خبریں/تبصرے

وزیر اعظم ہاؤس میں سکیورٹی ایشو کے پس پردہ داستان منظر عام پر آ گئی

مظفر آباد (حارث قدیر) پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں واقع وزیر اعظم ہاؤس کی سکیورٹی میں مبینہ کوتاہی کے حکومتی دعوؤں سے متعلق نئے انکشافات ہو رہے ہیں۔

وزیر اعظم ہاؤس کے اندرونی ذرائع سے یہ بات سامنے آئی ہے وقوعہ کے روز وزیر اعظم نے اسلام آباد جانا تھا، تاہم ان کی ’حالت‘ بہت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے انہیں ڈی جی سیاسی امور سردار گلفراز نے یہ مشورہ دیا کہ انہیں چند گھنٹے آرام کر لینا چاہیے، جس کے بعد اسلام آباد روانگی ہو گی۔

ذرائع کا یہ دعویٰ ہے کہ وزیر اعظم چند گھنٹے آرام کرنے کی بجائے صبح تک سوئے رہے اور صبح نو بجے ضلع کوٹلی سے تعلق رکھنے والے ایک صوابدیدی عہدہ پر تعینات اہلکار ان سے ملاقات کیلئے دفتر گئے۔ اس روز ان سے ملاقات کرنے والے دوسرے شخص انکے ترجمان تھے، جبکہ ان کے بعد پولیٹیکل سیکرٹری کرنل (ر) شجاعت محمود وزیراعظم کے پاس گئے۔ تاہم پولیٹیکل سیکرٹری وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد شدید غصے کی حالت میں واپس آئے اور استعفیٰ دینے کی دھمکی دینے کے بعدوزیراعظم ہاؤس سے چلے گئے۔

اس واقعہ کے بعد وزیر اعظم کے میڈیا کوآرڈی نیٹر یاسر عارف نے اس واقعے پر سب سے پہلے 6 جون کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پرجاری پریس ریلیز میں پرنسپل سیکرٹری احسان خالد کیانی، ڈی آئی جی ڈاکٹر لیاقت اور ڈی آئی جی یاسین قریشی کو معطل کئے جانے کی اطلاع دی۔

پریس ریلیز میں سول ملازمین کو پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو بطریق احسن سرانجام دینے کی ہدایت کرتے ہوئے مبہم لفظوں میں حساس اداروں کو اس مبینہ عمل کا ذمہ دار ٹھہرایا انہوں نے لکھا کہ ”ہم ایک بات واضح کرتے ہیں کہ بہت سارے لوگ ریاست کے اداروں کو بالعموم اور بڑے اداروں کی با لخصوص تکریم، تعظیم اور اکرام دینے میں کو تاہی کے مرتکب ہوتے ہیں، جبکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری ریاست پاکستان کی اکائی ہے اور ہم پورے ملک کی سالمیت اور یکجہتی پر یقین رکھتے ہیں۔ تمام اداروں کو اپنے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض سر انجام دینے چا ہئیں اور ایسی سر گرمیاں نہ کریں کہ جن سے ریاست کے سپریم اداروں اور شخصیات کی بے توقیری، تقدس اور چار دیواری کی پا مالی ہو۔ ایسے عمل سے کوئی اچھا پیغام نہیں جاتا۔“

دو روز بعد 8 جون کو ترجمان وزیر اعظم کی طرف اس واقعہ میں بھارتی خفیہ اداروں کے ملوث ہونے اور وزیر اعظم ہاؤس کی سکیورٹی میں کوتاہی سے متعلق بیانات میڈیا کو جاری کئے گئے۔ پہلے پہل یہ کہا گیا کہ وزیر اعظم ہاؤس کے پچھلے دروازے سے کوئی شخص داخل ہوا اور اس نے وزیر اعظم کو قتل کرنے یا خفیہ راز چوری کرنے کی کوشش کی۔ بعد ازاں بیانات میں تبدیلی کر تے ہوئے کہا گیا کہ وزیر اعظم کو جان سے مارنے اور خفیہ راز ہتھیانے کی کوشش تھی، جس کے تانے بانے راولاکوٹ سے جڑتے ہیں اور وزیر اعظم کے بیڈ روم میں داخل ہونے والا شخص وزیر اعظم ہاؤس کے اندر کا ہی تھا۔ ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا گیا کہ راولاکوٹ سے ہی گرفتاریاں بھی کی جائیں گی۔

اگلے روز راولاکوٹ میں وزیر اعظم کے ترجمان کی طرف سے پولیس کو دی گئی درخواست میں صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو نامزد کر کے مقدمہ درج کرنے کی استدعا کر دی گئی۔

دوسری طرف حال ہی وزیر اعظم کے ڈی جی سیاسی امور سردار گلفراز کی ایک آف دی ریکارڈ گفتگو سے متعلق ذرائع نے انکشاف کیا کہ اب وزیر اعظم ہاؤس کا آفیشل موقف یہ ہے کہ اس واردات میں وزیر اعظم کے موبائل سے ڈیٹا چوری کیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ وزیر اعظم کا صبح اٹھنے کے بعد دعویٰ تھا کہ جب وہ بیڈ روم میں داخل ہوئے تھے تو ان کا موبائل فون ’ڈیڈ‘ تھا۔ تاہم جب وہ صبح جاگے تو انکا موبائل فون چارج بھی تھا اور آن بھی کیا جا چکا تھا، جس کی وجہ سے یہ خدشہ ہے کہ جس نے موبائل چارج اور آن کیا، وہ اس میں سے ڈیٹا بھی چوری کر کے لے یا ہو گا۔

ادھر انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق ایسی رپورٹس ہیں کہ وزیر اعظم تنویر الیاس مبینہ طور پرکسی ایسے مسئلے کا شکار ہیں جس کی وجہ سے وہ سو جائیں تو پھر جاگتے ہی نہیں ہیں اور اگر جاگ جائیں توپھر وہ سوتے ہی نہیں ہیں۔ تاہم وزیر اعظم ہاؤس میں رات گئے تک سرگرمیاں جاری رکھی جاتی ہیں اور وزیر اعظم سارا دن سوئے رہتے ہیں جس کی وجہ سے کئی سائلین، وزرا، ممبران اسمبلی اور بیوروکریٹ ان سے ملنے کیلئے انتظار کرتے رہتے ہیں۔ کئی اہم نوعیت کے اجلاس وزیر اعظم کی اس عادت کے باعث کئی کئی بار ملتوی کئے جاتے ہیں۔

وزیر اعظم کی انہی عادات کی وجہ سے جلد ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے جانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ بجٹ اجلاس کے بعد انہیں تبدیل کئے جانے کا قوی امکان ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts