں سوئے۔ ہمیں یقین نہیں ہو رہا تھا۔ ہم رو رہے تھے اور ہم بہت خوش بھی تھے۔

میں ان چند لوگوں میں سے ہوں، جنہوں نے کبھی بھی شامی انقلاب پر یقین کرنا بند نہیں کیا۔ یہاں تک کہ جب داعش نے کنٹرول سنبھالا اور شامی انقلاب کو بدنام کرنا شروع کیا، تب بھی ہمارا انقلاب سے یقین نہیں ختم ہوا۔ اب ہمیں اس سب پر یقین نہیں آرہا تھا لیکن یہ سب ہمارے سامنے رونما ہو رہا تھا۔ 7دسمبر کو ہم ٹی وی کے سامنے بیٹھے تھے، اورمسلسل دیکھ رہے تھے کہ کیا ہو رہا ہے۔ پھر 8دسمبر کو جب یہ سب ہو گیا تو ہمارے جذبات منتشر تھے، ہم چیخ بھی رہے تھے، رو بھی رہے تھے اور ہنس بھی رہے تھے۔ ہم جشن منانا چاہتے تھے، باہر جا کر باقی شامی شہریوں کو دیکھنا چاہتے تھے۔

تاہم اسی لمحے میں ہم تھوڑے بہت خوفزدہ بھی تھے، کیونکہ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ سب کچھ کس طرف جا رہا ہے۔ ہمیں ڈر تھا کہ فرقہ وارانہ جنگ شروع ہو جائی گی، اقلیتوں کا قتل عام ہوگا، خانہ جنگی پھر سے شروع ہو جائے گی اور بدلے کے لیے خونریزی کا خدشہ بھی تھا۔ ہمارے ذہنوں میں ایک خوف تھا کہ خونریزی شروع ہونے والی ہے۔ ہم بدترین حالات کی توقع کر رہے تھے، پہلے دن جب باغی دمشق میں داخل ہوئے تب ہم نے ان کے ابتدائی اقدامات دیکھے حتیٰ کہ دمشق میں داخل ہونے سے قبل جب وہ حماہ میں داخل ہوئے، تو وہاں نواحی علاقے سلمیہ میں اقلیتی اسماعیلی کمیونٹی آباد ہے۔ ویڈیوزمیں ہم نے دیکھا کہ اسماعیلی خاندان یہ کہہ رہے تھے کہ انہوں نے باغیوں کا استقبال کیا اور باغی ان کی طرف ہاتھ ہلا رہے تھے۔ سب کچھ معمول کے مطابق لگ رہا تھا، کچھ بھی تشویش کا باعث نہیں تھا۔ باغی بڑی دلچسپی سے یہ پیغام پہنچا رہے تھے کہ وہ سب کا خیال رکھیں گے اور استحکام قائم کریں گے۔ وہ یہ پیغام دے رہے تھے کہ ہم بشارالاسد حکومت کا خاتمہ کرنے آئے ہیں اور قیدیوں کو رہا کرنے آئے ہیں، اسد حکومت کے جرائم کا خاتمہ کرنے اور مل کر دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے آئے ہیں۔

ہم نے دو تین دن ساری صورتحال پر نظر رکھی، کچھ بھی غلط ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔ میں یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتی تھی۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ میں شام واپس جاؤں گی۔ یہ ایک بہت بڑا فیصلہ تھا، کیونکہ یہ ابھی بہت قبل از وقت تھا۔ میں ایک امریکی ٹی وی چینل کے ساتھ کام کرتی ہوں۔ میری انتظامیہ اور یہاں تک کہ میرے منیجرز کو بھی یقین نہیں تھا کہ میرا وہاں جانا ٹھیک ہے یا نہیں، یا صحافیوں کے لیے وہاں جانا محفوظ ہے یا نہیں۔ میں نے کہا کہ مجھ پر یقین رکھیں، میں شامی ہوں۔ میں اس جگہ جا رہی ہوں، جہاں میں نے پرورش پائی۔ میں اس شہر کو بہت اچھے سے جانتی ہوں۔ میں یہ سب کچھ بہت آسانی سے کر سکتی ہوں۔جب میں نے ضد شروع کی تو انہوں نے مجھے اجازت دے دی۔ ریگولر سیفٹی پروسیجر مکمل کرنے کے بعد23دسمبر کو میں نے ابوظہبی سے دمشق کے لیے سفر شروع کیا۔

