ادارتی بورڈ
معزز قارئین!
آج ’روزنامہ جدوجہد‘ کی تیسری سالگرہ ہے۔ جدوجہد کی پہلی سالگرہ کے موقع پر ہم نے جو گذارشات پیش کی تھیں انہیں یہاں دہرانا مقصود نہیں لیکن یاد دہانی کے لئے: آج انقلاب روس کے قائد ولادیمیر لینن کا بھی یوم پیدائش ہے۔
تین سال قبل، اسی دن کی مناسبت سے ’جدوجہد‘ کا پہلا شمارہ آن لائن پوسٹ کیا گیا تھا۔ یہ مناسبت دراصل ہماری جانب سے ایک سیاسی بیان، ایک انقلابی کمٹ منٹ اور ایک منزل کی جانب سفرکا اعلان بھی تھا۔ ہماری منزل ہے ایک سوشلسٹ جمہوری ماحول دوست فیمن اسٹ پاکستان۔
یہ منزل دور سہی لیکن نا ممکن نہیں۔ ان تین سالوں میں ’جدوجہد‘ نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ اگر لگن اور ہمت سے کام لیا جائے تو وسائل کی شدید قلت کے باوجود متبادل تعمیر کئے جاسکتے ہیں۔ دوم، جوں جوں جدوجہد آگے بڑھتی ہے، توں توں جدوجہد کے ساتھیوں میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
اسی بنیادی سبق کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم نے ’جدوجہد‘ کا آغاز کیا تھا۔ ہمارا منصوبہ تھا کہ ہم پہلے دو یا تین سال تک اپنی ادارتی ٹیم تیار کریں گے جو اس قدر پروفیشنل ہو کہ بلا ناغہ معیاری انقلابی تحریریں قارئین تک پہنچا سکیں۔ ہماری ایک ادارتی پالیسی یہ بھی تھی کہ اگر ہمارے پاس کہنے کو کوئی نئی بات نہیں تو ہم بیان بازی والی صحافت نہیں کریں گے۔ ہمیں اطمینان ہے کہ ہم نے اس مقصد کو کافی حد تک حاصل کیا۔
ہماری دوسری کوشش تھی کہ ’جدوجہد‘ کی اپنی معاشی بنیاد ہو تاکہ جدوجہد کل وقتی عملے کی مدد سے نکالا جا سکے۔ اپنے حامیوں کی مالی مدد کی وجہ سے گذشتہ کچھ عرصے سے ’جدوجہد‘میں دو کل وقتی ارکان کی مدد بھی شامل ہے جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ یہ اخبار بروقت اور معیاری انداز میں قارئین تک پہنچ سکے۔ ساتھ ہی ساتھ ایسے ساتھیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا جو رضاکارانہ طور پر ’جدوجہد‘ کے لئے لکھتے ہیں یا سوشل میڈیا پر ہمارا پیغام پھیلانے میں مدد دیتے ہیں۔
ہماری اگلی کوشش ہو گی کہ نہ صرف کل وقت عملے میں اضافہ ہو سکے بلکہ ’جدوجہد‘ کی پہنچ میں اضافہ ہو۔ ان دونوں مقاصد کے حصول کے لئے ’جدوجہد‘ کی معاشی حالت کو بہت بہتر بنانا ہو گا۔ سیدھی سی بات ہے: انقلابی سیاست ہو یا صحافت، دونوں کے لئے وقت درکار ہوتا ہے۔ محنت کش طبقے کے پاس وقت بچتا ہی نہیں کہ وہ دانشورانہ اور انقلابی سیاست میں حصہ لے سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ کل وقتی کامریڈز کا انتظام کرنا دنیا بھر میں انقلابی تحریکوں اور ٹریڈ یونینز کا بنیادی چیلنج رہا ہے۔ اسی طرح، آن لائن اخبار ہونے کی وجہ سے اگر ’جدوجہد‘ کو اپنی آؤٹ ریچ میں اضافہ کرنا ہے تو بھی فیس بک اور ٹوئٹر کو بھاری فیس ادا کرنا ہو گی۔ امید ہے اپنے حامیوں اور قارئین کی مدد سے آنے والے دنوں میں یہ مقاصد بھی حاصل کر سکیں گے۔ ہمارا ایک ارادہ یہ بھی ہے کہ ملک بھر میں یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں کے علاوہ فیکٹریوں اور دفاتر میں پہنچیں اور تعارفی سیمینارز کی شکل میں ’جدوجہد‘ کو متعارف کرائیں۔ صرف معیاری اخبار نکالنا کافی نہیں۔ اسے ملک کے کونے کونے تک پہنچانا ہی اصل کامیابی ہو گی۔
امسال ہم اس جانب بڑھیں گے۔ اس انقلابی سفر میں ہماری حوصلہ افزائی اور مدد جاری رکھئے۔ ’جدوجہد‘ جاری ہے! ’جدوجہد‘ جاری رہے گا!