لاہور (جدوجہد رپورٹ) صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے پیر کے روز وفاقی وزارت تعلیم اور پیشہ وارانہ تربیت کو متعلقہ حکام کے خلاف انکوائری کرنے کا حکم دیا ہے، جو 1993-94ء سے حکومت کے پاس موجود 13.70 ملین روپے کے جرمن عطیہ کو استعمال کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
’ڈان‘ کے مطابق صدر نے کہا کہ یہ رقم سستی نصابی کتب کی چھپائی کیلئے کاغذ کی خریداری کیلئے دی گئی تھی۔ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ 45 دنوں کے اندر وفاقی ٹیکس محتسب کو تعمیلی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
یہ رقم 6 سال تک غیر منافع بخش اکاؤنٹ میں رہی اور کسی نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ رقم کو بیکار رکھنے کی وجہ سے ہونے والا نقصان 1 کروڑ 74 لاکھ 90 ہزار 730 روپے تک پہنچ گیا، جو 13.707 ملین روپے کی اصل رقم سے بھی زیادہ ہے۔
تاہم اگر آڈٹ میں اس رقم کی نشاندہی نہ کی جاتی تو یہ نقصان اس سے بھی زیادہ ہو سکتا تھا۔ یہ رقم 23 جولائی 1999ء سے 23 جولائی 2014ء تک سپیشل سیونگ سرٹیفکیٹ میں جمع کروائی گئی۔
2014ء کے بعد جب سرمایہ کاری کا خود کار رول اوور رک گیا تو وزارت میں کوئی بھی ایسا فرد نہیں تھا جو اس رقم کی پرواہ کرتا، جس وجہ سے وزارت نے کوئی منافع کمائے بغیر پوری رقم کو بے کار رہنے دیا۔
صدر مملکت نے وزارت تعلیم کی جانب سے رقم اور منافع استعمال نہ کرنے کے اقدام کو شرمناک قرار دیا جو بڑھ کر 5 کروڑ 42 لاکھ 65 ہزار 500 روپے ہو گیا ہے۔
جب 2020ء میں حکومت نے حکم دیا کہ مختلف بینکوں میں پڑے وزاتوں کے تمام فنڈز قومی خزانے میں جمع کرائے جائیں، تو اس وقت آڈٹ میں جرمن گرانٹ کو غیر منافع بخش اکاؤنٹ میں رکھنے کی اس غفلت کا انکشاف ہوا۔ جب وزارت نے آڈٹ اعتراض کے جواب میں رقم واپس لے لی تو زکوۃ اور ود ہولڈنگ ٹیکس کی کٹوتی کا معاملہ سامنے آیا۔ وزارت انکم ٹیکس اور زکوۃ کی چھوٹ حاصل کرنے میں بھی ناکام رہی۔