تاریخ

راولپنڈی ’سازش‘ کیس (حصہ اوّل)

علی مدیح ہاشمی

(فیض احمد فیض کی سوانح حیات ’مہر و وفا کے باب‘سے اقتباس۔ یہ کتاب فروری 2023ء میں شائع ہو گی)

دِلا محرومیء پروانہ کب تک، یونہی بے شیوہء مردانہ کب تک
اب اپنی آگ میں بھی جل کے دیکھو، طوافِ آتِشِ بیگانہ کب تک

(پیامِ مشرِق از علامہ اِقبال
منظوم اُردو ترجمہ فیض احمد فیضؔ)


فیضؔ اور ایلس کی شادی کو 9 برس گزر چکے تھے اور اکتوبر میں وہ اپنی شادی کی دسویں سالگرہ منانے کا پروگرام بنا رہے تھے۔ دونوں بیٹیاں بڑی ہو رہی تھیں اور شہر کے ایک اچھے انگریزی اسکول میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ فیض ؔہمیشہ کی طرح شدید محنت کر رہے تھے مگر ان کا گھر اور ان کی دونوں بیٹیاں، کام سے وقتی سکون کے لمحات فراہم کر تی تھیں لیکن گھر سے باہر کے حالات دِگر گوں تھے۔ پاکستان کو وجود میں آئے 4 برس ہو چکے تھے اور پوری قوم ابھی تک ایک افرا تفری کا شکار تھی۔ سیاسی یکجہتی کی کمی، مغرب پر بڑھتا ہوا انحصار، معاشی بحران اور لاکھوں مزدوروں اور کسانوں کی زندگی میں کسی بہتری کی کوئی امید ندارد۔ آزادی کا جوش و خروش عرصہ ہوا ختم ہو چکا تھا اور ایک اجتماعی مایوسی دلوں میں بیٹھ رہی تھی۔
فیض ؔکے ایک قریبی دوست، کمیونسٹ پارٹی پاکستان کے رکن اور مارکسی تاریخ دان سید سبطِ حسن نے اس نئی قوم کی لیڈر شپ کا تجزیہ اور تنقید کرتے ہوئے لکھا: ”مسلم لیگی لیڈروں کے دِل میں مُلک اور قوم کا کوئی درد نہیں ہے۔ انُہوں نے تحریکِ پاکستان میں اپنی غرض اور ہوس کو پورا کرنے کے لئے شرِکت کی۔ اِس تحریک میں شامِل ہوتے وقت یا اُس کے بعد اُن میں سے کِسی کا ایک بال بھی بیکا نہیں ہوا، نہ کِسی نے قید خانے کا منُہ دیکھا نہ پولیس کے ڈنڈے سہے اور نہ انُہیں کوئی مالی نقُصان پہنچا۔ اُن کے لئے پاکستان مالِ غنیمت سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا تھا، اور سارا جھگڑا اِس مالِ غنیمت کو آپس میں بانٹنے پر تھا“۔
فیضؔ کی ادارت میں چلنے والے دونوں اخبار پاکستان ٹائمز اورامروز، مسلم لیگ کے باضابطہ (سرکاری) ترجمان نہیں تھے مگر فیضؔ نے شروع میں ہی یہ بات واضح کر دی تھی کہ وہ پاکستان کے حق میں ہیں۔ انہوں نے اپنے پہلے اداریے کا عنوان رکھا تھا، ”ہم مسلم لیگی اخبار ہیں“ اور اخبار نے نئے وطن پاکستان کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا تھا۔ دونوں اخبار شروع سے اس بات پر زور دیتے آئے تھے کہ پاکستان میں بننے والی حکومتوں کی بنیاد 1940 ء کی قرار دادِ پاکستان، قائد اعظم کی تقاریر اور مضامین اور تصورات پر ہونی چاہیے جس کا مطلب یہ تھا کہ مستقبل میں نئی مملکت پاکستان کا قومی بیانیہ تصورات، تاریخ اور تمام زبان و مذاہب سے وابستہ افراد کے سیاسی اور ثقافتی عناصر پر محیط ہو گا۔ کئی برس بعد فیضؔ نے اس المیے کے بارے میں کہا تھا:
”ہم ذاتی طور پر یہ سمجھتے ہیں اور میں یہ لکھ بھی چکا ہوں کہ ۷۴۹۱؁ تک پاکستانی قوم تو کوئی نہیں تھی اور نہ ہی پاکستان کوئی ملک تھا کیونکہ ملک نہیں تھا اس لئے قوم بھی نہیں تھی۔ اس وقت جو تصورات تھے پاکستان کے مسلمانوں کے، وہ دو طرح کی اصطلاح تھی: ایک تو ہندوستان کے مسلمان جو اپنے آپ کو الگ قوم کہتے تھے لیکن اس میں ہندوستان پاکستان دونوں کے مسلمان شامل تھے اس میں پاکستانی قوم تو نہیں تھی اور دوسرے جس جس علاقے میں لوگ رہتے تھے وہ اپنے اپنے علاقے سے منسوب تھے یعنی پنجابی اور سندھی اور بلوچی اور پٹھان وغیرہ۔ پاکستانی قوم کی ظاہر ہے اس وقت تک تخلیق نہیں ہوئی تھی۔ پاکستان ہی نہیں تھا قوم کہاں سے آجاتی؟ جب پاکستان بن گیا تو ہمیں تو خام مصالحہ ملا تھا پاکستانی قوم کا۔ قوم کا ارتقاء تو صدیوں میں ہوتا ہے کبھی بنی بنائی قوم تو نہیں پیدا ہوتی۔ تو ہماراپہلا کام یہ تھا کہ ہم اس قومیت کی تفصیل،اس کی کوئی تعریف، اس کی کوئی منزل،اس کا کوئی راستہ مقررکرتے لیکن ہوا یہ کہ ہم اور قصوں میں الجھے رہے، وزارتوں میں، اور صدارتوں میں، اور حکومتیں بنانے میں اور توڑنے میں اور اس طرف نہ تو ہمارے اہلِ نظر اور نہ ہی اہلِ سیاست نے کوئی توجہ کی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ستائس اٹھائس برس کے بعد ابھی تک یہ بحث چل رہی ہے کہ پاکستانی قومیت کیا ہے اور کیا نہیں ہے(یہ بات فیضؔ ۴۷۹۱ میں ریڈیو پاکستان پر ایک انٹرویو میں کر رہے تھے۔ مصُّنف)۔ہماری نظر میں تو پاکستانی قومیت بالکل واضع ہے۔ جو لوگ پاکستان میں رہتے ہیں وہ پاکستانی قوم ہیں۔ اس میں پنجابی بھی ہیں بلوچی بھی سندھی بھی اور لوگ بھی جو یہاں بستے ہیں وہ یہاں کی قوم ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس قوم کی مختلف جو قسمیں ہیں پنجابی سندھی بلوچ اور لوگ جو ہیں ان کی زبانیں الگ ہیں ان کے رسموں رواجوں میں تھوڑا سا اختلاف ہے، اُن میں قومیت کا ایک بندھا ہوا، مکمل احساس پیدا کیا جائے۔ تو یہ اہلِ سیاست کا کام ہے لیکن میرے ذہن میں تو بالکل واضع ہے کہ جو کوئی پاکستان میں بستا ہے وہ پاکستانی قوم ہے۔ اس قوم کو منُضبط کس طریقے سے کرنا ہے اس کو کس رستے پہ چلانا ہے اس کے بارے میں مختلف رائے ہیں“۔

’فیضؔ صاحب، آپ کو ہمارے ساتھ چلنا ہو گا‘
9 مارچ 1951ء انتخابات کے لیے پولنگ صبح سویرے شروع ہونی تھی۔ 8 مارچ کو فیضؔ دیر سے گھر پہنچے۔ صبح کو الیکشن کی وجہ سے اخبار میں کام بہت زیادہ تھا۔ وہ جلد ہی سونے لیٹ گئے۔ ایلس اپنی کتاب کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں! (Over my shoulder) میں لکھتی ہیں:

صبح سویرے میری آنکھ کھلی تو مجھے لگا کہ کوئی ہماری کھڑکی پر ٹارچ ڈال رہا ہے۔ مجھے فوراً احساس ہوا کہ یہ کوئی خواب نہیں بلکہ واقعتا کوئی باہر ہے۔ میں خاموشی سے بستر سے اٹھی اور چپکے سے کھڑکی کے باہر دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ بے شمار پولیس کی وردیاں پہنے آدمی باہر کھڑے ہیں او ر سرگوشیوں میں بات کر رہے ہیں۔ میں نے ٹیرس سے آ کر جھانکا تو دیکھا کہ کئی درجن اسلحہ بردار پولیس والوں نے گھر کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے۔ میرے ذہن میں فوراً خیال آیا کہ یہ تو چھاپہ پڑا ہے۔ میں نے فیضؔ کو جگایا، وہ ابھی نیند میں تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہو سکتا ہے تلاشی لینے آئے ہوں۔ آج کل صحافیوں اور مصنفوں کو خاموش کرنے کے لیے ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت گھر میں بیئر کی چند بوتلیں موجود تھیں۔ فیضؔ نہیں چاہتے تھے کہ پولیس کے ہاتھ کوئی بہانہ لگے۔ اس لیے وہ بوتلیں مجھ سے لے کر انہوں نے باتھ روم میں بہا دیں اور خالی بوتلیں میں نے پڑوسیوں کے خالی اور اجاڑ فرنٹ یارڈ میں پھینک دیں۔ بوتلیں ایک زور دار آواز کے ساتھ جا کر گریں اور ٹوٹ گئیں۔ خاموشی میں یہ آواز اور بھی بلند محسوس ہوئی جس نے نیچے والوں کو اور بھڑکا دیا۔ انہوں نے زور زور سے ہمارا دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔ فیضؔ نے ٹیرس پر کھڑے ہو کر پوچھا: کون ہے؟ کسی نے جواب دیا: فیض ؔصاحب۔ ہم آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ فیض ؔنیچے گئے اور دروازہ کھولا۔ کوئی دو درجن اسلحہ بردار پولیس والے تیزی سے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آئے اور ہمارا ٹیرس ان سے بھر گیا۔ فیضؔ نے ان سے خاموش رہنے کے لیے کہا کہ بچے سو رہے ہیں اور ان سے پوچھا کہ کیا ان کے پاس کوئی سرچ وارنٹ ہے جس کا جواب انکار میں تھا۔ ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ آپ کو ہمارے ساتھ چلنا۔فیضؔ نے پولیس والوں سے اصرار کیا کہ یا تو وہ انہیں سرچ وارنٹ دکھائیں ورنہ نیچے چلے جائیں اور انہیں تیار ہونے کا موقع دیں۔ بادلِ نخواستہ پولیس والے باہر چلے گئے اور انتظار کرنے لگے۔ فیضؔ صبح کے دھندلکے میں تیار ہوئے اور ایلس کو تسلی دی کہ شائد انتخابات کی وجہ سے،پیش بینی کے طور پر لے جا رہے ہیں اور میں چند گھنٹوں میں واپس آ جاؤں گا۔ اپنے ایک خط میں ایلس نے بعد میں لکھا”مجھے کیا معلوم تھا کہ انہیں واپس آنے میں چار سال سے بھی زیادہ لگ جائیں گے“۔
عام لوگ جنہوں نے پاکستان کے قیام کی حمایت کی تھی وہ یہ چاہتے تھے کہ پاکستان ایک آزاد اور جمہوری ریاست ہو جہاں اقلیتوں کے ساتھ ساتھ غریب اور پسماندہ پریشان حال لوگوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ بہرحال قیامِ پاکستان کے فوراً بعدخاص کر 1948ء میں قائداعظم کی وفات کے بعد حکومتِ پاکستان ایسے افراد کے ہاتھوں میں آ گئی جو ان تصورات و نظریات کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔
