خبریں/تبصرے

سندھ میں 64 لاکھ سے زائد بچے چائلڈ لیبر پر مجبور

لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستان کے صوبہ سندھ میں 64 لاکھ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں اور چائلڈ لیبر کی بدترین شکل کا شکار ہیں۔ وہ صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔

’ٹربیون‘ کے مطابق کسانوں اور بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والے صدر ہاری ویلفیئر ایسوسی ایشن (ایچ ڈبلیو اے) اکرم خاصخیلی کے مطابق سندھ میں تقریباً 17 لاکھ بندھوا (ایسے مزدور جو والدین کے قرض کے عوض یا کسی دیگر مجبور کے عوض بلااجرت جبری مزدوری پر مجبور ہوں) مزدور ہیں، جن میں سے 7 لاکھ سے زائد بچے ایسے بندھوا مزدور ہیں جو زرعات کے شعبے میں ان زمینداروں کی طرف سے مسلط کردہ غیر انسانی کام اور غیر انسانی حالات زندگی میں کام کرتے ہیں۔

ایچ ڈبلیو اے کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 3329 بچوں کو زرعات کے شعبے میں زمینداروں کی تحویل سے رہا کروایا گیا، جبکہ بچوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی ان کی تحویل میں ہے۔

صوبے میں چوڑیوں، اینٹوں کے بھٹے، فشریز، آٹو ورکشاپس، کپاس کی چنائی اور مرچ چننے کے شعبوں میں 15 سال سے کم عمر بچوں کا استحصال، زیادتی اور تشدد کیا جاتا ہے۔ تاہم انہیں ریلیف اور انصاف فراہم کرنے کیلئے کوئی ٹھوس کوششیں نہیں کی جاتیں۔

اکرم خاصخیلی کا کہنا تھا کہ ”معاملات نمٹنے کیلئے ذمہ دار تمام سرکاری محکمے بشمول لیبر انسپکٹرز، سماجی بہبود کے افسران اور چائلڈ پروٹیکشن افسران کارروائی کرنے اور انہیں بچانے کی زحمت نہیں کرتے۔

بیان میں کہا گیا کہ ’حکومت قوانین متعارف کروانے میں اچھی ہے لیکن ان پر عملدرآمد کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ صوبے میں بہت سے قوانین موجود ہیں لیکن سب کے سب بے سود ہیں۔ سندھ کرایہ داری ایکٹ 1950، سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی ایکٹ2011، سندھ بچوں کی مفت اور لازمین تعلیم کا حق ایکٹ2013، سندھ بانڈڈ لیبر سسٹم ابالیشن ایکٹ 201 اور سندھ بچوں کی لیبر کی انسداد کا ایکٹ 2017 سمیت دیگر قوانین موجود ہیں۔ ان تمام قوانین کی موجودگی میں بچے چائلڈ لیبر کی بدترین شکلوں کا شکار ہیں۔‘

واضح رہے کہ سندھ حکومت نے چند سال قبل بچوں کی مفت اور لازمی تعلیم کا ایکٹ بھی منظور کیا تھا، 16 سال سے کم عمر کے بچے کو سکول نہ بھیجنا قانوناً جرم قرار دیا گیا ہے۔ تاہم عملدرآمد کسی بھی سطح پر نہیں کیا جا رہا ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts