نقطہ نظر

’سرائیکی خطہ مکمل تباہ ہو گیا ہے، حکومت اور بڑی سیاسی جماعتیں غائب ہیں‘

حارث قدیر

عبدالرؤف لنڈ کہتے ہیں کہ لوگوں کو سیلاب کے نقصانات کا ذمہ دار ٹھہرانے والے ادارے اور حکومتیں کس بات کی تنخواہ لے رہے ہیں، تجاوزات کو پیشگی روکا کیوں نہیں گیا اور سیلاب سے پیشگی اطلاع دیکر بستیاں خالی کروانے کے اعلانات تو کر دیئے گئے، لوگوں کو محفوظ مقامات تک منتقل کرنے اور محفوظ مقامات پر انتظامات کرنا کس کی ذمہ داری تھی، یہ ریاست مکمل طو رپر ناکام ہوئی ہے اور سیلاب میں ڈوبے لوگوں کے دکھوں اور تکلیفوں کا مذاق بنایا جا رہا ہے۔ ہر ایک دکھ اور تکلیف کا بدلہ اس نظام اور اس کے حکمران طبقات سے لیا جائے گا۔

عبدالرؤف لنڈ کا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع راجن پور سے ہے، وہ انقلابی سوشلسٹ ہیں اور کسان اکٹھ کے نام سے چلنے والی کسان تحریک کے ڈسٹرکٹ جنرل سیکرٹری ہیں۔

پاکستا ن بھر میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے، این ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 119 افراد ہلاک ہو چکے ہیں (یہ رپورٹ اتوار کی شام تیار کی گئی)۔ 14 جون سے اب تک ملک بھر میں مجموعی طور پر 1033 افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں، جبکہ 1527 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ سندھ، کے پی اور بلوچستان کے بعد سب سے زیادہ 168 ہلاکتیں پنجاب میں ہوئی ہیں، پنجاب میں سب سے زیادہ جنوبی اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔ جہاں ابھی تک 46 ہزار 320 مکانات کے تباہ ہونے کی معلومات ہے، جبکہ 2 لاکھ 2 ہزار 593 مویشی ہلاک ہو چکے ہیں۔ فاضل پور کو راجن پور سے ملانے والی مرکزی شاہراہ سمیت دیگر چھوٹی بڑی سڑکیں زیر آب ہیں۔ جنوبی پنجاب کے 8 اضلاع سیلاب سے متاثر ہیں، جن میں مجموعی طو رپر 4 لاکھ 50 ہزار 83 افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ ابھی تک سرکاری ریلیف کیمپوں میں 4503 افراد کو جگہ مل سکی ہے، دیگر افراد کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ این ڈی ایم اے کے مطابق پنجاب میں 1650 ٹینٹ، 1500 ترپال، 1500 مچھر دانیاں، 1000 کمبل، 500 ہائی جین کٹس، 500 کچن سیٹ، 1400 فوڈ پیکیج، 500 فرسٹ ایڈ کٹس، 1000 جیری کین، 20 ڈی واٹر ڈمپنگ پمپ اور 50 لائف سیونگ جیکٹس فراہم کی گئی ہیں۔ پی ڈی ایم اے کی طرف سے پنجاب میں 29963 ٹینٹ، 3190 کمبل اور سلیپنگ بیگ، 9050 مچھر دانیاں، 15000 پلاسٹک میٹ، 3790 واٹر ٹینک، 59141 فوڈ پیکیج تقسیم کئے جا سکے ہیں۔ اس کے علاوہ ریلیف تنظیموں نے بھی کچھ امدادی سرگرمیاں کی ہیں۔ این ڈی ایم اے کے مطابق دریائے کابل میں نوشہرہ کے مقام پر اونچے درجے کا سیلاب ہے، دریاں سندھ میں تونسہ اور سکھر کے مقام پراونچے درجے کا سیلاب ہے، اس کے علاوہ دریائے سندھ میں چشمہ، گڈو، کوٹری میں درمیانے درجے کا، جبکہ تربیلہ اور کالاباغ میں نچلے درجے کا سیلاب ہے۔ آئندہ چوبیس گھنٹے کے دوران دریائے کابل اور سندھ میں اونچے درجے کے سیلاب کا خطرہ ہے۔ جس سے جنوبی پنجاب اور سندھ کے اضلاع میں مزید سیلابی پانی داخل ہونے کا خدشہ موجود ہے۔