ایسے میں بیوروکریٹس، مقامی زمینداروں اور سرمایہ داروں کو مل کر ایک طاقتور گروپ بنانے میں نہ دیر لگی اور نہ مشکل ہوئی۔ ایسا مفاد پرست گروہ قائم ہونے سے بے اصول اخباروں اور لسانی و مذہبی تفریق اور نفرت کے نعرے لگانے والے ملاؤں کو بہت خوشی ہوئی۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی نظروں میں پاکستان ٹائمز، امروز اور بعد میں لیل و نہار ”پاکستان دشمن اور غدار“ تھے۔ وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان خلیج بڑھنے لگی اور کئی نامور مسلم لیگی رہنما علاقائی اور صوبائی پارٹیوں میں شامل ہونے لگے۔ ابھی تقسیم میں معصوم انسانوں کا بہنے والا خون خشک بھی نہیں ہوا تھا کہ یہاں سے جانے والوں کی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ شروع ہو گیا۔ دونوں پڑوسی ممالک انڈیا اور پاکستان کو بہت سے یکساں مسائل کو حل کرنا تھا جس میں سے ایک مسئلہ کشمیر تھا جس پر پہلے ہی لڑائی ہو رہی تھی۔
ان تمام حالات میں 1951ء میں پنجاب میں پہلے صوبائی الیکشن کا اعلان کیا گیا تا کہ بالغ افراد اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں۔ متعدد جماعتوں نے اپنے نمائندے اس الیکشن میں نامزد کیے اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان (CPP) بھی اس دنگل میں شامل ہو گئی۔ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سر گرم کارکن، فیض ؔکے قریبی اور تاحیات دوست اور پاکستان کے مایہ ناز تاریخ دان سید سبطِ حسن نے اس صورتِ حال کو کچھ یوں بیان کیا تھا:
”ہمیں معلوم تھا کی ہماری پارٹی (CPP) اپنی مقبولیت کے باوجود شاید دو یا تین نشستیں ہی حاصل کر سکے لیکن ہم نے دس یا گیارہ حلقوں سے اپنے امُیدوار کھڑے کئے۔ مقصد الیکشن جیتنا نہیں تھا بلکہ پارٹی کے اغراض و مقاصد اور پروگرام کو زیادہ سے زیادہ عام لوگوں تک پہنچانا تھا۔ اسمبلی کے انِتخابات کے موقع پر عام طور پر تحریر و تقریر پر پابندیاں نسبتاٍ کم ہو جاتی ہیں اور لوگوں تک پہنچنے کے مواقع بہتر ہو جاتے ہیں۔ الیکشن کی سرگرمیاں تیز ہوئیں تو ہمیں یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ عام لوگ ہزاروں کی تعداد میں ہمارے جلسوں میں شریک ہوتے ہیں اور ہماری باتیں ہمدردی سے سُنتے ہیں۔ ملُتان اور لائل پور کے دیہی علِاقوں سے جو خبریں آئی تھیں وہ بڑی امُید افزاء تھیں اور لاہور کے مزدور حلقے میں ہمارے امُیدوار مرِزا ابِراہیم کی پذیرائی جِس جوش و خروش سء ہو رہی تھی اس نے ہمارے حوصلے بلُند کر دئے تھے“۔

”وطن کے خلاف بغاوت“
پولیس کے فیضؔ کو لے جانے کے کچھ دیر بعد ہی ایلس کو ریڈیو سے خبر ملی کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کے خلاف ہونے والی ایک سازش کو بے نقاب کر دیا گیا ہے اور اس حوالے سے متعدد فوجی افسران اور بغاوت میں ملوث چند شہریوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس سازش کا مقصد، سرکار کے مطابق، ملک میں اور فوج میں انار کی اور شورش پیدا کرنا تھا۔ گرفتار شدگان سازشیوں کی فہرست میں شامل تھے: چیف آف اسٹاف پاکستان آرمی میجر جنرل اکبر خان، بریگیڈئیر ایم اے لطیف جنہیں بعد میں کوئٹہ پوسٹ کیا گیا، بیگم اکبر خان اور چیف ایڈیٹر پاکستان ٹائمز، فیض احمد فیضؔ۔ اس اعلان کے بعد ہدایات دی گئیں کہ لوگ امن و امان قائم رکھیں اور کوئی قدم نہ اٹھائیں۔ یہ سن کر ایلس سکتے میں آ گئیں اور اچانک ان کو احساس ہوا کہ معاملہ کس قدر سنجیدہ اور خطر ناک ہے۔ چند دنوں میں ہی عام لوگوں کا غم و غصہ اور دیوانگی آسمان کو چھو رہی تھی اور ان کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا تھا کہ تمام ملزمان کو بغیر کسی مقدمے اور سماعت کے فوری پھانسی دے دی جائے۔ قدامت پسند اور مذہبی اخبارات کا خاص نشانہ فیضؔ تھے کیوں کہ وہ مزدوروں اور عورتوں کے حقوق کی حمایت کے باعث ایک عرصے سے ان کے دلوں میں کانٹے کی طرح چبھ رہے تھے۔
اگلے دن دنیا بھر کے اخبارات میں فیضؔ کی گرفتاری کی خبر نمایاں طور پر شائع کی گئی تھی۔ سازش میں شریک واحد صحافی اور سب سے مشہور شاعر پر نہایت گھٹیا طریقے سے الزام تراشی کی گئی۔ دہلی کے اخبار دی اسٹیٹس مین نے شہ سرخی لگائی۔
”فیضؔ: سازش کا مرکزی کردار“
لندن ٹائمز نے لکھا: ”پاکستان میں بائیں بازو کا سب سے خطر ناک شخص“۔ بعد میں جس طرح چیزوں کو پیش کیا گیا اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ کیوں فیضؔ کوبڑے بڑ ے اخباروں میں خاص توجہ دی گئی اور کیوں ان کو نشانے پر رکھا گیا۔
