لاہور (جدوجہد رپورٹ) کراچی سے لاپتہ ہونے والے دو بلوچ طالبعلموں اور ان کی رہائی کیلئے احتجاج کرنے کی پاداش میں گرفتار کئے گئے 28 مرد و خواتین کو رہا کر دیا گیا ہے۔
سندھ اسمبلی کے باہراحتجاجی دھرنا میں شریک مظاہرین پر پولیس تشدد اور گرفتاریوں پر سوشل میڈیا پر شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ عالمی و ملکی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ تاہم مین سٹریم میڈیا میں یہ خبر جگہ حاصل نہیں کر سکی۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پر امن مظاہرین کے خلاف پولیس کی جانب سے طاقت کے بے تحاشہ استعمال کی سخت مذمت کی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا ایک ٹویٹ میں کہنا تھا کہ ’اپنے پیاروں کے بارے میں جواب طلب کرنے والے خاندانوں کے خلاف پُرتشدد کریک ڈاؤن کرنا جبری گمشدگیوں کے گھناؤنے عمل کے ظلم کو مزید بڑھاتا ہے۔‘
یہ مظاہرین کراچی یونیورسٹی سے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے طالبعلم دودا بلوچ اور غمشاد بلوچ کے اغوا کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ تاہم مظاہرین کی گرفتاری کے بعد منگل کی صبح 4 بجے دونوں لاپتہ طالب علموں کو رہا کر دیا گیا تھا۔
سندھ اسمبلی کے باہر احتجاج کرنے والے بلوچ مظاہرین مرد و خواتین کا الزام تھا کہ دونوں طالب علموں کو ریاستی اداروں نے تحویل میں لیا تھا۔ پیر کے روز پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے تشدد کیا اور 28 افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔ تاہم بعد ازاں رات گئے انہیں ضمانتی مچلکوں کے عوض رہا کر دیا گیا تھا۔ گرفتار ہونے والوں میں 19 مرد اور 9 عورتیں شامل تھیں۔