گزشتہ روز جنوبی پنجاب میں سیلاب کی صورتحال پر عبدالرؤف لنڈ کا ایک مختصر انٹرویو کیا گیا ہے، جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے: جنوبی پنجاب سیلاب سے کتنے اضلاع، دیہات اور شہر متاثر ہو چکے ہیں، سرکاری اعداد و شمار اور زمینی صورتحال میں کیا فرق ہے؟

عبدالرؤف لنڈ: جنوبی پنجاب اور سرائیکی خطہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ دو مرکزی اضلاع ڈی جی خان اور راجن پور کی تمام تحصیلیں سیلاب کی زد میں ہیں، مجموعی طو رپر کوئی ایسی جگہ نہیں جو محفوظ ہو، ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔ شہروں تحصیل ہیڈکوارٹر اور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر کو کسی حد تک پانی سے بچانے کی کوشش کی گئی ہے، اکثر شہروں میں بھی پانی داخل ہوا ہے۔ تاہم اس طرح کے نقصانات نہیں ہوئے۔ باقی تمام دیہات اور شہروں کے نواحی قصبے پانی میں ڈوب چکے ہیں۔ فصلیں تباہ ہو چکی ہیں، مویشی ہلاک ہو چکے ہیں، مکانات پانی میں ڈوب کر گر چکے ہیں۔ لوگوں کا سب کچھ تباہ ہو چکا ہے اور لوگوں کی حالت اس وقت بہت تکلیف دہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کا زمینی صورتحال سے اس لئے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ ابھی تک حکومتی ادارہ کوئی بھی سیلاب متاثر ہ علاقوں تک مکمل رسائی ہی حاصل نہیں کر سکا ہے، ہواؤں میں ہی اعداد و شمار بنائے جا رہے ہیں۔ لوگوں کے دکھوں اور تکالیف کا مذاق بنایا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر یہ معلومات گردش کر رہی ہے کہ وڈیروں اور جاگیرداروں نے بند باندھ کر پانی کو راستہ فراہم نہیں کیا، جس وجہ سے غریبوں کی بستیاں زیر آب آئیں، اس میں کس حد تک صداقت ہے؟

عبدالرؤف لنڈ: کسی حد تک آپ کہہ سکتے ہیں کہ بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں نے بالخصوص راجن پور میں اپنے رقبے، شوگر ملیں اور حویلیاں بچانے کیلئے بند وغیرہ باندھے تھے، بہت سے ایسے علاقے بھی ہیں جو ماضی میں پانی کی گزر گاہیں ہوا کرتی تھیں، یا پھر سیلاب کے ادوار میں وہاں سے پانی گزرتا تھا، اب وہاں یا تو زمینیں آباد ہو گئی ہیں، یا پھر بستیاں تعمیر ہو چکی تھیں، جس وجہ سے پانی وہاں جمع ہوا، وہاں بھی نقصانات ہوئے اور پانی رکنے کی وجہ سے دیگر علاقوں میں بھی پھیل گیا۔

تاہم یہ حکومتوں، انتظامیہ اور ہنگامی حالات سے نمٹنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پانی کی گزرگاہوں کو واگزار کرواتے اور ان پر قبضہ نہ ہونے دیا جاتا۔ اب متعلقہ اداروں نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے کا سارا بوجھ عام لوگوں پر ڈال دیا ہے، جو سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ ان کی نااہلی، ناکامی اور کام چوری کا خمیازہ جنوبی پنجاب کے عام لوگ اور کسان بھگت رہے ہیں۔ ہم آج پوچھتے ہیں کہ لوگ اگر ایسا کر رہے تھے تو یہ حکومتیں، یہ بیوروکریٹ اور یہ ادارے کیا کر رہے تھے، کیوں انہوں نے نوٹس نہیں لیا، یہ کس بات کی تنخواہیں لیتے ہیں۔ آج جب سیلاب کے خدشات کا گزشتہ سال سے اظہار کیا جا رہا تھا تو ان کا کام تھا کہ یہ پانی کے قدرتی راستوں کو واگزار کرواتے، کہیں بند لگائے گئے تھے تو انہیں توڑتے، تاکہ آج ان نقصانات سے بچا جا سکتا۔ جن جن ذمہ دار نے یہ لاپرواہی برتی ہے ان کے خلاف پہلے کارروائی ہونی چاہیے۔ انہیں نشان عبرت بنایا جانا چاہیے تاکہ وہ آئندہ اپنے فرائض تندہی سے سرانجام دیں اور کوئی پانی کا قدرتی راستہ قبضہ گیری کی نظر نہ ہو سکے۔ تاہم اس وقت سیلاب متاثرین کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا ان کے دکھوں اور تکالیف پر نمک پاشی کے مترادف اور اپنی نااہلیوں کا بوجھ ان پر ڈالنے کے مترادف ہے۔