ایلس بتایا کرتی تھیں کہ فیضؔ کی گرفتاری کے بعد کے ابتدائی چند روز انتہائی تکلیف دہ تھے۔ خاندان والے اور قریبی دوست اکثر آتے جاتے مگر فیضؔ کی بڑی بیٹی سلیمہ کے مطابق ”وہ لوگ جو دن رات گھر آیا جایا کرتے تھے، آہستہ آہستہ ان سب نے ہمارے گھر آنا ترک کر دیا تھا“۔ ان کے لیے یہ بات دماغ میں بٹھانا بہت مشکل تھا کہ جس نرم گفتار، محبتی اور پر امن ٹھنڈے مزاج کے فیضؔ کو وہ جانتے تھے اخبار والے اس شخص کی ایک دوسری تصویر پیش کر رہے تھے۔
وزیر اعظم کی تقریر نے ایک اور ہی آگ بھڑکا دی تھی۔ انہوں نے اس سازش میں ”غیر ملکی طاقت“ (اشارہ سوویت یونین کی جانب تھا) کے ملوث ہونے اور پاکستانی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔ وزیر اعظم کے بقول اس سازش کا مقصد موجودہ حکومت اور سیاسی سماجی نظام کو گرا کر (فوج کی مدد سے) کمیونسٹ حکومت قائم کرنا اور اس کے نظام کو فعال کرنا تھا۔ انہوں نے مزید الزام لگاتے ہوئے کہا کہ سازشیوں کا ارادہ تھا کہ فوجی افسران کو ورغلا کر اپنے ساتھ شامل کر لیا جائے۔
اس الزام کا تمام تر بوجھ پاکستان کی ننھی منی کمیونسٹ پارٹی پر ڈال دیا گیا تھا۔ سید سجاد ظہیر کو فوری طور پر حراست میں نہیں لیا جا سکا تھا کیوں کہ وہ زیرِ زمین چلے گئے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ فیضؔ اکیلے اخباروں کے لیے ہدف بن گئے تھے۔ گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا جو سازش کے الزام کی بنیاد پر نہیں بلکہ ٹارگٹ کی بنیاد پر تھا اور اس لیے پاکستان ٹائمز اور امروز کے معمولی کارکنوں اور مزدوروں کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اخبارات میں ایک زبردست سوویت مخالف کمپین شروع ہو گئی جس کا لب لباب یہ تھا کہ مغربی سرمایہ دار کتنے بھی برُے ہوں مگر خدا کو تو مانتے ہیں جب کہ لادین اور خدا کو نہ ماننے والا سوویت یونین اور اس کے اتحادی کبھی بھی ہمارے دوست نہیں ہو سکتے۔ یہ خود ساختہ ہیجان عالمی پروپیگنڈہ مہم کا حصہ تھا جس کا مقصد سوویت یونین اور اس کے پڑوسی ممالک کو مطلق العنان آمر ثابت کرنا تھا، حالانکہ چند برس پہلے تک وہ مغربی طاقتوں کے اتحادی تھے اور فسطائیت (Fascism) کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے۔
یہ اُبھرتی ہوئی سامراجی طاقت امریکہ اور سوویت یونین کے مابین ایک سرد جنگ (cold war) کا آغاز تھا جس میں میدانِ جنگ کا تعین کر دیا گیا تھا۔ خود امریکہ میں اِسی قسم کا عمل Red Scare (سرخ خوف) کے نام سے شروع ہو چکا تھا۔ اس مہم کے سربراہ شدت پسند امریکی سینیٹر جوزف میکارتھی (Joseph McCarthy) تھے جنہوں نے امریکی حکومت اور افواج میں کمیونسٹ سوچ کو سرایت کرنے کے تصوراتی مقدمات کی سماعت بھی کی اور امریکہ مخالف افراد کی سرگرمیوں کے بارے میں بنائی گئی کمیٹی کو بھی سنُا جس نے سینکڑوں فنکاروں کو بلیک لسٹ کر دیا صرف ان کے تخریب کار ہونے کے شبے کی بنیاد پر۔ امریکہ میں اس مہم کے دوران ہزاروں بے گناہ افراد کو گرفتار کر کے ملازمتوں سے نکال دیا گیا۔ یہاں تک کہ جیلوں میں ڈال دیا گیا۔
ان تمام لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بعد میں فیضؔ نے اپنی مشہوُر نظم”ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے“ لکھی تھی جو اس حکومتی مہم کے دو سب سے مشہور مظلوُم نو جوان جوڑے کے بارے میں تھی جنِ کا نام جولیس اور ایتھل روزنبرگ (Julius and Ethel Rosenberg) تھا، جنہیں روسی جاسوس ہونے کے الزام میں امریکی حکومت نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
سوویت یونین پر ”ملحد“ ہونے کا الزام بلا شک و شبہ جان بوجھ کر اچھا لا گیا تھا، کیوں کہ اس وجہ سے لازماً ردِ عمل آنا تھا، خاص کر پاکستان جیسے ملک میں جو اسلام کے نام پر قائم کیا گیا تھا۔
خوف زدہ کرنے والے حربوں سے مطلوبہ نتائج حاصل ہوئے۔ پورے ملک کو ایک دہشت نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بہت ساری ٹریڈ یونینوں نے رضاکارانہ طور پر اپنی سرگرمیاں بند کر دیں۔ بائیں بازو کی کئی جماعتوں نے انتقام لیے جانے کے خوف سے اپنے آپ کو تحلیل کر دیا۔ ایک لمبے عرصے تک گرفتاریوں کے لیے سرکار کوئی قانونی وجہ بیان کرنے سے قاصر تھی۔ پھر کہیں جا کر یہ اعلان کیا گیا کہ فیضؔ، جنرل اکبر اور ان کے ساتھ سازش میں ملوث افراد کو بنگال سازش ایکٹ 1818 کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی کہ 100 سال سے بھی زیادہ پرانے قانون کے تحت قانونی چارہ جوئی کرنا، حکومت کے لیے مذاق بن گیا۔ اس لیے قانون ساز اسمبلی نے افرا تفری میں ”راولپنڈی سازش ایکٹ“ منظور کر لیا تا کہ گرفتار سازشیوں پر مقدمہ چلایا جا سکے۔
