قیصر عباس
حسن نعیم (1991-1927ء) بیسویں صدی کے ان ترقی پسند شعرا میں شامل تھے جنہوں نے انجمن تر قی پسند مصنفین کی نظریاتی اساس کواپنے فن سے جلا بخشی۔ ان کی شاعری اگرچہ اپنے ماحول اور اس کے لوگوں کے مسائل کی نشاندہی کر رہی تھی لیکن اس روش نے ان کے کلام کے جمالیاتی اور فنی نکھار کو کبھی کم نہیں کیا۔ ان کی شاعری کے دو مجموعے ’اشعار‘ اور ’دبستان‘ اپنے دور کی شاعری کا یہی منفرد انداز لئے ہوئے ہیں۔
نظریاتی رداوں میں لپٹی نظموں کے علاوہ حسن نعیم کو رومانوی غزلوں میں بھی کمال حاصل تھا۔ ترنم، روانی اور وارداتِ عشق کا سچا اظہار ان کی غزلوں کے بنیادی ستوں تھے:
قصیدہ تجھ سے، غزل تجھ سے مرثیہ تجھ سے
ہر ایک حرف ہوا صاحب نوا تجھ سے
ان کا تعلق پٹنہ، بہار سے تھا۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے تو سکولوں میں پڑھاتے رہے پھر سرکاری ملازم کی حیثیت سے کئی محکموں میں خدمات انجام دیں۔ 1968ء میں ملازمت سے ریٹائر ہو کر غالب انسٹیٹیوٹ کے ڈائرکٹر مقرر ہوئے۔
نظمیہ انداز میں لکھی گئی ان کی غزل ”انقلاب آئے گا دوست“ آزادی کے پانچ سال بعد شائع ہوئی تھی جس میں وہ دیرپا سماجی تبدیلی کو ہی اصلی آزادی سے تعبیرکرتے ہیں۔ وہ جوش، فیض، کیفی اعظمی، مجروح سلطان پوری اور دوسرے ہم عصر ترقی پسند شعراکے انقلابی شعو رکو استوار کرتے ہوئے غریبوں، کسانوں اور مزدوروں کے حالات کی بہتری کو زندگی کا ماحصل سمجھتے ہیں۔ تقریباً ستر سال گزرجانے کے باوجودان کا یہ کلام آج بھی تازہ ہے اور اکیسویں صدی کے مسائل ہی کی ترجمانی کرتا دکھائی دیتاہے:
ظلمتیں چاہیں نہ چاہیں آفتاب آئے گا دوست
اعتبار آئے نہ آئے انقلاب آئے گا دوست
وقت کے عارض کا غازہ آج ہے جس کا لہو
کل وہی محفل میں آزادِ نقاب آئے گا دوست
اس کا کیا غم آج گرمغموم ہے، بے چین ہے
کل سکوں دل کو بقدر ِاضطراب آئے گا دوست
ر ہ گزر افکار کی ہے، آج ماتھے کی شکن
کل اسی رستے پہ چل کر میرا خواب آئے گا دوست
ہر تبسم، ہر نگہ، ہر لمحہ مانگے گا خراج
زندگی میں ایک دن روزِ حساب آئے گا دوست
کوئی کچھ بھی آج کہہ لے مسکراوں گا ابھی
مطمئن ہوں آنے والا بے نقاب آئے گا دوست
عرش وکرسی یہ نہیں، جو حکم سے بن جائے کام
یہ زمیں ہے، رفتہ رفتہ انقلاب آئے گا دوست
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