قیصر عباس
”عشرت کی شاعری ان مخصوص موضوعات سے زیادہ سروکار نہیں رکھتی جو آج کی شاعری کے فیشن میں شامل ہیں اور ہر نیا شاعر اپنے وجود کا جواز ثابت کرنے کے لئے ان موضوعات پر شعر کہتا ہے…دراصل اس کی شاعری کی روح اس کا ذاتی تجربہ ہے اور یہ تجربہ معاشرے کی حقیقت بھی ہے اور اس کے دل کی آواز بھی۔ وہ جس شکست خوردہ اور زوال آمادہ فیوڈل سماج سے نکل کر آئی ہے وہ اس کا پس منظر ہے اور جس تاجرانہ اور جابرانہ عہد سے گزر رہی ہے وہ اس کا حال ہے اور اس کے خوبصورت خواب اس کا مستقبل اور اس خواب میں اس کی ذات شامل ہے۔ یہاں پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم بے معنی ہے۔ وہ نہایت فخر سے کہتی ہے کہ، بنتِ افلاس ہوں میں، بھوک تو میری ماں تھی۔“
یہاں علی سردار جعفری جس شاعرہ کی بات کر رہے ہیں ان کانام ہے عشرت آفرین۔ بر صغیرمیں وہ صف اؤل کی شاعرہ کے طور پر جانی جاتی ہیں جن کے موضوعات کا دائرہ سماجی عدم مساوات سے صنفی استحصال اور ہجرت کے دکھوں تک پھیلا ہواہے۔ اب تک ان کے تین مجموعے، ’کنج پیلے پھولوں کا‘، ’دھوب اپنے حصے کی‘اور ’دیاجلاتی شام‘ شائع ہو چکے ہیں اور’زرد پتوں کا بن‘ کے عنوان سے کلیات بھی حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ اس عہد کے ترقی پسند موضوعات پر نظم اور غزل لکھنے کا ہنر انہیں خوب آتا ہے۔
ہمارے پدر سری معاشرے میں عموما ًشعرا حضرات اور شاعرات کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے اور شاعرات کویہ کہہ کر کنارے لگا دیا جاتا ہے کہ ’خواتین شاعرات میں انہیں اہم مقام حاصل ہے۔‘ لیکن عشرت آفرین کی شاعری کو کسی صنفی دائرے میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں وہ خاتون ہونے کی حیثیت سے اپنے تجربات کو جس سچائی اور فنی خوبصورتی کے ساتھ بیان کرتی ہیں وہ ان ہی کا حصہ ہے جو مرد کبھی بیان نہیں کر سکتے۔
گزشتہ دنوں ڈیلس، امریکہ میں ان کے اعزاز میں ایک شام کا انعقاد کیا گیا۔ عشرت آفرین ہیوسٹن میں مقیم ہیں، انہوں نے اس تقریب میں زوم کے ذریعے شرکت کی اور اس کی صدارت بھی کی۔ اس طرح راقم کے گھر ہونے والی یہ محفل برقیاتی عکس اوردو بدو مشاعرے کا ایک کامیاب تجربہ بھی تھی۔ ہیوسٹن ہی سے آئے ہوئے مقبول شاعر باسط جلیلی، معروف شاعر نادر درانی اور راقم نے بھی اس محفل میں کلام سنایا۔
