سماجی مسائل

وارث

ازکیٰ بتول

دوپہر کا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ آج کا دن جون کے باقی گرم دنوں میں سب سے زیادہ گرم تھا۔ وقفے وقفے کے بعد ہلکی سی ہوا چلتی لیکن اس قدر گرم ہوتی کہ ہر آنے جانے والے کا چہرہ جھلس جاتا۔ ہمیشہ کی طرح آج کی دوپہر بھی اس قدر سنسان تھی کہ دور دور تک کہیں کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔وقتاً فوقتاً کھیتوں کے درمیان بنے ہوئے کچے راستے سے سائیکل سوار گزرتے جنہوں نے اپنے چہروں کو دھوپ کی شدت سے بچانے کےلئے ڈھانپ رکھا تھا۔ کریم دین اپنے چہرے کے پسینے کو سر پر بندھے کپڑے سے صاف کرتا ہوا گھر کی طرف دوپہر کا کھانا کھانے جا رہا تھا۔ یوں تو اس کی بیوی روزانہ اس کے لیے کھانا لے آتی تھی لیکن کچھ دنوں سے وہ بیمار تھی اس لئے وہ خود ہی گھر کھانا کھانے چلے جاتا۔ اس کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں تھیں۔ لڑکا تو سارا دن جوئے بازی کرتا یا اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ عیاشیاں کرتا اور بیٹیاں جن میں ایک کی عمر 13 سال اور دوسری کی عمر 11 سال تھی وہ دونوں یا تو سارا دن گھر میں کام کرتیں یا پھر اپنی سہیلیوں کے ساتھ گھر کے آس پاس ہی کھیلتی رہتیں۔ کریم دین کے گھر کے حالات بھی کچھ اچھے نہ تھے۔ گھر کا گزارہ بھی بہت مشکل سے ہوتا تھا۔ کریم دین کو اپنے بیٹے کی فکر ہوتی لیکن وہ اسے جوانی سمجھ کر نظر انداز کر دیتا۔
کریم دین کے کہنے پر وہ چوہدری کے ڈیرے پر تھوڑا بہت کام کرتا لیکن وہاں سے ملنے والی آمدنی جوئے پر لٹا دیتا۔ کریم دین لکڑی کا دروازہ کھول کر مٹی سے بنے ہوئے اپنے گھر میں داخل ہوا۔ اس کی بیوی پروین اسے دیکھتے ہی پانی کا گلاس لے آئی۔ اس نے پانی پیتے ہی سب سے پہلے رحیم دین کا پوچھا۔
” ےہ رحیما کدھر ہے؟“
”صبح ہوتے ہی اپنے دوستوں کے ساتھ نکل گیا تھا آتا ہی ہو گا“
پروین گلاس لے کر دوبارہ چولہے کی طرف چلی گئی۔ رابعہ بھاگتی ہوئی کریم دین کے پاس آئی۔
”ابا! ابا مجھے سکول جانا ہے“ رابعہ بہت معصومیت سے اپنی خواہش کر رہی تھی۔ اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ ےہ بات کہتے ہی اسے اپنے ابا کی کتنی ڈانٹ برداشت کرنا پڑے گی۔
”سکول؟ تجھے کس نے بتایا سکول کے بارے میں؟ ادھر آ!“ اس نے رابعہ کو جھنجھوڑا۔“ خبردار اگر تم نے آج کے بعد سکول کا نام بھی لیا تو…لڑکیاں سکول نہیں جاتیں ورنہ خراب ہو جاتیں ہیں۔ سکول لڑکوں کے لئے ہوتے ہیں لڑکیاں گھر بیٹھتی ہیں۔“
”کیوں ابا؟“ کریم دین کے سخت لہجے کے باوجود رابعہ کا سوال پوچھنا اس کی سکول جانے کی خواہش کی شدت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔“ آگے سے سوال کرتی ہے؟ خبردار جو آگے سے زبان چلائی تم نے۔ چل بھاگ ےہاں سے ”کریم دین کے سخت لہجے نے رابعہ کا دل توڑ دیا تھا۔ وہ اپنے باپ کی طرف مایوسی اور حسرت سے دیکھ رہی تھی۔ اپنے باپ کی آنکھوں میں خود کےلئے حقارت دیکھ کر وہ وہاں سے بھاگ جانے پر مجبور ہو گئی۔
سلام ابا! رحیم دین نے گھر داخل ہوتے ہی کہا۔
”و علیکم السلام! آ گیا میرا شیر پتر آ جا! ادھر آمیرے پاس ۔“ رحیم دین کریم دین کی چارپائی پر بیٹھ گیا۔
مجھے تجھ سے بہت ضروری بات کرنی ہے پتر۔
ہاں بول ابا!