سیلاب کی پیشگی اطلاع بھی دی گئی؟ اگر دی گئی تو کتنی آبادی کو محفوظ کیا جا سکا؟ اور اگر اطلاع نہیں دی گئی تو اس کی کیا وجہ تھی؟

عبدالرؤف لنڈ: این ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے اور دیگر ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے بنائے گئے اداروں اور انتظامیہ نے جس طرح سیلاب کی اطلاع دی، اس سے نہ دینا شاید کم نقصانات کا موجب بنتا۔ ان اداروں کا یہ کام نہیں کہ یہ سیلاب کے آنے سے ایک گھنٹہ قبل شہر خالی کرنے کے اعلانات کر کے گھر جا کر سو جائیں۔ رات کو اگر سیلاب آنا تھا تو سیلاب سے 2 گھنٹے پہلے اعلان شروع ہو جاتے ہیں کہ فوری نکل جائیں، یہ نہیں بتایا جاتا کہ نکل کر کہاں جائیں؟ لوگوں کو شہروں اور دیہاتوں سے نکلنے کا کوئی ذریعہ کوئی وسیلہ نہیں ہوتا، نہ ہی ٹرانسپورٹ ہوتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگ جان بچا کر سڑک پر آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان اداروں نے پہلے سے متبادل انتظامات کئے ہوتے، شدید سیلاب کی زد میں آنے والے لوگوں کو ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولتیں دے کر محفوظ مقامات پر منتقل کیا جاتا، تو نقصانات سے بچا جا سکتا تھا۔ پہلے رکاوٹوں ڈال ڈال کر پانی کو روکا گیا، پھر جب پانی اکٹھا ہو گیا تو پھر ان رکاوٹوں کو ہٹایا گیا، اسی طرح جو بند لگے ہوئے تھے، ان کو اور سڑکوں کو کٹ لگا کر پانی کو کھولا گیا۔ جو کٹ لگائے گئے وہ بھی قدرتی بہاؤ کے راستے پر نہیں تھے۔ یوں جن علاقوں میں کبھی پانی آیا ہی نہیں تھا، اس غلط حکمت عملی اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے پانی وہاں بھی گیا اور لوگوں کا بھاری نقصان ہوا۔

دیہاتوں اور شہروں میں جمع پانی کی نکاسی اور آبادیوں کو دوبارہ اپنے علاقوں میں آباد کرنے کیلئے کیا اقدامات درکار ہونگے؟

عبدالرؤف لنڈ: ابھی تک تو پانی کی نکاسی کے انتظامات کا آغاز بھی نہیں کیا گیا ہے۔ بلکہ یوں کہیں کہ اس بارے میں ابھی سوچا بھی نہیں گیا اور شاید ایسا کچھ دن تک ممکن بھی نہیں ہے کہ دیہاتی اور شہری علاقوں سے پانی کی نکاسی کا انتظام کیا جا سکے۔ حکومتی ادارے ابھی تک ان علاقوں تک پہنچ ہی نہیں پائے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ حکومتیں ابھی تک نظر ہی نہیں آئی ہیں۔ ابھی تک تو جو کچھ ہو رہا ہے وہ لوگ خود ایک دوسرے کے ساتھ مل کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ کچھ مخیر حضرات اور تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ کسی بھی سطح پر جو کوئی متاثرین کی اشک شوئی ہوئی ہے وہ عام لوگوں کی طرف سے ہی ہوئی ہے۔ حکومت کی طرف سے ابھی تک کچھ بھی نہیں کیا جا سکا۔ کچھ امداد جو آئی ہے اس کی بھی بندر بانٹ کی گئی ہے۔ ایم پی اے اور ایم این اے نے اپنے کارندوں کے ذریعے سے وہ امداد تقسیم کروائی ہے، زیادہ فوٹو سیشن ہی ہے، کوئی پتہ نہیں کس کو کیا ملا ہے۔ ابھی تک رستے منقطع ہیں، بڑی مشکلوں سے لوگ ایک دوسرے سے رابطے کر رہے ہیں، زیادہ تر علاقے ایک دوسرے سے مکمل منقطع ہیں۔

ابھی تک کی امدادی سرگرمیاں کس نوعیت کی ہیں اور لوگوں کو کس طرح کی مشکلات ہیں؟ فوری طور پر سیلاب متاثرین کو کس طرح کی امداد درکار ہے؟

عبدالرؤف لنڈ: امدادی سرگرمیوں کا جہاں تک تعلق ہے، اس وقت تک زیادہ تر کھانا پہنچانے کی حد تک سرگرمیاں ہوئی ہیں۔ کشتیاں استعمال کر کے لوگ کھانا پہنچا رہے ہیں۔ تاہم یہ سب بھی حکومتی سطح پر نہیں ہو رہا ہے۔ لوگوں کا مطالبہ ہے کہ ٹینٹ مہیا کئے جائیں۔ ایک گھر اگر پانی میں ڈوبا ہوا ہے تو اس کے مکینوں کیلئے ایک ٹینٹ ناکافی ہے۔ ایک ایک گھر میں 10 سے 20 تک لوگ رہائش پذیر تھے، انہیں ایک ٹینٹ فراہم کرنے سے وہ کیسے رہ سکتے ہیں۔ لوگ پانی میں پھنسے ہوئے ہیں، خشکی کا کوئی ایک ٹکڑا نہیں مل رہا۔ ابھی تک انہوں نے کشتیوں کے ذریعے صحت کی سہولیات پہنچانے کیلئے بھی کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ اس وقت صحت کا ہے، ڈوبنے سے شاید اتنا جانی نقصان نہیں ہوا، جتنا بیماریوں سے اموات کا خدشہ ہے۔ جہاں پانی جمع ہے، وہیں رفع حاجت بھی کی جا رہی ہے، وہی پانی استعمال ہو رہا ہے، پہلے سے زہریلا پانی اس طرح مزید گندہ اور زہریلا ہو رہا ہے، اسی پانی میں ہلاک شدہ مویشی بھی پڑے ہیں، اس طرح بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے۔ طبی امداد کیلئے فوری اقدامات نہ کئے گئے تو ہلاکتوں کی تعداد زیادہ ہو گی۔ کھانے پینے کو کچھ نہ کچھ تو مل رہا ہے، لیکن صحت کیلئے کوئی اقدام نہیں اور نہ ہی ٹینٹ فراہم کئے جا رہے ہیں۔

غیر سرکاری تنظیموں، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی کوئی ریلیف مہم چل رہی ہے یا نہیں؟ اگر چل رہی ہے تو کس حد تک سود مند ہے؟

عبدالرؤف لنڈ: غیر سرکاری تنظیموں، مخیر حضرات اور سول سوسائٹی کی جانب سے کچھ امدادی سرگرمیاں تک کی جا رہی ہیں، تاہم وہ اتنے بڑے نقصانات میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ انفرادی طور پر یہ مسئلہ حل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ سیاسی جماعتوں کا کردار بہت ہی بھیانک اور شرمناک حد تک ہے۔ کسی سیاسی جماعت کی طرف سے اس قابل کچھ نہیں کیا ہے، جس کی تعریف کی جا سکے۔ کوئی بھی ایم پی اے اور ایم این اے لوگوں کے پاس نہیں آیا،بلکہ جو ان کا روایہ ہے، اکی وجہ سے لوگوں میں غم و غصہ ہے۔ یہ لوگ جہاں کہیں جا بھی رہے ہیں، لوگ انہیں گالیاں اور دھکے دے رہے ہیں۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگ اس وقت آئے ہو جب ہمارا کچھ بھی نہیں بچا۔ سیلاب کی وجہ سے 4 سے 5 روز تک لوگ اذیتوں میں مبتلا رہے، لیکن انتظامیہ یا حکومت کا کوئی بھی نمائندہ نہیں پہنچا۔ اب اگر کوئی آبھی رہا ہے تو زیادہ فوٹو سیشن ہی چل رہا ہے۔ حقیقی امداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہر کوئی اپنی کارگزاری کیلئے اپنے کارندوں کو ساتھ لے آتا ہے اور سوشل میڈیاپرمہم چل رہی ہے کہ فلاں سردار صاحب اور فلاح وڈیرہ صاحب وہاں آئے ہیں، یہ سب جھوٹا پروپیگنڈہ ہے۔ کسی کا کوئی کردار نظر نہیں آ رہا ہے۔ اگر کچھ نظر آ رہا ہے تو وہ ایک شرمناک کردار ہی ہے۔

حکومت کی جانب سے 25 ہزار نقد امدادی رقوم کا جو اعلان کیا گیا ہے، وہ کتنے لوگوں کو مل رہی ہیں اور اس سے کچھ مسائل حل بھی ہو سکتے ہیں یا نہیں؟

عبدالرؤف لنڈ: پہلی بات تو یہ ہے کہ 25 ہزار روپے کی امدادی رقوم کا اعلان سیلاب متاثرین کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہے، لیکن اس سے بھی بڑھ کر جس طرح سے یہ رقوم دی جا رہی ہیں وہ زیادہ تکلیف دہ اور ذلت آمیز ہے۔ لوگ سڑکوں، کالجوں اور سکولوں میں لائنوں میں خواتین کے ہمراہ لگے ہیں، پیسے نکلوانے کیلئے کئی کئی لائنوں میں خوار ہونا پڑتا ہے، دن بھر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقوم کی طرز پر ہی یہ رقوم فراہم کی جا رہی ہیں، ایک دن کا کام ایک مہینے میں کیا جا رہا ہے۔ ہر ایک شخص کو یہ رقم وصول کرنے کیلئے دن بھر بھوکے پیاسے کئی بار لائنوں میں لگنا پڑتاہے۔ اس کے بعد جو رقوم ملتی ہیں ان میں سے بھی کٹوتیاں کی جاتی ہیں۔ جہاں جتنا ہو سکے لوٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ 2 ہزار سے 5 ہزار تک کی رقوم رشوت کے طورپر نکال لی جاتی ہیں۔ اس میں یہ سارے لوگ انتظامیہ اور پولیس اہلکاروں تک شامل ہوتے ہیں۔ سب مل کر یہ دھوکہ دہی کرتے ہیں اور سب کو حصہ مل رہا ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو شکایات پر کارروائی کی جاتی۔ انتظامیہ کی موجودگی میں یہ سارا ساز باز سے کام ہوتا ہے۔ اب جدید ٹیکنالوجی موجود ہے، سب لوگوں کے پاس موبائل فون ہیں۔ ان کے ذریعے سے رقوم ارسال کی جائیں، انہیں ایک میسج دکھا کر رقوم مختلف ریٹیلرز سے فراہم کی جانی چاہیے۔ اگر یہ رقم دی ہی جا رہی ہے تو اس کے انتظامات ایسے کئے جائیں تاکہ لوگ باعزت طریقے سے یہ رقوم حاصل کر کے چند دن کا گزارہ تو کر سکیں۔ رشوت ستانی کے اس سلسلے کو فوری روکا جانا چاہیے، ذمہ داران کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اور لوگوں کو یہ رقوم حاصل کرنے میں آسانی پیدا کی جانی چاہیے۔

آپ کے خیال میں بائیں بازو کی تنظیموں اور سیاسی کارکنان کو اس صورتحال میں کس طرح سے رسپانس کرنا چاہیے؟

عبدالرؤف لنڈ: بائیں بازو کے لوگ انقلابی نظریات کے حامل ہوتے ہیں۔ انکا فریضہ بنتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ عوامی کمیٹیاں تشکیل دیں، متاثرین کو وقتی ریلیف اور میڈیکل کی سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ریاست پر دباؤ بڑھانے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں کیونکہ یہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی بحالی اور آبادکاری کیلئے اقدامات کرے۔ تاہم صرف احتجاج کرنے کی بجائے سب سے پہلا فریضہ لوگوں کو ہنگامی طورپر کچھ نہ کچھ ریلیف فراہم کرنے کیلئے اقدامات کرنا ہے۔ کمیٹیاں بنائی جانی چاہئیں، سڑکوں، گلیوں اور محلوں میں کیمپ لگائے جانے چاہئیں، جہاں فوری نوعیت کی مدد لوگوں کو فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ عام آدمی کی بحالی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ کسی راشن پیکیج، ٹینٹ یا چند ہزار روپے کی رقوم سے سیلاب متاثرین کی بحالی نہیں ہو سکتی۔ اس لئے بحالی اور آبادکاری کے لئے مربوط مطالبات پر مبنی فوری انقلابی کمپئین کی ضرورت ہے تاکہ صوبائی اور قومی حکومتوں پر دباؤ بڑھایا جائے اور جلد از جلد سیلاب زدگان کی بحالی اور آبادکاری پر انہیں مجبور کیا جا سکے۔ انقلابی دوستوں کا یہی فریضہ بنتا ہے، کہ عوام کو حکمرانوں کے سامنے خوار ہونے کیلئے چھوڑنے کی بجائے انہیں حقوق کیلئے لڑنے کیلئے تیار کیا جائے۔ سیلاب کے بعد کسانوں اور محنت کش طبقے کی دیگر پرتوں کے پاس کھونے کو کچھ نہیں بچا ہے۔ انہیں اپنے اور آنیوالی نسلوں کے مستقبل کو تعمیر کرنے کیلئے اس نظام کے خلاف فیصلہ کن معرکے کی تیاری کرنا ہو گی۔

حکومت رکے ہوئے پانی کو نکالنے اور تعمیر نو و بحالی کیلئے کس نوعیت کے اقدامات فوری طور پر کرنے کی ضرورت ہے؟

عبدالرؤف لنڈ: پانی کو نکالنے کیلئے تو قدرتی بہاؤ کے راستوں کو بحال کرنا ہو گا اور نشیبی علاقوں میں جمع ہوئے پانی کو پمپنگ کیلئے نکالنا پڑے گا، تاہم یہ ریاستی ڈھانچہ اتنا بوسیدہ ہے کہ یہ لگتا نہیں ہے کہ آنے والے کئی ہفتوں تک اس پانی کو نکالا جا سکے گا۔ حکومت کو فوری طور پر کسانوں کے ہر طرح کے قرضے معاف کرنے چاہئیں، تباہ حال گھروں کے لئے کم از کم 5 لاکھ روپے کی فوری امداد کی جانی چاہیے، حالانکہ 5 لاکھ نقصان ہونے والے مکانات کا نعم البدل نہیں ہو سکتا، لیکن سرچھپانے کی جگہ بنائی جا سکتی ہے۔ پانی خشک ہونے پر نئی فصل کیلئے بلاسود قرضے دیئے جائیں، کھاد اور بیچ وغیرہ مفت فراہم کئے جائیں۔ سیلاب متاثرہ لوگوں کے بچوں کی سکول سے یونیورسٹی تک کی فیس معاف کی جائے اور دیگر تعلیمی اخراجات وظائف کی صورت ادا کئے جائیں۔ بجلی کے بلات یکسر ختم کئے جائیں اور یہ دو سو یونٹ والا ڈرامہ بند کیا جانا چاہیے۔ تلا تفریق تمام سیلاب متاثرہ علاقوں میں بجلی کے بلات اور دیگر سرکاری واجبات چھ ماہ کیلئے ختم کئے جائیں تاکہ اگلی فصل تیار ہو کر لوگ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو سکیں۔ علاج کی سہولیات سرکاری ہسپتالوں میں ہنگامی بنیادوں پر فراہم کرنے کے علاوہ دیہاتوں میں میڈیکل کیمپ لگائے جائیں۔ دیہی مراکز صحت پر سہولیات باہم پہنچائی جائیں، ڈاکٹروں کی تعداد میں ہنگامی بنیادوں پر اضافہ کیا جائے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