عشرت آفرین نے صنفی موضوعات کے حوالے سے شاعرات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس قافلے کی سالار تو ادا جعفری ہیں جنہوں نے پہلی بار شاعری کے میدان میں صنفی تقسیم کو بے معنی ثابت کرتے ہوئے اپنے کلام کو اعلیٰ معیار سے کبھی گرنے نہ دیا۔ لیکن نسوانی مسائل کی بھی غزل کے پیرائے میں بات کی۔ بعد میں آنے والی شاعرات میں پروین شاکر، کشور ناہید، فہمیدہ ریاض اور زہرہ نگاہ نے کھل کر معاشرے میں صنفی امتزاج اور پدر سری رویوں پر قلم اٹھایا۔
زمانے کی بدلتی ہوئی اقدار میں عورتوں کی زندگی جن مراحل سے گزرتی ہے ان کا احساس عشرت آفرین نے اپنی اس مختصر نظم ”تیسری نسل“ میں پیش کیا:
مری ماں مجھ سے کہتی تھی
ڈوپٹہ ٹھیک سے اوڑھو
ذرا جھک کر چلو بیٹی
کوئی آداب محفل کا سلیقہ ہی نہیں تم کو
اور اب میں اپنی بیٹی سے یہ کہتی ہوں
مری بچی
ذرا سا ڈھنگ کے کپڑے نکالو
وہاں پر جاننے والا بھی مل سکتا ہے کوئی
معاشرے میں عورت کے مقدر اور اس کے ساتھ نسل در نسل سفر کرنے والے دکھوں کو عشرت کے ان اشعار سے بہتر کون بیان کر سکتا ہے:
لڑکیاں ماؤں جیسے مقدر کیوں رکھتی ہیں
تن صحرا اور آنکھ سمندر کیوں رکھتی ہیں
عورتیں اپنے دکھ کی وراثت کس کو دیں گی
صندوقوں میں بند یہ زیور کیوں رکھتی ہیں
صبح وصال کی کرنیں ہم سے پوچھ رہی ہیں
راتیں اپنے ہاتھ میں خنجر کیوں رکھتی ہیں
”مرا درد نہ جانے کوئی“ بھی ان نسلی روایتوں کا تذکرہ ہے جو شاعرہ کی زبانی ایک اور ہی انداز لے کر آئی:
ایک طرف میری بیٹی ہے
ایک طرف میری ماں
دونوں مجھ کو عقل بتاتی رہتی ہیں
باری باری سبق پڑھاتی رہتی ہیں
دو نسلوں کے بیچ کھڑی
میں خود پر ہنستی رہتی ہوں
اپنی گرہیں آپ ہی کستی رہتی ہوں
میرے دونوں ہاتھ بندھے
”مرا درد نہ جانے کوئی“
سماجی روائتوں کی آڑ میں ہم لوگ عورتوں کو جس استحصال زدہ ماحول میں رکھتے ہیں، ان کی یہ غزل بھی یہی داستان سنا رہی ہے:
جنہیں کہ عمر بھر سہاگ کی دعائیں دی گئیں
سنا ہے اپنی چوڑیاں ہی پیس کر وہ پی گئیں
بہت ہے یہ روائتوں کا زہر ساری عمر کو
جو تلخیاں ہمارے آنچلوں میں باندھ دی گئیں
سروں کا یہ لگان اب کے فصل کون لے گیا
یہ کس کی کھیتیاں تھیں اور کس کو سونپ دی گئیں
عشرت کی شاعری صرف صنفی امتیازکے خلاف احتجاج ہی نہیں، سماج میں پھیلی بے چینی اور وحشت کی مزاحمت بھی ہے لیکن ایک انوکھے دعائیہ انداز میں:
سائیں میرے کھیتوں پر بھی رُت ہریالی بھیجو ناں
سکھی پرندوں کی چہکاریں گیتوں والی بھیجو ناں
ایک ایک کر کے پنچھی اڑتے جائیں ٹھور ٹھکانوں سے
بھوک اڑے کھلیانوں میں رُت باجرے والی بھیجو ناں
سائیں رات کے رات یہ بستی مقتل کیوں بن جاتی ہے
اب جس رات بھی خنجر نکلیں آندھی کالی بھیجو ناں