یہ میری زندگی کا ایک بہترین سفر تھا۔ 13سال بعد میں واپس دمشق جا رہی تھی۔ جب میں نے شام چھوڑا تھا تو میں واپس جانے سے خوفزدہ تھی۔ میں نے اکیلے شام چھوڑا تھااور اس وقت میری عمر 20سال کے لگ بھگ تھی۔ میں ایک مختلف شخصیت کے طور پر واپس جا رہی تھی۔ ایک ایسی شخصیت جس کا بین الاقوامی تجربہ تھا، سوائے اپنے حقیقی گھر کے بہت ساری جگہوں پر رہ چکی تھی، دو ایسے بچوں کی ماں تھی، جنہوں نے کبھی اپنا آبائی وطن نہیں دیکھا تھا۔ اس لیے یہ میرے لیے ایک یادگار اور جذباتی سفر تھا۔

صورت حال بہر حال غیر یقینی ہے۔ہمیں کچھ غیر یقینی صورتحال کے بارے میں بتائیں۔ لوگ کس طرح کے خوف میں مبتلا ہیں، کیا سوچ رہے ہیں۔ دمشق کے عوام کا رد عمل کیا ہے۔ کیا وہ پرامید ہیں؟ مجموعی طور پر صورتحال کیا ہے؟

غالیہ: جو کچھ میں نے ابھی تک دیکھا ہے، لوگ بہت پر امید ہیں اور بہت خوش بھی۔ وہ پرامید ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ انہوں نے (ماضی میں)جو کچھ دیکھا ہے وہ بہت بھیانک تھا۔ انہیں لگتا ہے کہ جو کچھ وہ دیکھ چکے ہیں اس سے زیادہ برا کچھ نہیں ہو سکتا۔اس کے ساتھ نئی حکومت بھی کچھ اچھے پیغامات دینے کی کوشش کر رہی ہے۔مجھے ملک کی تعمیر نو کے حوالے سے زیادہ نہیں معلوم۔ وہ سرمایہ کاروں کو دعوت دے رہے ہیں۔ سفارتکاروں کے علاوہ وہ تمام اقوام کے کاروباری حضرات کو دعوت دے رہے ہیں، خاص طور پر شامی کاروباریوں کو ایک واضح پیغام کے ساتھ دعوت دی جا رہی ہے کہ یہ ان کا اپنا ملک ہے، واپس آئیں اور یہاں سرمایہ کاری کریں۔ ہم آپ کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کریں گے۔

یہ بہت اہم ہے۔ جب لوگ ایسا کچھ دیکھیں گے تو یقینی طور پر وہ پر امید ہوں گے۔ ہمیں ابھی معلوم نہیں ہے کہ ایک دہائی بعد یہاں کیا ہونے والا ہے، لیکن کم از کم ابھی کے لیے جن کے لوگ حراستی مراکز میں تھے اور وہ ان کے بارے میں پوچھنے یا ان سے ملنے کے قابل نہیں تھے، ان کے مقدر کے حوالے سے انہیں کچھ معلوم نہیں تھا، اب وہ کم از کم ان کو تلاش کر رہے ہیں، یا ان سے مل چکے ہیں۔ یہ بھی ایک پرامیدی کی وجہ ہے۔ پرامیدی کی دوسری وجہ ابھی تک صرف نئی حکومت کے پیغامات ہی ہیں۔

کیا کوئی ڈریس کوڈبھی جاری کیا گیا ہے، کیونکہ ایچ ٹی ایس کی طرف سے شریعت کے نفاذ کی باتیں بھی کی جاتی رہی ہیں۔ اسد حکومت کے تمام تر مظالم کے باوجود شام کا معاشرہ کم از کم ظاہری طور پر روادار اور لبرل تھا۔ شام میں ایک ترقی پسند تحریکوں کی تاریخ بھی رہی ہے، تو کیا آپ اس بارے میں ہمیں کچھ بتا سکتی ہیں؟

غالیہ: شام کافی بڑا ہے اور سارا ملک لبرل نہیں ہے۔ یہاں قدامت پسندی اور لبرلزم دونوں رجحان مختلف سطح پر موجود ہیں۔ کچھ شہر ایسے ہیں، جہاں آپ حجاب کے ساتھ کسی لڑکی کو نہیں دیکھیں گے۔ کچھ شہر ایسے ہیں، جہاں آپ کو پورے چہرے کو حجاب میں پوشیدہ دیکھیں گے۔ مثلاً حما ہ بہت قدامت پسند ہے، ادلب میں بھی لوگ قدامت پسندی کے قائل ہیں، یہاں تک کہ دمشق میں بھی کافی حد تک قدامت پسند ثقافت موجود ہے۔ شامی انقلاب سے قبل یا 2010سے پہلے بھی دمشق میں تقریباً60فیصد لڑکیاں ایسی تھیں، جو حجاب پہنتی تھیں۔

ڈریس کوڈ نافذ کرنے کے حوالے سے البتہ ابھی تک کوئی بات نہیں ہوئی ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ آنے والے دنوں میں بھی ایسا ہو۔ کم از کم سرکاری طور پر ایسے احکامات جاری ہونا ممکن نہیں لگ رہا ہے۔

وہ یہ کہنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اس پر اثر انداز نہیں ہونگے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ویسا ہی لوگوں کو رہنے دیں گے، جیسے وہ رہنا چاہتے ہیں، لیکن احترام لازم ہے۔ جب میں وہاں گئی تو مجھے کوئی حجاب یا کچھ اور نہیں پہننا پڑا۔ یہ سردیوں کا موسم ہے، اس لیے میں نے ویسے بھی لمبی جیکٹ پہن رکھی تھی۔ بہر حال ہم دیکھیں گے کہ گرمیوں میں یہ کیسا رہے گا(قہقہہ)۔ یہ ایک بہت بڑا چیلنج بھی ہوگا، کیونکہ دمشق میں مردوں اور عورتوں کے لیے مخلوط سوئمنگ پول ہوتے تھے، ایسا ہر جگہ نہیں تھا، لیکن مخصوص جگہوں پرایسا تھا۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ اس سے کیسے نمٹیں گے، خاص طور پر ان کے سینئر رہنما، جو یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کہ وہ حقیقت پسند ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ قدامت پسند ہیں، لیکن وہ اپنا نظریہ مقامی لوگوں پر ابھی مسلط نہیں کر رہے ہیں۔

کچھ معتبر اخبارات اور عالمی خبررساں اداروں میں شائع ہونے والی ان رپورٹس کے بارے میں بتائیں، جن میں کہا گیا ہے کہ اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ آپ نے میرے ساتھ ایک نجی گفتگو میں چند دن پہلے کہا تھا کہ یہ رپورٹس ایسے صحافیوں نے لکھی ہیں، جو کبھی شام نہیں گئے۔ اس بارے میں کچھ بتائیں؟

غالیہ:میں 23دسمبر کوکرسمس سے دو روز قبل دمشق پہنچی تھی۔ میں جان بوجھ کر کرسمس کے موقع پر وہاں موجود رہنا چاہتی تھی، تاکہ چرچ میں جا کر دیکھ سکوں کہ اب یہ سب کچھ کیسے چل رہا ہے۔ میں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ میں دمشق کے سب سے بڑے چرچ میں گئی۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ سکیورٹی گارڈز پورے ملحقہ علاقے میں موجود تھے۔ وہ پوری طرح لیس تھے اور ہر آنے، جانے والے پر نظر رکھ رہے تھے۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ ہم اس علاقے کا محض تحفظ کر رہے ہیں، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ انتہائی نازک وقت تھا، لیکن کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ سکیورٹی گارڈ اس بات کو یقینی بنا رہے تھے کہ چرچ محفوظ ہیں۔ وہاں کسی قسم کی کوئی مشکلات نہیں تھیں۔ جب میں چرچ کے اندر گئی، لوگوں سے پوچھا، ارد گرد کا جائزہ لیا اور کچھ لوگوں سے انٹرویو بھی کیے۔ زیادہ تر لوگ مطمئن تھے اور کہہ رہے تھے کہ ہم اپنے مذہب پر عملدرآمد کر سکتے ہیں اور جوکچھ چاہیں کر سکتے ہیں۔ البتہ وہ ایک غیر یقینی کیفیت کا شکار ضرور تھے کہ یہ سب کچھ آگے کیسے چلے گا۔ کوئی بھی یقینی طور پر کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ تاہم نئی حکومت نے اس علاقے کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کر رکھی تھی۔ وہ ایسا کچھ بھی نہیں ہونے دینا چاہتے تھے، جس سے کوئی اپنے آپ کو خطرے میں سمجھے یا کوئی مسئلہ پیدا ہو۔

کرسمس کی شام سے ایک روز قبل حماہ میں کچھ لوگوں نے کرسمس ٹری کو جلانے کی کوشش کی تھی، اس وجہ سے ایک بہت بڑا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا۔ کچھ لوگ احتجاج کرتے ہوئے گلیوں اور سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ اس لیے حکومت یہ یقینی بنا رہی تھی کہ ایسا کوئی واقعہ مزید نہ پیش آئے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ اس کے ساتھ نمٹ سکیں۔ اب وہ کوشش کر رہے ہیں کہ جو خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، ان پر قابو پایا جائے۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ خلاف ورزیاں بڑے پیمانے پر ہیں، یا چھوٹے پیمانے پر، لیکن یقینی طو رپر کچھ ایسی چیزیں ہیں، جو ہم دیکھتے ہیں۔ ایسے لوگ ہیں، جن کے پاس ہتھیار ہیں، انہیں وہ دھمکانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ (نئے حکام)اس کا کیا حل نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں، یامستقبل میں کیا ہوگا۔ حکومت تو کہہ رہی ہے کہ تمام ہتھیار حکومت کے حوالے کیے جائیں اور حکومت کے علاوہ کوئی ہتھیار نہیں اٹھا سکے گا۔ کچھ لوگوں نے ہتھیار جمع نہیں کروائے۔ حکومت کے لوگ ایسے علاقوں میں جا رہے ہیں اور ہتھیار جمع کر رہے ہیں۔ کچھ بدلے اور رد عمل کے واقعات بھی ہو رہے ہیں۔ تاہم ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پچھلے 10سالوں میں یہاں کے لوگو ں نے بہت کچھ دیکھا ہے۔

یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ جو کچھ ہو رہا ہے اسے معاف کر دیا جائے، لیکن رہنما کہہ رہے ہیں کہ بدلہ لینا درست نہیں ہے اور اگر کسی نے ایسا کیا تو اس کو سزا دی جائے گی۔ یہ بنیادی اصول طے کیا گیا ہے۔

کردوں کے سوال کے طرف آتے ہیں۔ بظاہر ایچ ٹی ایس، یا شامی حکومت اور کردوں کے مابین تعلقات موجود ہیں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ تاہم ترکی کی حمایت یافتہ ملیشیا کے ساتھ تنازعات اب بگڑتے جارہے ہیں۔ کیا آپ ہمیں بتا سکتی ہیں کہ اس بارے میں دمشق میں لوگ کیا سوچ رہے ہیں؟

غالیہ: عام طور پر جب شامی یہ سنتے ہیں کہ کرد علاقوں میں کیا ہو رہا ہے تو ان کے ذہن میں سب سے پہلے یہ بات آتی ہے کہ وہ ہمارے ملک کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں، جو قابل قبول نہیں ہے۔ اسی طرح وہ سوچتے ہیں کہ وہ علاقہ یا شام کا وہ حصہ تیل کے ذخائر سے مالا مال ہے، اس کے علاوہ ’الحساکاہ‘کا علاقہ گندم کی پیداوار کے حوالے سے بہت زرخیز ہے۔ اسے پورے شام کی خوراک کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے زمین کا ایسا حصہ ہونے کی وجہ سے یہ بہت متنازع ہے۔ اس کے علاوہ شامی حکومت نے لوگوں کو وفاقی حکمرانی کا مطلب نہیں سمجھایا، نہ ہی سکولوں میں یہ اصطلاح سکھائی جاتی ہے۔ اس لیے یہاں لوگوں کے لیے یہ بہت عجیب ہوتا ہے، جب وہ ایسا سنتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کرد اپنا ملک چاہتے ہیں۔ وہ ہمارے وسائل لینا چاہتے ہیں۔ یہ خوش آئند ہے کہ کرد رہنما نئی حقیقتوں سے آگاہ ہو رہے ہیں۔ وہ نئے نتائج کی بنیاد پر اپنے مذاکرات کی بنیاد رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب بھی شامی حکومت کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے کہ آیا انہیں کرد فوج کے طور پر شامی فوج کا ایک حصہ بننا چاہیے، یا شامی فوج کے اندر ضم ہوجانا چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ مذاکرات کا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور نئی حکومت اس معاملے کے ساتھ حساس طریقے سے ہی نمٹ رہی ہے اور اسے اہمیت بھی دے رہی ہے۔ انہیں کسی وقت درمیانی حل تک پہنچ جانا چاہیے۔ مجھے نہیں لگتا کہ نئی حکومت ان کے حقوق کو اسی طرح کم کرنے والی ہے، جیسے صدام، اسد یا اردگان نے کیا۔