بعد میں ایک بار فیضؔ نے ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا تھا:”اورپھِر بات کا بتنگڑ بنایا گیا۔ اِس کی وجہ غالباٍ یہ تھی کہ حکومت ہمارے فوجی افسروں سے خفا تھی۔ دوسرے حکومت کا شاید تاثر بھی تھا کہ شاید یہ لوگ پوری طرح سے فرماں بردار نہیں ہیں۔ وہ ان سے کسی نہ کسی طرح چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس طرح انہیں ایک اچھا موقع ہاتھ آ گیا۔ ہم تو یونہی بیچ میں پھنس گئے“۔
حکومت کا اصل ٹارگٹ وہ آرمی افسران نہیں تھے جِن کی وفاداری پر شک تھا۔ اِس کارروائی کا بنیادی مقصدسامراجی طاقتوں کے ایماء پر ملک میں ان تمام آوازوں کو خاموش کرنا تھا جو حکومت سے اختلاف رکھتی تھیں۔ سب سے پہلا ہدف نئی جماعت کمیونسٹ پارٹی اور اس سے منسلک تمام ادارے تھے۔ حکومت کے نزدیک کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل سجاد ظہیر اور فیضؔ زیادہ خطر ناک تھے: یہ وہ لوگ تھے جو مزدوروں، کسانوں اور عورتوں کے حقوق کی بات کرتے تھے اور جنہوں نے نئی مملکت کی حکومت کے اشاروں پر چلنے سے انکار کر دیا تھا (یہ بھی یاد رہے کہ سجاد ظہیر آ ل انڈیا پروگریسیو رائیٹرز ایسوسیشن کے بانیوں میں سے تھے اور فیضؔ اپنے امرتسر کے دنِوں سے انُ کے ساتھ تنظیم میں کام کرتے رہے تھے یعنی تقسیم سے بہت سال پہلے سے حکومت کی خفُیہ اِداروں میں دونوں پر فائیلیں موجود تھیں)۔ دو مرکزی اخباروں کے چیف ایڈیٹر فیضؔ حکومت کے لئے زیادہ بڑا خطرہ تھے۔ حکومتی کارنِدوں کے لئے افسران کے درمیان اس سازش کے بارے میں گفتگو کے دوران فیضؔ کا موجود ہونا کسی تحفے سے کم نہیں تھا۔
”وہ کہاں ہیں؟“
فیضؔ کو حراست میں لیا جا چکا تھا مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں ہیں اور انہیں کیوں گرفتار کیا گیا ہے۔ ایلس اور ان کے دوستوں کی شدید کوشش کے باوجود بھی فیض ؔکے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی۔ پولیس اور خفیہ پولیس والوں نے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ ان کی تحویل میں نہیں ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ایلس کی فکر اور پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ ان گرفتاریوں کے بعد جو افواہیں پھیلنی شروع ہوئی تھیں وہ ایلس کی پریشانی کو اور بڑھا رہی تھیں۔ مثلاً یہ فیض ؔکو قلعہئ لاہور کے زمین دوز جیل میں رکھا گیا ہے، ان پر تشدد کیا جا رہا ہے،انُ کی بینائی ضائع ہو گئی ہے وغیرہ۔ ایلس کو دوسری پریشانی یہ تھی کہ کہیں یہ افواہیں بے بے جی یعنی فیضؔ کی والدہ کے کانوں تک نہ پہنچ جائیں۔ دوسری جانب ہر گزرتے دن کے ساتھ حکومت سازشیوں کے خلاف با ضابطہ الزامات لگانے سے قاصر نظر آ رہی تھی۔ اس بات سے لوگوں کا رویہ حکومت کے خلاف اور فیض ؔکے حق میں بدلنا شروع ہو گیا تھا۔
فیضؔ کے گرفتار ہونے کے فوراً بعد پروگریسیو پیپرز لمیٹڈ (PPL) نے حکومت کے کریک ڈاؤن کے خوف سے فیض کو پاکستان ٹائمز کی ادارت سے سبکدوش کر دیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے نامور صحافی کی بغیر اطلاع اور بلاوجہ گرفتاری پر کوئی احتجاج نہیں کیا تھا۔ برسوں بعد جنرل ایوب خان کی آمرانہ حکومت کے دوران PPL کو اپنی تحویل میں لے کر اس کا منہ بالکل ہی بند کر دیا گیا۔ اتفاقاً اس واقعے سے صرف چند مہینے پہلے ہی ایلس کو پاکستان ٹائمز میں بطور لائبریرین ملازمت مل گئی تھی اور انہیں خواتین اور بچوں کے مسائل پر ہفتہ وار کالم لکھنے کی ذمہ داری بھی دی گئی تھی۔ وجہ ان کی کام میں لگن اور توجہ تھی۔ پاکستان ٹائمز کی انتظامیہ نے فیضؔ کی گرفتاری کے بعد انہیں 400 روپے مہینہ تنخواہ پر ملازمت دی تھی جو اس مختصر سے خاندان کے گذارے کے لیے بھی ناکافی تھی۔ جب ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ان پیسوں میں کیسے گھر چلایا جائے تو ایلس نے یہ ذمہ داری فیضؔ کی سوتیلی بہن اقبال کے سپرد کر دی۔
