خبریں/تبصرے

ٹارزن کی واپسی اور بھیڑیوں کا راج!

قیصر عباس

پیارے بچو! ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ٹارزن نے جنگل چھوڑ کر واپس وطن جانے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن جانے سے پہلے بھیڑیوں نے وعدہ کیا کہ وہ اچھے بچوں کی طرح زندگی بسر کریں گے اور تمام چرندوں پرندوں سے اچھا سلوک کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پہلے کی طرح وحشی نہیں رہے، اب وہ جنگل کے باسیوں کا احترام کریں گے اور انہیں شکار نہیں کریں گے۔ پھر یوں ہوا کہ…!

بچوں کی تمام کہانیوں کا اختتام ایک خوش آئند مستقبل کی امید پر ہوتا ہے لیکن افغانستان کے بچوں اور بچیوں کے لئے اس قسم کی کوئی کہانی ان کا خوف اور بے یقینی کم کرنے میں مدد گار ثابت نہیں ہو سکتی۔ اس بدقسمت قوم نے سامراجی تسلط کے بیس سال صرف اس امید پر گزارے کہ شاید ان کے برے دن ختم ہو جائیں صرف یہ دیکھنے کے لئے کہ ان کے منتخب بیشتر رہنما ملک سے فرار ہوچکے ہیں، ان کی فوج نے لڑے بغیر ہتھیار ڈال دئے ہیں اور کابل کی گلیوں میں ایک بار پھر مسلح طالبان کی اجارہ داری قائم ہو چکی ہے۔

پیر کو صدر بائیڈن نے قوم سے خطاب کیا اور افغانستان کے حالیہ بحران کی ذمہ داری افغان فوج اور حکومت پر ڈالتے ہوئے کہا کہ انہیں یقین نہیں آتا کہ وہ فوج جسے برسوں کی تربیت اور مالی مدد کے ذریعے تشکیل دیا گیا تھا اتنی جلدی بغیر لڑے میدان چھوڑ جائے گی۔

ان کا کہنا تھاکہ ”امریکی فوجیوں کو کسی ایسی جنگ میں حصہ نہیں لینا چاہئے اور اپنی جانیں نہیں ضائع کرنا چاہئیں جس میں افغان فوج حصہ نہ لے۔ ہم نے ٹریلین ڈالرز خرچ کئے۔ ہم نے 300,000 افغان فوجیوں کی تربیت کی اور انہیں اسلحے سے لیس کیا۔ اس فوج کی تعداد کئی نیٹو ملکوں کی فوجوں سے زیادہ ہے۔ یہی نہیں ہم نے ان کوتنخواہیں دیں، ان کی فضائیہ کو مستحکم کیا جو طالبان کے پاس نہیں ہے اور انہیں ہر قسم کی سہولیات فراہم کیں۔ ہم نے انہیں اپنے مستقبل کی تعمیر میں ہر طرح سے مدد کی۔“

افغانستان سے اپنی فوج کے انخلا کے فیصلے کو صحیح حکمت عملی قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ قوم کے ٹیکس دہندگان کے ڈالرز کو فوجی مہمات میں استعمال کرنے کے بجائے ملک کی ترقی کے لئے صرف کریں گے۔

ادھر سیاسی پنڈت اور امریکہ کے مین سٹریم میڈیا حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ رات کی تاریکی میں بگرام ائرپورٹ چھوڑنے، طالبان سے ایک متنازعہ معاہدے کے بعد امریکی اور اتحادی فوجوں کے فوری انخلا اور افغان حکومت کی ناکامی پر کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کیا یہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی نہیں ہے کہ انہیں حالات کا صحیح تجزیہ اور ان کی تربیت یافتہ افغان سکیورٹی فورس کی کارگردگی کا پیشگی اندازہ نہیں ہو سکا؟ کیا فوجی انخلا کے بعد امریکی عملے کی حفاظت کے لئے مزید فوج کی تعیناتی حکومت کی بد انتظامی اور نااہلیت کی نشانیاں نہیں؟

یہ صدر بائیڈن ہی تھے جنہوں نے کچھ دنوں پہلے کہا تھا کہ افغانستان کی ترقی اور استحکام امریکہ کی ذمہ داری نہیں ہے لیکن کیا افغان کے شہری یہ سوال کرنے میں حق بجانب نہیں ہیں کہ ملک پر قابض غیر ملکی افواج نے افغانستان کی حکومت، معیشت اور سماجی ڈھانچے کو جو نقصان پہنچایا ہے کیا وہ اسے پورا کرنے کے ذمہ دار نہیں ہیں؟