میں نے چودھری جی سے بات کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ تمہارے لیے کوئی چھوٹے موٹے کام کا بندوبست کر دے گا۔ تو کل چلے جانا۔
او مجھے نہیں جانا کسی کام وام پے صبح بہت ضروری کام ہے مجھے۔ کل نہیں جا سکتا کسی اور دن چلا جاﺅں گا۔
چل ٹھیک اے میرا پتر جیسے تیری مرضی۔
اگلے دن رحیم دین صبح ہوتے ہی گھر سے نکل گیا۔ آج اس کے اور دوسرے لڑکوں کے درمیان بڑا مقابلہ تھا۔ ےہ مقابلہ چار لڑکوں کے درمیان تھا۔ مقابلے کے لیے بوہڑ کے درخت کا انتخاب کیا گیا۔ مقابلہ تو چار بجے شروع ہونا تھا۔ لیکن رحیم اپنے دوستوں کے ساتھ عیاشیاں کرنے صبح سویرے ہی گھر سے نکل گیا تھا چار بجتے ہی تمام لڑکے بوہڑ کے درخت تلے جمع ہو گئے جہاں مقابلہ کھیلنے والے چار لڑکوں کے علاوہ دو اور لڑکے بھی تھے جو محض مقابلہ دیکھنے کی غرض سے آئے تھے کیونکہ وہ جوئے میں سب کچھ لٹا چکے تھے اور اب ان کے پاس دینے کو کچھ نہ تھا۔ اس لیے وہ تاش کے پتوں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ اس مقابلے کی اہمیت رحیم دین اور ناصر کی شمولیت تھی۔ ناصر کی عمر تقریباً 37 سال تھی جبکہ رحیم دین 29 سال کا تھا۔ لیکن یہ دونوں بچپن سے ہی ایک دوسرے کے حریف تھے۔ آج کا کھیل باقی مقابلوں کی طرح پیسوں کا نہیں بلکہ انا کا کھیل تھا۔ کھیل شروع ہونے سے پہلے دونوں نے ایک دوسرے کو بھوکے شیر کی نظروں سے دیکھا تھا جو اپنے شکار کو پانے کےلئے بے تاب ہو۔ کھیل کے آغاز کے ساتھ ان دونوں کی تو تو میں میں بھی شروع ہو چکی تھی۔ لیکن کھیل کا اختتام ہونے ہی والا تھا کہ ناصر نے رحیم دین پر دھاندلی کا الزام لگا دیا۔ ناصر کو اپنی ہار کا یقین ہو چکا تھا۔ اب وہ ہار سے بچنے کےلئے اونچے ہتھکنڈوں پر اتر آیا۔ رحیم دین غصے کا تیز اور جوشیلا انسان تھا۔ ناصرکی زبان سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ کے ساتھ اس کی برداشت ختم ہو رہی تھی۔ اب یہ کھیل تصادم کی صورت اختیار کر رہا تھا۔ رحیم نے ناصر سے جوئے کی رقم کا مطالبہ کیا جسے ناصر نے دینے سے صاف انکار کر دیا۔ اس کے انکار نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ دونوں طرف سے سخت تلخ کلامی ہوئی۔ رحیم دین نے ناصر کا گریبان پکڑ لیا۔ ناصر بھی پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہ تھا۔ اب ان کے درمیان تلخ کلامی ہاتھا پائی میں تبدیل ہونے لگی۔ باقی لڑکوں نے بیچ بچاﺅ کروانے کی کوشش کی لیکن بے سود۔ ان دونوں کی زبان کے ساتھ ساتھ ان کے ہاتھ بھی چل رہے تھے۔ ناصر رحیم دین کو گالیاں دینے پر اتر آیا جسے سن کر وہ سیخ پا ہو گیا۔ وہ آوارہ ضرور تھا لیکن آج تک اس کی زبان پر گالی نہ آئی تھی۔ اس نے ناصر کی بدکلامی پر اس قدر زور سے گھونسا مارا کہ اس کے منہ سے خون بہنا شروع ہو گیا۔ ناصر رحیم کے مقابلے میں قدرے کمزور تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اب وہ رحیم کے بازوﺅں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ رحیم کو تڑپانا اس کی انا کا مسئلہ بن چکا تھا۔ اس لیے اس نے اسے ہروہ بات کہنا شروع کر دی جس سے اسے تکلیف پہنچتی۔ اس مقصد کے حصول کے لئے اب وہ رحیم کو کبھی ساری زندگی دوسروں سے مانگ کر کھانے کے طعنے دینے لگا تو کبھی اس کی ماں کے ذلت آمیز ماضی کے جسے سن کر رحیم کے سینے میں آگ لگ گئی ۔ اب اس کا قتل رحیم کے کھوئے ہوش و حواس کے مطابق اس پر واجب تھا۔ اس نے طیش میں آکر اسے دھکا دے کر گرا دیا اورکسی ایسی چیز کی تلاش کرنے لگا جسے استعمال کر کے اس کے اندر لگی آگ بجھ سکتی۔ اس نے آس پاس دیکھا تو قریب ہی ایک پتھر پڑا نظر آیا۔ اس وقت اس کی حالت غصے کی زد میں آئے ہوئے درندے کی سی ہو گئی تھی۔ اس نے وہ پتھر اٹھایا اور ناصر کے سر پر اس قدر زور سے مارا کہ پتھر لگتے ہی ناصر کی زور دار چیخ کے ساتھ اس کی آواز ہمیشہ کےلئے بند ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی ہفتہ کا خوفزدہ سورج غروب ہوا اور اس بد قسمت دن کا اختتام ہوا جس کے ہولناک اثرات آنے والے دنوں میں سب پر عیاں ہونے تھے۔ ناصر کی زندگی کا چراغ گل کرتے ہی رحیم بہادری کا تغمہ اپنے ضمیر پر سجائے گھر آیا۔ لیکن جب اس نے اپنے بے قابو ہوش و حواس پر قابو پایا تو اسے سمجھ آگیا تھا کہ وہ کونسا کھیل کھیل کے آیا ہے۔ اس لیے موقع ملتے ہی فرار ہو گیا ۔ وہ موقع سے تو فرار ہو سکتا تھا لیکن اپنی تقدیر میں لکھے فیصلوں سے نہیں۔رستے میں ہی وہ پولیس کی ہتھکڑی کا شکار ہو گیا۔ ناصر ایک زمیندار کا بیٹا تھا۔ مالی حالات بھی اچھے تھے۔ وہ دو ہی بھائی تھے جبکہ ان کی بہن غیرت کے نام پر قتل کی جا چکی تھی ۔وہ بھی باقی لڑکیوں کی طرح اپنے گھر کی نام نہاد غیرت کی بھینٹ چڑھ گئی تھی۔ ناصر کا بڑا بھائی ایک نشئی تھا جس کی عمر 48 سال تھی۔ وہ غیر شادی شدہ تھا۔ کیونکہ گاﺅں کا کوئی شخص بھی اسے اپنی بیٹی دینے کےلئے تیار تھا۔ ان کی ماں کا بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ قتل کی خبر ملتے ہی ناصر کے والد مشتاق نے پولیس کو اطلاع کر دی تھی۔ اس کے پولیس کے ساتھ اچھے مراسم تھے جس کی وجہ سے گرفتاری میں زیادہ تاخیر نہ ہوئی۔ قتل والے دن ہی رحیم کو گرفتار کرکے جیل پہنچا دیا گیا تھا۔ رحیم کی گرفتاری کی خبر کریم دین پر قیامت بن کر ٹوٹی۔ پہلے تو وہ اسے ملنے جیل گیا اور پھر اس کے مشورے پر ناصر کے والد کے پاس آیا ۔خوب ہاتھ پاﺅں جوڑے، معافیاں مانگیں، منتیں کیں کہ یہ معاملہ پنچایت میں اٹھایا جانا چاہیے۔ لیکن مشتاق نے صاف انکار کر دیا۔ آخر وہ مایوسی کے عالم میں چوہدری کے پاس آگیا۔ وہ جاتے ہی چوہدری کے پاﺅں پڑ گیا۔ چوہدری کے پوچھنے پر اس نے سارا واقعہ سنا دیا۔ چوہدری نے بات سنتے ہی فوراََ پوچھا :  ” کرےمے ! تو اب مجھ سے کیا چاہتا ہے۔”