سلیمہ اور منیزہ اس وقت لاہور کے مشہور کوئین میری اسکول میں پڑھ رہی تھیں۔ لڑکیاں وہاں بہت خوش تھیں مگر اب اس اسکول کی فیسوں کی ادائیگی نا ممکن ہو گئی تھی۔ اس لیے ان کو اس اسکول سے اٹھا کر کنیئرڈ مشن ہائی سکول میں داخل کروا دیا گیا۔ اس اسکول کی فیس کم تھی مگر تعلیمی معیار اچھا تھا اور اس اسکول کو ستائش کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں اسکول کی پرنسپل ایک انگریز خاتون تھیں اور ایلس کے ساتھ ان کا رویہ ہمدردانہ تھا۔ بے بے جی نے گاؤں سے گندم، چاول، سبزیاں اور گھی بھیجنا شروع کر دیا تھا اور خاندان کے دوسرے افراد روز مرہ چیزیں جیسے ڈبل روٹی، دودھ، چینی وغیرہ رعایتی قیمت پر لاکر دینے لگے تھے۔

فیضؔ ابھی تک لا پتہ تھے۔ پاکستان ٹائمز کے بے شمار کارکنان اور ساتھی بھی گرفتار کر لیے گئے تھے بشمول فیضؔ کی غیر موجودگی میں ایکٹنگ / عارضی ایڈیٹر مظہر علی خان۔ ان گرفتاریوں کی وجہ سے حیرت انگیز طور پر اخبار کی اشاعت میں بے حد اضافہ ہوگیا تھا جس کے باعث وہ اسٹاف جو گرفتار نہیں ہوا تھا ایلس سمیت، سب کی ہمت بہت بڑھ گئی تھی اور انُ میں ایک نیا حوصلہ پیدا ہو گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ان پر کام کا بوجھ بھی کئی گنا بڑھ گیا تھا۔ انگریزی زبان پر عبور ہونے کی وجہ سے ایلس کو یہ ذمہ داری بھی دے دی گئی تھی کہ مختلف مقامات سے جو رپورٹیں موصول ہو رہی ہیں ان کو پڑھیں، ایڈٹ کریں اور املِا بھی درست کریں۔ اسی دوران انہوں نے فیصلہ کیا کہ گریجوایشن بھی مکمل کی جائے۔
اپنی گاڑی فروخت کرنے کے بعد ایلس نے ایک بائیسکل خرید لی تھی تا کہ دفتر آنے جانے میں سہولت ہو۔ سائیکل چلانا انہوں نے لندن میں سیکھا تھا مگر یہ لاہور تھا جہاں کوئی بھی ٹریفک قوانین کی پرواہ نہیں کرتا تھا۔ ساتھ ہی ان کے راستے میں شہر کی چند مصروف ترین سڑکیں بھی آتی تھیں اور وہ اچھی طرح سے جانتی تھیں کہ لمحہ بھر کی غفلت ان کے چھوٹے سے خاندان کے مستقبل کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
لاہور ایک نہایت خوُبصورت شہر ہے۔ چوڑی سڑکیں اور ان پر لگے سرسبز درخت اور جگہ جگہ بنے ہوئے باغات۔ لاہور کے لوگ بھی اپنی خوُش مِزاجی اور مہمانداری کی وجہ سے پورے مُلک میں مشہوُر ہیں مگر لاہوری صرف اپنے شہر کی ایک چیز سے ڈرتے ہیں اور وہ ہے گرمی کا موسم۔ جب پارہ 100 ڈگری فارن ہائیٹ سے بھی اوپر چلا جاتا ہے اور مہینوں تک وہیں پر ہی اٹکا رہتا ہے۔ ہر چیز سورج کی تپش سے مرجھا کر پگھلنے لگتی ہے۔ انسان، چرنِد، پرندِ غرضیکہ ہر مخلوُق آتشیں گرمی سے چھُپتی پھرِتی ہے اور سائے میں بیٹھ کر ہانپ رہی ہوتی ہے۔ اور جب سب کو لگتا ہے کہ بس اب دم نِکل ہی جائے گا تو افُق پر کالے بادل نمودار ہوتے ہیں، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلنا شروع ہوتی ہے اور پھر بارش کا پہلا قطرہ ابرِ رحمت بن کر ٹپکتا ہے۔ مو نسون کی موسلادھار بارش میں نہانے کے لئے سب گھروں سے باہر نِکل آتے ہیں۔ مگر یہ خوشی وقتی ہوتی ہے۔ جیسے ہی بارش رکُتی ہے، ہوا میں نمی اور تیز دھوپ سارے شہر کو جیسے ایک بڑے سے گرم حمام میں تبدیل کر دیتی ہے۔ پنجاب کے مقامی باشندوں کے لیے بھی اس گرمی اور نمی کے موسم کو جھیلنا ناقابلِ برداشت اور انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ فیضؔنے ایک مرتبہ جیل سے ایلس کو خط میں لکھا تھا:
”لاہورکا درجہء حرارت اخبار میں دیکھتا ہوں تو دِل دُکھتا ہے۔ پھِر میں تصوُّر کرتا ہوں کہ تنوُر جیسے دفتر میں تمُہارا پسینہ بہہ رہا ہوگا۔ بچے دوپہر کی دھوپ میں اسکول سے پیدل گھر آ رہے ہوں گے اور لمبی تپتی ہوئی شامیں ایک بوجھ کو طرح تن بدن کو کچُل رہی ہوں گی۔ مُجھے اِن سب تقاضوں کا احساس ہے جو تمہاری اکیلی جان سے کئے جا رہے ہیں جِن سے نہ نِجات کی کوئی فوری صورت ہے اور نہ آرامِ جِسم و جاں کی۔ صرف مُشقت کا نہ ختم ہونے والا سِلسلہ ہے جِس کا نہ کوئی صِلہ ہے نہ معاوضہ۔ میں یہ سب کچُھ جانتا ہوں اور تمُہاری دِلجوئی کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں بجز اِس کے کہ ہر سفر کبھی نہ کبھی ختم ہو جاتا ہے اور اگر زِندگی باقی ہے تو مُستقبل بھی باقی ہے“۔
