آتش خان
پرانے زمانے میں دیوتاؤں کی خوشنودی کے لیے انسانوں کی قربانی دی جاتی تھی اور قربان ہونے والے انسانوں سے ان کی منشا نہیں پوچھی جاتی تھی۔اسی طرح پاکستان کا حکمران طبقہ عالمی مالیاتی سرمائے کے دیوتاؤں (آئی ایم ایف) کی خوشنودی کے لیے مزدوروں کی مرضی کے بغیر مسلسل ان کو قربان کر رہا ہے۔پاکستان کا حکمران طبقہ ہمیشہ معاشی بحران کی وجہ سے محنت کش عوام سے مزید قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے،لیکن بحران میں اپنی مرعات میں کمی کے بجائے مزید اضافہ کرتا جاتا ہے۔اخراجات میں کمی اور کفایت شعاری کے نام پر محنت کشوں کی پنشن میں کمی کی جا رہی ہے اور بتدریج پنشن اور مستقل روزگار کے خاتمے کا منصوبہ ہے۔
پاکستان کی وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے دوران پنشن نظام میں مزید تبدیلیاں کر دی ہیں۔وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق یکم جنوری 2025 سے پنشن آخری 2 سال کی اوسط تنخواہ کی بنیاد پر مقرر کی جائے گی، اس سے قبل سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر آخری بنیادی تنخواہ کے مطابق پنشن مقرر کی جاتی تھی۔ نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ صرف ایک پنشن لی جا سکے گی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق ریٹائرمنٹ کے وقت والی پنشن بیس لائن پنشن تصور ہو گی، جس کا ہر تین سال بعد پے اینڈ پنشن کمیٹی جائزہ لے گی۔اس سے پہلے گزشتہ برس ستمبر میں وفاقی حکومت نے نئی پنشن سکیم متعارف کروائی تھی جس کے تحت ملازم پنشن کے لیے بنیادی تنخواہ کا 10 فیصد ادا کرے گا اور حکومت بنیادی تنخواہ کا 20 فیصد ادا کرے گی۔ نئی اسکیم یکم جولائی 2024 کے بعد بھرتی ہونے والے سول ملازمین پر لاگو ہو گی،جبکہ فوج کے یکم جولائی 2025 کے بعد بھرتی ہونے والے ملازمین پر لاگو ہو گی۔
وفاقی حکومت نے اپنے اداروں اور ذیلی وزارتوں میں رائٹ سائزنگ کے ذریعے ڈیڑھ لاکھ آسامیوں کو ختم کر دیا ہے۔حکومت نے رائٹ سائزنگ کے نام پر ایک منصوبہ بنایا ہے جس کے تحت 24 اداروں کی نجکاری اور کچھ محکموں کی بندش شامل ہے۔ان اداروں میں قومی ائیر لائن پی آئی اے، روزویلٹ ہوٹل، فرسٹ وومن بینک، یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن اور دیگر شامل ہیں۔اس کے علاوہ صوبائی سطح پر تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کی نجکاری کا عمل بھی تیزی سے جاری ہے۔صرف پنجاب میں 13 ہزار سکولوں کی نجکاری کی جا رہی ہے۔صحت اور تعلیم کے اداروں سمیت دیگر اداروں کی نجکاری سے جہاں لاکھوں محنت کش بے روزگار ہوں گے،وہاں محنت کش عوام جو پہلے ہی علاج اور تعلیم کی سہولیات سے محروم ہیں ان پر تعلیم اور صحت کے دورازے مکمل بند ہو جائیں گے۔
دوسری طرف اسپیکر قومی اسمبلی نے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں میں 140فیصد اضافے کی سفارشات وزیر اعظم کو بھجوا ئیں،اورممبر قومی اسمبلی اور سینیٹر کی تنخواہ و مراعات 5 لاکھ 19 ہزار مقرر کرنے کی منظوری بھی دے دی گئی ہے۔ اس وقت رکن پارلیمنٹ کی تنخواہ 2 لاکھ 18 ہزار روپے ماہانہ تھی، جبکہ وفاقی سیکرٹری کی تنخواہ اور الاؤنسز 5 لاکھ 19 ہزار ماہانہ ہیں۔ اب اراکین پارلیمنٹ کو بھی وفاقی سیکرٹری کے مساوی سہولیات حاصل ہونگی۔