بر صغیر کی اس نامور شاعرہ کے کلام نے اس ”دیاجلاتی شام“ کو جس طرح سے منور کیا اس کے لئے اس محفل میں شریک تمام خواتین و حضرات ان کے مشکور تھے۔
ڈیلس کے معروف شاعر نادر درانی کی شاعری ان کے دل کی آواز ہے جس میں رومانویت اور تجربات کے سہارے الفاظ کی بنت کے تمام لوازم موجود ہیں۔ ان کے کلام کی کچھ جھلکیاں:
کڑی کڑی زنجیر مکمل کرنی ہے
خواب کی اک تعبیر مکمل کرنی ہے
پیار کے سارے رنگ انڈیل کے بیٹھا ہوں
مجھ کو ایک تصویر مکمل کرنی ہے
درویشانہ ایک فقیری د ل میں ہے
ایک انوکھی درد پنیری دل میں ہے
رو پڑتا ہوں دیکھ کے پنچھی پنجرے میں
بچپن ہی سے ایک اسیری دل میں ہے
راقم کے کلام کے چند نقوش یہ بھی ہیں:
شہر کی رسم ہے پرانی وہی
سازشیں تازہ ہیں کہانی وہی
ایک اور غزل کے اشعار:
مانگے ہیں آسماں سے تری قربتوں کے خواب
حرفِ دعا میں کوئی کرامات بھی تو ہو
میں نے بھی اپنے خون سے جیتا ہے یہ محاذ
میثاقِ امن میں مری کچھ بات بھی تو ہو
حالات ِ حاضرہ پر ایک تبصرہ:
اوہام پر بچھی ہے مرے شہر کی بساط
بیساکھیوں کے زعم پہ دوڑا کریں گے ہم
ہر ایک کو ملیں گے نئے منظروں کے عکس
اندھی بصارتوں ہی سے دیکھا کریں گے ہم
ہیوسٹن سے آئے ہوئے مہمان باسط جلیلی ایک صاحب طرز شاعر ہیں اور اپنے کلام میں ایک ساحرانہ اثر رکھتے ہیں۔ انہوں نے دل نشیں ترنم میں اپنے اشعار کے خوبصورت رنگ بکھیرے۔ ایک غزل کے کچھ اشعار:
کچھ ایسی بے بسی تھی کہ رشتوں میں بل پڑے
یوں دیکھتے ہی دیکھتے رستے بدل پڑے
پھر جستجوئے یار میں تپتی زمین پر
ننگے ہی پیر شہر کے عشاق چل پڑے
اس نے چراغ فکر سے کچھ معجزے کئے
پتھر کی آنکھ سے بھی دو آنسو نکل پڑے
برسوں کے بعد دیکھ کر وہ کیفیت ہوئی
جیسے کھلونا دیکھ کر بچہ مچل پڑے
ان کی نظم ’لمحہ فکریہ‘ میں وہ آج کے اہل ِ فکر کے رویوں پر تنقیدی نظر ڈالتے دکھائی دئے:
سکوت شب میں خیالات کی روانی میں
جو لفظ میں نے لکھے تھے نئی کہانی میں
یہ کیسے ہو گا کہ میں بھیڑیوں سے ڈر جاؤں
مری سرشت میں شامل ہے لڑ کے مر جاؤں
میں منظروں کو بدلنے کی تاب رکھتا ہوں
میں اپنی جھولی میں چند ایسے خواب رکھتا ہوں
لکھاریوں کا جو میلہ ہے میں نے پرکھا ہے
قلم امانت رب ہے انہیں خبر ہی نہیں
انہیں نمائشی شہرت سے اتنی رغبت ہے
ہے رات ظلم کی اور وعدہ سحر ہی نہیں
وقت کے افق پر ایک نیا سال طلوع ہو چکا ہے اور پرانے سال کے نقوش اب ماضی کا حصہ بن رہے ہیں۔ عشرت آفرین اور دوستوں کے ساتھ یہ شعری نشست گزشتہ سال کی یادوں اور نئے سال کی نئی امیدیں اپنے ساتھ لئے اختتام پذیر ہوئی۔
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