دو طرح کے باہم جڑے سوالات ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو مختلف قسم کے میڈیا کے ذریعے شام کو دیکھ رہے ہیں۔ پہلا سوال بین الاقوامی طاقتوں کے بارے میں ہے۔ خاص طور پر امریکہ، روس اور پھر کچھ علاقائی ممالک مثلاً اسرائیل، ترکی، سعودی عرب اور قطر اہم کھلاڑی ہیں اور یقینا ایران بھی۔ تو کیا آپ شام میں عالمی گریٹ گیم کے بارے میں بات کر سکتی ہیں؟ اس سے جڑا دوسرا سوال یہ ہے کہ مثال کے طور پر پاکستان میں بالخصوص،لیکن ایک طرح سے بین الاقوامی سطح پر بائیں بازو کے وہ طبقے جو کئی بار اچھی پوزیشنیں بھی لیتے ہیں، لیکن وہ شامی انقلاب کی مخالفت بھی کرتے رہتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اسد حکومت امریکہ اور اسرائیل مخالف ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح شاید پاکستان سمیت کچھ دیگر مسلم ملکوں میں بھی فرقہ وارانہ بنیادوں پر لڑائی کو دیکھا گیا ہے، جیسے اسد کو ایران کی حمایت حاصل ہے کیونکہ وہ شیعہ ہے وغیرہ۔ آپ ان سوالوں اور تنقیدوں کا کیا جواب دیں گی؟

غالیہ: یہ حیرت انگیز ہے کہ ہم ابھی طاقتوں کی تبدیلی کو کس طرح دیکھتے ہیں۔ دو ماہ قبل ایران محسوس کر رہا تھا کہ شام اس کا اپنا ملک ہے۔ اس کی سرزمین کا حصہ ہے اور اب ایسا نہیں رہا۔ یہاں تک کہ روس نے بھی اپنی پوزیشن تبدیل کر لی ہے۔ روس نے 2015سے شامی حکومت کی بھرپور حمایت کی تھی۔ روس کی حمایت کے بغیر یہ حکومت اتنی دیر تک قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ اب یہ واضح ہے کہ روس نے گزشتہ چند سالوں میں اسد حکومت کے بارے میں امید کھو دی تھی۔

میں اس وقت اسد حکومت کے خاتمے کے پیچھے موجود سیاسی وجوہات پر ایک دستاویزی فلم پر کام کر رہی ہوں۔ میں نے بہت سے ماہرین اور ان کے قریبی لوگوں سے انٹرویو کیے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے اس نکتے پر اتفاق کیا کہ بشارالاسد سے متعلق روس کو ہر طرح کی امید ختم ہو گئی تھی، کیونکہ 2018سے روس زور دے رہا تھا کہ مزید شامیوں کو ساتھ ملایا جائے، حزب اختلاف کے ساتھ بات چیت کی جائے، بین الاقوامی قرارداد2254سے اتفاق کیاجائے، لیکن اسد حکومت ایسا کرنے پر متفق نہیں تھی۔ لہٰذا روس نے آہستہ آہستہ محسوس کیا کہ یہ ایک ہاری ہوئی بازی ہے اور اس میں مزید سرمایہ کاری نہیں کرنی چاہیے۔ روس نے متبادل کی تلاش شروع کر رکھی تھی۔ ترکی نے بتایا کہ کچھ لوگ ہیں جو یہ کر سکتے ہیں اور اس پر سارے رضامند ہو گئے۔ یوں بشارالاسد اکیلے رہ گئے اور انہوں نے ملک چھوڑ دیا۔

یہ کس نے کہا کہ اسد حکومت امریکہ مخالف تھی؟ سب سے پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ کیا اب امریکہ مخالف ہونا واقعی پریکٹیکل ہے؟ اور وہ امریکہ مخالف کیوں ہونگے؟

مزاحمت کا نظریہ یا مزاحمتی محور جو ایران نے بنایا تھا، اب پوری طرح تبدیل ہو رہا ہے۔ جولان کی پہاڑیوں کے شام کے کچھ حصے کئی دہائیوں سے اسرائیل کے قبضے میں تھے، ان کی واپسی کے لیے اسد حکومت نے کیا کیا؟ محض باتیں ہی کی گئیں کہ وہ انہیں واپس حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اسرائیل قبضہ گیری بڑھا رہا تھا اور بڑھا رہا ہے۔ گزشتہ سال وہ دمشق کے اندر اور پورے ملک کے اندر بمباری کر رہا تھا، لیکن اسد حکومت نے کچھ کرنے کی ہمت نہیں کی۔ نہ صرف اسد حکومت بلکہ ان کے اتحادیوں نے بھی کچھ نہیں کیا۔

میں سمجھتی ہوں کہ دو چیزیں ہیں، اگر نئے لوگ ایران کی حکومت کے ماتحت نہیں ہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے ساتھ نہیں ہیں۔ اس کا فلسطینیوں، ہمارے پڑوسیوں اور انسانیت میں ہمارے بھائیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ فلسطینیوں کا معاملہ شفاف ہے اور یہ ہمارا معاملہ ہے، بلکہ ہماری گذشتہ،موجودہ اور آنے والی نسلیں فلسطین کے بارے میں جانتی ہیں۔ مسئلہ فلسطین بشارالاسد حکومت، ایران اور مزاحمت کے محور کی جارہ داری نہیں۔

دوسری بات ہمیں امریکہ مخالف کیوں ہونا چاہیے؟ کس نے کہا کہ وہ اس سب میں فاتح ہے؟ ہم کیوں اس اہم نکتے پر متفق نہیں ہوتے کہ ہم امن سے رہنا چاہتے ہیں؟

تیسری بات شامی عوام پچھلی ایک دہائی میں واقعی بہت تھک چکے ہیں۔ میں یہاں کچھ اعداد و شمار بتانا چاہوں گی، کیونکہ لوگ واقعی نہیں جانتے کہ شام میں کیا ہوا ہے۔ وہ بس دیکھ رہے کہ اتحادی چلے گئے اور نئے لوگ آگئے ہیں۔ بشار الاسد نے شامی انقلاب پر 2011سے فاتح ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ شامی آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ اس نے 2011سے اب تک 5لاکھ سے زائد لوگوں کے قتل کو ڈاکو منٹ کیا ہے۔ 12سال کے عرصے میں 6لاکھ اموات کی تصدیق ہوئی ہے۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق رجسٹرڈ شامی پناہ گزینوں کی کل تعداد55لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے، جبکہ داخلی طور پر بے گھر افراد کی تعداد60لاکھ سے زائد ہے۔ یہ آبادی کا نصف ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق 12.1ملین یا نصف سے زائد شامی آبادی خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہے۔ اس طرح شام دنیامیں غذائی عدم تحفظ کی سب سے زیادہ شرح والے 6ملکوں میں شامل ہے۔

پچھلے ہفتے ایک ٹی وی چینل پر ایک رپورٹ آئی تھی، جس میں شام کے وسائل پر بات کی گئی تھی۔ اس میں شام کا موازنہ خطے میں وسائل کے حوالے سے ایک بہت دولت مند ملک کے طور پر کیا گیا تھا۔ یہ وہ سب کچھ ہے جو اب ختم ہو چکا ہے اور بدلے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد، تقریباً1لاکھ 12ہزار افراد، جبری طور پر لاپتہ ہو گئے۔

کیا یہ سب امریکہ مخالفت تھی؟ کچھ تو غلط ہو رہا ہے۔ یہ مت سوچیں کہ شامی اب فلسطینی بھائیوں کے ساتھ کھڑے نہیں ہونگے۔ یہ بالکل ایک الگ بات ہے، اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک گمراہ کن خیال ہے۔ یہ ان لوگوں اور حکومتوں کی طرف سے پھیلایا گیا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کے محافظ ہیں۔

میں جب چھوٹی تھی تو ایک ایرانی فیمینسٹ سے ملاقات ہوئی، وہ لندن میں اپوزیشن کا حصہ تھیں۔میں نے ان سے پہلی بات یہ پوچھی کہ وہ فلسطینی لوگوں کے بارے میں کیا سوچتی ہیں؟ کیونکہ ہمارے ذہنوں میں ہے کہ اگر آپ’امریکہ مخالف‘ نہیں ہیں تو پھر آپ کو فلسطینیوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ وہ خاتون مکمل طور پر فلسطینیوں کے ساتھ تھیں، مکمل طور پر انسانیت کے ساتھ، جرائم کے خلاف اور اسرائیلی بستیوں کے خلاف تھیں۔ یہ وہ سب کچھ ہے جس پر ایرانی حکومت فلسطینیوں کے معاملے میں لوگوں کو کو قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ اگر آپ اس کے ساتھ نہیں ہیں تو آپ انسانیت کے دشمن ہیں، یہ درست نہیں ہے۔

(تدوین: حارث قدیر)

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