اس سے قبل پنجاب اسمبلی میں اسپیکر، وزرا، مشیران کی تنخواہوں میں لاکھوں روپے اضافے کا بل منظورکیا گیا۔ 16 دسمبر 2024 کو پنجاب اسمبلی میں عوامی نمائندگان کی تنخواہوں پر نظر ثانی بل 2024 منظور کیے جانے کے بعد ایم پی اے کی تنخواہ 76 ہزار سے 4 لاکھ روپے اور وزیر کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھا کر 9 لاکھ 60 ہزار کر دی گئی تھی۔اسی طرح ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی تنخواہ ایک لاکھ 20 ہزار روپے سے بڑھا کر 7 لاکھ 75 ہزار روپے کردی گئی تھی۔ پارلیمانی سیکرٹری کی تنخواہ 83 ہزار روپے سے بڑھا کر 4 لاکھ 51 ہزار جبکہ وزیر اعلیٰ کے مشیر کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر 6 لاکھ 65 ہزار روپے کردی گئی تھی۔وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی کی تنخواہ بھی ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر 6 لاکھ 65ہزار روپے کی گئی تھی۔
بظاہر مخالف نظر آنے والی بڑی سیاسی پارٹیاں اپنے طبقاتی مفادات کے لیے ایک نظر آتی ہیں۔ان کی آپسی لڑائیاں نظریات کی بنیاد پر نہیں ہیں،بلکہ قتدار اور لوٹ مار میں حصہ داری کی لڑائیاں ہیں۔تمام بڑی پارٹیوں کا نیو لبرل مزدور دشمن معاشی پالیسوں پر اتفاق ہے۔تنخواہوں اور مراعات کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ سمیت دیگر جماعتیں ہم آواز ہیں، پی ٹی آئی کے 67 اراکین نے بھی تنخواہوں میں اضافے کا تحریری مطالبہ کیا تھا۔روس انقلاب کے قائد لینن نے کہا تھاکہ ”عوام سیاست میں ہمیشہ دھوکہ دہی اور خود فریبی کا بیوقوفانہ حد تک شکار رہے ہیں، اور وہ ہمیشہ رہیں گے، تا وقت یہ کہ وہ اخلاقی، مذہبی، سیاسی اور معاشرتی اعلانات اور وعدوں کے پیچھے کسی نہ کسی طبقے یا دوسروں کے چھپے مفادات کو تلاش کرنا نہ سیکھ لیں۔“
مشہور کہاوت ہے کہ ”ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دیکھانے کے اور۔“یہ کہاوت حکمران طبقے بالخصوص سابق نوآبادیاتی ریاستوں کے حکمران طبقے پر صادق آتی ہے۔یہ حکمران طبقات محنت کش عوام کو ایک طرف قوم پرستی، جب الوطنی،ملکی سالمیت اور دفاع کے لیے جان کی قربانی سمیت ہر قسم کی قربانی کا درس دیتے ہیں،دوسری طرف یہی حکمران سامراجی طاقتوں کے اشاروں پر اپنے ہی ہم وطن محنت کشوں پر براہ راست جنگوں،دہشت گردی، ریاستی جبر سے لے کر معاشی جبر تک مسلط کرنے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔پاکستانی حکمران طبقہ تاریخی طور پر اس قدر پسماندہ اور نااہل ہے کہ اس کا کام معاشی پالیساں بنانا نہیں بلکہ آئی ایم ایف جیسے سامراجی اداروں کی بنائی ہوئی معاشی پالیسوں پر عمل درآمد کروانا ہوتا ہے۔یہاں حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں معاشی پالیساں تبدیل نہیں ہوتی ہیں۔قرض حکمران لیتے ہیں ان قرضوں کا سود محنت کشوں کا لہو نچوڑ کر ادا کیا جاتا ہے۔ یوں منافع سامراجی اداروں کا ہوتا ہے اورکمیشن مقامی حکمرانوں کا۔
معاشی اصطلاحات کے نام پر آئی ایم ایف کی جو پالیساں لاگو کی جاتی ہیں وہ معیشت کی بحالی کی بجائے مزید بربادی کا باعث بنتی ہیں۔ کہنے کو تو آئی ایم ایف کی شرائط پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے نافذ کی جاتی ہیں لیکن عملاً اپنے قرضوں کی واپسی کے لیے محنت کشوں پر مزید ٹیکس لگا کر ان کو مہنگائی کی دلدل میں دھکیلا جاتا ہے۔توانائی کی قیمتوں میں اضافہ پہلے سے بحران کا شکار صنعت کی بندش کا باعث بن رہا ہے۔قومی اداروں کی نجکاری کے ذریعے بیروزگاری کا عذاب نازل کیا جاتا ہے۔حکمران ملک کو دیوالہ ہونے سے بچ جانے کے شادیانے بجا رہے ہیں، جبکہ دوسری طرف کروڑوں محنت کش دیوالہ ہو چکے ہیں اور سطح غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ہر بار حکمران قرض لینے کے بعد کشکول توڑ دینے کے دعوے کرتے ہیں، وہی دعوے پھر کچھ عرصے بعد دہرائے جاتے ہیں اور مزید قربانی دینے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔
آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے لیا ہوا قرض محنت کشوں کی فلاح یا ملکی ترقی کے لیے نہیں خرچ کیا جاتا ہے،بلکہ یہ قرض پرانے قرض کا سود ادا کرنے پر خرچ ہوتا ہے۔پاکستان کے بجٹ کا 70 فیصد قرضوں کی ادائیگی کی نظر ہو جاتا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے یہ جو قرض ماضی میں لیا گیا تھا وہ کہاں خرچ ہوا ہے؟ کیا اس قرض سے نئی صنعت لگائی گئی؟ روزگار کے مواقع پیدا کیے گئے؟محنت کش عوام کو جدید تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کی گئیں؟ انفراسٹرکچر تعمیر کیا گیا؟ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو محنت کش عوام ایسے قرض کا سود ادا کرنے پر کیوں پابند ہوں، جو نہ انہوں نے لیا ہے اور نہ ہی ان پر خرچ ہوا ہے؟محنت کشوں کی تنظیموں کو مطالبہ کرنا چاہیے کہ ماضی میں جو قرضہ لیا گیا ہے اس کا آڈٹ کروایا جائے۔وہ پیسہ کہاں خرچ ہوا ہے،اس کی وضاحت کی جائے۔
حکمران محنت کشوں پر مسلسل معاشی حملے کرتے رہے ہیں۔ان حملوں پر ردعمل نہ ہونے کی وجہ سے وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ محنت کش طبقہ مر چکا ہے،اب یہ نہیں اٹھے گا۔محنت کش طبقے کی برداشت کو کمزوری اور خاموشی کو رضامندی سمجھ لیا گیا ہے،لیکن برداشت کی بھی حد ہوتی ہے۔حکمرانوں کی طرف سے حالیہ دنوں میں کیے جانے والے معاشی حملوں نے محنت کشوں کی برداشت کی حد عبور کر دی۔قومی اداروں کی نجکاری، پنشن اصلاحات کے نام پر پنشن میں کٹوتی، ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی اور لیو انکیشمنٹ میں کی جانے والی تبدیلیوں کے خلاف ملک بھر میں لاکھوں محنت کش سڑکوں پر نکل آئے اور حکمرانوں کو باور کروایا کے محنت کش طبقہ ابھی زندہ ہے۔ماضی میں آئی ایم ایف کی پالیسوں کے خلاف بکھری ہوئی تحریکیں جاری تھیں، جواب یکجا ہو رہی ہیں۔سرکاری ملازمین کی تنظیموں کے اتحاد’آل گورنمنٹ ایمپلایز گرینڈ الائنس‘ نے مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں 10 فروری کو اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔
سرمایہ دارنہ نظام کی موجودہ کیفیت میں حکمرانوں کے محنت کشوں پر حملوں میں مزید اضافہ ہو گا، جس کے خلاف بغاوتوں اور تحریکوں میں شدت آئے گی۔اس وقت محنت کشوں کے مطالبات پہلے سے موجود حقوق کے تحفظ تک محدود ہیں۔نجکاری کے خلاف تحریک اگر شدت اختیار کرتی ہے تو یہ رائج نظام کی حدود سے آگے نکل کر آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کے قرضوں سے انکار، اور تمام بڑی صنعتوں، بینکوں اور زمینوں کو قومی تحویل میں لیتے ہوئے محنت کشوں کے جمہوری کنڑول کی طرف بڑھ سکتی ہے۔آئی ایم ایف کی سامراجی پالیسوں اور معاشی حملوں سے نجات محنت کشوں کے اپنے اقتدار میں ہی ممکن ہے۔