لاہور (جدوجہد رپورٹ) گذشتہ دنوں کرناٹک سے تعلق رکھنے والی طالبہ مسکان خان کی وائرل ویڈیو کے بعد پورے برصغیر میں حجاب اور حجاب یا ڈریس کوڈ کے حوالے سے ایک بحث جاری ہے۔
پاکستان اور کشمیر میں ایک طرف رجعت پرست حلقے مسکان کی حمایت میں انسانی حقوق کے نام پر مسکان کے اس حق کی حمایت میں بر سر پیکار ہیں۔ دوسری طرف بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں انٹرمیڈیٹ کے بورڈ امتحانات ٹاپ کرنے والی طالبہ عروسہ پرویز حجاب نہ پہننے پر تنقید کی زد میں ہے۔
انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں 500 میں سے 499 نمبر حاصل کر کے ٹاپ کرنے والی عروسہ پرویز نے تنقید کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ ”حجاب پہننا یا نہ پہننا کسی کے مذہب اور عقیدے کی وضاحت نہیں کرتا۔ میں دل سے مسلمان ہوں حجاب سے نہیں۔“
’دی پرنٹ‘ کے مطابق عروسہ پرویز سرینگر کے الٰہی باغ علاقے کی رہائشی ہیں۔ ضلعی انتظامیہ نے انہیں بورڈ امتحانات میں ٹاپ کرنے پر مبارکباد دیتے ہوئے ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کیں، جس کے بعد سوشل میڈیا پر ان کو شدیدتنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ انہیں اور ان کے والدین کو برا بھلا کہا گیا اور ان کا سر قلم کرنے تک کی دھمکیاں دی گئیں۔
کرناٹک میں ایک حجاب پہننے کالج جانیوالی طالبہ کو ہراساں کئے جانے کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے چند دن بعد عروسہ پرویز کو اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
کرناٹک کی حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کے حجاب پہننے پر پابندی عائد کئے جانے کے بعد مختلف تعلیمی اداروں میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہمدردوں اور انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے طالبات کو ہراساں کرنے کے ایک سلسلے کا آغاز ہوا ہے۔
دریں اثنا کرناٹک ہائی کورٹ نے ایک عبوری حکم میں طلبہ پر تعلیمی اداروں کے اندر مذہبی لباس پہننے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ہائی کورٹ کا حکم میں کہنا تھا کہ جب تک یہ معاملہ طے نہیں ہو جاتا، تب تک کوئی بھی طالبعلم مذہبی لباس پہن کر تعلیمی ادارے میں نہیں جائیگا۔ عدالت نے کلاسیں بھی جلد شروع کرنے کی ہدایت کی ہے۔
عدالت کے حکم کے بعد کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پہن کر جانے والی طالبات کو داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر مختلف تعلیمی اداروں بالخصوص سکولوں کی ایسی ویڈیوز شیئر کی جا رہی ہیں، جن میں سکول انتظامیہ حجاب پہن کر سکول داخل ہونے کی کوشش کرنے والی طالبات کو صدر دروازوں پر ہی روکتے ہوئے دیکھی جا سکتی ہے۔