امریکہ نے نائین الیون کے فوراً بعد افغانستان میں اپنی فوجیں اس مقصد کے لئے اتاری تھیں کہ وہ ملک سے القاعدہ کا خاتمہ کرے گا جس نے نیو یارک میں حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ فوجی قبضے کے تقریباً دس سال بعد اسامہ بن لادن کا خاتمہ کیا جا سکا۔ اسی دوران افغانستان میں جمہوریت کے قیام کے لئے منصوبہ بندی شروع کی گئی اور انتخابات کے بعد دو حکومتوں نے باگ ڈور سنبھالی۔

اس طرح جمہوریت کی بنیاد ایک ایسے معاشرے میں ہنگامی بنیادوں پر رکھی گئی جو صدیوں سے قبائلی روائتوں، نسلی گروہ بندیوں اور علاقائی چپقلشوں میں گرفتار تھا۔ جس معاشرے میں تعلیم کی کمی، جغرافیائی دشواریاں او ر مواصلات کا نظام تک نہ ہو وہاں چند سالوں میں جمہوریت کے قیام کی امید کو ناعاقبت اندیشی کے علاوہ کچھ اور نہیں کہا جا سکتا۔ جمہوری نظام وہ پودا نہیں ہے جس کے بیج باہر سے لا کر کسی نامانوس سرزمین میں بوئے جا سکیں اور بہتر فصل کی امید کی جا سکے۔

یہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ طالبان کی داغ بیل میں پاکستان، امریکہ، سعودی عرب اور اتحادیوں کا ہاتھ تھاجنہیں سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کے طور پر استعمال کیا گیا۔ امریکی قبضے کے خلاف جب یہی طالبان میدان میں اترے تو انہیں دہشت گرد کا نام دیا جانے لگا۔ اب نئے حالات میں امید کی جا رہی ہے کہ پاکستان نئی طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں بھی پیش پیش ہو گا اور شاید چین، روس اور دوسرے وسطی ایشیائی ممالک بھی اس دوڑ میں پیچھے نہ رہیں۔

پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے تو طالبان کو مبارکبا د بھی دے ڈالی اور وزیراعظم عمران خان نے، جنہیں ایک زمانے میں طالبان خان بھی کہا جاتا تھا، یہ بیان بھی داغ دیا کہ افغانستان غلامی کی زنجیریں توڑ کر آزاد ہو گیا ہے۔ انہیں شاید وہ زمانہ یاد نہیں جب ”برے طالبان“ پاکستان میں آئے دن قتل و غارت کا بازار گرم رکھتے تھے۔ معصوم بچوں اور شہریوں کو خودکش حملوں کا نشانہ بنایا جاتا تھا جو اب بھی محدود پیمانے پر جاری ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ طالبان کی افغانستان میں واپسی کے بعد اس کے مضر اثرات پاکستان پر نہیں ہوں گے؟

اس ساری بحث میں ان افغانیوں کا کوئی ذکر نہیں ہوتا جنہوں نے پرائی جنگ میں اپنی جانیں گنوائیں، جن کی بڑی تعداد غربت اور کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کر رہی ہے، جن کی بچیاں خوف کے سائے میں جوان ہو رہی ہیں اور جن کے بچے تعلیم حاصل کرنے کے بجائے بندوقیں سنبھالے تشدد کی تربیت حاصل کر رہے ہیں!

افغانستان کی ایک جرات مند خاتون ملالئی جویا نے، جنہیں ملک کے بااثر اور ظالم جنگجو رہنماؤں پر مسلسل تنقید کے بعد پارلیمان کی رکنیت سے محروم کر دیا گیا تھا، نے 2010ء میں شائع کی گئی ایک کتاب "The Case for Withdrawal from Afghanistan” میں کہا تھا:

”آج میرے ملک کے ا ٹھارہ ملین باشندے دو ڈالر روزانہ سے بھی کم آمدنی پر گزارہ کر رہے ہیں۔ ہرات اور غور کے صوبوں میں مائیں اپنے بچوں کو دس ڈالر میں بیچنے پر بھی تیار ہیں کہ وہ انہیں بھوکا نہیں دیکھنا چاہتیں۔ یہ وہ چند مثالیں ہیں جن کا ذکر مین سٹریم میڈیا میں نہیں کیا جاتا۔“

یہ صورت حال آج بھی اسی طرح درست ہے جس طرح تقریباً ایک دہائی پہلے تھی لیکن پاکستان کے رجعت پسند حلقے، بااثر انتظامیہ اور طاقتور لشکر شاہی اب بھی ان حقیقتوں سے اسی طرح بے نیاز ہے جس طرح پہلے تھی!

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