نقطہ نظر

تحفظ کے نام پر ’صحافی‘ کی تعریف ہی تبدیل کر دی گئی ہے: عون جعفری

حارث قدیر

عون جعفری کہتے ہیں کہ پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کیلئے تیار کئے گئے ’پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز بل‘ میں فوٹو جرنلسٹ، ویڈیو جرنلسٹ اور سب سے اہم ایڈیٹر کو بھی صحافی کی کیٹیگری سے نکال کر میڈیا پرسنز کی کیٹیگری میں ڈال دیا گیا ہے۔ تحفظ کی بجائے اب ہمیں اپنی شناخت حاصل کرنے کا مسئلہ درپیش آ چکا ہے۔ عون جعفری لاہور سے تعلق رکھنے والے معروف فوٹو جرنلسٹ ہیں، قبل ازیں پاکستان کے مختلف نجی ٹی وی چینلوں کے ساتھ خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ آج کل فری لانس فوٹو جرنلسٹ کے طورپر کام کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز ’جدوجہد‘ نے ان کا ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:

’پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز بل‘سے کس نوعیت کی تبدیلیاں ہونگی اور آپ کا اعتراض کیا ہے؟

عون جعفری: یہ بل تو کافی تفصیلی ہے، جسے صحافتی تنظیموں کیساتھ مل کر مرتب کیا گیا ہے۔ صحافیوں کے تحفظ اور کریمنل چارجز وغیرہ کیلئے انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور سرکاری عہدیداران پر مشتمل کمیٹی بنائی جائیگی، جو مختلف مسائل کے حوالے سے اقدامات اٹھائے گی۔ اس سے قبل صحافیوں کو کسی قسم کا کوئی تحفظ میسر نہیں تھا، اب امید ہے کہ کچھ بہتری ہو گی، اس بل میں کافی ساری باتیں ایسی ہیں جو بہتر ہیں۔ تاہم اس بل کی تیاری میں ہمیں لگتا ہے مالکان کو زیادہ تحفظ دیا گیا ہے۔ ہمیں تحفظات ہیں اور ہمارے تحفظات دور نہ ہوئے تو احتجاج اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے سے گریز نہیں کرینگے۔

صحافی کی تعریف میں کیا تبدیلی کی گئی اور اس کے کیا نقصانات ہیں؟

عون جعفری: بل کے آغاز میں لکھا گیا ہے کہ کسی بھی میڈیم کے ذریعے سے کوئی معلومات دینے والا صحافی ہوتا ہے۔ تاہم جب ازالے اور معاوضے کی بات آتی ہے تو صحافیوں اور میڈیا پرسنز کو الگ الگ کر دیا جاتا ہے۔ فوٹو جرنلسٹ، ویڈیو جرنلسٹ اور سب سے اہم ایڈیٹروں کو میڈیا پرسن قرار دیا گیا ہے اور ان کیلئے کسی قسم کا کوئی معاوضہ و ازالہ نہیں طے کیا گیا ہے۔ پوری دنیا میں صحافی کی ایک ہی تعریف ہے، فوٹو جرنلسٹ، ویڈیو جرنلسٹ اور ایڈیٹرز کو صحافی ہی قرار دیا جاتا ہے، لیکن یہاں صحافیوں کے ایک بڑے حصے کو صحافیوں کی فہرست سے ہی نکال دیا گیا ہے۔ رپورٹرز اور نمائندے تو پہلے ہی بہت ساری مراعات لے رہے ہیں، انہی کو مزید سہولیات فراہم کی گئی ہیں، جو نظر انداز صحافی تھے انہیں اس میں صحافی ہی نہیں سمجھا گیا ہے۔ لوگوں نے چالیس چالیس سال اس ملک میں اس شعبہ کو دیئے ہیں، انہیں سرکاری اور پرائیویٹ ایوارڈز مل چکے ہیں، یہ سب ایوارڈز اور اعزازات انہیں بطور صحافی خدمات انجام دینے پر دیئے گئے ہیں۔ آج حکومت نے انہیں صحافی ماننے سے ہی انکار کر دیا ہے۔ جو سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں ان کے تحفظ پر غور نہیں کیا جا رہا تو پھر یہ کیسی تحفظ کی پالیسی ہے۔ اس طرح پہلے سے ہی خطروں میں کام کرنے والوں کو مزید خطرات میں جھونک دیا گیا ہے۔

