خبریں/تبصرے

جی بی کی آئینی، سیاسی اور معاشی محرومیاں ختم کی جائیں: ایچ آر سی پی فیکٹ فائنڈنگ مشن

لاہور (جدوجہد رپوٹ) ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے اعلیٰ سطحی فیکٹ فائنڈنگ مشن نے گلگت بلتستان بارے رپورٹ جاری کر دی ہے۔ میشن میں کونسل ممبران سلیمہ ہاشمی، مظفر حسین، سینئر صحافی غازی صلاح الدین اور علاقائی کوآرڈینٹر اسرارالدین شامل تھے۔

مشن نے اپنے 5 روزہ دورے کے بعد جاری پریس ریلیز میں بتایا کہ خطے میں انسانی حقوق کی صورتحال ابتر ہو چکی ہے۔ سیاسی کارکنوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، قانونی برادری اور مذہبی قیادت نے پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان کو پاکستان میں ضم کرنے میں ناکامی پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

پریس ریلیز کے مطابق مشن نے جن گروپوں سے مشورہ کیا، ان کا خیال تھا کہ گلگت بلتستان کو کم از کم عارضی صوبہ کا درجہ دیا جائے یا آخری آپشن کے طور پر آزاد جموں و کشمیر (پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر) جیسا گورننس سسٹم دیا جائے۔

مشن سے ملنے والی سیاسی قیادت نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ گلگت بلتستان کو اس خطے میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کیلئے انتخابی اصلاحات کے عمل کا حصہ بنایا جائے۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت کے اعلیٰ عدلیہ میں تقرریاں وزیر اعظم (پاکستان) کی طرف سے کی جاتی ہیں، گلگت بلتستان کی عدلیہ کی آزادی، دیانتداری اور غیر جانبداری پر یہ بات سوالیہ نشان لگاتی ہے۔ اس طرح ادارے پر عوام کا اعتماد ختم ہوتا ہے۔

پریس ریلیز میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ گلگت بلتستان میں آزادی اظہار رائے اور پر امن اجتماع کو خطرہ لاحق ہے۔ حقوق کی مہم چلانے والوں، سیاسی کارکنوں اور طلبہ پر انسداد دہشت گردی اور سائبر کرائم قوانین، خاص طور پر شیڈول فور کے تحت الزامات عائد کئے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔

شواہد کی بنیاد پر مشن کا خیال ہے کہ اسٹیٹ سبجیکٹ رول کے خاتمے نے بیرونی نجی کارپوریشنوں اور ایسے افراد کے ذریعے مقامی قدرتی وسائل کے استحصال کی راہ ہموار کر دی ہے جو گلگت بلتستان میں رہائش پذیر نہیں ہیں۔ اس کی وجہ سے خطے میں آبادیاتی تبدیلیاں ہوئی ہیں، رہائشیوں کی پریشانی میں اضافہ ہوا ہے۔ شہری یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو ترقیاتی منصوبوں سے باہر رکھا جا رہا ہے، خاص کر ان منصوبوں سے جو سی پیک کے تحت شروع کئے جا رہے ہیں۔

مشن نے گلگت بلتستان کے مختلف حصوں بالخصوص ضلع غذر میں خودکشی کے واقعات میں واضح اضافے پر پریشانی کا اظہار کیا۔ ان متاثرین میں ایک بڑی تعداد خواتین پر مشتمل ہے اور مشن کے پاس یہ ماننے کی وجہ ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کے کچھ واقعات کو خود کشی کا لیبل لگا دیا گیاہے۔

مشن نے اس بات پر بھی سخت تشویش کا اظہار کیا کہ 2010ء کی عطا آباد جھیل کے حادثے کے متاثرین کو ابھی تک معاوضہ نہیں دیا گیا، نہ ان کی بحالی کی گئی ہے۔ شیشپر گلیشئر پر حال ہی میں آنے والی برفانی جھیل کے سیلاب نے بھی ایک درجن سے زائد خاندانوں کو اجاڑ دیا ہے، جس میں تشویشناک الزامات عائد کئے گئے ہیں کہ ایک سرکاری تنظیم نے ریزورٹ کی حفاظت کیلئے پانی کے بہاؤ کا رخ گاؤں کی طرف موڑ دیا ہے۔

کارگل جنگ سے متاثر ہونے والے لوگوں سے ملاقاتوں کے دوران مشن کو معلوم ہوا کہ انہیں ابھی تک ان کے گھروں اور معاش کے نقصانات کا معاوضہ نہیں دیا گیا ہے۔ متاثرین نے الزام عائد کیا کہ سویلین اور فوجی حکام اپنی شکایات کے ازالے کیلئے ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالتے رہے۔ متاثرین نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ سکیورٹی فورسز نے ان کے علاقے میں بارودی سرنگیں بچھا دی تھیں، جس کی وجہ سے وہ گھر واپس نہیں جا سکتے تھے۔

پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ مشن کے نتائج اور سفارشات کو دستاویز کرنے والی ایک تفصیلی رپورٹ جلد جاری کی جائیگی۔

Roznama Jeddojehad
+ posts