سورج کی تپش سے بچنے کے لیے ایلس نے ایک بڑا سا چٹائی کا بنا ہوا ہیٹ خرید لیا تھا جسے پہن کر رِبن کو اپنی ٹھوڑی کے نیچے باندھ لیا کرتی تھیں۔ بائیسکل میں ایک چھوٹی سی ٹوکری بھی لگی ہوئی تھی جس میں وہ اپنی کتابیں اور کاغذات رکھ لیا کرتی تھیں۔ ایک گھنٹی بھی لگی ہوئی تھی جس کی مخصوص آواز مال روڈ لاہور پر چلنے والے سب ہی لوگ پہچانتے تھے۔ یہاں تک کہ ٹریفک کا سپاہی بھی ان کو جان گیا تھا۔
او راکثر ان کے لیے راستہ صاف کروا دیتا تھا اور کبھی کبھی تو ایک سلیوٹ بھی مار دیا کرتا تھا۔ شام کو جب وہ گھر واپس آتیں تو بیٹیاں ان کا انتظار کر رہی ہوتیں۔ ایلس گھر آ کر نہاتیں اور بچوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کا ہوم ورک کروانے میں مدد کرتیں۔ اس کے بعد اپنے کاغذات لے کر بیٹھ جاتیں اور دفتر کا کام انجام دیا کرتیں۔ 4 سال سے زیادہ عرصے تک جب تک فیضؔ قید رہے یہ سائیکل ان کا وفاداری سے ساتھ نبھاتی رہی۔ زندگی آہستہ آہستہ ایک ڈھنگ پر چلنے لگی تھی مگر ابھی تک فیض ؔکے حوالے سے کوئی خبر نہیں تھی۔
”تمہارے اباّ زندہ ہیں“
تین مہینے تک فیض ؔکے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی۔ نہ یہ معلوم تھا کہ وہ کہاں ہیں اور نہ ہی یہ پتہ تھا کہ کس کی تحویل میں ہیں۔ آخر کار لائل پور ڈسٹرکٹ جیل (حال فیصل آباد) سے ایک خط موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ فیض ؔکو لائل پور جیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا تھا۔ اب انہیں اپنے گھر والوں سے ملاقات کی اجازت دے دی گئی تھی۔ وہ ایلس اور بچیوں سے ملنا چاہتے تھے۔ سلیمہ نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتایا: ”میں ایک دن اسکول سے واپس آئی تو اماں بہت خوش نظر آ رہی تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی بے اختیار انہوں نے بتایا، تمہارے ابا زندہ ہیں۔ خوشی سے میری بھی چیخ نکل گئی۔ کیا کہا؟ وہ زندہ ہیں؟ وہ کہاں ہیں؟ کیسے ہیں؟ خوشی سے پاگلوں والی کیفیت ہو رہی تھی۔یہ معلوم ہو جانے کے بعد کہ وہ زندہ ہیں ہم سب کو ایک خوف نے گھیر لیا تھا کہ اب ان کے ساتھ کیا ہو گا۔میری خوشی پر خوف کے بادل چھا گئے۔ ساری رات برے برے خیالات مجھے تنگ کرتے رہے۔ کبھی میرے ذہن میں یہ تصویر ابھرتی کہ ان کی انگلیاں توڑ دی گئی ہیں اور بازو اور ٹانگیں کاٹ دی گئی ہیں۔ کبھی مجھے لگتا کہ ان کے شاداب چہرے پر چمکتی آنکھوں کی جگہ صرف دو کالے سوراخ ہیں۔ یہ سب بہت تکلیف دہ تھا۔ اماں کبھی بیٹھے بیٹھے چونک جاتیں اور کبھی چپ چاپ رونے لگتیں۔ کسی نہ کسی طرح وہ رات گزر ہی گئی اور ہم لائل پور کے لیے روانہ ہو گئے“۔
لائل پور جیل میں سپرنٹنڈنٹ نے ایلس سے پوچھا کہ ُان کے کتنے بچے ہیں۔ ایلس نے سلیمہ اور مُنیزہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، یہ دو بیٹیاں ہیں۔ اُس نے بڑے تاسف سے کہا بیٹے نہیں ہیں؟ ایلس نے اپنا سر نفی میں ہلا دیا۔ برصغیر کی اس ذہنیت سے وہ اچھی طرح واقف تھیں جہاں بیٹوں کو خاندان کی دولت اور رکھوالا سمجھا جاتا تھا جب کہ بیٹیاں ایسا بوجھ ہوتیں ہیں جنہیں صبر شکر سے اٹھانا ہوتاہے۔ سلیمہ کو اس ملاقات کا حال اپنی پوری جزئیات کے ساتھ یاد تھا:
”لائل پور جیل خانے پہنچے تو ایک تنگ کمرے میں بٹِھا دیا گیا۔ اُسے ملاقاتی کمرہ کہتے تھے۔ کھِڑکی کی بوسیدہ زنگ آلود سلاخوں کے بیچ سے مُجھے جیل خانے کا صحن نما حِصہ نظر آرہا تھا۔ میں آج بھی جب وہ وقت یاد کرتی ہوں تو میرا ذہن گُم ہو جاتا ہے۔بات کرنے کی تاب نہ تھی۔ یہ بھی نہ سوچ سکتی تھی کہ ابو سے کیا بات کروں گی۔ کھڑِکی کے بیچ سے نظر آیا کہ ُدور ایک کونے سے ایک آدمی پتلون قمیض پہنے، ننگے سر چلا آ رہا ہے۔ میں اُسے غور سے دیکھ رہی تھی، وہ شخص دور تھا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے آ رہا تھا۔ اُس نے کالی عینک پہن رکھی تھی۔ وہ قریب آیا اور میں بے ساختہ چیخ اٹُھی ابو! ممی نے دِلاسا دیا، ہاں ہاں، ابو آئیں گے۔ میں نے ممی کو جھنجھوڑا، ممی، ابو آرہے ہیں۔ ممی انھیں دیکھ نہیں سکتی تھیں۔ وہ اُٹھ کر کھڑِکی تک بھی نہ آئیں، نہ ہنسیں نہ روئیں، بس چپ ہو گئیں۔ پھِر پوچھنے لگیں کیسے ہیں؟ میں نے کہا وہ ٹھیک لگ رہے ہیں۔ اور پھِر میں نے کمنٹری شروع کر دی، اُن کے ہاتھ سلامت ہیں، ٹانگیں بھی ٹھیک ہیں مگر۔۔۔ممی بولیں مگر۔۔۔؟ میں نے کہا وہ لڑکھڑا رہے ہیں، کہنے لگیں وہ تو ہمیشہ سے ہی لڑکھڑاتے رہے ہیں۔ میں نے رونی سی شکل بنا کر کہا کہ انُہوں نے کالی عینک پہن رکھی ہے، یہ کیوں پہنی ہے؟پھر وہ افواہ یاد آئی کی اُن کی آنکھیں نکِال دی گئی ہیں اور میں چُپ ہو گئی، ممی بھی چُپ تھیں۔ چند لمحوں بعد ابو کمرے میں داخل ہوئے۔ ایک ہاتھ سے کالی عینک اُتاری اور ممی کو گلے لگا کر بولے ہیلو ڈارلنگ۔ پھر مُجھے گلے لگا کر پیار کیا۔ میں اُن کی آنکھوں کی طرف دیکھ رہی تھی جِن بیں پہلے سے بھی زیادہ چمک اور گہرائی تھی۔ میں خاموش بیٹھ گئی اور میری آنکھیں آنسوؤں سے دھندلا گئیں۔ ہم ایک دوسرے کو گلے لگاتے،تھوڑی سی بات کرتے اور پھر گلے لگ جاتے۔آپ نے کیا کیاِ ہے؟ میں نے پوچھا۔ کچھ نہیں، انہوں نے جواب دیا۔ سب بکواس ہے۔ انہوں نے ہم سے کبھی جھوٹ نہیں بولا تھا اس لیے مجھے یقین تھا کہ وہ جو کہہ رہے ہیں وہی سچ ہے۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، سب ٹھیک ہو جائیگا، انہوں نے کہا۔ ابا سے ملاقات کے بعد ہم ایک نئی امنگ اور جذبے کے ساتھ واپس لوٹ آئے“۔
فیضؔ نے بعد میں بتایا کہ شروع میں انہوں نے لاہور شہر کے وسط میں سینٹرل جیل میں چند دن قید تنہائی میں رکھاگیا۔ اَس کے علاوہ لاہور کا تاریخی قلعہ بھی ایک ایسی جگہ ہے جہاں ملزمان کو رکھا جاتا ہے اور اس جگہ کی دہشت مضبوط سے مضبوط دل والوں کو ہیبت زدہ کر دیتی ہے۔ یہاں کے قید خانے قلعے کے نیچے بنے ہوئے ہیں جو مغل دور میں تعمیر کیئے گئے تھے۔ ان کی تفصیل بتاتے ہوئے سبطِ حسن کہتے ہیں: ”لاہو قلعہ کے شاہی محلات اور عجائب گھر کی سیر کرنے والوں کو کیا خبر کہ اِس تاریخی عمارت کے ایک گمُنام گوشے میں جسِ کے ٹوُٹے پھوُٹے پھاٹک پر نہ کوئی تختی لگی ہے نہ کوئی چوکیدار، پہرے دِکھائی دیتا ہے سیاسی قیدیوں کو جسِمانی اور ذہنی اذییتیں پہنچانے کے کیسے کیسے سامان موجود ہیں۔ ظلُم و تشدد کے اِس سیاہ خانے میں قیدیوں کی چیخ پکار کال کوٹھڑیوں میں ہی جذب ہو کر رہ جاتی ہے اور باہر والوں کو کان و کان خبر نہیں ہوتی“۔
فیضؔ نے یہ نہیں بتایا کہ لاہو رمیں پولیس کی تفتیش کے دوران کیا پیش آیا تھا لیکن اس کے بعد پہلے انہیں سرگودھا جیل منتقل کیا گیا اور پھر لائل پور، جہاں انہیں 3 مہینے تک قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔ فیضؔ جیسے انسان کے لیے یہ ایک آزمائش رہی ہو گی۔ قید تنہائی میں قیدی کا دنیا سے رابطہ بالکل منقطع کر دیا جاتا ہے۔ ڈیوٹی پر موجود واحد گارڈ کو بھی بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ قید تنہائی کا کمرہ چھوٹا، تنگ اور تاریک ہوتا ہے جس میں ایک کونے میں بیسن لگا ہوتا ہے اور زمین میں ایک سوراخ یا بہت ہی سادہ کموڈ۔ روزانہ صبح شام آدھ آدھ گھنٹے کے لیے کوٹھری کے سامنے بنے چھوٹے سے صحن میں ٹہلنے کے لیے لایا جاتا ہے۔ اسے کسی شخص سے گفتگو کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور ویسے وہاں کوئی ہوتا بھی نہیں جس سے بات کی جائے۔ فیضؔ جیسے صحافی اور خبر کی دنیا کے انسان کے لیے شروع شروع میں بہت پریشان کن اور مشکل رہا ہو گا۔ علاوہ ازیں قیدی کو کاغذ، قلم، کتابیں وغیرہ رکھنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ جلد ہی قیدی بیرونی دنیا سے اپنے آپ کو منقطع محسوس کرنا شروع کر دیتا ہے اور درونِ ذات کا سفر جاری ہو جاتا ہے کیوں کہ اس کے علاوہ آپ کچھ اور کر ہی نہیں سکتے۔ فیضؔ کے لیے درونِ ذات کا یہ سفر ان کی شاعری بن گیا۔ یہ وہ دور تھا جس میں انہوں نے اپنی زیادہ تر معرکتہ الآرا شاعری کی جسے وہ سوچنے کے بعد یاد کر لیتے تھے۔ یہ شاعری قطعات کی شکل میں تھی جن کو یاد کرناآسان ہوتا ہے۔ وہ اپنی شاعری اخبار کے تراشوں پر، ماچس کی ڈبیا پر یا سگریٹ کے پیکٹ پر لکھ لیا کرتے جو ایک ہمدرد جیلر اُن تک خاموشی سے پہنچا دیا کرتا تھا۔
شاعری کی دیوی ایک جنُونی جذبہ لئے فیضؔ کے پاس واپس لوٹ آئی۔ ایلس کے نام اپنے دوسرے خط (14 جون 1951ء)میں اُنہوں نے ایک خط میں لِکھا کہ گرفتاری کے بعد سے اب تک میں نے اپنی چھ نظمیں مکمل کر لی ہیں یعنی جتنا گذشتہ 3 برس میں نہیں لکھا تھا وہ ان 3 مہینوں میں تحریر کر لیا ہے۔
فیضؔ کا حوصلہ بلند تھا مگر وہ ابھی تک نہیں جانتے تھے کہ کون سی تلوار ہے جو ان کے سر پر جھُول رہی ہے۔

(جاری ہے)

Ali Madeeh Hashmi
+ posts

علی مدیح ہاشمی ماہر نفسیات اور فیض فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے معتمد ہیں۔