صحافی کی تعریف کے علاوہ بھی اس بل میں کوئی مسئلہ موجود ہے، یا ایک ہی مسئلہ ہے؟

عون جعفری: ایک تعریف کا ہی مسئلہ نہیں اور بھی بہت سارے مسائل ہیں۔ تاہم تعریف کا مسئلہ سب سے اہم اس لئے ہے کہ جب صحافیوں کی کثیر تعداد کو صحافی ہی نہیں سمجھا جائے گا تو پھر ان کے تحفظ کیلئے اقدامات پر بحث کیسے ہو سکے گی۔ اس کے علاوہ اس بل میں نوکریوں کے تحفظ کیلئے کسی طرح کے اقدامات پر بات نہیں کی گئی ہے۔ صحافیوں کو کئی کئی ماہ تنخواہیں ادا نہیں کی جاتیں، صحافی خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اکثر ادارے تنخواہیں ادا کئے بغیر ہی نوکریوں سے برطرف کر دیتے ہیں۔ کچھ بڑے ادارے ڈاؤن سائزنگ کے دوران ایک یا دو ماہ کی تنخواہیں ادا کرتے ہیں لیکن اکثریت ایسا نہیں کرتی ہے۔ اس حوالے سے مالکان کو کسی طرح کی تنبیہ نہیں کی گئی ہے۔ مالکان کو پابند کیا جانا چاہیے کہ نوکری سے برطرفی کیسے کی جا سکتی ہے، مستقل نوکریوں کے حوالے سے اقدامات کے علاوہ تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کو یقینی بنانے اور انتقامی کارروائیوں سے محفوظ رکھنے کیلئے اقدامات شامل ہونے چاہئیں۔ اب ویج بورڈ لاگو ہو رہا ہے۔ بڑے اداروں نے تو یہ لاگو کرنا شروع کر دیا ہے۔ جب فوٹو اور ویڈیو جرنلسٹ یا ایڈیٹر صحافیوں میں شامل نہیں ہونگے تو اس سے مالکان کو فائدہ اور صحافیوں کو نقصان ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں لگتا ہے کہ اس بل کو مالکان کے تحفظ کیلئے تیار کیا گیا ہے۔

دوران رپورٹنگ صحافیوں کو کس نوعیت کے خطرات ہیں، جن سے تحفظ فراہم کیا جانا ضروری ہے؟

عون جعفری: رپورٹنگ اور کوریج کے دوران صحافیوں کو بے شمار چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سب سے زیادہ نشانے پر ہمیشہ فوٹو جرنلسٹ رہتا ہے کیونکہ اسے وقوعہ کے بالکل قریب رہ کر تصاویر حاصل کرنا ہوتی ہیں، اسی طرح ویڈیو جرنلسٹ، ٹیکنیکل سٹاف کو اپنی جان خطرے میں ڈال کر حادثات وغیرہ کو کور کرنا پڑتا ہے۔ رپورٹر یا نمائندے کسی حد تک وقوعہ سے وقفے پر رہ کر بھی کام کر سکتے ہیں۔ ابھی تک اس صورتحال میں تحفظ فراہم کرنے کیلئے کوئی اقدامات تو نہیں کئے گئے، نہ ہی حادثات میں ہونے والے نقصان کا کوئی ازالہ یا معاوضہ ادا کیا گیا ہو۔ ہمیں یہ سب اپنی ہمت پر ہی کرنا ہوتا ہے، فوٹو جرنلسٹ کیلئے اور مشکل کام یہ بھی ہوتا ہے کہ اسے اکثر جگہوں پر کیمرہ کے ہمراہ جانے ہی نہیں دیا جاتا اور ایسے حالات میں جب صحافی کے ساتھ کوئی ناروا سلوک ہوتا ہے، اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس کا ازالہ کرنے کیلئے کوئی قانون سازی نہیں ہوتی۔ اس طرح بے شمار ایسے مسائل ہیں جن کو ایڈریس کیا جانا چاہیے۔ تاہم سب سے پہلے ہماری پہچان تو ہمیں دی جائے، اس حکومت اور کمیٹی کے پاس مینڈیٹ کہاں سے آیا کہ وہ عالمی طور پر مسلمہ تعریف ہی تبدیل کر دیں۔ جو سب سے زیادہ جان جوکھوں میں ڈال کر خدمات سرانجام دیتے ہیں انہیں تحفظ فراہم کرنے کی بجائے انہیں صحافی قرار دینے سے ہی انکار کر دینا سراسر ظلم ہے۔

عالمی صحافتی تنظیموں نے بھی اس معاملہ پر کوئی بات کی ہے، یا ان سے کوئی رابطہ کیا گیا ہے؟

عون جعفری: عالمی سطح پر تو ظاہر ہے صحافتی تنظیموں کو رابطہ کرنا پڑے گا، لیکن ایسا ابھی تک نہیں کیا گیا، انہیں آن بورڈ لینے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ یہ فی الوقت تعریف کا مسئلہ ہے اور یہ مقامی مسئلہ ہے۔ عالمی سطح پر صحافی کی ایک ہی مسلمہ تعریف ہے، اسے پاکستان میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ ہم مقامی میڈیا اداروں سے بھی کام کرتے ہیں اور عالمی اداروں کے ساتھ بھی کام کرتے ہیں۔ ہر ادارے میں فوٹو جرنلسٹ کو صحافی ہی کہا جاتا ہے۔

صحافتی تنظیمیں تقسیم نظر آ رہی ہیں، اس معاملہ سے نمٹنے کیلئے ابھی تک کیا حکمت عملی اپنائی گئی ہے؟

عون جعفری: یہ بات درست ہے کہ صحافتی تنظیمیں بے شمار گروپوں میں تقسیم ہیں اور آپس میں دست و گریباں ہیں۔ تاہم اس معاملے پر اب تمام ہی صحافتی تنظیمیں آواز اٹھا رہی ہیں۔ پی ایف یو جے، فوٹو جرنلسٹس ایسوسی ایشن، کیمرہ مین ایسوسی ایشن کے لوگوں کا لاہور میں اجلاس ہوا ہے۔ راولپنڈی اسلام آباد فوٹو جرنلسٹس ایسوسی ایشن نے بھی احتجاج کیا ہے، انہوں نے وزیر حکومت شیریں مزاری سے بھی بات کی ہے، وزیر حکومت نے 4 ہفتوں کا وقت مانگا ہے اور کہا ہے کہ جب اصول اور قوانین بنیں گے تو اس دوران یہ بات مزید واضح کر دی جائیگی۔ تاہم ابھی تک آن ریکارڈ کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔ پورے پاکستان کے فوٹو جرنلسٹ اس بات سے کافی پریشان ہیں۔ دہائیوں کی خدمات سرانجام دینے والوں کو آج صحافی کی کیٹیگری سے ہی نکال دینا قرین انصاف نہیں ہے۔ یہ ہمارے لئے بہت بڑا دھچکا ہے۔ پڑھے لکھے لوگ اس بل کی تیاری میں شامل رہے، صحافتی تنظیمیں بھی شامل رہیں، پی ایف یو جے کا کردار بھی ہمیں مشکوک لگ رہا ہے، انہوں نے کیسے بل پڑھے بغیر ہی منظور کر لیا۔ پی ایف یو جے کے ساتھ ہماری بات چیت چل رہی ہے، وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی یقین دہانی کروائی ہے کہ اس معاملہ کو دیکھیں گے۔ ساری تنظیموں نے آواز اٹھائی ہے تو حکومت کو توجہ دینا پڑی ہے۔ تاہم ابھی 10 دن تک ہم انتظار کرینگے، اگر تبدیلیاں کر دی گئیں تو ہم شکر گزار ہونگے، اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو عدالت جائیں گے۔ احتجاج کا راستہ بھی اختیار کرینگے۔ اپنی شناخت اور پیشے کو بچانے کیلئے ہر حد تک جائیں گے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