” چوہدری صاحب ! آپ کی بہت مہربانی ہوگی آپ مشتاق کو راضی کریں کہ وہ پنچایت بلائے ۔ جو بھی فیصلہ ہوگا میں قبول کرلوں گا جی ۔ آپ بس اسے کسی طرح آمادہ کر دیں۔ میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں۔ ”
” چل ٹھیک اے کریمے ۔میں مشتاق کو راضی کردوں گا تو فکر نہ کر لیکن اس کے بدلے میں تمہیں مجھے۔۔۔
” آپ جو کہیں گے میں وہ کر وں گا۔ بس آپ کسی طرح میرا کام کر دیں۔ بڑا احسان ہوگا جی آپ کا۔”
تو پھر ٹھیک اے تو سمجھ کہ تیرا کام ہو گیا۔ چل جا اب جا کے پنچائیت کی تیار کر۔
چوہدری کی بات سنتے ہی کریم دین کے چہرے کی پریشانی میں نمایاں کمی آئی۔ اس نے شکریہ ادا کیا اور گھر آگیا اگلے دن ہی کریم کو مشتاق کی آمادگی کی خبر مل گئی۔ جرگے کےلئے بدھ کا دن مقرر کیا گیا۔ مشتاق نے تھانے میں صلح کی درخواست دے دی تھی اور رحیم دین کو پنچائیت سے ایک دن پہلے رہا کر دیا گیا تاکہ اس کی شمولیت کو یقینی بنایا جا سکتا۔بدھ کا دن سورج بڑے بوجھ کے ساتھ طلوع ہوا ۔ایسا لگ رہا تھا جیسے اسے کسی چیز کی پریشانی تھی۔ آسمان کی سرخی بھی اس کے اندر لگی آگ کی شدت کا مظاہر تھی۔ نیلے آسمان پر کالی بدلیاں جمع ہو رہی تھیں گویا کہ پنچائیت کے فیصلہ کا انتظار کر رہی ہو ۔ مشتاق اور کریم دین کے پنچائیت کی طرف بڑھتے ہوئے قدم زمین کا سینہ چیر رہے تھے۔ اس وقت زمین پر بڑھتے ہوئے قدم زمین کےلئے بڑا بوجھ تھے۔ گاﺅں کا چوہدری ، مشتاق، کریم دین اور رحیم دین بوہڑ کے نیچے جمع تھے جہاں رحیم دین نے گناہ سرزد کیا تھا اور اسی جگہ پر اس کے گناہ کی سزا کسی اور کو دی جانی تھی۔ پنچائیت کا سر پنچ چوہدری کو منتخب کیا گیا ۔ دونوں حریفوں کے بیانات سنے گئے۔ بلا شعبہ قصور رحیم دین ہی کا تھا اس لیے اس کی سزا یقینی تھی۔ چوہدری نے مشتاق کو صلح کی شرائط رکھنے کا کہا۔ مشتاق کے اندر بدلے کی جو آگ بھڑک رہی تھی اس کے شعلے صرف بدلہ ہی بجھا سکتا تھا۔ اس کی ایک ہی شرط تھی وہی شرط جس نے آج تک کئی پھولوں کو مسلا ہے اور نہ جانے کتنے پھولوں کو مسلے گی۔ وہی شرط جس کے قبول کرنے پر کئی کلیاں مر جھا گئیں اور مر جھاتی رہیں گی۔ وہی شرط جس پر عمل ہونے سے کئیوں کی زندگیاں گلزار سے خاربن گئیں اور بنتی رہیں گیں۔ مشتاق کی رکھی ہوئی شرط سن کر کریم دین اور رحیم دین ایک لمحے کےلئے خاموش بیٹھے رہے لیکن ےہ خاموشی ان کے ضمیر کو جھنجھوڑنے میں کامیاب نہ ہو سکی اور انہوں نے شرط قبول کر لی۔ ان کی رضا مندی کے ساتھ ہی بجلی کے زور دار چمکنے کی آواز آئی اور اندھیرا چھانے لگا ۔رحیم اپنی جیت کی خوشی منانے اپنے دوستوں کے ساتھ نکل گیا اور کریم دین نے گھر آکر پنچائیت کا فیصلہ پروین کو بتا دیا۔
آپ ےہ کیا کہہ رہے ہےں؟ رابعہ بہت چھوٹی ہے ابھی اور وہ آدمی جانتے تو ہےں آپ اسے وہ تمہاری عمر کا ہے اور ہے بھی نشئی۔
سب پتہ ہے مجھے زیادہ پڑھا نہ مجھے ۔ ارے شکر کر کہ تیرے بیٹے کی جان بچ گئی ہے ورنہ اب بیٹھ کر رو پیٹ رہی ہوتی۔ احسان ہے ان کا ۔
ےہ کیسا احسان ہے ان کا جو ہماری بچی کی زندگی تباہ کر دے۔ آپ سمجھ کیوں نہیں رہے کہ ۔۔۔
سب سمجھ رہا ہوں میں سمجھ تو نہیں رہی اور انہوں نے کیا دینا ہے ہمیںآج نہیں تو کل رخصت ہو جائیں گی۔ سہارا تو ہمارا بیٹے نے بننا ہے اور ویسے بھی جیسے جیسے ےہ بڑی ہوتی جائیں گی جہیز کا خرچ بڑھتا جائے گا۔
لیکن ۔۔۔
لیکن ویکن کچھ نہیں۔ اگلے جمعہ نکاح ہے۔ تم نے جو تیاری کرنی ہے کر لو یہی میرا آخری فیصلہ ہے۔ 
کریم دین پروین کی سنے بغیر ہی اٹھ کر چلا گیا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اپنی بیٹی پر کونسا ظلم ڈھانے جا رہا ہے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ وہ اس ظلم کو ظلم نہیں سمجھتا تھا۔ شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ رابعہ کو سب بتا دیا گیا لیکن ےہ سب اس کے لئے باعث صدمہ نہ تھا کیونکہ وہ اس ظلم کا مطلب سمجھنے سے قاصر تھی۔ وہ تو اس بات سے خوش تھی کہ اس کے لیے نئے جوڑے سلوائے جار ہے تھے۔ اس کےلئے چوڑیاں، جوتیاں اور مہندی خریدی جارہی تھی وہ اسی میں خوش تھی کہ وہ دلہن بنے گی ،ڈھیر سارا میک اپ کرے گی جو اس کے والد نے کرنے کی بھی اجازت نہ دی تھی۔ یہی تو وہ دن تھا جب اسے اپنی خواہشوں کو پورا کرنا تھا اور شاید یہی دن اس کی زندگی کا آخری دن تھا کیونکہ اس کے بعد اسے جو زندگی ملنی تھی اسے وہ گزار سکتی تھی لیکن جی نہیں سکتی تھی۔ جمعہ کا سورج شرم سے نگاہیں جھکائے طلوع ہوااور شدت سے جلنے لگا گویا سب کچھ جلا کر راکھ کر دیگا۔ لیکن اسوقت جو چیز راکھ ہو رہی تھی وہ رابعہ کی زندگی تھی، اس کی خوشیاں ،اس کی مسکراہٹ تھی۔ نکاح ہو گیا۔ رخصتی کا وقت ہو گیا۔ یہ رابعہ کی طرف اپنے میکے سے نہیں بلکہ زندگی کی خوشیوں سی رخصتی تھی۔ اس کا خوشیوں بھرا بچپن کسی کے گناہ کے کفارے میں کانٹوں کا گہوارہ بننے جا رہا تھا۔ وہ رخصت ہو گئی۔ اس کے رخصت ہوتے ہی اےسے لگا کہ دنیا کا انصاف رخصت ہو گیا یا شاید وہ پہلے ہی رخصت ہو چکا تھا ورنہ آج رابعہ کی رخصتی نہ ہوتی۔ رابعہ کی رخصتی کو دو ہفتے ہو گئے تھے۔ اس کے مخمل جیسے ہاتھ اب کئی زخموں اور نشانوں سے مخمل نہیں رہے تھے۔ اپنے نشئی، بوڑھے اور ظالم شوہر سے مار کھانا اس کا معمول تھا۔ چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر ڈنڈوں سے مارکھانا اس کے لئے نیا نہیں تھا۔ حقیقت تو ےہ ہے کہ وہ اپنے شوہر کے آنے سے پہلے ہی خود کو تشدد کےلئے ذہنی طور پر تیار کر لیتی۔ شادی کے بعد کی ذمہ داریوں تلے دبی وہ کلی مرجھا چکی تھی۔ دو دو مہینوں بعد اپنی ماں سے ملتی تو اپنے دکھوں کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کرتی۔ چیختی چلاتی رہتی کہ وہ اس جہنم میں دوبارہ نہیں جانا چاہتی لیکن ہمیشہ اپنی ماں سے مجازی خدا اور گھر بسانے کا سبق لیے گھر لوٹ جاتی۔ اس نے اپنی مختصر زندگی سے کئی تجربات سیکھ لئے تھے۔ کیونکہ تجربے سیکھنے کےلئے عمر کی ضرورت نہیں پڑھتی۔ رابعہ کو حاملہ ہوئے 7 ماہ ہو چکے تھے۔ اس کا ہر دن جس اذیت سے گزرتا تھا وہ صرف اس کو معلوم تھا کیونکہ اتنی چھوٹی عمر میں وہ اتنی بڑی ذمہ داری نبھانے کے قابل نہ تھی اور اس کی اذیتوں میں اضافہ وہی شخص کرتا جو اس اذیت کی وجہ تھا۔ امجد ہمیشہ کی طرح آج بھی نشے کی حالت میں گھر پہنچا لیکن آج اس کی حالت پہلے سے زیادہ خراب تھی۔ گھر پہنچتے ہی اس کے کہنے پر رابعہ نے اس کو کھانا دیا۔ امجد کو کھانے میں نمک زیادہ محسوس ہوا۔ اس نے کھانا پھینک دیا اور اب رابعہ کے بھگتنے کی باری تھی۔ امجد نے کبھی اس کی حالت کی، اس کے درد کی فکر نہ کی تھی۔ اس نے اس رات اسے بہت مارا وہ بہت چلائی۔ امجد نے اسے اس قدر زور سے دھکا دیا کہ وہ میز سے ٹکراتی ہوئی نیچے جا گری۔ اس کے منہ اور پیشانی سے خون بہنے لگا ۔وہ درد سے چلائی۔ امجد تو کمرے میں جا کر سوگیا لیکن رابعہ کی چیخ سن کر مشتاق آیا اور رابعہ کی حالت دیکھ کر اسے ہسپتال لے آیا۔ رابعہ کے گھر والوں کو اطلاع دے دی گئی تھی لیکن وہاں نہ امجد موجود تھا اور نہ ہی رحیم دین جن کےلئے رابعہ کی خوشیوں کو قربان کیا گیا۔ رابعہ آپریشن تھیٹر میں تھی۔ ڈاکٹر نے گھر والوں کو پری میچورڈلیوری کے بارے میں بتا دیا تھا۔ ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے باہر آئی۔ 
” سوری ہم آپ کے مریض کو نہیں بچا سکے۔ البتہ ہم آپ کی پوتی کو بچانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ لیکن اس کی کم عمری اور خراب حالت کا بچی پر بہت اثر ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ معذور ہے۔” ڈاکٹر رابعہ کی والدہ کو حوصلہ دے کر چلی گئی۔
” ارے اس معذور کو کیا کرنا ہے ہم نے۔ خود تو چلی گئی اسے ہمارے سر پر تھوپ گئی۔ بہتر ہوتا اسے بھی لے جاتی ۔ایک وارث بھی پیدا نہ کر سکی۔ مشتاق کہتا ہوا ہسپتال سے باہر نکل آیا۔باہرکی تاریکی میں مزید اضافہ ہو چکا تھا۔

Roznama Jeddojehad
+ posts